الٹی سوچ مشرکوں کی الٹی سوچ دیکھئے گناہ کریں ، شرک پر اڑیں ، حلال کو حرام کریں ، جیسے جانوروں کو اپنے معبودوں کے نام سے منسوب کرنا اور تقدیر کو حجت بنائیں اور کہیں کہ اگر اللہ کو ہمارے اور ہمارے بڑوں کے یہ کام برے لگتے تو ہمیں اسی وقت سزا ملتی ۔ انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ یہ ہمارا دستور نہیں ، ہمیں تمہارے یہ کام سخت نا پسند ہیں اور ان کی نا پسندیدگی کا اظہار ہم اپنے سچے پیغمبروں کی زبانی کر چکے ۔ سخت تاکیدی طور پر تمہیں ان سے روک چکے ، ہر بستی ، ہر جماعت ، ہر شہر میں اپنے پیغام بھیجے ، سب نے اپنا فرض ادا کیا ۔ بندگان رب میں اس کے احکام کی تبلیغ صاف کر دی ۔ سب سے کہہ دیا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو ، اس کے سوا دوسرے کو نہ پوجو ، سب سے پہلے جب شرک کا ظہور زمین پر ہوا اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو خلعت نبوت دے کر بھیجا اور سب سے آخر ختم المرسلین کا لقب دے کر رحمتہ اللعالمین کو اپنا نبی بنایا ، جن و انس کے لئے زمین کے اس کونے سے اس کونے تک تھی جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء:25 ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ، سب کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں پس تم صرف ہی عبادت کرو ۔ ایک اور آیت میں ہے تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے پوچھ لے کہ کیا ہم نے ان کے لئے سوائے اپنے اور معبود مقرر کئے تھے ، جن کی وہ عبادت کرتے ہوں ؟ یہاں بھی فرمایا ہر امت کے رسولوں کی دعوت توحید کی تعلیم اور شرک سے بےزاری ہی رہی ۔ پس مشرکین کو اپنے شرک پر ، اللہ کی چاہت ، اس کی شریعت سے معلوم ہوتی ہے اور وہ ابتدا ہی سے شرک کی بیخ کنی اور توحید کی مضبوطی کی ہے ۔ تمام رسولوں کی زبانی اس نے یہی پیغام بھیجا ۔ ہاں انہیں شرک کرتے ہوئے چھوڑ دینا یہ اور بات ہے جو قابل حجت نہیں ۔ اللہ نے جہنم اور جہنمی بھی تو بنائے ہیں ۔ شیطان کافر سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور اپنے بندوں سے ان کے کفر پر راضی نہیں ۔ اس میں بھی اس کی حکمت تامہ اور حجت بالغہ ہے پھر فرماتا ہے کہ رسولوں کے آ گاہ کر دینے کے بعد دنیاوی سزائیں بھی کافروں اور مشرکوں پر آئیں ۔ بعض کو ہدایت بھی ہوئی ، بعض اپنی گمراہی میں ہی بہکتے رہے ۔ تم رسولوں کے مخالفین کا ، اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کا انجام زمین میں چل پھر کر خود دیکھ لو گزشتہ واقعات کا جنہیں علم ہے ان سے دریافت کر لو کہ کس طرح عذاب الہٰی نے مشرکوں کو غارت کیا ۔ اس وقت کے کافروں کے لئے ان کافروں میں مثالیں اور عبرت موجود ہے ۔ دیکھ لو اللہ کے انکار کا نتیجہ کتنا مہلک ہوا ؟ پھر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ گو آپ ان کی ہدایت کے کیسے ہی حریص ہوں لیکن بےفائدہ ہے ۔ رب ان کی گمراہیوں کی وجہ سے انہیں در رحمت سے دور ڈال چکا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ۭ وَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ فِتْنَتَهٗ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ شَـيْـــــًٔـا ) 5 ۔ المائدہ:41 ) جسے اللہ ہی فتنے میں ڈالنا چاہے تو اسے کچھ بھی تو نفع نہیں پہنچا سکتا ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا اگر اللہ کا ارادہ تمہں بہکانے کا ہے تو میری نصیحت اور خیر خواہی تمہارے لئے محض بےسود ہے ۔ اس آیت میں بھی فرماتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ بہکاوے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ وہ دن بدن اپنی سرکشی اور بہکاوے میں بڑھتے رہتے ہیں ۔ فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) 10 ۔ یونس:96 ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا ۔ گو تمام نشانیاں ان کے پاس آ جائیں یہاں تک کہ عذاب الیم کا منہ دیکھ لیں ۔ پس اللہ یعنی اس کی شان ، کا امر ۔ اس لئے کہ جو وہ چاہتا ہے ہوتا ہے جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا ۔ پس فرماتا ہے کہ وہ اپنے گمراہ کئے ہوئے کو راہ نہیں دکھاتا ۔ نہ کوئی اور اس کی رہبری کر سکتا ہے نہ کوئی اس کی مدد کے لئے اٹھ سکتا ہے کہ عذاب الہٰی سے بچا سکے ۔ خلق و امر اللہ ہی کا ہے وہ رب العالمین ہے ، اس کی ذات با برکت ہے ، وہی سچا معبود ہے ۔
35۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ایک وہم اور مغالطے کا ازالہ فرمایا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں یا اس کے حکم کے بغیر ہی کچھ چیزوں کو حرام کرلیتے ہیں، اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ہمیں ان چیزوں سے روک کیوں نہیں دیتا، وہ اگر چاہے تو ہم ان کاموں کو کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ نہیں روکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مشیت کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہ کا ازالہ رسولوں کا کام صرف پہنچا دینا ہے کہہ کر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو تمہیں ان مشرکانہ امور سے بڑی سختی سے روکا ہے۔ اسی لئے وہ ہر قوم میں رسول بھیجتا اور کتابیں نازل کرتا رہا ہے اور ہر نبی نے آ کر سب سے پہلے اپنی قوم کو شرک ہی سے بچانے کی کوشش کی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ شرک کریں کیونکہ اگر اسے یہ پسند ہوتا کہ تکذیب کر کے شرک کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے اپنی مشیت تکوینیہ کے تحت قہراً و جبراً تمہیں اس سے نہیں روکا، تو یہ اس کی حکمت و مصلحت کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی آزمائش ممکن ہی نہ تھی۔ ہمارے رسول ہمارا پیغام تم تک پہنچا کر یہی سمجھاتے رہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرو بلکہ اللہ کی رضا کے مطابق اسے استعمال کرو۔ ہمارے رسول یہی کچھ کرسکتے تھے، جو انہوں نے کیا اور تم نے شرک کے آزادی کا غلط استعمال کیا جس کی سزا دائمی عذاب ہے۔
[٣٣] اہل کتاب کا اپنے احبارو رہبان کو رب بنا لینے کا مفہوم :۔ اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو حرام اور حرام کو حلال بنا لینا بھی واضح شرک ہے جیسا کہ سیدنا عدی صبن حاتم نے ( اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰــهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 31) 9 ۔ التوبہ :31) کی تفسیر رسول اللہ سے پوچھی تھی۔ سیدنا عدی بن حاتم پہلے عیسائی تھے پھر اسلام لائے تھے۔ جب سورة توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی تو کہنے لگے : یارسول اللہ ہم اپنے علماء و مشائخ کو رب تو نہیں سمجھتے تھے آپ نے فرمایا کہ جس چیز کو وہ حلال یا حرام کہہ دیتے تم اسے جوں کا توں تسلیم نہیں کرلیتے تھے ؟ سیدنا عدی کہنے لگے یہ بات تو تھی آپ نے فرمایا یہی رب بنانا ہوتا ہے (ترمذی، ابو اب التفسیر، تفسیر آیت مذکورہ) مشرکین مکہ نے بھی کئی حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال بنا لیا تھا جن کا ذکر سائبہ، بحیرہ، وصیلہ اور حام (٥: ١٠٣) کے حواشی میں گزر چکا ہے۔ مشرکوں کا یہ جواب دراصل عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہوتا ہے۔ تاکہ اس طرح پیغمبروں کو لاجواب کردیں اور کج بحث قسم کے مجرم اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر مشیئت الٰہی کا ہی بہانہ پیش کیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کی مشیئت اور اللہ کی رضا میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس فرق کو پہلے سورة انعام آیت نمبر ١٤٤ کے حاشیہ میں تفصیل سے ذکر کیا جا چکا ہے وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔- [ ٣٤] جب مشرکوں کو پیغمبر اسلام اور قرآن کی تعلیم کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ اس تعلیم میں رکھا کیا ہے۔ بس پہلے لوگوں کی داستانیں ہیں کوئی نئی بات تو ہے نہیں۔ گویا انھیں نبی پر اعتراض یہ تھا کہ یہ پرانے لوگوں کی ہی باتیں پیش کرتا ہے ان کے جواب میں انھیں بتایا جارہا ہے کہ تم جو اپنے مشرکانہ کاموں کے جواز میں دلیل پیش کر رہے ہو، یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ وہی پرانی بات ہے جو گمراہ لوگ ہمیشہ سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو ہم ایسے کام کیوں کرتے ؟ حالانکہ مشرکوں کی اس دلیل میں بھی اس کا رد موجود ہے۔ جو یہ ہے کہ اگر اللہ کو مشرکوں کا یہ شرک گوارا یا منظور ہوتا تو چاہئے تھا کہ اللہ مشرکوں کے اس کام پر سکوت اختیار فرماتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیج کر ان افعال کی پرزور تردید اور مذمت کی ہے۔ پھر وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے یہ کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہیں۔- [ ٣٥] مشرکوں کا یہ جواب اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ ہمارے رسولوں نے انھیں بروقت مطلع کردیا تھا کہ جو مشرکانہ کام تم کر رہے ہو اللہ ان سے ہرگز راضی نہیں بلکہ وہ اس قدر ناراض ہے کہ تمہارے ان کاموں کی پاداش میں تم پر اپنا عذاب بھیج سکتا ہے۔ اور انہوں نے اپنی اس ذمہ داری میں کبھی کوتاہی نہیں کی تھی۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا ۔۔ : کفار اپنے شرک اور کفریہ اعمال، مثلاً بحیرہ، سائبہ اور وصیلہ وغیرہ کو حرام قرار دینے کے جواز کے لیے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا سہارا لیتے اور اس بہانے سے رسالت پر طعن کرتے اور کہتے کہ اگر یہ شرک اور تحریمات اللہ کی رضا کے خلاف ہوتے تو ہم نہ کرتے اور ہمیں روک دیا جاتا، جب اللہ نے نہیں روکا تو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ہم اس کی مشیت کے تحت کر رہے ہیں، مگر اولاً تو بات یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے شرک اور برے اعمال پر راضی ہوتا تو ان کاموں سے منع کرنے کے لیے نہ پیغمبر بھیجتا اور نہ کتابیں نازل کرتا، جب مسلسل پیغمبروں کے ذریعے سے ان باتوں سے منع کیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ سب چیزیں اس کی رضا کے خلاف ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر گرفت نہ ہونے کو سند جواز نہیں بنا سکتے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (١٤٨) ۔- 3 تفسیر ثنائی میں ہے : ” غرض ان کی دلیل سے یہ ہے کہ اللہ ہمارے افعال پر خوش ہے تو ہم کرتے ہیں، بھلا اگر وہ ناراض ہوتا تو کیا ہم کرسکتے تھے، پھر تو کیوں ہم کو ہمارے ان کاموں پر وعید سناتا ہے، مگر حقیقت میں ان کو سمجھ نہیں، وہ اللہ کی مشیت (چاہنے) میں اور رضا (خوش ہونے) میں فرق نہیں جانتے، بیشک جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مشیت سے ہو رہا ہے، مجال نہیں کہ اس کی مشیت کے سوا کوئی ہو سکے، کیونکہ مشیت اس کے قانون کا نام ہے، جب تک کسی کام کو حسب قانون فطرت نہ کرو گے کبھی کامیاب نہ ہو گے۔ جب تک گرمی حاصل کرنے کے لیے آگ نہ جلاؤ گے پانی سے وہ کام نہیں نکل سکے گا، جو کام فطرت نے پانی سے متعلق کیا ہے وہ آگ سے نہیں ہوگا۔ یہی تلوار جس کا کام سر اتار دینا ہے، جہاں اس کو چلاؤ گے اپنا اثر دکھا دے گی، خواہ کسی مظلوم پر ہو یا ظالم پر، چناچہ ہر روز دنیا میں ناحق خون بھی ہوتے ہیں، لیکن ان سب کاموں پر رضائے الٰہی لازمی نہیں ہے، بلکہ رضا اس صورت میں ہوگی کہ ان سب اشیاء کو شریعت کی ہدایت کے مطابق استعمال کرو گے۔ پس یہ بےسمجھی نہیں تو اور کیا ہے کہ مشیت اور رضا میں فرق نہیں کرتے۔ “- كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یعنی پہلے لوگوں نے بھی اللہ کی تقدیر اور مشیت کو اپنے کفر و شرک کا بہانا بنایا۔ اس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ یہ لوگ جو قرآن کو ” اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ “ (پہلوں کی کہانیاں) کہہ رہے ہیں تو اللہ کی مشیت اور تقدیر کو بہانا بنانا کون سی نئی بات ہے جو انھوں نے کی ہے، یہ بھی تو وہی گھسی پٹی پرانی بات ہے جو پہلے کفار کرتے آئے ہیں۔ - فَهَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ : ” اَلْبَلٰغُ “ اسم مصدر ہے، بمعنی ”إِبْلَاغٌ“ یعنی پہنچا دینا، یعنی رسولوں کے ذمے صاف واضح پیغام پہنچا دینے کے سوا کچھ نہیں، لہٰذا اگر کافر کج بحثی یا ہٹ دھرمی کرتے رہیں اور ایمان نہ لائیں تو پیغمبروں سے اس پر باز پرس نہ ہوگی۔ ہدایت و گمراہی کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں :” یہ نادانوں کی باتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو فلاں کام برا لگتا تو کیوں کرنے دیتا، آخر ہر فرقے کے نزدیک بعض کام برے ہیں، پھر وہ کیوں ہوتے ہیں۔ یہاں جواب مجمل فرمایا کہ رسول تو برے کاموں سے منع کرتے آئے ہیں مگر جس کی قسمت تھی اسی نے ہدایت پائی اور جس کو خراب ہونا تھا خراب ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا یوں ہی ہوا ہے۔ “ (موضح)- 3 علامہ قاسمی (رض) نے یہاں ” منہاج السنہ “ کی دوسری جلد کے شروع سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رض) کی ایک عبارت نقل کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے : ” اپنے ذمے واجب حقوق ادا نہ کرنے اور حرام کاموں کے ارتکاب کے جواز کے لیے اکثر لوگ تقدیر کو دلیل بناتے ہیں، حالانکہ یہ دلیل بالکل غلط اور بےکار ہے، اس کے باطل ہونے پر دنیا کے تمام عقلاء کا اتفاق ہے، خواہ وہ کسی دین سے تعلق رکھتے ہوں۔ جو شخص یہ دلیل پیش کرتا ہے اگر کوئی دوسرا شخص اس کے مقابلے میں یہی دلیل پیش کرے جس نے اس کا کوئی حق ادا نہ کیا ہو یا اس کا کوئی عزیز قتل کیا ہو، یا اس کا مال چھین لیا ہو، اس کی بیوی کی عزت لوٹی ہو تو وہ اس کی یہ دلیل کبھی قبول نہیں کرے گا، بلکہ اپنا حق لینے کی اور زیادتی کا بدلہ لینے کی پوری کوشش کرے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ کوئی بھی شخص زیادتی کرنے والے کی یہ دلیل نہیں مانے گا۔ دراصل یہ ان سو فسطائیوں کی باتوں جیسی بات ہے، جو کہتے ہیں کہ معلوم نہیں ہم موجود بھی ہیں یا نہیں۔ اس کا نتیجہ جھوٹ، ظلم، زیادتی اور ہر غلط کام کا جواز ہوگا۔ کوئی شخص اپنے دل سے پوچھے تو وہ بھی اسے ایک باطل بات قرار دے گا۔ اس لیے تحقیق کے وقت کسی عدالت میں یہ دلیل قبول نہیں کی جاتی، کیونکہ یہ سراسر جہالت ہے، علم سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے جب مشرکوں نے کہا : (لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ ) (اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کوئی چیز حرام کرتے) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا ۭاِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ ) [ الأنعام : ١٤٨ ] (کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے جو ہمارے سامنے پیش کرسکو، تم تو محض گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہو اور صرف اٹکل بازی کر رہے ہو) پھر فرمایا : (قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ ) [ الأنعام : ١٤٩ ] ” کہہ دے پھر کامل دلیل تو اللہ ہی کی ہے، سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ضرور ہدایت دے دیتا۔ “- معلوم ہوا یہ علم نہیں محض اٹکل پچو ہے، اس کے ہوتے ہوئے عادل و ظالم، صادق و کاذب، عالم و جاہل، نیک وبد کا کوئی فرق ہی نہیں رہتا، یہ لوگ جو رسولوں کی مخالفت کرنے اور کفر و شرک پر ڈٹے رہنے کی دلیل تقدیر کو بنا رہے ہیں، آپس میں ایک دوسرے کے حقوق مار جانے اور اپنے خلاف چلنے پر کبھی یہ دلیل نہیں مانتے، بلکہ یہی مشرک ایک دوسرے کی مذمت کرتے، دشمنی رکھتے اور لڑائی کرتے ہیں۔ ” قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۚ“ (کہہ دے پس کامل دلیل تو اللہ ہی کی ہے) میں اللہ تعالیٰ نے شرعی حجت کا ذکر فرمایا اور ” فَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ “ (اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا) میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر والی مشیت کا ذکر فرمایا اور یہ دونوں حق ہیں۔- 3 اس بات کا ایک اور مطلب بھی بیان کیا جاتا ہے۔ علامہ قاشانی نے فرمایا کہ ان مشرکین نے یہ بات انتہائی جہل کی وجہ سے اور موحدین کو چپ کروانے کے لیے صرف ضد اور عناد سے کہی ہے، کیونکہ اگر وہ علم و یقین سے یہ بات کہتے تو وہ موحد بن جاتے، مشرک رہ ہی نہیں سکتے تھے، کیونکہ جس کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کچھ ہو ہی نہیں سکتا، وہ یقیناً یہ بھی جان لے گا کہ دنیا کے سب لوگ بھی کوئی کام کرنا چاہیں، جو اللہ تعالیٰ نہ چاہتا ہو، تو وہ کام ہونا کبھی ممکن ہی نہیں، تو جب اس نے اعتراف کرلیا کہ اللہ کے سوا نہ کسی کے ارادے کی کچھ حیثیت ہے اور نہ کسی کے پاس کوئی قدرت ہے، تو یہ بندہ تو مشرک رہا ہی نہیں، حالانکہ وہ لوگ تو اللہ کے ساتھ شریک بنا رہے تھے اور رسولوں کو جھٹلا رہے تھے۔ معلوم ہوا اپنی اس دلیل کو وہ خود بھی نہیں مانتے تھے۔ (تفسیر قاسمی)- 3 مفتی محمد عبدہ نے فرمایا : ” ترک عمل پر تقدیر کو بطور دلیل پیش کرنا ملحدین کا عقیدہ ہے، قرآن کریم نے ان کے اس عقیدے کی مذمت فرمائی اور اسے معیوب قرار دیا ہے اور ہمارے لیے ان مشرکوں کا یہ قول بطور مذمت نقل فرمایا، اس لیے ہم میں سے کسی شخص کو، جبکہ وہ قرآن پر ایمان رکھنے کا مدعی ہو، کسی صورت جائز نہیں کہ وہ یہ دلیل پیش کرے جو مشرکین پیش کیا کرتے تھے۔ “ (قاسمی)
خلاصہ تفسیر :- اور مشرک لوگ یوں کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو (بطور رضا کے یہ امر) منظور ہوتا (کہ ہم غیر اللہ کی عبادت نہ کریں جو ہمارے طریقہ کے اصول میں سے ہے اور بعض اشیاء کی تحریم نہ کریں جو ہمارے طریقہ کے فروغ میں سے ہے مطلب یہ کہ اگر اللہ ہمارے موجودہ اصول و فروع کو ناپسند کرتے) تو خدا کے سوا کسی چیز کی نہ ہم عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے بدون (حکم کے) کسی چیز کو حرام کہہ سکتے (اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارا طریقہ پسند ہے ورنہ ہم کو کیوں کرنے دیتے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے مغموم نہ ہوں کیونکہ یہ بیہودہ مجادلہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ) جو (کافر) ان سے پہلے ہوئے ہیں ایسی ہی حرکت انہوں نے بھی کی تھی (یعنی بیہودہ مجادلات اپنے پیغمبروں سے کئے تھے) سو پیغمبروں (کا اس سے کیا بگڑا اور وہ جس طریق کی طرف بلاتے ہیں اس کو کیا ضرر پہنچا ان) کے ذمہ تو (احکام کا) صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے (صاف صاف یہ کہ دعوی واضح ہو اور دلیل صحیح اس پر قائم ہو اسی طرح آپ کے ذمہ بھی یہی کام تھا جو آپ کر رہے ہیں پھر اگر براہ عناد دعوی اور دلیل میں غور نہ کریں تو آپ کی بلا سے) اور (جس طرح ان کا معاملہ آپ کے ساتھ یعنی مجادلہ کوئی نئی بات نہیں اسی طرح آپ کا معاملہ ان کے ساتھ یعنی توحید ودین حق کی طرف بلانا کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کی تعلیم بھی قدیم سے چلی آئی ہے چنانچہ) ہم ہر امت میں (امم سابقہ سے) کوئی نہ کوئی پیغمبر (اس بات کی تعلیم کے لئے) بھیجتے رہے ہیں کہ تم (خاص) اللہ کی عبادت کرو اور شیطان (کے رستہ) سے (کہ وہ شرک و کفر ہے) بچتے رہو (اس میں اشیاء کی وہ تحریم بھی آگئی جو مشرکین اپنی رائے سے کیا کرتے تھے کیونکہ وہ شعبہ شرک و کفر کا تھا) سو ان میں بعضے وہ ہوئے جن کو اللہ نے ہدایت دی (کہ انہوں نے حق کو قبول کرلیا) اور بعضے ان میں وہ ہوئے جن پر گمراہی کا ثبوت ہوگیا۔- (مطلب یہ کہ کفار اور انبیاء (علیہم السلام) میں یہ معاملہ اسی طرح چلا آ رہا ہے اور ہدایت واضلال کے متعلق اللہ تعالیٰ کا معاملہ بھی ہمیشہ سے یوں ہی جاری ہے کہ مجادلہ کفار کا بھی قدیم اور تعلیم انبیاء (علیہم السلام) کی بھی قدیم اور سب کا ہدایت نہ پانا بھی قدیم پھر آپ کو غم کیوں ہو ؟ یہاں تک تسلی فرمائی گئی جس میں اخیر کے مضمون میں ان کے شبہ کا اجمالی جواب بھی ہوگیا کہ ایسی باتیں کرنا گمراہی ہے جس کے گمراہی ہونے کی آگے تائید اور جواب کی زیادہ توضیح ہے یعنی اگر مجادلہ مع الرسل کا گمراہی ہونا تم کو معلوم نہ ہو) تو (اچھا) زمین میں چلو پھرو پھر (آثار سے) دیکھو کہ (پیغمبروں کے) جھٹلانے والوں کا کیسا (برا) انجام ہوا (پس اگر وہ گمراہ نہ تھے تو ان پر عذاب کیوں نازل ہوا اور واقعات اتفاقیہ ان کو اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ خلاف عادت ہوئی اور انبیاء (علیہم السلام) کی پیشین گوئی کے بعد ہوئے اور مؤمنین اس سے بچے رہے پھر اس کے عذاب ہونے میں کیا شک ہے اور چونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امت کے کسی فرد کی گمراہی سے بھی سخت صدمہ پہنچتا تھا اس لئے آگے پھر آپ کو خطاب ہے کہ جیسے پہلے بعضے لوگ ہوئے ہیں جن پر گمراہی قائم ہوچکی تھی اسی طرح یہ لوگ بھی ہیں سو) ان کے راہ راست پر آنے کی اگر آپ کو تمنا ہو تو (کچھ نتیجہ نہیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو ہدایت نہیں کیا کرتا جس کو (اس شخص کے عناد کو چھوڑیں گے نہیں اس لئے ان کو ہدایت بھی نہ ہوگی) اور (ضلالت و عذاب کے بارے میں اگر ان کا یہ گمان ہو کہ ہمارے معبود اس حالت میں بھی عذاب سے بچالیں گے تو وہ سمجھ رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں) ان کا کوئی حمایتی نہ ہوگا (یہاں تک ان کے پہلے شبہ کے جواب کی تقریر تھی آگے دوسرے شبہ کے متعلق کلام ہے) اور یہ لوگ بڑے زور لگا لگا کر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا (اور قیامت نہ آئے گی آگے جواب ہے) کیوں نہیں زندہ کرے گا (یعنی ضرور زندہ کرے گا) اس وعدہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لازم کر رکھا ہے لیکن اکثر لوگ (باوجود قیام و لیل صحیح کے اس پر) یقین نہیں لاتے (اور یہ دوبارہ زندہ کرنا اس لئے ہوگا) تاکہ (دین کے متعلق) جس چیز میں یہ لوگ (دنیا میں) اختلاف کیا کرتے تھے (اور انبیاء (علیہم السلام) کے فیصلہ سے راستہ پر نہ آتے تھے) ان کے روبرو اس (کی حقیقت) کا (بطور معائنہ کے) اظہار کردے اور تاکہ (اس اظہار حقیقت کے وقت) کافر لوگ (پورا) یقین کرلیں کہ واقعی وہی جھوٹے تھے (اور انبیاء (علیہم السلام) مؤمنین سچے تھے پس قیامت کا آنا یقینی اور عذاب سے فیصلہ ہونا ضروری ہے یہ جواب ہوگیا لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ کا اور چونکہ وہ لوگ قیامت کا اس لئے انکار کرتے تھے کہ مر کر زندہ ہونا ان کے خیال میں کسی کے بس میں نہ تھا اس لئے آگے اپنی قدرت کاملہ کے اثبات سے ان کے اس شبہ کو دفع فرماتے ہیں کہ ہماری قدرت ایسی عظیم ہے کہ) ہم جس چیز کو (پیدا کرنا) چاہتے ہیں (ہمیں اس میں کچھ محنت مشقت کرنا نہیں پڑتی) بس اس سے ہمارا اتنا ہی کہنا (کافی ہوتا ہے کہ تو (پیدا) ہوجا بس وہ (موجود) ہوجاتی ہے ( تو اتنی بڑی قدرت کاملہ کے روبرو بےجان چیزوں میں دوبارہ جان کا پڑجانا کونسا دشوار ہے جیسے پہلی بار ان میں جان ڈال چکے ہیں اب دونوں شبہوں کا پورا جواب ہوچکا وللہ الحمد)- معارف و مسائل :- ان کفار کا پہلا شبہ تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو اگر ہمارا کفر و شرک اور ناجائز کام پسند نہیں تو وہ ہمیں زبردستی اس سے روک کیوں نہیں دیتے۔- اس شبہ کی بہیودگی واضح تھی اس لئے اس کا جواب دینے کے بجائے صرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی پر اکتفاء کیا گیا کہ ایسے بیہودہ سوالات سے آپ غمگین نہ ہو اور شبہ کی بہیودگی کی وجہ ظاہر ہے کہ اللہ نے اس عالم دنیا کا نظام ہی اس بنیاد پر قائم فرمایا ہے کہ انسان کو بالکل مجبور نہیں رکھا گیا ایک قسم کا اختیار اس کو دیا گیا اسی اختیار کو وہ اللہ کی اطاعت میں استعمال کرے تو ثواب اور نافرمانی میں استعمال کرے تو عذاب کے وعدے اور وعید فرمائے اسی کے نتیجہ میں قیامت اور حشر ونشر کے سارے ہنگامے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہتے کہ سب کو مجبور کر کے اپنی اطاعت کرائیں تو کس کی مجال تھی کہ اطاعت سے باہر جاتا مگر بتقاضائے حکمت مجبور کردینا درست نہ تھا اس لئے انسان کو اختیار دیا گیا تو اب کافروں کا یہ کہنا کہ اگر اللہ کو ہمارا طریقہ پسند نہ ہوتا تو ہمیں مجبور کیوں نہ کردیتے ایک احمقانہ اور معاندانہ سوال ہے۔
وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- حرم - الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك :- وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً- [ المائدة 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ...- الآية [ الأنعام 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» «1» .- وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن،- ( ح ر م ) الحرام - وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔
(٣٥) اہل مکہ جو بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، یوں کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم اور نہ ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بتوں کی عبادت کرتے اور نہ ہم بغیر حکم الہی کے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام میں سے کسی کو حرام کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو حرام کیا اور اسی نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے، جیسا کہ آپکی قوم کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف کھیتی اور جانوروں کی حرمت کی افتراء پردازی کرتی ہے، اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی افتراء پردازی کی تھی، سو پیغمبروں کی ذمہ داری تو صرف احکام خداوندی کا واضح ایسی زبان میں پہنچا دینا ہے جس زبان کو ان کی قوم سمجھتی ہو۔
آیت ٣٥ (وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا)- ان کی دلیل یہ تھی کہ اس دنیا میں تو جو اللہ چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے ‘ وہ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہے۔ اگر وہ چاہتا کہ ہم کوئی دوسرے معبود نہ بنائیں اور ان کی پرستش نہ کریں ‘ تو کیسے ممکن تھا کہ ہم ایسا کر پاتے ؟ چناچہ اگر اللہ نے ہمیں اس سے روکا نہیں ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس میں اس کی مرضی شامل ہے اور اس کی طرف سے ہمیں ایسا کرنے کی اجازت ہے۔- (فَهَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ )- ہمارے رسول اس قسم کی کٹ حجتی اور کج بحثی میں نہیں الجھتے۔ ان کی ذمہ داری ہمارا پیغام واضح طور پر پہنچا دینے کی حد تک ہے اور یہ ذمہ داری ہمارے رسول ہمیشہ سے پوری کرتے آئے ہیں۔ پیغام پہنچ جانے کے بعد اسے تسلیم کرنا یا نہ کرنا متعلقہ قوم کا کام ہے ‘ جس کے لیے ان کا ایک ایک فرد ہمارے سامنے جوابدہ ہے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :30 مشرکین کی اس حجت کو سورہ انعام آیات نمبر ۱٤۸ – ۱٤۹ میں بھی نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ وہ مقام اور اس کے حواشی اگر نگاہ میں رہیں تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی ۔ ( ملاحظہ وہ سورہ انعام ، حواشی نمبر ۱۲٤ تا نمبر ۱۲٦ ) ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :31 یعنی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آج تم لوگ اللہ کی مشیت کو اپنی گمراہی اور بد اعمالی کے لیے حجت بنا رہے ہو ۔ یہ تو بڑی پرانی دلیل ہے جسے ہمیشہ سے بگڑے ہوئے لوگ اپنے ضمیر کو دھوکا دینے اور ناصحوں کا منہ بند کرنے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ یہ مشرکین کی حجت کا پہلا جواب ہے ۔ اس جواب کا پورا لطف اٹھانے کے لیے یہ بات ذہن میں رہنی ضروری ہے کہ ابھی چند سطریں پہلے مشرکین کے اس پروپیگنڈا کا ذکر کر چکا ہے جو وہ قرآن کے خلا ف یہ کہہ کہہ کر کیا کرتے تھے کہ ”اجی وہ تو پرانے وقتوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں“ ۔ گویا ان کو نبی پر اعتراض یہ تھا کہ یہ صاحب نئی بات کونسی لائے ہیں ، وہی پرانی باتیں دہرا رہے ہیں جو طوفان نوح کے وقت سے لے کر آج تک ہزاروں مرتبہ کہی جا چکی ہیں ۔ اس کے جواب میں ان کی دلیل ( جسے وہ بڑے زور کی دلیل سمجھتے ہوئے پیش کرتے تھے ) کا ذکر کرنے کے بعد یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرات ، آپ ہی کونسے ماڈرن ہیں ، یہ مایہ ناز دلیل جو آپ لائے ہیں اس میں قطعی کوئی اُپچ موجود نہیں ہے ، وہی دقیانوسی بات ہے جو ہزاروں برس سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں ، آپ نے بھی اسی کو دہرا دیا ہے ۔
16: اُن کا یہ کہنا کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی تھا، کیونکہ اس طرح ہر مجرم یہ کہہ سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا تو میں یہ جرم نہ کرتا۔ ایسی باتیں قابل جواب نہیں ہوتیں۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اُس کا جواب دینے کے بجائے صرف یہ فرمادیا ہے کہ رسولوں کی ذمہ داری پیغام پہنچانے کی حد تک محدود ہے۔ اُن کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ ایسے ضدی لوگ راہ راست پر آہی جائیں۔ اور اُنہوں نے جو یہ کہا ہے کہ ’’ہم کوئی چیز حرام قرار نہ دیتے‘‘، اِس سے اُن جانوروں کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے بتوں کے نام پر حرام کر رکھے تھے۔ اس کی تفصیل سورۂ انعام (۶:۱۳۹-۱۴۵) میں گذر چکی ہے۔