اللہ عز و جل کا غضب اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور مالک ارض و سماوات اپنے حلم کا باوجود علم کے باوجود اور اپنی مہربانی کا باوجود غصے کے بیان فرماتا ہے کہ وہ اگر چاہے اپنے گنہگار بد کردار بندوں کو زمین میں دھنسا سکتا ہے ۔ بےخبری میں ان پر عذاب لا سکتا ہے لیکن اپنی غایت مہربانی سے درگزر کئے ہوئے ہے جیسے سورہ تبارک میں فرمایا اللہ جو آسمان میں ہے کیا تم اس کے غضب سے نہیں ڈرتے ؟ کہ کہیں زمین کو دلدل بنا کر تمہیں اس میں دھنسا نہ دے کہ وہ تمہیں ہچکو لے ہی لگاتی رہا کرے کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ سے ڈر نہیں لگتا کہ کہیں وہ تم پر آسمان سے پتھر نہ برسا دے ۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے کہ میرا ڈرانا کیسا تھا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مکار ، بد کردار لوگوں کو ان کے چلتے پھرتے ، آتے ، کھاتے ، کماتے ہی پکڑ لے ۔ سفر حضر رات دن جس وقت چاہے ، پکڑ لے جیسے فرمان ہے آیت ( اَفَاَمِنَ اَهْلُ الْقُرٰٓي اَنْ يَّاْتِيَهُمْ بَاْسـُنَا بَيَاتًا وَّهُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ 97ۭ ) 7- الاعراف:97 ) ، کیا بستی والے اس سے نڈر ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس ہمارا عذاب رات میں ان کے سوتے سلاتے ہی آ جائے ۔ یا دن چڑھے ان کے کھیل کود کے وقت ہی آ جائے ۔ اللہ کو کوئی شخص اور کوئی کام عاجز نہیں کر سکتا وہ ہارنے والا ، تھکنے والا اور ناکام ہو نے والا نہیں ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ باوجود ڈر خوف کے انہیں پکڑ لے تو دونوں عتاب ایک ساتھ ہو جائیں ڈر اور پھر پکڑ ۔ ایک کو اچانک موت آ جائے دوسرا ڈرے اور پھر مرے ۔ لیکن رب العلی ، رب کائنات بڑا ہی رؤ ف و رحیم ہے اس لئے جلدی نہیں پکڑتا ۔ بخاری و مسلم میں ہے خلاف طبع باتیں سن کر صبر کرنے میں اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ لوگ اس کی اولاد ٹھہر تے ہیں اور وہ انہیں رزق و عافیت عنایت فرماتا ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب پکڑ نازل فرماتا ہے پھر اچانک تباہ ہو جاتا ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ١٠٢ ) 11-ھود:102 ) ، پڑھی ۔ اور آیت میں ہے ( وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ اَخَذْتُهَا ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ 48ۧ ) 22- الحج:48 ) بہت سی بستیاں ہیں جنہیں میں نے کچھ مہلت دی لیکن آخر ان کے ظلم کی بنا پر انہیں گرفتار کر لیا ۔ لوٹنا تو میری ہی جانب ہے ۔
اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ ۔۔ : فاء عاطفہ ہے، لیکن ہمزۂ استفہام عربی میں کلام کے شروع میں آتا ہے، اس لیے عطف کی فاء ہو یا واؤ، ہمزۂ استفہام کے بعد لائی جاتی ہے، لہٰذا ترجمے میں حرف عطف کا معنی پہلے کیا جاتا ہے۔ ان تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور کتاب دیکھنے سننے کے باوجود رسول اور اہل ایمان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو چار قسم کے عذاب سے خبردار کیا ہے، پہلا یہ کہ کیا وہ اس بات سے بےخوف ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسا دے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کے متعلق فرمایا : (فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ ) [ القصص : ٨١ ] ” تو ہم نے اسے اور اس کے مکان کو زمین میں دھنسا دیا۔ “ خود ہمارے دیکھنے میں آزاد کشمیر کے اندر آنے والے زلزلے میں کئی جگہوں پر زمین پھٹی اور کئی آدمی اور مکان اس کے اندر دھنس گئے، پھر دوسرے جھٹکوں کے ساتھ زمین کے وہ شگاف دوبارہ مل گئے اور دھنسنے والوں کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ دوسرا یہ کہ انھیں عذاب ایسی جگہ سے آپکڑے جہاں سے وہ سوچتے بھی نہ ہوں کہ یہاں سے بھی عذاب آسکتا ہے اور اچانک آجانے کی وجہ سے نہ اس کا دفاع کرسکیں اور نہ اس سے بھاگ کر بچ سکیں۔ اس کے مشابہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : (فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا ) [ الحشر : ٢ ] ” تو اللہ ان کے پاس آیا جہاں سے انھوں نے گمان نہیں کیا تھا۔ “
خلاصہ تفسیر :- جو لوگ (دین حق کے باطل کرنے کو) بری بری تدبیریں کرتے ہیں (کہ کہیں اس میں شبہات و اعتراض نکالتے ہیں اور حق کا انکار کرتے ہیں کہ ضلال ہے کہیں دوسروں کو روکتے ہیں کہ اضلال ہے) کیا ایسے لوگ (یہ کارروائیاں کفر کی کر کے) پھر بھی اس بات سے بےفکر (بیٹھے ہوئے) ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو (ان کے کفر کے وبال میں) زمین میں غرق کر دے یا ان پر ایسے موقع سے عذاب آ پڑے جہاں ان کو گمان بھی نہ ہو (جیسے جنگ بدر میں ایسے بےسروسامان مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کو سزا ملی کہ کبھی ان کو اس کا احتمال عقلی بھی نہ ہوتا کہ یہ ہم پر غالب آسکیں گے) یا ان کو چلتے پھرتے (کسی آفت میں) پکڑ لے (جیسے کوئی مرض ہی دفعۃ آکھڑا ہو) سو (اگر ان امور میں سے کوئی امر ہوجائے تو) یہ لوگ خدا کو ہرا (بھی) نہیں سکتے یا ان کو گھٹاتے گھٹاتے پکڑے (جیسے قحط و وباء پڑے اور تدریجا خاتمہ ہوجائے یعنی نڈر ہونا نہیں چاہئے خدا کو سب قدرت ہے مگر مہلت جو دی رکھی ہے) سو (اس کی وجہ یہ ہے کہ) تمہارا رب شفیق مہربان بڑا ہے (اس لئے مہلت دی ہے کہ اب بھی سمجھ جاؤ اور فلاح اور نجات کا طریق اختیار کرلو)- معارف و مسائل :- اس سے پہلی آیات میں کفار کو عذاب آخرت سے ڈرایا گیا تھا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يُخْــزِيْهِمْ ان آیات میں ان کو اس سے ڈرایا گیا ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بھی اللہ کے عذاب میں پکڑے جاؤ جس زمین پر بیٹھے ہو اسی کے اندر دھنسا دئیے جاؤ یا اور کسی بےگمان راستہ سے اللہ کے عذاب میں پکڑے جاؤ جیسے غزوہ بدر میں ایک ہزار بہادر مسلح نوجوانوں کو چند بےسروسامان مسلمانوں کے ہاتھ سے ایسی سزا ملی جس کا ان کو کبھی وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چلتے پھرتے کسی عذاب الہی میں پکڑے جاؤ کہ کوئی بیماری جان لیوا آکھڑی ہو یا کسی اونچی جگہ سے گر کر یا کسی سخت چیز سے ٹکرا کر ہلاک ہوجاؤ اور عذاب کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ دفعۃ عذاب نہ آئے مگر مال اور صحت اور تندرستی اور اسباب راحت و سکون گھٹتے چلے جائیں اسی طرح گھٹاتے گھٹاتے اس قوم کا خاتمہ ہوجائے۔- لفظ تخوف جو اس آیت میں آیا ہے بظاہر خوف سے مشتق ہے اور بعض حضرات مفسرین نے اسی معنی کے اعتبار سے یہ تفسیر کی ہے کہ ایک جماعت کو عذاب میں پکڑا جائے تاکہ دوسری جماعت ڈر جائے اسی طرح دوسری جماعت کو عذاب میں پکڑا جائے جس سے تیسری جماعت ڈر جائے یوں ہی ڈراتے ڈراتے سب کا خاتمہ ہوجائے۔- مگر مفسر القرآن حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد وغیرہ ائمہ تفسیر نے یہاں لفظ تخوف کو تنقص کے معنی میں لیا ہے اور اسی معنی کے اعتبار سے ترجمہ گھٹاتے گھٹاتے کیا گیا ہے۔- حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کو بھی اس لفظ کے معنی میں تردد پیش آیا تو آپ نے برسر منبر صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ لفظ تخوف کے آپ کیا معنی سمجھتے ہیں ؟ عام مجمع خاموش رہا مگر قبیلہ ہذیل کے ایک شخص نے عرض کیا کہ امیر المؤ منین یہ ہمارے قبیلہ کا خاص لغت ہے ہمارے یہاں یہ لفظ تنقص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی بتدریج گھٹانا فاروق اعظم نے سوال کیا کہ کیا عرب اپنے اشعار میں یہ لفظ تنقص کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اس نے عرض کیا کہ ہاں اور اپنے قبیلہ کے شاعر ابو کبیر ہذلی کا ایک شعر پیش کیا جس میں یہ لفظ بتدریج گھٹانے کے معنی میں لیا گیا تھا اس پر حضرت فاروق اعظم نے فرمایا کہ لوگو تم اشعار جاہلیت کا علم حاصل کرو کیونکہ اس میں تمہاری کتاب کی تفسیر اور تمہارے کلام کے معانی کا فیصلہ ہوتا ہے۔- قرآن فہمی کے لئے معمولی عربی دانی کافی نہیں :- اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوئی کہ معمولی طور پر عربی زبان بولنے لکھنے کی قابلیت قرآن فہمی کے لئے کافی نہیں بلکہ اس میں اتنی مہارت اور واقفیت ضروری ہے جس سے قدیم عرب جاہلیت کے کلام کو پورا سمجھا جاسکے کیونکہ قرآن کریم اسی زبان اور انہی محاروات میں نازل ہوا ہے اس درجہ کا ادب عربی سیکھنا مسلمانوں پر لازم ہے۔- عربی ادب سیکھنے کے لئے شعراء جاہلیت کا کلام پڑھنا جائز ہے اگرچہ وہ خرافات پر مشتمل ہو :- اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے زمانہ جاہلیت کی عربی زبان اور اس کا لغت ومح اور ات سمجھنے کے لئے شعراء جاہلیت کا کلام پر ہنا پڑھاناجائز ہے اگرچہ یہ ظاہر ہے کہ شعراء جاہلیت کا کلام جاہلانہ رسموں اور خلاف اسلام جاہلانہ افعال و اعمال پر مشتمل ہوگا مگر قرآن فہمی کی ضرورت سے اس کا پڑھنا پڑھانا ناجائز قرار دیا گیا۔
اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 45ۙ- أمانت - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امانت - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - خسف - الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا .- ( خ س ف ) الخسوف - کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔- حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
(٤٥۔ ٤٦) کی پھر بھی اس بات سے بےفکر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں غرق کردے یا ان پر ایسے موقع سے عذاب آپڑے جہان انکو گمان بھی نہ ہو یا ان کو تجارت کے سفر کے لیے آنے جانے میں پکڑے یا لوگ اللہ کے عذاب کو ہٹا بھی نہیں سکتے۔
آیت ٤٥ (اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ )- یہ لوگ ہمارے رسول کے خلاف سازشوں کے جال بننے میں مگن ہیں اور حق کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ کیا یہ ڈرتے نہیں کہ اگر اللہ چاہے تو انہیں اس جرم کی پاداش میں زمین میں دھنسا دے ؟