Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤۔ الف ] اہل الذکر کون ہیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کا لفظ نہیں بلکہ ذکر کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور اس سے پہلی آیت میں بھی اہل کتاب کا لفظ استعمال نہیں فرمایا بلکہ اہل الذکر کا استعمال فرمایا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ذکر اور کتاب یا قرآن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس فرق کی وضاحت کے لیے سورة الحجر کا حاشیہ نمبر ٥ ملاحظہ فرمائیے۔ مختصراً یہ کہ ذکر میں اللہ کی کتاب کے علاوہ وہ بصیرت بھی شامل ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کو کتاب کے بیان کے سلسلہ میں عطا کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اہل الذکر سے مراد دینی علوم کے ماہر ہیں اور ذکر سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہے یعنی کتاب اللہ کے علاوہ سنت رسول بھی ذکر کے مفہوم میں شامل ہے اور لوگوں کو ہدایت یہ دی جارہی ہے کہ اگر کوئی شرعی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اسے دینی علوم کے کسی ماہر سے پوچھ لینا چاہیے۔- چنانچہ اصول فقہ میں علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کسی مسئلہ کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے وہاں سے نہ ملے تو سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے وہاں بھی نہ ملے تو اجماع صحابہ سے معلوم کیا جائے۔ اور اگر مسئلہ ہی مابعد کے دور کا ہو تو پھر اس میں اجتہاد و استنباط کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اجتہاد بھی سارے لوگ تو نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے لیے علوم شرعیہ میں مہارت کے علاوہ خاصے غور و فکر کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ اور جو لوگ اجتہاد کرنے کے اہل ہوتے ہیں انھیں مجتہد کہتے ہیں اور یہی لوگ اہل الذکر کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں اور عام لوگوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ان سے شرعی مسائل پوچھ لیا کریں۔- تقلید شخصی کیوں حرام ہے :۔ مقلد حضرات تقلید کو شرعی حجت ثابت کرنے کے لیے اسی آیت سے استدلال فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تقلید ایک شرعی ضرورت ہے۔ اگر معاملہ یہیں تک رہتا تو پھر نہ اس میں اختلاف کی گنجائش تھی اور نہ تنازعہ کی۔ تنازعہ تو اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی شخص کو کسی ایک خاص امام مجتہد کا مقلد بنے رہنے کا پابند کیا جاتا ہے پھر ان میں گروہی تعصب پیدا ہوتا ہے تو ہر صاحب علم اپنے امام کی برتری بیان کرنے اور دوسرے مجتہدین کی تنقیص کرنے لگتا ہے۔ پھر جب مزید تعصب پیدا ہوجاتا ہے تو اپنے امام کے قول کو حدیث کے مقابلہ میں ترجیح دینے کی کوشش کی جاتی ہے اور حدیث کی صرف اس لیے تاویل یا تضعیف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے امام کے قول کی صحت پر آنچ نہ آنے پائے۔ ایسی اندھی تقلید کا نام ہی تقلید شخصی ہے جسے کسی صورت مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی شخص کو ایک خاص امام کی تقلید کا پابند کرنا کوئی مستحسن فعل ہے۔ تقلید شخصی کے حق میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح لوگ ہر امام کی رعایتوں سے اور رخصتوں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ ان حضرات سے گزارش ہے کہ اگر کوئی مجتہد یا اہل علم شریعت سے ہی ایک رخصت استنباط کرتا ہے تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ شریعت کی رخصتوں پر پابندیاں لگا کر دین کی راہوں کو مشکل بنادیں اور اللہ کی وسیع رحمت کے آگے بند باندھیں اور یہ تقلید شخصی حرام اس لحاظ سے ہے کہ یہ تعصب اور تشدد کی بنا پر فرقہ بندی کی بنیاد بنتی ہے جو شرعاً حرام ہے۔- [ ٤٥] قرآن کا بیان کیا چیز ہے ؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذمہ داری صرف یہی نہیں تھی کہ جو کلام آپ پر اللہ کی طرف سے نازل ہو، اسے پڑھ کر لوگوں کو سنا دیا کریں یا لکھوا دیا کریں یا آپ اسے خود بھی یاد کرلیں اور دوسروں کو بھی یاد کروادیا کریں۔ بلکہ اس کے علاوہ آپ کی تین مزید اہم ذمہ داریاں بھی تھیں۔ جن میں سے یہاں ایک کا ذکر کیا جارہا ہے جو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا ہے اس کا مطلب اور تشریح و توضیح بھی لوگوں کو بتادیا کریں۔ اگر کسی کو کسی بات کی سمجھ نہ آئے تو سمجھا دیا کریں۔ اگر وہ کوئی سوال کریں تو انھیں اس کا جواب دیا کریں۔ رہی یہ بات کہ قرآن کی وضاحت یا قرآن کا بیان کیا چیز ہے اس کے لیے سورة ابراہیم کی آیت نمبر ٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمایئے۔- منکرین حدیث اور اہل قرآن کا رد :۔ ضمناً اس آیت سے تین باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک تو اس آیت میں ان منکرین حدیث یا اہل قرآن کا پورا رد موجود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی حیثیت (معاذ اللہ) صرف ایک چٹھی رساں کی تھی۔ آپ پر قرآن نازل ہوا۔ وہ آپ نے جوں کا توں امت کے حوالہ کردیا۔ آپ کی ذمہ داری بس اتنی ہی تھی جو آپ نے پوری کردی۔ اور قرآن میں امت کے لیے پوری رہنمائی موجود ہے اور ان کا رد اس لحاظ سے ہے کہ قرآن خود بتارہا ہے کہ اس کے بیان یا وضاحت کی ضرورت بھی باقی رہتی ہے اور یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ قرآن کے بیان کے بغیر اس کی اتباع ناممکن ہے۔- دوسرے یہ کہ آپ کا بیان یا وضاحت یا ارشادات یا اصطلاحی زبان میں آپ کی سنت یا حدیث بھی اتباع کے لحاظ سے بعینہ اسی طرح واجب ہے جس طرح قرآن کی اتباع واجب ہے اور تیسرے یہ کہ جو شخص قرآن کے بیان کا منکر ہے وہ یقیناً قرآن ہی کا منکر ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ : ” وَالزُّبُرِ “ ” اَلزَّبُوْرُ “ کی جمع ہے، بمعنی ” مَزْبُوْرٌ“ یعنی مکتوب۔ ” بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ “ یہ جار مجرور گزشتہ آیت کے دو افعال میں سے کسی ایک کے متعلق ہوسکتا ہے، یا تو ” وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا “ میں ” اَرْسَلْنَا “ کے متعلق، یعنی ہم نے آپ سے پہلے نہیں بھیجے مگر مرد واضح دلائل اور کتابیں دے کر، یا ” فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ “ میں ” فَسْئَلُوا “ کے متعلق، یعنی اگر تم نہیں جانتے تو ذکر والوں سے واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ پوچھ لو۔ (طنطاوی)- وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ ۔۔ : ” الذِّكْرَ “ کی تفسیر کے لیے اسی سورة حجر کی آیت (٩) کے حواشی ملاحظہ فرمائیں۔- اس آیت میں ” الذِّكْرَ “ یعنی وحی الٰہی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کرنے کی دو حکمتیں بیان فرمائیں، ایک تو یہ کہ لوگوں کو اس کا مطلب سمجھنے میں کوئی مشکل پیش آنے پر آپ ان کے لیے اس کی وضاحت فرما دیں، بلکہ خود اس پر عمل کرکے انھیں اس کی عملی تصویر دکھا دیں، کیونکہ آپ کی وضاحت اور نمونے کے بغیر وحی الٰہی میں بیان کردہ چیزوں کو سمجھنا ممکن ہی نہیں، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر احکام۔ قرآن مجید کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر قول، فعل اور حال وحی الٰہی اور اس کی وضاحت ہی ہے، فرمایا : (لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) [ الأحزاب : ٢١ ] ” بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔ “ مقدام بن معدیکرب (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلَا، إِنِّيْ أُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ ، أَلَا یُوْشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلٰی أَرِیْکَتِہِ یَقُوْلُ عَلَیْکُمْ بِھٰذَا الْقُرْآنِ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیْہِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوْہُ وَمَا وَجَدْتُمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ أَلاَ وَ إِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ، أَلاَ ، لَا یَحِلُّ لَکُمْ الْحِمَارُ الْأَھْلِيُّ وَلَا کُلُّ ذِيْ نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَلَا لُقَطَۃُ مُعَاھِدٍ إِلاَّ أَنْ یَسْتَغْنِيَ عَنْھَا صَاحِبُھَا ) [ أبوداوٗد، السنۃ، باب فی لزوم السنۃ : ٤٦٠٤۔ ابن ماجہ : ١٢، و صححہ الألباني ] ” سنو مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اس کی مثل دی گئی ہے، یاد رکھو قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا ہوا آدمی اپنی شاندار چارپائی پر بیٹھا ہوا یہ کہے کہ اس قرآن کو لازم پکڑو، جو اس میں حلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو اس میں حرام پاؤ اسے حرام سمجھو۔ سن لو بیشک جو کچھ اللہ کے رسول نے حرام کیا ہے وہ اسی طرح ہے جیسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ یاد رکھو تمہارے لیے گھریلو گدھے کا گوشت حلال نہیں اور نہ درندوں میں سے کوئی کچلی والا اور نہ کسی ذمی (کافر) کی گری ہوئی چیز، الا یہ کہ اس کے مالک کو اس کی ضرورت نہ رہے۔ “ دوسری حکمت ” وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ “ اور تاکہ لوگ وحی الٰہی میں غور و فکر کریں اور اس سے نصیحت حاصل کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

قرآں فہمی کے لئے حدیث رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضروری ہے حدیث کا انکار درحقیقت قرآن کا انکار ہے :- وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ اس آیت میں ذکر سے مراد باتفاق قرآن کریم ہے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس آیت میں مامور فرمایا ہے کہ آپ قرآن کی نازل شدہ آیات کا بیان اور وضاحت لوگوں کے سامنے کردیں اس میں اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف اور احکام کا صحیح سمجھنا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان پر موقوف ہے اگر ہر انسان صرف عربی زبان اور عربی ادب سے واقف ہو کر قرآن کے احکام کو حسب منشاء خداوندی سمجھنے پر قادر ہوتا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیان و توضیح کی خدمت سپرد کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔- علامہ شاطبی نے موافقات میں پوری تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ سنت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا ہے (آیت) وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ اور حضرت صدیقہ عائشہ (رض) نے اس خلق عظٰیم کی تفسیر یہ فرمائی کان خلقہ القرآن اس کا حاصل یہ ہوا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بھی کوئی قول وفعل ثابت ہے وہ سب قرآن ہی کے ارشادات ہیں بعض تو ظاہری طور پر کسی آیت کی تفیسر و توضیح ہوتے ہیں جن کو عام اہل علم جانتے ہیں اور بعض جگہ بظاہر قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک میں بطور وحی اس کا القاع کیا جاتا ہے اور وہ بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی کے حکم میں ہوتا ہے کیونکہ حسب تصریح قرآنی آپ کی کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں ہوتی بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے (آیت) وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام عبادات معاملات اخلاق عادات سب کی سب بوحی خداوندی اور بحکم قرآن ہیں اور جہاں کہیں آپ نے اپنے اجتہاد سے کوئی کام نہیں ہے تو بالاخر وحی الہی سے اس پر کوئی نکیر نہ کرنے سے اس کی تصحیح اور پھر تائید کردی جاتی ہے اس لئے وہ بھی بحکم وحی ہوجاتا ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد بعثت قرآن کریم کی تفسیر وبیان کو قرار دیا ہے جیسا کہ سورة جمعہ وغیرہ کی متعدد آیات میں تعلیم کتاب کے الفاظ سے اس مقصد بعثت کو ذکر کیا گیا ہے اب وہ ذخیرہ حدیث جس کو صحابہ وتابعین سے لے کر متاخرین محدثین تک امت کے باکمال افراد نے اپنی جانوں سے زیادہ حفاظت کر کے امت تک پہونچایا ہے اور اس کی چھان بین میں عمریں صرف کر کے روایات حدیث کے درجے قائم کر دئیے ہیں اور جس روایت کو بحیثیت سند اس درجہ کا نہیں پایا کہ اس پر احکام شرعیہ کی بنیاد رکھی جائے اس کو ذخیرہ حدیث سے الگ کر کے صرف ان روایات پر مستقل کتابیں لکھ دی ہیں جو عمر بھر کی تنقیدوں اور تحقیقات کے بعد صحیح اور قابل اعتماد ثابت ہوئی ہیں۔- اگر آج کوئی شخص اس ذخیرہ حدیث کو کسی حیلے بہانے سے ناقابل اعتماد کہتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم قرآنی کی خلاف ورزی کی کہ مضامین قرآن کو بیان نہیں کیا یا یہ کہ آپ نے تو بیان کیا تھا مگر وہ قائم و محفوظ نہیں رہا بہر دو صورت قرآن بحیثیت معنے کے محفوظ نہ رہا جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ رکھی ہے وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ اس کا یہ دعوی اس نص قرآن کے خلاف ہے اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص سنت رسول کو اسلام کی حجت ماننے سے انکار کرتا ہے وہ درحقیقت قرآن ہی کا منکر ہے نعوذباللہ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ۭ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ 44؀- بينات - يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات .- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم :- البیان يكون علی ضربین :- أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة .- والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة .- فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ- [ الزخرف 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم 10] .- وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 43- 44]- ( ب ی ن ) البین - کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمبروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ - زبر - الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً- [ المؤمنون 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا .- وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً- [ النساء 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- [ الأنبیاء 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] ، وقال :- وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» .- ( زب ر) الزبرۃ - لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٤) اور آپ پر بھی یہ قرآن حکیم جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے اتارا گیا ہے تاکہ لوگوں کے لیے قرآن حکیم میں جو احکام بیان کیے گئے، آپ ان کو ان کے سامنے بیان کردیں اور تاکہ وہ احکام قرآنیہ میں غور کیا کریں جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ )- یہاں قرآن کے لیے پھر لفظ ” الذکر “ استعمال ہوا ہے ‘ یعنی یہ قرآن ایک طرح کی یاد دہانی ہے۔ یہ آیت منکرین سنت و حدیث کے خلاف ایک واضح دلیل فراہم کرتی ہے۔ اس کی رو سے قرآن کی ” تبیین “ رسول کا فرض منصبی ہے۔ قرآن کے اسرار و رموز کو سمجھانا اس میں اگر کوئی نکتہ مجمل ہے تو اس کی تفصیل بیان کرنا ‘ اگر کوئی حکم مبہم ہے تو اس کی وضاحت کرنا رسول اللہ کا فرض منصبی تھا۔ یہ فرض اس آیت کی رو سے خود اللہ تعالیٰ نے آپ کو تفویض کیا ہے ‘ مگر منکرین سنت آج آپ کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق یہ اللہ کی کتاب ہے جو اللہ کے رسول نے ہم تک پہنچا دی ہے ‘ اب ہم خود اس کو پڑھیں گے ‘ خود سمجھیں گے اور خود ہی عمل کی جہتیں متعین کریں گے۔ حضور کے سمجھانے کی اگر کچھ ضرورت تھی بھی تو وہ اپنے زمانے کی حد تک تھی۔ فیا للعجب

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :40 تشریح و توضیح صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی ، اور اپنی رہنمائی میں ایک پوری مسلم سوسائٹی کی تشکیل کر کے بھی ، اور ”ذکرِ الہٰی“ کے منشاء کے مطابق اس کے نظام کو چلا کر بھی ۔ اس طرح اللہ تعالی نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازما ایک انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا جائے ۔ ”ذکر“ فرشتوں کے ذریعہ سے بھی بھیجا جا سکتا تھا ۔ براہ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا ۔ مگر محض ذکر بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالی کی حکمت اور رحمت اور ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس ”ذکر“ کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے ۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے ۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے ۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے ، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے ۔ جو نہ مانیں اور مخالفت اور مزاحمت کریں ان کے مقابلہ میں وہ اس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اس ”ذکر“ کے حاملین کی شان کے شایاں ہے ۔ جو مان لیں انہیں زندگی کی ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے ۔ ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے ، اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایک ایسی سوسائٹی کو بطور مثال رکھ دے جس کا پورا اجتماعی نظام ”ذکر“ کے منشاء کی شرح ہو ۔ یہ آیت جس طرح ان منکرین نبوت کی حجت کے لیے قاطع تھی جو خدا کا ”ذکر“ بشر کے ذریعہ سے آنے کو نہیں مانتے تھے اسی طرح آج یہ ان منکرین حدیث کی حجت کے لیے بھی قاطع ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ”ذکر“ کو لے لینا چاہتے ہیں ۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف ذکر پیش کر دیا تھا ، یا اس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح ، یا اس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں ، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ذکر ہی قابلِ اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے ، غرض ان چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں ، ان کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے ۔ اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس منشاء ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر ذکر کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اسے واسطہ تبلیغ بنایا گیا تھا ۔ اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے ( معاذ اللہ ) یہ فضول حرکت کی کہ اپنا ذکر“ ایک نبی کے ذریعہ سے بھیجا ۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ذکر کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا ۔ اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلک معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صرف ان لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں ۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالی خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو نا گزیر ٹھیرا رہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ذکر کے منشاء کی توضیح کرے ۔ اب اگر منکرین حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہی ہے تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں ۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ختم ہوگئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ان طرح کا رہ گیا جیسا ہود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کر تے ہیں ، ان پر ایمان لاتے ہیں ، مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے ، صرف ایک بے وقوف ہی اس کے بعد ختم نبوت پر اصرار کر سکتا ہے ۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے ، اس لیے قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں ، مدعی سست کی حمایت میں گواہان چست کی بات ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے ۔ قاتلہم اللہ ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکار حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani