انسان اور منصب رسالت پر اختلا ف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا تو عرب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ وہ کسی انسان کو اپنا رسول بنائے جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے ۔ فرماتا ہے آیت ( اکان للناس عجبا ) الخ ، کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب معلوم ہوا کہ ہم نے کسی انسان کی طرف اپنی وحی نازل فرمائی کہ وہ لوگوں کو آ گاہ کر دے ۔ اور فرمایا ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے سبھی انسان تھے جن پر ہماری وحی آتی تھی ۔ تم پہلی آسمانی کتاب والوں سے پوچھ لو کہ وہ انسان تھے یا فرشتے ؟ اگر وہ بھی انسان ہوں تو پھر اپنے اس قول سے باز آؤ ہاں اگر ثابت ہو کہ سلسلہ نبوت فرشتوں میں ہی رہا تو بیشک اس نبی کا انکار کرتے ہوئے تم اچھے لگو گے ۔ اور آیت میں من اھل القری کا لفظ بھی فرمایا یعنی وہ رسول بھی زمین کے باشندے تھے ، آ سمان کی مخلوق نہ تھے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مراد اہل ذکر سے اہل کتاب ہیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور اعمش رحمتہ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے عبدالرحمن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ذکر سے مراد قرآن ہے جیسے آیت ( اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ Ḍ ) 15- الحجر:9 ) میں ہے یہ قول بجائے خود ٹھیک ہے لیکن اس آیت میں ذکر سے مراد قرآن لینا درست نہیں کیونکہ قرآن کے تو وہ لوگ منکر تھے ۔ پھر قرآن والوں سے پوچھ کر ان کی تشفی کیسے ہو سکتی تھی ؟ اسی طرح ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہم اہل ذکر ہیں یعنی یہ امت یہ قول بھی اپنی جگہ ہے ۔ درست ہے فی الواقع یہ امت تمام اگلی امتوں سے زیادہ علم والی ہے اور اہل بیت کے علماء اور علماء سے بدر جہا بڑھ کر ہیں ۔ جب کہ وہ سنت مستقیمہ پر ثابت قدم ہوں ۔ جیسے علی ابن عباس ، حسن ، حسین ، محمد بن حنفیہ ، علی بن حیسن زین العابدین ، علی بن اللہ بن عباس ابو جعفر باقر ، محمد بن علی بن حسین اور ان کے صاحبزادے جعفر اور ان جیسے اور بزرگ حضرات ۔ اللہ کی رحمت و رضا انہیں حاصل ہو ۔ جو کہ اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے ہوئے اور صراط مستقیم پر قدم جمائے ہوئے اور ہر حقدار کے حق بجا لانے والے اور ہر ایک کو اس کی سچی جگہ اتارنے والے ، ہر ایک کی قدر و عزت کرنے والے تھے اور خود وہ اللہ کے تمام نیک بندوں کے دلوں میں اپنی مقبولیت رکھتے ہیں ۔ یہ بیشک صحیح تو ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد نہیں ۔ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ آپ بھی انسان ہیں اور آپ سے پہلے بھی انبیاء بنی آ دم میں سے ہوتے رہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا 93ۧ ) 17- الإسراء:93 ) کہہ دے کہ میرا رب پاک ہے میں صرف ایک انسان ہوں جو اللہ کا رسول ہوں ۔ لوگ محض یہ بہانہ کر کے رسولوں کا انکار کر بیٹھے کہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اپنی رسالت دے ۔ اور آیت میں ہے تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سبھی کھانے پینے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے تھے ۔ اور آیت میں ہے ہم نے ان کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانے پینے سے بےنیاز ہوں یا یہ کہ مرنے والے ہی نہ ہوں ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِيْ مَا يُفْعَلُ بِيْ وَلَا بِكُمْ ) 46- الأحقاف:9 ) میں کوئی شروع کا اور پہلا اور نیا رسول تو نہیں ؟ ایک اور آیت میں ہے میں تم جیسا انسان ہوں میری جانب وحی اتاری جاتی ہے الخ پس یہاں بھی ارشاد ہوا کہ پہلی کتابوں والوں سے پوچھ لو کہ نبی انسان ہو تے تھے یا غیر انسان ؟ پھر یہاں فرماتا ہے کہ رسول کو وہ دلیلیل دے کر حجتیں عطا فرما کر بھیجتا ہے کتابیں ان پر نازل فرماتا ہے صحیفے انہیں عطا فرماتا ہے ۔ زبر سے مراد کتابیں ہیں جیسے قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ 52 ) 54- القمر:52 ) جو کچھ انہوں نے کیا کتابوں میں ہے ۔ اور آیت میں ہے ( لقد کتبنا فی الزبور ) ہم نے زبور میں لکھ دیا الخ پھر فرماتا ہے ہم نے تیری طرف ذکر نازل فرمایا یعنی قرآن اس لئے کہ چونکہ تو اس کے معنی مطلب سے اچھی طرح واقف ہے اسے لوگوں کو سمجھا بجھا دے ۔ حقیقتاً اے نبی آپ ہی اس پر سب سے زیادہ حریص ہیں آپ ہی اس کے سب سے بڑے عالم ہیں اور آپ ہی اس کے سب سے زیادہ عامل ہیں ۔ اس لئے کہ آپ افضل الخلائق ہیں ۔ اولاد آدم کے سردار ہیں ۔ جو اجمال اس کتاب میں ہے اس کی تفصیل آپ کے ذمے ہے ، لوگوں پر جو مشکل ہو آپ اسے سمجھا دیں تاکہ وہ سوجیں سمجھیں راہ پائیں اور پھر نجات اور دونوں جہاں کی بھلائی حاصل کریں ۔
43۔ 1 اَ ھْلُ الذِّکْر سے مراد اہل کتاب ہیں جو پچھلے انبیاء اور ان کی تاریخ سے واقف تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے، وہ انسان ہی تھے اس لئے محمد رسول اللہ بھی اگر انسان ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں کہ تم ان کی بشریت کی وجہ سے ان کی رسالت کا انکار کردو۔ اگر تمہیں شک ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء بشر تھے یا ملائکہ ؟ اگر وہ فرشتے تھے تو پھر بیشک انکار کردینا، اگر وہ بھی انسان ہی تھے تو پھر محمد رسول اللہ کی رسالت کا محض بشریت کی وجہ سے انکار کیوں ؟
[٤٤] رسول اللہ کا بشر ہونا تاریخی پہلو :۔ یہ بھی مشرکوں کے ایک اعتراض کا جواب ہے جو پہلے بھی کئی بار مذکور ہوچکا ہے کہ یہ نبی تو ہم جیسا ہی انسان ہے۔ ہماری طرح کھاتا، پیتا، چلتا، پھرتا اور عائلی زندگی گزارتا ہے آخر اس میں وہ کون سی امتیازی صفت ہے کہ ہم اسے اللہ کا رسول تسلیم کرلیں۔ اس اعتراض کے مختلف مقامات پر مختلف پہلوؤں سے جواب دیئے گئے ہیں۔ یہاں صرف تاریخی پہلو کے لحاظ سے جواب دیا جارہا ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ہیں وہ سب انسان اور مرد ہی ہوا کرتے تھے۔ سیدنا آدم، نوح (علیہ السلام) ، ابراہیم (جن کی اتباع کا مشرکین مکہ دعویٰ کرتے تھے) اسحاق (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) ، یعقوب علیہ السلام، یوسف (علیہ السلام) ، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ وغیرہم سب کے سب انسان ہی تھے اور یہ بات تم جانتے بھی ہو اور اگر کچھ شک ہو تو اہل علم حضرات سے پوچھ لو جو سابقہ انبیاء سے اور ان کے حالات سے باخبر ہیں اور یہاں اہل علم سے مراد علمائے یہود و نصاریٰ ہیں۔ کہ آیا وہ بشر یا انسان ہی تھے یا کوئی اور قسم کی مخلوق تھے ؟
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یوسف (١٠٩) ۔- فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ : ” اَهْلَ الذِّكْرِ “ سے مراد اہل کتاب یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی یہ بات اگر تمہیں معلوم نہیں کہ پہلے تمام رسول مرد (انسان) ہی تھے تو یہودو نصاریٰ سے پوچھ لو جو انبیاء کی تاریخ سے واقف ہیں اور تم ان پر اعتماد بھی مسلمانوں کی نسبت زیادہ کرتے ہو کہ موسیٰ ، عیسیٰ ، داؤد اور سلیمان وغیرہم فرشتے تھے یا بشر ؟ پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کیوں کہ یہ نبی انسان کیوں ہے، فرشتہ کیوں نہیں ؟- اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ : ” اگر تم نہیں جانتے “ یہ دراصل تعریض ہے کہ ” جانتے تم بھی ہو “ کیا اپنے باپ ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کو تم نہیں جانتے کہ وہ فرشتہ رسول تھے یا بشر ؟ یقیناً تم جانتے ہو، خیر اگر نہیں جانتے تو یہود و نصاریٰ سے پوچھ لو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور یوسف اور سارے بنی اسرائیل کے انبیاء بشر تھے یا فرشتے ؟ تم پر حقیقت واضح ہوجائے گی۔ - 3 بعض لوگ اس آیت سے تقلید کے وجوب یا جواز پر استدلال کرتے ہیں، حالانکہ آیت کے سیاق وسباق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے مخاطب مشرکین ہیں اور ” اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ “ سے مراد اہل کتاب ہیں اور آیت میں ایک خاص اعتراض کے حل میں ان کی طرف رجوع کا حکم دیا جا رہا ہے، اس کا تقلیدِ ائمہ سے کیا تعلق ؟- 3 اگر آیت کو عام بھی سمجھ لیا جائے تو غیر عالم مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنے کسی بھی موجود عالم سے کتاب و سنت کا حکم معلوم کرلیں، کیونکہ فوت شدہ شخص سے پوچھا ہی نہیں جاسکتا۔ ظاہر ہے چاروں امام بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی فوت ہوچکے ہیں، ان سے سوال تو ممکن ہی نہیں۔ ہاں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کتاب و سنت میں محفوظ ہیں اور اماموں کے اقوال ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اب کوئی شخص دونوں میں سے جو بھی پوچھے گا کسی زندہ عالم ہی سے پوچھے گا، وہ عالم مکمل طور پر محفوظ کتاب و سنت سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم بھی بتاسکتا ہے اور کسی معتبر یا غیر معتبر کتاب سے امام کا قول بھی۔ اس لیے سائل کا فرض یہ ہے کہ وہ کسی بھی عالم سے یہ پوچھے کہ اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا حکم ہے، کیونکہ دین صرف کتاب و سنت کا نام ہے۔ جب بڑے سے بڑے امتی کا قول بھی دین نہیں تو پھر سائل عالم سے کسی امام کا قول کیوں پوچھے ؟ کیا وہ امام نبی تھا، یا اللہ تعالیٰ نے اس کی اطاعت کا حکم دیا ہے، یا وحی کے ذریعے سے اس کی خطا کی اصلاح کردی جاتی تھی۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوگی کہ مسلمانوں نے علماء سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم پوچھنے کے بجائے اپنے اپنے فرقے کے بنائے ہوئے امام کے اقوال پوچھنا اور ان پر عمل کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ اس کا ظاہر ہے کہ مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ اس کا علاج اب بھی سب فرقے چھوڑ کر کتاب و سنت پر متحد ہونا ہے۔ خصوصاً آگے صاف لفظ بھی آ رہے ہیں کہ ” بِالْبَیِّنٰتِ والزُّبُر “ یعنی اہل ذکر سے سوال کرو کہ وہ بینات (دلائل) اور آسمانی کتابوں کے ساتھ جواب دیں، نہ کہ اپنے یا کسی امتی کے قیاس یا عقل سے نکالی ہوئی کسی بات کے ساتھ۔ گویا اس آیت کو اگر تقلید کے متعلق مان بھی لیا جائے تو یہ تقلید کو جڑ سے اکھیڑنے والی اور کتاب و سنت کا پابند بنانے والی ہے۔ - ” اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ “ سے معلوم ہوا کہ اہل ذکر سے پوچھنے کی ضرورت اسے ہے جو لاعلم ہو۔ کیا بڑے بڑے مدارس میں دس، دس سال پڑھنے کے بعد اور چالیس پچاس سال پڑھانے کے بعد بھی مقلد حضرات ” لاتعلمون “ ہی رہتے ہیں، حالانکہ وہ قرآن و سنت پر عمل سے بچنے اور اپنے امام کی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے اتنے علمی و عقلی دلائل جمع کرتے اور پیش کرتے ہیں جو شاید ان کے امام کے خواب و خیال میں بھی نہ آئے ہوں۔ میں اپنے ان بھائیوں سے نہایت درد مندی سے عرض کرتا ہوں کہ وہ قیامت کے دن کسی دھڑے یا فرقے میں کھڑے ہونے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے چلنے والی قطار میں شامل ہوجائیں۔ نجات کا بس یہی ایک راستہ ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اور (یہ منکر لوگ جو آپ کی رسالت ونبوت کا اس بناء پر انکار کر رہے ہیں کہ آپ بشر اور انسان ہیں اور نبی و رسول ان کے نزدیک کوئی انسان و بشر نہ ہونا چاہئے یہ ان کا جاہلانہ خیال ہے کیونکہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی صرف آدمی ہی رسول بنا کر معجزات اور کتابیں دے کر بھیجے ہیں کہ ان پر وحی بھیجا کرتے تھے (تو اے مکہ والو منکرین) اگر تم کو علم نہیں تو دوسرے اہل علم سے پوچھ دیکھو (جن کو انبیاء سابقین کے حالات کا علم ہو اور وہ تمہارے خیال میں بھی مسلمانون کی طرفداری نہ کریں اور اسی طرح آپ کو بھی رسول بنا کر) آپ پر بھی یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جو ہدایات آپ کے واسطے سے) لوگوں کے پاس بھیجی گئی ہیں وہ ہدایات آپ ان کو واضح کر کے سمجھا دیں اور تاکہ وہ ان میں غور وفکر کیا کریں۔- معارف و مسائل :- روح المعانی میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد مشرکین مکہ نے اپنے قاصد مدینہ طیبہ کے یہود کے پاس دریافت حال کے لئے بھیجے کہ کیا یہ بات واقعی ہے کہ پہلے بھی سب انبیاء (علیہم السلام) جنس بشر و انسان سے ہوتے آئے ہیں۔- اگرچہ لفظ اہل الذکر میں اہل کتاب اور مؤمنین سب داخل تھے مگر یہ ظاہر ہے کہ مشرکین کا اطمینان غیر مسلموں ہی کے بیان سے ہوسکتا تھا کیونکہ وہ خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر مطمئن نہیں تھے تو دوسرے مسلمانوں کی بات کیسے مان سکتے تھے۔- اَهْلَ الذِّكْر لفظ ذکر چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے ان میں سے ایک معنی علم کے بھی ہیں اسی مناسبت سے قرآن کریم میں تورات کو بھی ذکر فرمایا ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اور قرآن کریم کو بھی ذکر کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ اس کے بعد والی آیت میں اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ میں قرآن مراد ہے اس لئے اہل الذکر کے لفظی معنی اہل علم کے ہوئے اور یہاں اہل علم سے کون لوگ مراد ہیں اس میں ظاہر یہ ہے کہ علمائے اہل کتاب یہود و نصاری مراد ہیں یہ قول ابن عباس حسن السدی وغیرہ کا ہے اور بعض حضرات نے اس جگہ بھی ذکر سے قرآن مراد لے کر اہل الذکر کی تفسیر اہل قرآن سے کی ہے اس میں زیادہ واضح بات رمانی، زجاج، ازہری کی ہے وہ کہتے ہیں المراد باہل الذکر علماء اخبار الامم السالفتہ کائنا من کان فالذکر بمعنی الحفظ کانہ قیل اسالوا المطلعین علی اخبار الامم یعلموکم بذلک اس تحقیق کی بناء پر اس میں اہل کتاب بھی داخل ہیں اور اہل قرآن بھی۔- بینات کے معنی معروف ہیں اور مراد اس سے یہاں معجزات ہیں، زبر دراصل زبرہ کی جمع ہے جو لوہے کے بڑے ٹکڑوں کے لئے بولا جاتا ہے اٰتُوْنِيْ زُبَرَ الْحَدِيْدِ ٹکڑوں کو جوڑنے کی مناست سے لکھنے کو زبر کہا جاتا ہے اور لکھی ہوئی کتاب کو زبر اور زبور بولتے ہیں یہاں مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں تورات انجیل زبور قرآن سب داخل ہیں ،- ائمہ مجتہدین کی تقلید غیر مجتہد پر واجب ہے :- آیت مذکورہ کا یہ جملہ (آیت) فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ اس جگہ اگرچہ ایک خاص مضمون کے بارے میں آیا ہے مگر الفاظ عام ہیں جو تمام معاملات کو شامل ہیں اس لئے قرآنی اسلوب کے اعتبار سے درحقیقت یہ اہم ضابطہ ہے جو عقلی بھی ہے نقلی بھی کہ جو لوگ احکام کو نہیں جانتے وہ جاننے والوں سے پوچھ کر عمل کریں اور نہ جاننے والوں پر فرض ہے کہ جاننے والوں کے بتلانے پر عمل کریں اسی کا نام تقلید ہے یہ قرآن کا واضح حکم بھی ہے اور عقلا بھی اس کے سوا عمل کو عام کرنے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی امت میں عہد صحابہ سے لے کر آج تک بلا اختلاف اسی ضابطہ پر عمل ہوتا آیا ہے جو تقلید کے منکر ہیں وہ بھی اس تقلید کا انکار نہیں کرتے کہ جو لوگ عالم نہیں وہ علماء سے فتوی لے کر عمل کریں اور یہ ظاہر ہے کہ ناواقف عوام کو علماء اگر قرآن و حدیث کے دلائل بتلا بھی دیں تو وہ ان دلائل کو بھی انہی علماء کے اعتماد پر قبول کریں گے ان میں خود دلائل کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت تو ہے نہیں اور تقلید اسی کا نام ہے کہ نہ جاننے والا کسی جاننے والے کے اعتماد پر کسی حکم کو شریعت کا حکم قرار دے کر عمل کرے یہ تقلید وہ ہے جس کے جواز بلکہ وجوب میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں البتہ وہ علماء جو خود قرآن و حدیث کو اور مواقع اجماع کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو ایسے احکام میں جو قرآن و حدیث میں صریح اور واضح طور پر مذکور ہیں اور علماء صحابہ وتابعین کے درمیان ان مسائل میں کوئی اختلاف بھی نہیں ان احکام میں وہ علماء براہ راست قرآن و حدیث اور اجماع پر عمل کریں ان میں علماء کو کسی مجتہد کی تقلید کی ضرورت نہیں لیکن وہ احکام و مسائل جو قرآن وسنت میں صراحۃ مذکور نہیں یا جن میں آیات قرآن اور روایات حدیث میں بظاہر کوئی تعارض نظر آتا ہے یا جن میں صحابہ وتابعین کے درمیان قرآن وسنت کے معنی متعین کرنے میں اختلاف پیش آیا ہے یہ مسائل و احکام محل اجتہاد ہوتے ہیں ان کو اصطلاح میں مجتہد فیہ مسائل کہا جاتا ہے ان کا حکم یہ ہے کہ جس عالم کو درجہ اجتہاد حاصل نہیں اس کو بھی ان مسائل میں کسی امام مجتہد کی تقلید ضروری ہے محض اپنی ذاتی رائے کے بھروسہ پر ایک آیت یا روایت کو ترجیح دے کر اختیار کرنا اور دوسری آیت یا روایت کو مرجوع قرار دے کر چھوڑ دینا اس کے لئے جائز نہیں۔- اسی طرح جو احکام قرآن وسنت میں صراحۃ مذکور نہیں ان کو قرآن وسنت کے بیان کردہ اصول سے نکالنا اور ان کا حکم شرعی متعین کرنا یہ بھی انہی مجتہدین امت کا کام ہے جن کو عربی زبان عربی لغت اور محاورات اور طریق استعمال کا نیز قرآن وسنت سے متعلقہ تمام علوم کا معیاری علم اور ورع وتقوی کا اونچا مقام حاصل ہو جیسے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) شافعی، مالک احمد بن حنبل یا اوزاعی فقیہ ابواللیث وغیرہ جن میں اللہ تعالیٰ نے قرب زمانہ نبوت اور صحبت صحابہ وتابعین کی برکت سے شریعت کے اصول و مقاصد سمجھنے کا خاص ذوق اور منصوص احکام سے غیر منصوص کو قیاس کر کے حکم نکالنے کا خاص سلیقہ عطا فرمایا تھا ایسے مجتہد فیہ مسائل میں عام علماء کو بھی ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید لازم ہے ائمہ مجتہدین کے خلاف کوئی نئی رائے اختیار کرنا خطاء ہے۔- یہی وجہ ہے کہ امت کے اکابر علماء محدثین وفقہا امام غزالی، رازی، ترمذی، طحاوی مزنی ابن ہمام ابن قدامہ اور اسی معیار کے لاکھوں علماء سلف وخلف باوجود علوم عربیت وعلوم شریعت کی اعلیٰ مہارت حاصل ہونے کے ایسے اجتہادی مسائل میں ہمیشہ ائمہ مجتہدین کی تقلید ہی کے پابند رہے ہیں سب مجتہدین کے خلاف اپنی رائے سے کوئی فتوی دینا جائز نہیں سمجھا البتہ ان حضرات کو علم وتقوی کا وہ معیاری درجہ حاصل تھا کہ مجتہدین کے اقوال وآراء کو قرآن وسنت کے دلائل سے جانچتے اور پرکھتے تھے پھر ائمہ مجتہدین میں جس امام کے قول کو وہ کتاب وسنت کے ساتھ اقرب پاتے اس کو اختیار کرلیتے تھے مگر ائمہ مجتہدین کے مسلک سے خروج اور ان سب کے خلاف کوئی رائے قائم کرنا ہرگز جائز نہ جانتے تھے تقلید کی اصل حقیقت اتنی ہی ہے۔- اس کے بعد روز بروز علم کا معیار گھٹتا گیا اور تقوی و خدا ترسی کے بجائے اغراض نفسانی غالب آنے لگیں ایسی حالت میں اگر یہ آزادی دی جائے کہ جس مسئلہ میں چاہیں کسی ایک امام کا قول اختیار کرلیں اور جس میں چاہیں کسی دوسرے کا قول لے لیں تو اس کا لازمی اثر یہ ہونا تھا کہ لوگ اتباع شریعت کا نام لے کر اتباع ہوی میں مبتلا ہوجائیں کہ جس امام کے قول میں اپنی غرض نفسانی پوری ہوتی نظر آئے اس کو اختیار کرلیں اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا کوئی دین و شریعت کا اتباع نہیں ہوگا بلکہ اپنی اغراض واہوا کا اتباع ہوگا جو باجماع امت حرام ہے علامہ شاطبی نے موافقات میں اس پر بڑی تفصیل سے کام کیا ہے اور ابن تیمیہ نے بھی عام تقلید کی مخالفت کے باوجود اس طرح کے اتباع کو اپنے فتاوی میں باجماع امت حرام کہا ہے اس لئے متاخرین فقہا نے یہ ضروری سمجھا کہ عمل کرنے والوں کو کسی ایک ہی امام مجتہد کی تقلید کا پابند کرنا چاہئے یہیں سے تقلید شخصی کا آغاز ہوا جو درحقیقت ایک انتظامی حکم ہے جس سے دین کا انتظام قائم رہے اور لوگ دین کی آڑ میں اتباع ہوی کے شکار نہ ہوجائیں اس کی مثال بعینہ وہ ہے جو حضرت عثمان غنی نے باجماع صحابہ قرآن کے سبعۃ احرف (یعنی سات لغات) میں سے صرف ایک لغت کو مخصوص کردینے میں کیا کہ اگرچہ ساتوں لغات قرآن ہی کے لغات تھے جبرئیل امین کے ذریعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش کے مطابق نازل ہوئے مگر جب قرآن کریم عجم میں پھیلا اور مختلف لغات میں پڑھنے سے تحریف قرآن کا خطرہ محسوس کیا گیا تو باجماع صحابہ مسلمانوں پر لازم کردیا گیا کہ صرف ایک ہی لغت میں قرآن کریم لکھا اور پڑھا جائے حضرت عثمان غنی (رض) نے اسی ایک لغت کے مطابق تمام مصاحف لکھوا کر اطراف عالم میں بھجوائے اور آج تک پوری امت اسی کی پابند ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے لغات حق نہیں تھے بلکہ انتظام دین اور حفاظت قرآن از تحریف کی بناء پر صرف ایک لغت اختیار کرلیا گیا اسی طرح ائمہ مجتہدین سب حق ہیں ان میں سے کسی نے اختیار کی ہے اس کے نزدیک دوسرے ائمہ قابل تقلید نہیں بلکہ اپنی صواب دید اور اپنی سہولت جس امام کی تقلید میں دیکھی اس کو اختیار کرلیا اور دوسرے ائمہ کو بھی اسی طرح واجب الاحترام سمجھا۔- اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بیمار آدمی کو شہر کے حکیم اور ڈاکٹروں میں سے کسی ایک ہی کو اپنے علاج کے لئے متعین کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ بیمار اپنی رائے سے کبھی کسی ڈاکٹر سے پوچھ کر دوا استعمال کرے کبھی کسی دوسرے سے پوچھ کر یہ اس کی ہلاکت کا سبب ہوتا ہے وہ جب کسی ڈاکٹر کا انتخاب اپنے علاج کے لئے کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ دوسرے ڈاکٹر ماہر نہیں یا ان میں علاج کی صلاحیت نہیں ،- حنفی، شافعی، مالکی حنبلی کی جو تقسیم امت میں قائم ہوئی اس کی حقیقت اس سے زائد کچھ نہ تھی اس میں فرقہ بندی اور گروی بندی کا رنگ اور باہمی جدال وشقاق کی گرم بازاری نہ کوئی دین کا کام ہے نہ کبھی اہل بصیرت علماء نے اسے اچھا سمجھا ہے بعض علماء کے کلام میں علمی بحث و تحقیق نے مناظرانہ رنگ اختیار کرلیا اور بعد میں طعن وطنز تک نوبت آگئی پھر جاہلانہ جنگ وجدال نے وہ نوبت پہنچا دی جو آج عموما دینداری اور مذہب پسندی کا نشان بن گیا فالی اللہ المشتکی ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم :- تنبیہ :- مسئلہ تقلید و اجتہاد پر کچھ یہاں لکھا گیا وہ اس مسئلہ کا بہت مختصر خلاصہ ہے جو عام مسلمانوں کے سمجھنے کے لئے کافی ہے عالمانہ تحقیقات وتفصیلات اصول فقہ کی کتابوں میں مفصل موجود ہیں خصوصا کتاب الموافقات علامہ شاطبی جلد رابع باب الاجتہاد اور علامہ سیف الدین آمدی کی کتاب احکام الاحکام جلد ثالث القاعدۃ الثالثۃ فی المجتہدین، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتابیں حجۃ اللہ البالغہ اور رسالہ عقد الجید اور آخر میں حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب الاقتصاد فی التقلید والاجتہاد اس مسئلے میں خاص طور سے قابل دید ہیں اہل علم ان کی طرف مراجعت فرمائیں
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 43ۙ- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔
(٤٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے ہی جیسے آدمیوں کو رسول بنا کر بھیجا، انہیں معجزات اور پہلے لوگوں کی خبریں دیں، اور ان پر اوامرو نواہی کے دلائل کی وحی کی، اور یہ بات تورات وانجیل میں بھی موجود ہے، اللہ تعالیٰ صرف انسانوں ہی کو رسول بنا کر بھیجتے ہیں۔
آیت ٤٣ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ )- یعنی آپ پہلے نبی یا رسول نہیں ہیں بلکہ آپ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں۔ وہ سب کے سب آدمی ہی تھے اور ان کی طرف ہم اسی طرح وحی بھیجتے تھے جس طرح آج آپ کی طرف وحی آتی ہے۔- (فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ )- یعنی اے اہل مکہ اگر تم لوگوں کو اس بارے میں کچھ شک ہے تو تمہارے پڑوس مدینہ میں وہ لوگ آباد ہیں جو سلسلۂ وحی و رسالت سے خوب واقف ہیں ان سے پوچھ لو کہ اب تک جو انبیاء و رسل اس دنیا میں آئے ہیں وہ سب کے سب انسان تھے یا فرشتے ؟
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :38 یہاں مشرکین مکہ کے ایک اعتراض کو نقل کیے بغیر اسکا جواب دیا جا رہا ہے ۔ اعتراض وہی ہے جو پہلے بھی تمام انبیاء علیہم السلام پر ہو چکا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بارہا کیا تھا کہ تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو ، پھر ہم کیسے مان لیں کہ خدا نے تم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :39 یعنی علماء اہل کتاب ، اور وہ دوسرے لوگ جو چاہے سکہ بند علما نہ ہوں مگر بہر حال کتب آسمانی کی تعلیمات سے واقف اور انبیاء سابقین کی سرگزشت سے آگاہ ہوں ۔