[٤٣] یعنی مکہ میں قریش مکہ کے مظالم پر صبر کرتے رہے۔ اور حبشہ میں اپنی نئی زندگی کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور مصائب کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ اور انھیں اس بات کا یقین کامل تھا کہ اللہ نے ان سے جو وعدے کر رکھے ہیں۔ وہ یقیناً پورے ہو کے رہیں گے۔ لہذا وہ اپنے ہر مشکل وقت میں اللہ ہی پر بھروسہ کیے رہے۔
الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ : صبر اور اللہ پر توکل ہی سے وطن چھوڑنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے، ورنہ بندہ مستقبل کے خوف سے کہ اپنا گھر چھوڑ کر کہیں گیا تو کہاں سے کھاؤں گا، اپنی جگہ سے نہیں ہلتا اور نہ ہلنے کی وجہ سے چکی کے نچلے پاٹ کی طرح ہمیشہ اپنے سینے پر اوپر کے پاٹ کا بوجھ برداشت کرتا رہتا ہے اور آخر کار یا تو ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یا جان سے۔ دیکھیے سورة نساء (٩٧) ۔
الَّذِيْنَ صَبَرُوْا چوتھا وصف تمام مادی تدبیروں کا اہتمام کرتے ہوئے بھی بھروسہ صرف اللہ پر رکھنا ہے کہ فتح ونصرت اور ہر کامیابی صرف اسی کے ہاتھ میں ہے وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ- اس سے معلوم ہوا کہ ابتدائی مشکلات و تکالیف تو ہر کام میں ہوا ہی کرتی ہیں ان کو عبور کرنے کے بعد بھی اگر مہاجر کو اچھا ٹھکانا اور اچھے حالات نہیں ملے تو قرآن کے وعدے میں شبہ کرنے کے بجائے اپنی نیت و اخلاص اور اس حسن عمل کا جائزہ لے جس پر یہ وعدے کئے گئے ہیں تو اس کو معلوم ہوگا کہ قصور اپنا ہی کہیں نیت میں کھوٹ ہوتا ہے کہیں صبر وثبات اور توکل کی کمی ہوتی ہے۔- ترک وطن اور ہجرت کی مختلف قسمیں اور ان کے احکام :- امام قرطبی نے اس جگہ ہجرت اور ترک وطن کی قسمیں اور ان کے کچھ احکام پر ایک مفید مضمون تحریر فرمایا ہے اتمام فائدہ کے لئے اس کو نقل کرتا ہوں قرطبی نے بحوالہ ابن عربی لکھا ہے کہ وطن سے نکلنا اور زمین میں سفر کرنا کبھی تو کسی چیز سے بھاگنے اور بچنے کے لئے ہوتا ہے اور کبھی کسی چیز کی طلب و جستجو کے لئے پہلی قسم کا سفر جو کسی چیز سے بھاگنے اور بچنے کے لئے ہو اس کو ہجرت کہتے ہیں اور اس کی چھ قسمیں ہیں۔- اول یعنی دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف جانا یہ قسم سفر عہد رسالت میں بھی فرض تھی اور قیامت تک بشرط استطاعت وقدرت فرض ہے (جبکہ دارالکفر میں اپنے جان ومال اور آبرو کا امن نہ ہو یادینی فرائض کی ادائیگی ممکن نہ ہو) اس کے باوجود دارالحرب میں مقیم رہا تو گناہگار ہوگا ،- دوسرا دارالبدعت سے نکل جانا ابن قاسم کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے سنا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اس مقام میں قیام کرنا حلال نہیں جس میں سلف صالحین پر سب وشتم کیا جاتا ہو ابن عربی یہ قول نقل کرکے لکھتے ہیں کہ یہ بالکل صحیح ہے کیونکہ اگر تم کسی منکر کا ازالہ نہیں کرسکتے تو تم پر لازم ہے کہ خود وہاں سے زائل یعنی علیحدہ ہوجاؤ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ تیسرا سفر وہ ہے کہ جس جگہ پر حرام کا غلبہ ہو وہاں سے نکل جانا کیونکہ طلب حلال ہر مسلمان پر فرض ہے۔- چوتھا جسمانی اذیتوں سے بچنے کے لئے سفر یہ سفر جائز اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے کہ انسان جس جگہ دشمنوں سے جسمانی آیت کا خطرہ محسوس کرے وہاں سے نکل جائے تاکہ اس خطرہ سے نجات ہو یہ چوتھی قسم کا سفر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا جبکہ قوم کی ایذاؤں سے نجات حاصل کرنے کے لئے عراق سے ملک شام کی طرف روانہ ہوئے اور فرمایا انی مہاجر الی ربی۔ ان کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی ایک سفر مصر سے مدین کی طرف کیا فَخَـــرَجَ مِنْهَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ- پانچواں سفر آب وہوا کی خرابی اور امراض کے خطرہ سے بچنے کے لئے ہے شریعت اسلام نے اس کی بھی اجازت دی ہے جیسا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ چرواہوں کو مدینہ سے باہر جنگل میں قیام کرنے کا ارشاد فرمایا کیونکہ شہری آب وہوا ان کو موافق نہ تھی اسی طرح حضرت فاروق اعظم (رض) نے ابو عبیدہ (رض) کو حکم بھیجا تھا کہ دارالخلافہ اردن سے منتقل کر کے کسی سطح مرتفع پر لے جائیں جہاں آب وہوا خراب نہ ہو۔ - لیکن یہ اس وقت میں ہے جب کسی مقام پر طاعون یا وبائی امراض پھیلے ہوئے نہ ہوں اور جس جگہ کوئی وبا پھیل جائے اس کے لئے حکم یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ پہلے سے موجود ہیں وہ تو وہاں سے بھاگیں نہیں اور جو باہر ہیں وہ اس کے اندر نہ جائیں جیسا کہ حضرت فاروق اعظم (رض) کو سفر شام کے وقت پیش آیا کہ سرحد شام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ ملک شام میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو آپ کو اس ملک میں داخل ہونے میں تردد پیش آیا صحابہ کرام (رض) اجمعین سے مسلسل مشوروں کے بعد آخر میں جب حضرت عبد الرحمن بن عوف (رض) نے ان کو یہ حدیث سنائی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔- اذا وقع بارض وانتم بہا فلا تخرجوا منہا واذا وقع بارض ولستم بہا فلا تھبطوا علیہا (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح) جب کسی خطہ میں طاعون پھیل جائے اور تم وہاں موجود ہو تو اب وہاں سے نہ نکلو اور جہاں تم پہلے سے موجود نہیں وہاں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو اس میں داخل نہ ہو،- اس وقت فاروق اعظم (رض) نے حکم حدیث کی تعمیل کرتے ہوئے پورے قافلہ کو لے کر واپسی کا اعلان کردیا ،- بعض علماء نے فرمایا کہ حدیث شریف کے اس حکم میں ایک خاص حکمت یہ بھی ہے کہ جو لوگ اس جگہ مقیم ہیں جہاں کوئی وبا پھیل چکی ہے یہاں کے لوگوں میں وبائی جراثیم کا موجود ہونا ظن غالب ہے وہ اگر یہاں سے بھاگیں گے تو جس میں یہ مادہ وبائی سرایت کرچکا ہے وہ تو بچے گا نہیں اور جہاں یہ جائے گا وہاں کے لوگ اس سے متاثر ہوں گے اس لئے یہ حکیمانہ فیصلہ فرمایا۔- چھٹا سفر اپنے مال کی حفاظت کے لئے ہے جب کوئی شخص کسی مقام میں چوروں ڈاکوؤں کا خطرہ محسوس کرے تو وہاں سے منتقل ہوجائے شریعت اسلام نے اس کی بھی اجازت دی ہے کیونکہ مسلمان کے مال کا بھی ایسا ہی احترام ہے جیسا اس کی جان کا ہے۔- یہ چھ قسمیں تو اس ترک وطن کی ہیں جو کسی چیز سے بھاگنے اور بچنے کے لئے کیا گیا ہو اور جو سفر کسی چیز کی طلب و جستجو کے لئے کیا جائے اس کی نو قسمیں ہیں۔- ١ سفر عبرت : یعنی دنیا کی سیاحت وسفر اس کام کے لئے کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات اور قدرت کاملہ کا اور اقوام سابقہ کا مشاہدہ کر کے عبرت حاصل کرے قرآن کریم نے ایسے سفر کی ترغیب دی ہے اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ حضرت ذی القرنین کے سفر کو بھی علماء نے اسی قسم کا سفر قرار دیا ہے اور بعض نے فرمایا کہ ان کا سفر زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرنے کے لئے تھا۔- ٢ سفر حج : اس کا چند شرائط کے ساتھ فرض اسلامی ہونا سب کو معلوم ہے۔- ٣ سفر جہاد : اس کا فرض یا واجب یا مستحب ہونا بھی سب مسلمانوں کو معلوم ہے۔- ٤ سفر معاش : جب کسی شخص کو اپنے وطن میں ضرورت کے مطابق معاشی سامان حاصل نہ ہو سکے تو اس پر لازم ہے کہ یہاں سے سفر کرکے دوسری جگہ تلاش روز گار کرے۔- ٥ سفر تجارت : یعنی قدر ضرورت سے زائد مال حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا یہ بھی شرعا جائز ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ ابتغاء فضل سے مراد اس آیت میں تجارت ہے اللہ تعالیٰ نے سفر حج میں بھی تجارت کی اجازت دے دی ہے تو تجارت کے لئے ہی سفر کرنا بدرجہ اولی جائز ہوا۔- 6 طلب علم کے لئے سفر : اس کا بقدر ضرورت دین فرض عین ہونا اور زائد از ضرورت کا فرض کفایہ ہونا معلوم و معروف ہے۔- ٧ کسی مقام کو مقدس اور متبرک سمجھ کر اس کی طرف سفر کرنا : یہ بجز تین مسجدوں کے درست نہیں مسجد حرام (مکہ مکرمہ) مسجد نبوی (مدینہ طیبہ) مسجد اقصی (بیت المقدس) (یہ قرطبی اور ابن عربی کی رائے ہے دوسرے اکابر علماء سلف وخلف نے عام مقامات متبرکہ کی طرف سفر کرنے کو بھی جائز قرار دیا ہے محمد شفیع)- ٨ اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے لئے سفر : جس کو رباط کہا جاتا ہے احادیث کثیرہ میں اس کی بڑی فضیلت مذکور ہے۔- ٩ عزیزوں اور دوستوں سے ملاقات کے لئے سفر : حدیث میں اس کو بھی باعث اجر وثواب قرار دیا گیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اقرباء و احباب کی ملاقات کے لئے سفر کرنے والے کے لئے فرشتوں کی دعاء کا ذکر فرمایا گیا ہے (یہ جب ہی کہ ان کی ملاقات سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو کوئی مادی غرض نہ ہو واللہ اعلم (قرطبی، ص ٣٤٩ تا ٣٥١ ج ٥ سورة نساء)
الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ 42- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔- وكل - والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال :- تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] - ( و ک ل) التوکل ( تفعل )- اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔