Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دین کی پاسبانی میں ہجرت جو لوگ اللہ کی راہ میں ترک وطن کر کے ، دوست ، احباب ، رشتے دار ، کنبے تجارت کو اللہ کے نام پر ترک کر کے دین ربانی کی پاسبانی میں ہجرت کر جاتے ہیں ان کے اجر بیان ہو رہے ہیں کہ دونوں جہان میں یہ اللہ کے ہاں معزز و محترم ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ سبب نزول اس کا مہاجرین حبش ہوں جو مکے میں مشرکین کی سخت ایذائیں سہنے کے بعد ہجرت کر کے حبش چلے گئے کہ آزادی سے دین حق پر عامل رہیں ۔ ان کے بہترین لوگ یہ تھے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الاسد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ۔ قریب قریب اسی آدمی تھے مرد بھی عورتیں بھی جو سب صدیق اور صدیقہ تھے اللہ ان سب سے خوش ہو اور انہیں بھی خوش رکھے ۔ پس اللہ تعالیٰ ایسے سچے لوگوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ انہیں وہ اچھی جگہ عنایت فرمائے گا ۔ جیسے مدینہ اور پاک روزی ، مال کا بھی بدلہ ملا اور وطن کا بھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے خوف سے جیسی چیز کو چھوڑے اللہ تعالیٰ اسی جیسی بلکہ اس سے کہیں بہتر ، پاک اور حلال چیز اسے عطا فرماتا ہے ۔ ان غریب الوطن مہاجرین کو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاکم و بادشاہ کر دیا اور دنیا پر ان کو سلطنت عطا کی ۔ ابھی آخرت کا اجر و ثواب باقی ہے ۔ پس ہجرت سے جان چرانے والے مہاجرین کے ثواب سے واقف ہوتے تو ہجرت میں سبقت کرتے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے خوش ہو کہ آپ جب کبھی کسی مہاجر کو اس کا حصہ غنیمت و غیرہ دیتے تو فرماتے لو اللہ تمہیں برکت دے یہ تو دنیا کا اللہ کا وعدہ ہے اور ابھی اجر آخرت جو بہت عظیم الشان ہے ، باقی ہے ۔ پھر اسی آیت مبارک کی تلاوت کرتے ۔ ان پاکباز لوگوں کا اور وصف بیان فرماتا ہے کہ جو تکلیفیں اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتی ہیں یہ انہیں جھیل لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر جو انہیں توکل ہے ، اس میں کبھی فرق نہیں آتا ، اسی لئے دونوں جہان کی بھلائیاں یہ لوگ اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹ لیتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 ہجرت کا مطلب ہے اللہ کے دین کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا وطن، اپنے رشتہ دار اور دوست احباب چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جانا جہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہو سکے۔ اس آیت میں ان ہی مہاجرین کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کی ایذاؤں سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد عورتوں سمیت ایک سو یا اس سے زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان غنی اور ان کی زوجہ۔ دختر رسول حضرت رقیہ بھی تھیں۔ 41۔ 2 اس سے رزق طیب اور بعض نے مدینہ مراد لیا ہے، جو مسلمانوں کا مرکز بنا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں قولوں میں منافات نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن لوگوں نے اپنے کاروبار اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تھی، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی انھیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ رزق طیب بھی دیا اور پورے عرب پر انھیں اقتدار و تمکن عطا فرمایا۔ 41۔ 3 حضرت عمر نے جب مہاجرین و انصار کے وظیفے مقرر کئے تو ہر مہاجر کو وظیفہ دیتے ہوئے فرمایا۔ ھَذَا مَا وَ عَدَکَ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا یہ وہ ہے جس کا اللہ نے دنیا میں وعدہ کیا ہے ۔ وما ادخر لک فی الآخرۃ افضل۔ اور آخرت میں تیرے لیے جو ذخیرہ ہے وہ اس سے کہییں بہتر ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٢] ہجرت حبشہ :۔ یہ سورت چونکہ مکی ہے لہذا یہاں مہاجرین سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور یہ اسی (٨٠) کے قریب صحابہ کرام (رض) تھے جن پر قریش مکہ کی طرف سے مظالم ڈھائے جاتے رہے اور وہ مقدور بھر صبر سے برداشت کرتے رہے لیکن بالآخر قریش مکہ نے انھیں اس قدر نشانہ ستم بنایا کہ وہ اپنا گھر بار، مال و جائیداد اور عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور اللہ کے دین کی خاطر اپنے وطن مکہ کو چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر یہی لوگ حبشہ سے دوبارہ ہجرت کرکے مدینہ اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے نوازا اور یہی لوگ ان مشرکوں اور کافروں کے حاکم بن گئے جنہوں نے انھیں مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ ۔۔ : ” هَاجَرُوْا “ ” ھَجَرَ یَھْجُرُ “ سے باب مفاعلہ ہے۔ ” ھَجَرَ “ اور ” ھَاجَرَ “ کے مفہوم میں فرق ہے۔ ” ھَجَرَ الْمَکَانَ “ ” اس نے فلاں جگہ چھوڑ دی “ ہوسکتا ہے اسے وہ پسند نہ رہی ہو اور وہ اپنے خیال میں اس سے بہتر جگہ چلا گیا ہو، جگہ نے اسے جانے پر مجبور نہیں کیا، وہ اپنی مرضی سے اسے چھوڑ گیا ہے، لیکن ” ھَاجَرَ “ یعنی باب مفاعلہ میں مقابلہ پایا جاتا ہے، یعنی قوم کی طرف سے مزاحمت اور مقابلے نے اسے وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، وہ اپنی جگہ چھوڑنے پر ازخود راضی نہ تھا۔ (شعراوی)- 3 اللہ کی توحید اور قیامت پر ایمان لانے والوں کا توحید اور قیامت کے منکروں کے ساتھ خوشی سے مل جل کر رہنا ممکن ہی نہ تھا، خصوصاً جب اہل ایمان تعداد اور قوت میں کمزور بھی تھے۔ اپنے وطن کو جہاں بیت اللہ بھی ہو، کون خوشی سے چھوڑ سکتا ہے ؟ اس لیے انھوں نے وطن چھوڑا تو دو وجہوں سے، ایک تو قوم کے ظلم کی وجہ سے، جیسا کہ فرمایا : (مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا) اور دوسرا اس لیے کہ اللہ کے دین پر عمل کرنا وطن میں ممکن نہ رہا، تو انھوں نے گھر بار، خویش، قبیلے، جائداد، غرض ہر چیز کو اللہ کی خاطر چھوڑ دیا اور ایسی جگہ چلے گئے جہاں وہ ظلم سے بھی بچ جائیں اور اللہ کے دین پر بھی عمل کرسکیں۔ چونکہ یہ سورت مکی ہے، اس لیے اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد مردوں، عورتوں اور بچوں سمیت ایک سو یا کم و بیش تھی، جن میں عثمان غنی (رض) اور ان کی بیوی رقیہ (رض) (بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی تھے، مگر لفظ عام ہونے کی وجہ سے اس میں ہر مہاجر شامل ہے، خواہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہو یا مدینہ کی طرف، یا کسی بھی ظالم بستی سے امن کی بستی کی طرف۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں حبشہ کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کا پیشگی اشارہ ہو۔ - لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً ۔۔ : ” بَوَّءَ یُبَوِّئُ “ (تفعیل) رہنے کی جگہ دینا، ٹھکانا دینا۔ اللہ تعالیٰ نے لام اور نون ثقیلہ دو تاکیدوں کے ساتھ یہ وعدہ فرمایا، چناچہ اس نے ان ناتواں اور غریب الوطن مہاجرین کو دنیا میں عزت، شرف، عظمت، حکومت، دولت غرض ہر چیز عطا فرمائی۔ وہ جزیرۂ عرب ہی کے نہیں، شام، مصر، عراق، فارس کے مالک بنے اور نصف صدی گزری تھی کہ وہ تمام دنیا پر غالب تھے۔ یہ بھی کوئی اجر صغیر نہیں، اجر کبیر ہے، جو دین کی اشاعت اور آخرت کی تیاری میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ کبیر ہی کے مقابلے میں اکبر ہوتا ہے، نہ کہ صغیر کے مقابلے میں، اس لیے فرمایا، یقیناً آخرت کا اجر اکبر ہے، یعنی اس سے بھی بڑا، بلکہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢١٨) ، آل عمران (١٩٥) اور سورة نساء (١٠٠) ۔- لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : اس سے مراد تین طرح کے لوگ ہوسکتے ہیں : 1 کافر کہ وہ علم رکھتے ہوتے تو ایمان لے آتے۔ 2 مہاجر کہ وہ ہجرت کی فضیلت جانتے ہوتے تو انھیں بیحد خوشی ہوتی۔ 3 وہ مومن جنھوں نے ہجرت نہیں کی کہ وہ ہجرت کی فضیلت جانتے ہوتے تو ضرور ہجرت کرتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور جن لوگوں نے اللہ کے واسطے اپنا وطن (مکہ) چھوڑ دیا (اور حبشہ چلے گئے) بعد اس کے کہ ان پر (کفار کی طرف سے) ظلم کیا گیا ( کیونکہ ایسی مجبوری میں وطن چھوڑنا بڑا شاق گذرتا ہے ہم ان کو دنیا میں ضرور اچھا ٹھکانا دیں گے (یعنی ان کو مدینہ پہنچا کر خوب امن و راحت دیں گے چناچہ بعد چندے مدینہ میں اللہ تعالیٰ نے پہنچا دیا اور اس کو وطن اصلی قرار دیا گیا اس لئے اس کو ٹھکانا کہا اور ہر طرح کی وہاں ترقی ہوئی اس لئے حسنہ کہا گیا اور حبشہ کا قیام عارضی تھا اس لئے اس کا ٹھکانا نہیں فرمایا) اور آخرت کا ثواب (اس سے) بدرجہا بڑا ہے (کہ خیر بھی ہے اور ابقیٰ بھی) کاش (اس اجر آخرت کی) ان (بےخبر کافروں) کو (بھی) خبر ہوتی (اور اس کے حاصل کرنے کی رغبت سے مسلمان ہوجاتے) وہ (مہاجرین ان وعدوں کے اس لئے مستحق ہیں کہ وہ) ایسے ہیں جو (ناگوار واقعات پر) صبر کرتے ہیں (چنانچہ وطن کا چھوڑنا گو ان کو ناگوار ہے لیکن بدون اس کے دین پر عمل نہیں کرسکتے تھے دین کے لئے وطن چھوڑا اور صبر کیا) اور ( وہ ہر حال میں) اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (وطن چھوڑنے کے وقت یہ خیال نہیں کرتے کہ کھائیں پئیں گے کہاں سے)- معارف و مسائل :- تشریح و تفسیر :- (آیت) اَلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا ہجرت سے مشتق ہے ہجرت کے لغوی معنی ترک وطن کے ہیں ترک وطن جو اللہ کے لئے کیا جائے وہ اسلام میں بڑی اطاعت و عبادت ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الہجرۃ تھدم ماکان قبلہا یعنی ہجرت ان تمام گناہوں کو ختم کردیتی ہے جو انسان نے ہجرت سے پہلے کئے ہوں۔- یہ ہجرت بعض صورتوں میں فرض و واجب اور بعض صورتوں میں مستحب و افضل ہوتی ہے اس کے مفصل احکام تو سورة نساء کی آیت نمبر ٩٧ اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُھَاجِرُوْا فِيْھَا کے تحت میں بیان ہوچکے ہیں اس جگہ صرف ان وعدوں کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہاجرین سے کئے ہیں ،- کیا ہجرت دنیا میں بھی فراخی عیش کا سبب ہوتی ہے ؟:- آیات مذکورہ میں چند شرائط کے ساتھ مہاجرین کے لئے دو عظیم الشان وعدے کئے گئے ہیں اول تو دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دینے کا دوسرے آخرت کے بےحساب ثواب عظیم کا دنیا میں اچھا ٹھکانا ایک نہایت جامع لفظ ہے اس میں یہ بھی داخل ہے کہ مہاجر کو سکونت کے لئے مکان اور پڑوسی اچھے ملیں یہ بھی داخل ہے کہ اس کو رزق اچھا ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہو عام لوگوں کی زبان پر ان کی تعریف اور بھلائی ہو عزت وشرف ملے جو ان کے خاندان اور اولاد تک چلے (قرطبی) - آیت کا شان نزول اصالۃ وہ پہلی ہجرت ہے جو صحابہ کرام (رض) اجمعین نے حبشہ کی طرف کی اور یہ بھی احتمال ہے کی ہجرت حبشہ اور اس کے بعد کی ہجرت مدینہ منورہ دونوں اس میں داخل ہوں آیت میں یہاں انہی مہاجرین حبشہ یا مہاجرین مدینہ کا ذکر ہے اس لئے بعض علماء نے فرمایا کہ یہ وعدہ انہی حضرات صحابہ کرام (رض) اجمعین کے لئے تھا جنہوں نے حبشہ کی طرف یا پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ دنیا میں پورا ہوچکا جس کا سب نے مشاہدہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کو ان کا کیسا اچھا ٹھکانا بنادیا ایذاء دینے والے پڑوسیوں کے بجاے غمخوار ہمدرد وجاں نثار پڑوسی ملے دشمنوں پر فتح و غلبہ نصیب ہوا ہجرت کے تھوڑے ہی عرصہ گذرنے کے بعد ان پر رزق کے دروازے کھول دیئے گئے فقراء و مساکین مال دار ہوگئے دنیا کے ممالک فتح ہوئے ان کے حسن اخلاق حسن عمل کے کارنامے رہتی دنیا تک ہر موافق و مخالف کی زبان پر ہیں ان کو اور ان کی نسلوں کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عزت وشرف بخشا یہ تو دنیا میں ہونے والی چیزیں تھیں جو ہو چکیں اور آخرت کا وعدہ پورا ہونا بھی یقینی ہے لیکن تفسیر بحر محیط میں ابو حیان کہتے ہیں۔- والذین ھاجروا عام فی المھاجرین کائنا ماکانوا فیشمل اولہم واخرہم (ص ٤٩٢ ج ٥) الذین ہاجروا کا لفظ تمام مہاجرین عالم کے لئے عام اور شامل ہے کسی بھی خطے اور زمانہ کے مہاجر ہوں اس لئے یہ لفظ مہاجرین اولین کو بھی شامل ہے اور قیامت تک اللہ کے لئے ہر ہجرت کرنے والا اس میں داخل ہے۔- عام تفسیری ضابطہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آیت کا شان نزول اگرچہ کوئی خاص واقعہ اور خاص جماعت ہو مگر اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے اس لئے وعدہ میں تمام دنیا کے اور ہر زمانہ کے مہاجرین بھی شامل ہیں اور یہ دونوں وعدے تمام مہاجرین کے لئے پورا ہونا امر یقینی ہے۔- اسی طرح کا ایک وعدہ مہاجرین کے لئے سورة نساء کی اس آیت میں کیا گیا ہے وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ يَجِدْ فِي الْاَرْضِ مُرٰغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً جس میں وسعت مکانی اور فراخی عیش خاص طور سے موعود ہیں مگر قرآن کریم نے ان وعدوں کے ساتھ مہاجرین کے کچھ اوصاف اور ہجرت کی کچھ شرائط بھی بیان فرمائی ہیں اس لئے ان وعدوں کے مستحق وہی مہاجرین ہو سکتے ہیں جو ان اوصاف کے حامل ہوں اور جنہوں نے مطلوبہ شرائط پوری کردی ہوں ،- ان میں سب سے پہلی شرط تو فی اللہ کی ہے یعنی ہجرت کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہو اور میں دنیاوی منافع تجارت، ملازمت وغیرہ اور نفسانی فوائد پیش نظر نہ ہوں دوسری شرط ان مہاجرین کا مظلوم ہونا ہے مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا تیسرا وصف ابتدائی تکالیف و مصائب پر صبر اور ثابت قدم رہنا ہے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَـنَةً ۭ وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ 41؀ۙ- هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معیی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ئ ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - حسنة- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، والسيئة تضادّها . وهما من الألفاظ المشترکة، کالحیوان، الواقع علی أنواع مختلفة کالفرس والإنسان وغیرهما، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] ، أي : خصب وسعة وظفر، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ أي : جدب وضیق وخیبة «1» ، يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ : كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] - والفرق بين الحسن والحسنة والحسنی - أنّ الحَسَنَ يقال في الأعيان والأحداث، وکذلک الحَسَنَة إذا کانت وصفا، وإذا کانت اسما فمتعارف في الأحداث، والحُسْنَى لا يقال إلا في الأحداث دون الأعيان، والحسن أكثر ما يقال في تعارف العامة في المستحسن بالبصر، يقال : رجل حَسَنٌ وحُسَّان، وامرأة حَسْنَاء وحُسَّانَة، وأكثر ما جاء في القرآن من الحسن فللمستحسن من جهة البصیرة، وقوله تعالی: الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] ، أي : الأ بعد عن الشبهة، - ( ح س ن ) الحسن - الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ میں حسنتہ سے مراد فراخ سالی وسعت اور نا کامی مراد ہے - الحسن والحسنتہ اور الحسنی یہ تین لفظ ہیں ۔- اور ان میں فرق یہ ہے کہ حسن اعیان واغراض دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی طرح حسنتہ جب بطور صفت استعمال ہو تو دونوں پر بولا جاتا ہے اور اسم ہوکر استعمال ہو تو زیادہ تر احدث ( احوال ) میں استعمال ہوتا ہے اور حسنی کا لفظ صرف احداث کے متعلق بو لاجاتا ہے ۔ اعیان کے لئے استعمال نہیں ہوتا ۔ اور الحسن کا لفظ عرف عام میں اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو بظاہر دیکھنے میں بھلی معلوم ہو جیسے کہا جاتا ہے رجل حسن حسان وامرءۃ حسنتہ وحسانتہ لیکن قرآن میں حسن کا لفظ زیادہ تر اس چیز کے متعلق استعمال ہوا ہے جو عقل وبصیرت کی رو سے اچھی ہو اور آیت کریمہ : الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ [ الزمر 18] جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٢) اور جن حضرات نے اطاعت خداوندی میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی، بعد اس کے کہ ان کو مکہ والوں نے طرح طرح کی تکالیف دیں جیسا کہ حضرت عمار بن یاسر (رض) ، حضرت بلال (رض) ، حضرت صہیب (رض) اور ان کے ساتھی رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ہم ان کو مدینہ منورہ میں ضرور خوب اچھا امن وامان اور غنیمت والا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا ثواب اس دنیاوی ثواب سے کئی درجے بہتر ہے، کاش یہ کفار بھی اس کو سمجھتے اور حضرت عمار بن یاسر (رض) اور ان کے ساتھی ایسے ہیں کہ کافر کی تکالیف پر صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسا نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :37 یہ اشارہ ہے ان مہاجرین کی طرف جو کفار کے ناقابل برداشت مظالم سے تنگ آکر مکے سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے ۔ منکرین آخرت کی بات کا جواب دینے کے بعد یکایک مہاجرین حبشہ کا ذکر چھیڑ دینے میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے ۔ اس سے مقصود کفار مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ ظالمو یہ جفاکاریاں کرنے کے بعد اب تم سمجھتے ہو کہ کبھی تم سے باز پرس اور مظلوموں کی داد رسی کا وقت ہی نہ آئے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

19: جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، یہ آیت ان صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کفار کے ظلم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ البتہ اس میں جو عام الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ ہر اس شخص کو شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرے۔ اور آخر میں جو فرمایا گیا کہ ’’ کاش یہ لوگ جان لیتے ‘‘۔ اس سے مراد بظاہر یہ مہاجرین ہی ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو اس اجر کا علم ہوجائے تو بے وطن ہونے سے انہیں جو تکلیف ہو رہی ہے وہ بالکل باقی نہ رہے۔ اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد کافر لوگ ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ کاش اس حقیقت کا علم ان کافروں کو بھی ہوجائے تو وہ اپنے کفر سے توبہ کرلیں۔