40۔ 1 یعنی لوگوں کے نزدیک قیامت کا ہونا، کتنا بھی مشکل یا ناممکن ہو، مگر اللہ کے لئے تو کوئی مشکل نہیں اسے زمین اور آسمان ڈھانے کے لئے مزدوروں، انجینئروں اور مستریوں اور دیگر آلات و وسائل کی ضرورت نہیں۔ اسے تو صرف کن کہنا ہے اس کے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں قیامت برپا ہوجائے گی۔ (وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) 16 ۔ النحل :77) قیامت کا معاملہ پلک جھپکتے یا اس سے بھی کم مدت میں واقع ہوجائے گا۔
[٤١] کلمہ کن فیکون کی صورت :۔ اللہ کا ارادہ کرلینا ہی اس کا حکم دینا ہے اسے اپنی زبان سے کن کا لفظ ادا کرنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کا ارادہ ہی حکم کا درجہ رکھتا ہے اور جب وہ ارادہ کرتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے اسباب و وسائل از خود ہی مہیا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ کام ہو کے رہتا ہے کوئی چیز اس میں مزاحم نہیں ہوسکتی۔ اور جتنے عرصہ میں اللہ اسے وجود میں لانا چاہتا ہے اتنے ہی عرصہ میں وہ وجود میں آجاتی ہے۔
اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ ۔۔ : یعنی جس کی قدرت کا یہ حال ہو اس کے لیے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا بھی ثابت ہوا۔ قرآن و حدیث میں بہت سی جگہ اللہ کے کلام کرنے کا صریح الفاظ میں ذکر ہے۔ (دیکھیے نساء : ١٦٤۔ توبہ : ٦) یونان کے کافرانہ فلسفے سے متاثر لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرسکتا، نہ سن سکتا ہے، نہ دیکھتا ہے۔ ہمارے کچھ مسلمانوں نے جو قرآن کو بھی ماننا چاہتے ہیں اور یونانی فلسفے کو بھی، انھوں نے اللہ کے کلام کو مخلوق کہہ دیا اور سننے اور دیکھنے کا معنی یہ کیا کہ وہ جانتا ہے، حالانکہ کلام، خلق، سمع، بصر اور علم سب الگ الگ صفات ہیں اور اللہ نے خود اپنی یہ صفتیں بیان فرمائی ہیں، البتہ اس کی یہ صفات مخلوق کی طرح نہیں، بلکہ فرمایا : (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١١ ] ” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ اسی طرح اللہ کلام بھی کرتا ہے مگر جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کی مثل نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس کی ثابت شدہ صفات سمع، بصر اور کلام وغیرہ کا بھی انکار کر دو ، یا ایسا مطلب بیان کرو جس کا نتیجہ انکار ہو۔
اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 40ۧ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔
(٤٠) جی یہ کہتے تھے کہ جنت دوزخ، بعث و حساب کچھ نہیں اور ہم قیامت جس وقت قائم کرنا چاہیں گے سو ہمارا اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ تو قائم ہوجا، سو وہ ہوجائے گی۔
آیت ٤٠ (اِنَّمَا قَوْلُــنَا لِشَيْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ )- اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ یہ حکم عالم امر کے بارے میں ہے جبکہ عالم خلق میں یوں نہیں ہوتا (عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت اس سورة کی آیت ٢ اور سورة الاعراف کی آیت ٥٤ کے ضمن میں گزر چکی ہے) ۔ عالم امر میں کسی واقعے یا کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لیے اسباب وسائل اور وقت درکار نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرماکر کن فرماتے ہیں تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ عالم خلق میں بھی کلی اختیار تو اللہ ہی کا ہے مگر اس عالم کو عام طبعی قوانین کے مطابق چلایا جاتا ہے۔ چناچہ عالم خلق میں کسی چیز کو وجود میں آنے اور مطلوبہ معیار تک پہنچنے کے لیے اسباب وسائل اور وقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ کائنات اپنے تمام طبعی موجودات کے ساتھ عالم خلق کا اظہار ہے۔ آیت زیر نظر کے موضوع کی مناسبت سے یہاں میں کائنات کی تخلیق کے آغاز سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔- کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایک طرف تو پرانے فلسفیانہ تصورات ہیں اور دوسری طرف جدید سائنسی نظریات ( ) ۔ فلسفیانہ تصورات کے مطابق سب سے پہلے وجود باری تعالیٰ سے عقل اوّل وجود میں آئی۔ عقلِ اوّل سے پھر فلکِ اوّل اور پھر فلکِ اوّل سے فلک ثانی وغیرہ۔ یہ مشائین کے فلسفے ہیں جو ارسطو اور اس کے شاگردوں کے نظریات کے ساتھ دنیا میں پھیلے اور ہمارے ہاں بھی بہت سے متکلمین ان سے متاثر ہوئے۔ بہر حال جدید سائنسی انکشافات کے ذریعے ان میں سے کسی بھی نظریے کی کہیں کوئی تائید و تصدیق نہیں ہوئی۔ - دوسری طرف جدید فزکس کے میدان میں اعلیٰ علمی سطح پر اس سلسلے میں جتنے بھی نظریات ( ) ہیں ان میں ” عظیم دھماکے “ ( ) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس تصور کے تحت کے نتیجے میں ارب ہا ارب درجہ حرارت کے حامل بیشمار ذرات وجود میں آئے۔ یہ ذرات تیزی سے حرکت کرتے ہوئے مختلف میں اکٹھے ہوئے تو کہکشائیں ( ) وجود میں آئیں اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں کا ایک جہان آباد ہوگیا۔ انہی ستاروں میں ایک ہمارا سورج بھی تھا جس کے اندر مزید ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں اس کے سیارے ( ) وجود میں آئے۔ سورج کے ان سیاروں میں سے ایک سیارہ ہماری زمین ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوتی رہی اور بالآخر اس پر نباتاتی اور حیوانی زندگی کے لیے سازگار ماحول وجود میں آیا۔ آج کی سائنس فی الحال ” بگ بینگ “ سے آگے کوئی نظریہ قائم کرنے سے قاصر ہے۔ اس نظریے سے جو معلومات سائنس نے اخذ کی ہیں وہ ان تمام حقائق کے ساتھ مطابقت ( ) رکھتی ہیں جن کا علم اس موضوع پر ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ اس سے پہلے مادے کے بارے میں سائنس قانون بقائے مادہ ( ) کی قائل تھی کہ مادہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا مگر نئے نظریے کو اپنا کر سائنس نے نہ صرف بگ بینگ کو کائنات کا نقطہ آغاز تسلیم کرلیا ہے بلکہ یہ بھی مان لیا ہے کہ مادہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ختم ہوجائے گا۔- جہاں تک کا ئنات کی تخلیق کے آغاز کے بارے میں میری اپنی سوچ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ایک امر ” کُن “ سے ہوئی (اللہ کے حکم سے نہ کہ اس کی ذات سے) ۔ پھر اس امر ” کن “ کا ظہور ایک خنک نور یا ٹھنڈی روشنی کی صورت میں ہوا (یہ خنک نور حرف کن کا ظہور تھا نہ کہ ذات باری تعالیٰ کا) ۔ اس روشنی میں حرارت نہیں تھی گویا یہ مادی روشنی ( ) کے وجود میں آنے سے پہلے کا دور تھا۔ آج جس روشنی کو ہم دیکھتے یا پہچانتے ہیں اس میں حرارت ہوتی ہے اور اسی حرارت کی وجہ سے یہ ہے۔ - امرِ ” کن “ سے ظہور پانے والے اس خنک نور سے پہلے مرحلے پر ملائکہ کی پیدائش ہوئی۔ جیسے کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے حدیث مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو نور سے پیدا کیا۔ اسی نور سے انسانی ارواح پیدا کی گئیں اور سب سے پہلے روح محمدی پیدا کی گئی جیسا کہ حدیث میں الفاظ آئے ہیں : ( اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ ) (١) یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرا نور پیدا کیا ۔ ” نُورِی “ اور ” رُوحِی “ گویا دو مترادف الفاظ ہیں کیونکہ روح کا تعلق بھی نور سے ہے۔ بہرحال یہ کائنات کی تخلیق کا مرحلہ اول ہے جس میں فرشتوں اور انسانی ارواح کی تخلیق ہوئی۔- اس کے بعد کسی مرحلے پر اس خنک نور میں کسی نوعیت کا زور دار دھماکہ ( ) ہوا جس کو آج کی سائنس ” بگ بینگ “ کے نام سے پہچانتی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں حرارت کا وہ گولا وجود میں آیا ‘ جو بہت چھوٹے چھوٹے ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک تھا۔ یہ گویا طبعی دنیا ( ) کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی دور میں اس آگ کی لپٹ سے ِ جنات پیدا کیے گئے اور انہی انتہائی گرم ذرات سے کہکشائیں ‘ ستارے اور سیارے وجود میں آئے۔ - ان سیاروں میں سے ایک سیارہ یا کرہ ہماری زمین ہے جو ابتدا میں انتہائی گرم تھی۔ اس کے ٹھنڈا ہونے پر اس کے اندر سے بخارات نکلے جو اس کے گرد ایک ہالے کی شکل میں جمع ہوگئے۔ ان بخارات سے پانی وجود میں آیا جو ہزار ہا برس تک زمین پر بارش کی صورت میں برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر ہر طرف پانی ہی پانی پھیل گیا۔ اس وقت تک زمین پر پانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ یہی وہ دور تھا جس کا ذکر قرآن میں بایں الفاظ کیا گیا ہے : (وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ ) (ھود : ٧) ” کہ اس کا عرش (اس وقت) پانی پر تھا “۔ پھر زمین جب مزید ٹھنڈا ہونے پر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب و فراز نمودار ہوئے۔ کہیں پہاڑ وجود میں آئے تو کہیں سمندر۔ اس کے بعد نباتاتی اور حیوانی حیات کا آغاز ہو۔ اس حیات کے ارتقاء کے بلند ترین مرحلے پر انسان کی تخلیق ہوئی اور حضرت آدم کی روح ان کے وجود کو سونپی گئی۔ حضرت آدم کی تاجپوشی کا یہی واقعہ ہے جہاں سے قرآن آدم کی تخلیق کا تذکرہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا اعلیٰ ترین شاہکار بھی ہے اور اس پوری کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود و مطلوب بھی۔ - یہاں ایک نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ عالم خلق اور عالم امر بالکل الگ الگ نہیں ہیں۔ یعنی یوں نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں تک تو عالم خلق ہے اور یہاں سے آگے عالم امر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ دونوں عالم ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط اور باہم گندھے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس عالم خلق میں تمام انسانوں کی ارواح موجود ہیں ‘ جن کا تعلق عالم امر سے ہے : (وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ ) (بنی اسرائیل : ٨٥) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ روح کا تعلق عالم امر سے ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ” حجۃ اللہ البالغہ “ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض نیک بندوں کی ارواح کو فرشتوں کے طبقہ اسفل میں شامل کرلیتے ہیں۔ چناچہ یہ نیک ارواح ان فرشتوں کے ساتھ سرگرم عمل رہتی ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل و تنفیذ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح فرشتے جو کہ عالم امر کی مخلوق ہیں وہ بھی یہاں عالم خلق میں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ دو دو فرشتے تو ہم میں سے ہر انسان کے ساتھ بطور نگران مقرر کیے گئے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :- (مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوْتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُوْنَہٗ بَیْنَھُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَۃُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَاءِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ ) (١)- ” اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ کتاب اللہ کی تلاوت اور اس کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جمع نہیں ہوتے مگر یہ کہ ان کے اوپر سکینت نازل ہوتی ہے ‘ اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ‘ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین (ملأ اعلیٰ ) میں ان کا ذکر کرتا ہے۔ “ - اس حدیث کی رو سے درس قرآن کی اس محفل میں یقیناً فرشتے موجود ہیں ‘ وہ عالم امر کی شے ہیں ‘ ہم نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں نہ ان سے خطاب کرسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اہل ایمان جنات بھی موجود ہوں اور قرآن سن رہے ہوں۔ چناچہ ارواح فرشتے اور وحی تینوں کا تعلق اگرچہ عالم امر سے ہے مگر ان کا عمل دخل عالم خلق میں بھی ہے۔ اس طرح عالم خلق اور عالم امر کو بالکل الگ الگ نہیں کیا جاسکتا۔ - یہاں میں مرزا عبدالقادر بیدل کے ایک مشہور شعر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو تخلیق کائنات اور تخلیق آدم کے اس فلسفہ کو بہت خوبصورتی سے واضح کرتا ہے :- ہر دو عالم خاک شد تا بست نقش آدمی - اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش - مرزا عبدالقادر بیدل ہندوستان میں اور نگ زیب عالمگیر کے زمانے میں تھے۔ وہ عظیم فلسفی اور فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے فلسفیوں میں ہوتا تھا۔ ان کی شاعرانہ عظمت کے سامنے مرزا غالب بھی پانی بھرتے اور ان کی طرز کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں : - طرز بیدل میں ریختہ لکھنا - اسد اللہ خاں قیامت ہے - موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہاں مرزا بیدل کے مندرجہ بالا شعر کی وضاحت ضروری ہے۔ اس شعر میں وہ فرماتے ہیں ” ہر دو عالم خاک شد “ یعنی دونوں عالم خاک ہوگئے۔ شاعر کے اپنے ذہن میں اس کی وضاحت کیا تھی اس کے بارے میں شاعر خود جانتا ہے یا اللہ تعالیٰ ۔ لیکن میں اس سے یہ نکتہ سمجھا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کو تنزل کے مختلف مراحل سے گزار کر عالم خلق کی شکل دی۔ پھر اس کے مزید تنزلات کے نتیجے میں زمین (مٹی) پیدا کی گئی۔ گویا دونوں جہانوں نے خاک کی صورت اختیار کرلی تب جا کر کہیں حیات ارضی کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر اس سلسلے میں ارتقا کا وہ بلند ترین مرحلہ آیا : ” تابست نقش آدمی “ جب آدمی کا نقش بننا شروع ہوا۔ - دوسرے مصرعے میں (اے بہار نیستی از قدر خود ہشیار باش ) ” نیست “ کے فلسفے کو بھی اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ” وحدت الوجود “ کے فلسفے کے مطابق حقیقی وجود صرف اللہ کا ہے ‘ باقی جو کچھ بھی ہمیں نظر آتا ہے اس میں سے کسی چیز کا وجود حقیقی نہیں ہے۔ گویا اللہ کے علاوہ اس کائنات کی ہرچیز ” نیست “ ہے ” ہست “ نہیں ہے : - کُلُّ مَا فِی الْکَوْنِ وَ ھْمٌ اَوْ خَیَالٌ - اَوْ عُکُوسٌ فِی المَرایَا اَوْ ظِلَال - یعنی اللہ کے وجود کے علاوہ جو وجود بھی نظر آتے ہیں وہ وہم ہیں یا خیالی تصویریں۔ اس طرح یہ تمام عالم گویا ” نیست “ ہے اور اس عالم نیست کی ” بہار “ انسان ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ) ( صٓ: ٧٥) کہ میں نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔ اللہ کا ایک ہاتھ گویا عالم امر اور دوسرا ہاتھ عالم خلق ہے۔ اس طرح انسان اللہ تعالیٰ کے عمل تخلیق کا کلائمکس ‘ مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ ہے۔ چناچہ مرزا بیدل فرماتے ہیں (اے بہار نیستی از قدر خود ہوشیار باش ) کہ اے انسان اے اس عالم نیستی کی بہار ذرا اپنے مقام و مرتبہ کو پہچانو تمہیں وجود میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دو عالم کو نہ جانے تنزلات کی کن کن منازل سے نیچے اتار کر خاک کیا ‘ تب کہیں جا کر تمہارا نقش بنا۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :36 یعنی لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اور تمام اگلے پچھلے انسانوں کو بیک وقت جلا اٹھانا کوئی بڑا ہی مشکل کام ہے ۔ حالانکہ اللہ کی قدرت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے کسی ارادے کو پورا کرنے کے لیے کسی سروسامان ، کسی سبب اور وسیلے ، اور کسی سازگار احوال کی محتاج نہیں ہے ۔ اس کا ہر ارادہ محض اس کے حکم سے پورا ہوتا ہے ۔ اس کا حکم ہی سروسامان وجود میں لاتا ہے ۔ اس کے حکم ہی سے اسباب و وسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اس کا حکم ہی اس کی مراد کے عین مطابق احوال تیار کر لیتا ہے ۔ اس وقت جو دنیا موجود ہے یہ بھی مجرد حکم سے وجود میں آئی ہے ، اور دوسری دنیا بھی آناً فاناً صرف ایک حکم سے ظہور میں آ سکتی ہے ۔
18: پچھلی آیت میں آخرت کی دوسری زندگی کا مقصد بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کو تم اس لئے ناممکن سمجھ رہے ہو کہ وہ تمہارے تصور سے باہر ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، کسی چیز کے پیدا کرنے کے لئے اسے کوئی محنت کرنی نہیں پڑتی، وہ تو ایک حکم دیتا ہے اور وہ چیزپیدا ہوجاتی ہے۔