39۔ 1 یہ وقوع قیامت کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں فیصلہ فرمائے گا جن میں لوگ دنیا میں اختلاف کرتے تھے اور اہل حق اور اہل تقویٰ کو اچھی جزا اور اہل کفر و فسق کو ان کے برے عملوں کی سزا دے گا۔ نیز اس دن اہل کفر پر بھی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قیامت کے عدم وقوع پر جو قسمیں کھاتے تھے ان میں وہ جھوٹے تھے۔
[٤٠] روز آخرت کا قیام ضروری ہونے کی دو وجوہ :۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس دعویٰ کا نقلی جواب یہ دیا کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جسے وہ پورا کرکے رہے گا۔ اور یہ وعدہ سابقہ انبیاء کی زبان سے لوگوں کو بتایا گیا اور تمام الہامی کتابوں میں موجود ہے اور مشرکین مکہ کو بھی اہل کتاب کا یہ عقیدہ اچھی طرح معلوم تھا۔ اور عقلی جواب یہ دیا کہ بھلا جو ہستی پہلی بار کائنات کا یہ وسیع سلسلہ وجود میں لاچکی ہے اس کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا یا ایسا ہی کائنات کا دوبارہ نظام وجود میں لانا کیا مشکل ہے ؟ لہذا وہ اس بات کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ پھر بعث بعد الموت کی دو وجوہ اور بھی ہیں۔ ایک یہ کہ آزادی و اختلاف رائے کی بنا پر دنیا میں بیشمار اختلافات رونما ہوئے اور نئے سے نئے نظریئے نئے نئے مذاہب اور نظام حیات رائج ہوتے رہے۔ کوئی قومیت کا پرستار ہے تو کوئی وطنیت کا، کوئی دہریت کا اور کوئی سوشلزم کا، کوئی کمیونزم کا اور کوئی سرمایہ داری کا اور کوئی خلافت کا ان میں ٹکراؤ ہوا۔ جنگیں ہوئیں۔ دونوں طرف سے لوگ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں قتل ہوئے۔ لیکن یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ ان میں سے کوئی سچا بھی تھا یا نہیں۔ یا اگر کوئی سچا تھا تو وہ کون سا گروہ تھا اور جھوٹا کون سا ؟ اور یہ کائنات چونکہ حق پر مبنی ہے لہذا اس بات کا فیصلہ ضروری تھا کہ اللہ ایسے لوگوں پر صحیح صورت حال کی وضاحت کر دے اور کافروں کو بالخصوص اس بات کا پتہ چل جائے کہ وہی جھوٹے تھے۔- اختلافات کی وضاحت اور مکافات عمل :۔ اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں نے اپنی پوری کی پوری زندگی ظلم و زیادتی کرنے میں گزاری تھی اور ان کے جرائم کی سزا کے لیے دنیا کی زندگی کی مدت بہت ناکافی تھی۔ اسی طرح جن لوگوں نے راہ حق میں قربانیاں دیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے رہے اور یہ دنیا کی زندگی کی مدت ان کی جزاء کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا روز آخرت کا قیام عین عقل، عدل اور حکمت کے مطابق ہے۔
وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ : یعنی وہ کافر اپنا جھوٹا ہونا جان لیں جو قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور یہ کہ حساب کتاب، جنت و دوزخ سب بےحقیقت چیزیں ہیں۔ مطلب یہ کہ جب دنیا میں سب باتوں کا فیصلہ نہیں ہوتا تو سب اختلافات کو دور کرنے کے لیے دوسرے جہاں، یعنی آخرت کا ہونا ” لابد “ (جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں) ہے، تاکہ حق و باطل میں امتیاز ہوجائے اور منکرین اپنا کیا پائیں۔ ” كَانُوْا كٰذِبِيْنَ “ لفظ ” كَانُوْا “ میں، یعنی زمانۂ ماضی میں دوام اور استمرار پایا جاتا ہے، اس کے بجائے ” اِنَّھُمْ کَذَبُوْا “ یا ” إِنَّھُمْ کَاذِبُوْنَ “ میں یہ مفہوم ادا نہیں ہوتا۔
لِيُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِيْ يَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ 39- الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٣٩) تاکہ دین کے متعلق جس چیز میں اہل مکہ اختلاف کیا کرتے تھے، ان کے روبرو اس چیز کا اظہار کردے اور تاکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم اور قیامت کے منکرین کو پورا یقین ہوجائے گا کہ دنیا میں ہم ہی جھوٹ کہتے تھے۔
آیت ٣٩ (لِيُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِيْ يَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰذِبِيْنَ )- اللہ تعالیٰ پوری نوع انسانی کے ایک ایک فرد کو دوبارہ اٹھائے گا اور انہیں ایک جگہ جمع کرے گا۔ پھر ان کے تمام اختلافی نظریات و عقائد کے بارے میں حتمی طور پر انہیں بتادیا جائے گا۔ چناچہ اس وقت تمام منکرین حق کو اقرار کیے بغیر چارہ نہ رہے گا کہ ان کے خیالات و نظریات واقعی جھوٹ اور باطل پر مبنی تھے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :35 یہ حیات بعد الموت اور قیام حشر کی عقلی اور اخلاقی ضرورت ہے ۔ دنیا میں جب سے انسان پیدا ہوا ہے ، حقیقت کے بارے میں بے شمار اختلاف رونما ہوئے ہیں ۔ انہی اختلافات کی بنا پر نسلوں اور قوموں اور خاندانوں میں پھوٹ پڑی ہے ۔ انہی کی بنا پر مختلف نظریات رکھنے والوں نے اپنے الگ مذہب ، الگ معاشرے ، الگ تمدن بنائے یا اختیار کیے ہیں ۔ ایک ایک نظریے کی حمایت اور وکالت میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے مختلف زمانوں میں جان ، مال ، آبرو ، ہر چیز کی بازی لگا دی ہے ۔ اور بے شمار مواقع پر ان مختلف نظریات کے حامیوں میں ایسی سخت کشاکش ہوئی ہے کہ ایک نے دوسرے کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کی ہے ، اور مٹنے والے نے مٹتے مٹتے بھی اپنا نقطہ نظر نہیں چھوڑا ہے ۔ عقل چاہتی ہے کہ ایسے اہم اور سنجیدہ اختلافات کے متعلق کبھی تو صحیح اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ فی الواقع ان کے اندر حق کیا تھا اور باطل کیا ، راستی پر کون تھا ، اور ناراستی پر کون ۔ اس دنیا میں تو کوئی امکان اس پردے کے اٹھنے کا نظر نہیں آتا ۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں حقیقت پر سے پردہ اٹھ نہیں سکتا ۔ لہٰذا لا محالہ عقل کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے ۔ اور یہ صرف عقل کا تقاضا ہی نہیں ہے بلکہ اخلاق کا تقاضا بھی ہے ۔ کیونکہ ان اختلافات اور ان کشمکشوں میں بہت سے فرقوں نے حصہ لیا ہے ۔ کسی نے ظلم کیا ہے اور کسی نے سہا ہے ۔ کسی نے قربانیاں کی ہیں اور کسی نے ان قربانیوں کو وصول کیا ہے ۔ ہر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق ایک اخلاقی فلسفہ اور ایک اخلاقی رویہ اختیار کیا ہے اور اس سے اربوں اور کھربوں انسانوں کی زندگیاں برے یا بھلے طور پر متاثر ہوئی ہیں ۔ آخر کوئی وقت تو ہونا چاہیے جبکہ ان سب کا اخلاقی نتیجہ صلے یا سزا کی شکل میں ظاہر ہو ۔ اس دنیا کا نظام اگر صحیح اور مکمل اخلاقی نتائج کے ظہور کا متحمل نہیں ہے تو ایک دوسری دنیا ہونی چاہیے جہاں یہ نتائج ظاہر ہو سکیں ۔