Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قیامت یقینا قائم ہو گی کیونکہ کافر قیامت کے قائل نہیں اس لئے دوسروں کو بھی اس عقیدے ہٹانے کے لئے وہ پوری کوشش کرتے ہیں ایمان فروشی کر کے اللہ کی تاکیدی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ نہ کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اللہ کا یہ وعدہ بر حق ہے لیکن اکثر لوگ بوجہ اپنی جہالت اور لا علمی کے رسولوں کے خلاف کر تے ہیں ، اللہ کی باتوں کو نہیں مانتے اور کفر کے گڑھے میں گرتے ہیں ۔ پھر قیامت کے آنے اور جسموں کے دوبارہ زندہ ہونے کی بعض حکمتیں ظاہر فرماتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ دنیوی اختلافات میں حق کیا تھا وہ ظاہر ہو جائے ، بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا ملے ۔ کافروں کا اپنے عقیدے ، اپنے قول ، اپنی قسم میں جھوٹا ہونا کھل جائے ۔ اس وقت سب دیکھ لیں گے کہ انہیں دھکے دے کر جہنم میں جھونکا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ جہنم جس کا تم انکار کرتے رہے اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ اس میں اب پڑے رہو ۔ صبر سے رہو یا ہائے وائے کرو ، سب برابر ہے ، اعمال کا بدلہ بھگتنا ضروری ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے پھر اپنی بے اندازہ قدرت کا بیان فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے اس پر قادر ہے کوئی بات اسے عاجز نہیں کر سکتی ، کوئی چیز اس کے اختیار سے خارج نہیں ، وہ جو کرنا چاہے فرما دیتا ہے کہ ہو جا اسی وقت وہ کام ہو جاتا ہے ۔ قیامت بھی اس کے فرمان کا عمل ہے جیسے فرمایا ایک آنکھ جھپکنے میں اس کا کہا ہو جائے گا تم سب کا پیدا کرنا اور مرنے کے بعد زندہ کر دینا اس پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو اسھر کہا ہو جا ادھر ہو گیا ۔ اس کو دوبارہ کہنے یا تاکید کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس کے ارادہ سے مراد جدا نہیں ۔ کوئی نہیں جو اس کے خلاف کر سکے ، اس کے حکم کے خلاف زبان ہلا سکے ۔ وہ واحد و قہار ہے ، وہ عظمتوں اور عزتوں والا ہے ، سلطنت اور جبروت والا ہے ۔ اس کے سوا نہ کوئی معبود نہ حاکم نہ رب نہ قادر ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ابن آ دم مجھے گالیاں دیتا ہے اسے ایسا نہیں چاہئے تھا ۔ وہ مجھے جھٹلا رہا ہے حلانکہ یہ بھی اسے لائق نہ تھا ۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ سخت قسمیں کھا کر کہتا ہے کہ اللہ مردوں کو پھر زندہ نہ کرے گا میں کہتا ہوں یقینا زندہ ہوں گے ۔ یہ بر حق وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں اور اس کا مجھے گالیان دینا یہ ہے کہ کہتا ہے اللہ تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ میں احد ہوں ، میں اللہ ہوں ، میں صمد ہوں ، جس کا ہم جنس کوئی اور نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں تو حدیث موقو فا مروی ہے ۔ بخاری و مسلم میں دو سرے لفظوں کے ساتھ مرفو عا روایت بھی آئی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

38۔ 1 کیونکہ مٹی میں مل جانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھنا، انھیں مشکل اور ناممکن نظر آتا تھا۔ اسی لئے رسول جب انھیں بعث بعد الموت کی بابت کہتا تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس یعنی دوبارہ زندہ نہ ہونے پر قسمیں کھاتے ہیں، قسمیں بھی بڑی تاکید اور یقین کے ساتھ۔ 38۔ 2 اس جہالت اور بےعلمی کی وجہ سے رسولوں کی تکذیب و مخالفت کرتے ہوئے دریاے کفر میں ڈوب جاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] جب انھیں ان کے برے انجام سے ڈرایا جاتا ہے تو ضد اور چڑ میں آکر اللہ کی پختہ قسمیں بھی کھانے لگتے ہیں کہ دوبارہ جی اٹھنے کی بات سراسر لغو اور خلاف عقل بات ہے۔ حالانکہ ان کا یہ دعویٰ ہی خلاف عقل اور جہالت پر مبنی ہے۔ کیونکہ کائنات کی ایک ایک چیز اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اللہ جو کچھ چاہتا ہے اسے کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۔۔ : قسم ” حلف “ کو کہتے ہیں، کیونکہ یہ اس وقت اٹھائی جاتی ہے جب لوگ تقسیم ہوجائیں، کچھ لوگ بات کو صحیح کہتے ہیں کچھ غلط۔ ” جَهْدَ “ کا معنی مشقت ہے، ” جَھَدَ فُلاَنٌ دَابَّتَہُ وَأَجْھَدَھَا “ جب اپنی سواری پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دے۔ ” جَھَدَ الرَّجُلُ فِيْ کَذَا “ جب آدمی کسی کام میں اپنی انتہائی کوشش صرف کر دے۔ اس کا باب ” فَتَحَ یَفْتَحُ “ ہے۔ (طنطاوی) ” أَیْمَانٌ“ ” یَمِیْنٌ“ کی جمع ہے ” قسمیں۔ “ یعنی انھوں نے زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ نہایت پکی قسم کھائی کہ جو مرجائے اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ مرنے کے بعد نہ کوئی دوسری زندگی ہے نہ حساب کتاب، اس لیے عذاب کا کیا ڈر ؟ مشرکین کی عقل پر تعجب ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی اتنی تعظیم کہ اس کے نام کی پکی قسمیں کھائی جا رہی ہیں، دوسری طرف اس کی اتنی بےقدری کہ اسے اتنا بےبس اور عاجز کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پہلی دفعہ بنائی ہوئی چیز کو بھی دوبارہ نہیں بنا سکتا۔ - بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا : ” بَلٰی “ کا لفظ کسی نفی کی نفی کے لیے ہوتا ہے، جس سے مراد اس چیز کا اثبات ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا، قیامت نہیں آئے گی۔ فرمایا، کیوں نہیں یعنی ضرور آئے گی۔ ” وَعْدًا “ ” وَعَدَ “ مقدر کا مفعول مطلق ہے، برائے تاکید اور ” حَقّاً “ اس کی صفت ہے، یعنی ” وَعَدَ اللّٰہُ وَعْدًا حَقًّا۔ “ ” عَلَیْہ “ کا لفظ اس وعدے کی مزید تاکید کے لیے ہے کہ یہ اس پر لازم ہے۔ مگر یہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے اپنے آپ پر لازم کیا ہے، ورنہ کس کی مجال ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم کرے۔ یعنی تمہارے انکار کرنے اور زور دار قسمیں کھانے سے اللہ کا پکا وعدہ ٹل نہیں سکتا، وہ تو ضرور پورا ہو کر رہے گا، البتہ تم ایسی واضح حقیقت کا انکار کرکے اپنی جہالت کا ثبوت دے رہے ہو۔ - وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ : اس میں اس اقلیت کی تعریف ہے جو علم رکھتے ہیں اور جن کا ایمان ہے کہ آخرت اور حساب کتاب حق ہے اور اس اکثریت کی مذمت ہے، جو یہ ایمان نہیں رکھتے، اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر ان کی تردید فرمائی۔ دیکھیے سورة تغابن (٧) اور سورة یس (٧٨) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ ۭ بَلٰى وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 38؀ۙ- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - جهد - الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع .- وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال :- جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب :- مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان .- ومجاهدة النفس .- وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» «1» . والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» «2» .- ( ج ھ د ) الجھد - والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور - جہا دتین قسم پر ہے - ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال :- بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - ( ب ع ث ) البعث ( ف )- اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٨) اور یہ لوگ بڑے زور لگا لگا کر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ نہیں کریں گے کیوں نہیں، مرنے کے بعد ضرور زندہ کرے گا اس دوبارہ زندہ کرنے کے وعدہ کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لازم کر رکھا ہے، لیکن مکہ والے نہ اس چیز کو جانتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔- شان نزول : (آیت ) ” واقسموا باللہ جہد “۔ (الخ)- ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابوالعالیہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص کا مشرکین میں سے کسی پر کچھ قرض تھا، چناچہ مسلمان اس پر تقاضا کے لیے آیا اور درمیان گفتگو کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جو مرنے کے بعد زندہ کرے گا، یہ سن کر وہ مشرک کہنے لگا کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ تو مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کیا جائے گا، میں اللہ تعالیٰ کی بڑا زور لگا کر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو مرجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دوبارہ زندہ نہ کرے گا، اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ )- مشرکین مکہ اگرچہ عمومی طور پر مرنے کے بعد دوسری زندگی کے قائل تھے مگر ان کا اس سلسلہ میں عقیدہ یہ تھا کہ جن بتوں کی وہ پوجا کرتے ہیں وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ان کے سفارشی ہوں گے اور اس طرح روز حشر کی تمام سختیوں سے وہ انہیں بچا لیں گے۔ لیکن ان کے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو بعث بعد الموت کا منکر تھا۔ ان لوگوں کے اس عقیدہ کا تذکرہ قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ سورة الانعام میں ان لوگوں کا قول اس طرح نقل کیا گیا ہے : (وَقَالُوْٓا اِنْ هِىَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِيْنَ ) ” اور وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے یہ ہماری زندگی مگر صرف دنیا کی اور ہم (دوبارہ) اٹھائے نہیں جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani