37۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ اے پیغمبر تیری خواہش یقیناً یہی ہے کہ یہ سب ہدایت کا راستہ اپنا لیں لیکن قوانین الہیہ کے تحت جو گمراہ ہوگئے ہیں، ان کو ہدایت کے راستے پر نہیں چلا سکتا، یہ تو اپنے آخری انجام کو پہنچ کر ہی رہیں گے، جہاں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
[٣٨] یعنی جو لوگ نہ پیغمبروں کی دعوت کو قبول کریں نہ اللہ تعالیٰ کی کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی قدرتوں میں غور کریں اور نہ ہی اقوام سابقہ کے انجام سے کچھ عبرت حاصل کریں تو سمجھ لیجئے کہ گمراہی ان کے لیے مقدر ہوچکی۔ آپ ان کے ایمان لانے کی خواہ کتنی ہی آرزو کریں کوئی بات اب انھیں ایمان لانے کی طرف مائل نہیں کرسکتی۔
اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے تو ہدایت اور گمراہی کے دونوں راستے واضح کردیے، اب جو لوگ اس کی عطا کردہ استعداد سے کام نہ لیں اور حق پر باطل کو ترجیح دیں اور اللہ تعالیٰ انھیں باطل میں پڑے رہنے کی سزا دے تو آپ کا ان پر حرص کرنا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لوگوں کی ہدایت کے لیے حرص بھی ظاہر ہو رہی ہے۔ دیکھیے سورة توبہ (١٢٨) ۔
اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 37- حرص - الحِرْص : فرط الشّره، وفرط الإرادة . قال عزّ وجلّ : إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ- [ النحل 37] ، أي : إن تفرط إرادتک في هدایتهم، وقال تعالی: وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] ،- ( ح ر ص ) الحرص - شدت آزیا شرط ارادہ ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ [ النحل 37] یعنی ان کی ہدایت کے لئے تمہارے دل میں شدید آزر اور خواہش ہو وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة 96] بلکہ ان کو تم اور لوگوں سے زندگی پر کہیں زیادہ حریص دیکھو گے ۔ - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی
(٣٧) اور اگر آپ کو ان کے توحید کے قائل ہونے کی خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ایسے شخص کی ہدایت نہیں کیا کرتا ہے جو مخلوق کو دین الہی سے گمراہ کرے اور وہ دین خداوندی کا اہل نہ ہو اور کفار مکہ یاد ررکھیں کہ عذاب الہی سے انکو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔
آیت ٣٧ (اِنْ تَحْرِصْ عَلٰي هُدٰىهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ يُّضِلُّ وَمَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ )- اس سلسلے میں اللہ کا قانون اٹل ہے۔ اللہ کی طرف سے لوگوں تک حق کی دعوت پہنچانے کا پورا بندوبست کیا جاتا ہے ان پر ہدایت منکشف کی جاتی ہے اور بار بار انہیں موقع دیا جاتا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر آجائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص حق کو واضح طور پر پہچان لینے کے بعد ہر بار اسے رد کر دے تو اس سے ہدایت کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ پھر وہ حق کو پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی گمراہی پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں ہی کے متعلق سورة البقرۃ کی آیت ٧ میں فرمایا گیا ہے : (خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ) ” اللہ نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر ‘ اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ چکا) ہے “۔ چناچہ اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں آیت زیر نظر میں فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی آپ کی شدید خواہش ہے کہ یہ لوگ ایمان لا کر راہ ہدایت پر آجائیں ‘ مگر چونکہ یہ حق کو اچھی طرح پہچان لینے کے بعد اس سے روگردانی کرچکے ہیں اس لیے ان کی گمراہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوچکا ہے ‘ اور اللہ کا اٹل قانون ہے کہ وہ ایسے گمراہوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ سورة القصص کی آیت ٥٦ میں اسی اصول کو واضح تر انداز میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) ” (اے نبی ) بیشک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو آپ چاہیں بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ “