47۔ 1 نخوف کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے سے ہی دل میں عذاب اور مواخذے کا ڈر ہو۔ جس طرح بعض دفعہ انسان کسی بڑے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، تو خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں اللہ میری گرفت نہ کرلے چناچہ بعض دفعہ اس طرح مؤاخذہ ہوتا ہے۔ 47۔ 2 کہ وہ گناہوں پر فوراً مواخذہ نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور اس مہلت سے بہت سے لوگوں کو توبہ و استغفار کی توفیق بھی نصیب ہوجاتی ہے۔
[٤٦] تخو ّف کے معنی کی تحقیق عذاب کی قسم :۔ ایک دفعہ سیدنا عمر نے بر سر منبر تخوف کے معنی پوچھے تو قبیلہ بنو ہذیل کے ایک آدمی نے جواب میں کہا کہ ہماری لغت میں تخوف کا لفظ تنقص (آہستہ آہستہ گھٹاتے جانا) کے معنی میں آتا ہے پھر ثبوت کے طور پر ایک شعر بھی پڑھا تو سیدنا عمر نے فرمایا : جاہلیت کے اشعار یاد رکھو کیونکہ اس میں تمہاری کتاب کی تفسیر ہے ( الموافقات للشاطبی ج ١ مترجم اردو ص ٧٨) نیز سیدنا ابن عباس (رض) نے بھی علی تخوف کے معنی تنقص ہی بیان فرمائے ہیں (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نہل)- ان تین آیات میں عذاب الٰہی کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک عذاب ایسا ہے جو دفعتاً آن پڑتا ہے خواہ وہ ارضی ہو یا سماوی ہو۔ اس کی آگے بیشمار قسمیں ہیں جیسے بارش کی صورت میں پتھروں کی طرح آدھ آدھ سیر کے اولے گرنے لگیں اور وہ فصلیں اور جانداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیں یا زمین میں زلزلہ آئے تو شہر کے شہر زلزلہ سے پھٹی ہوئی زمین کے اندر دھنس جائیں یا سمندر میں طغیانی آئے تو وہ کناروں پر آباد شہروں کو پانی میں غرق کر دے۔ یا آتش فشاں پہاڑ پھٹے جس سے ہر چیز جل کر راکھ ہوجائے اور عذاب کی یہ سب قسمیں ایسی ہیں جن کی پہلے سے کسی کو خبر نہیں ہوتی۔- دوسری قسم کے عذاب وہ ہیں جو دوران سفر پیش آتے ہیں۔ جیسے کوئی دیو ہیکل وہیل مچھلی کسی جہاز کو ٹکر مار کر اسے غرق کر دے یا کسی بحری، بری جہاز یا کسی طرح کی دوسری گاڑی کا انجن خراب ہوجائے یا چلنا بند ہوجائے۔ یا ریلوں یا بسوں کا تصادم ہوجائے۔ یا کوئی بس کسی کھڈ میں نیچے جاگرے اور مسافر غرق ہوجائیں یا ہلاک ہوجائیں۔ غرض اس قسم کی بھی آگے بیشمار صورتیں ہیں۔- اور تیسری قسم وہ ہے جس کے متعلق علی تخوف کے الفاظ آئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ عذاب الٰہی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ ایسا عذاب اندر ہی اندر بتدریج اپنا کام کرتا جاتا ہے اور ایسا معاشرہ زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتا ہے حتیٰ کہ وہ ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے اور ایسے عذاب کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ : ” تَخَــوُّفٍ “ کا ایک معنی خوف زدہ ہونا ہے اور ایک معنی ” تَنَقُّص “ یعنی آہستہ آہستہ کم ہونا ہے۔ یعنی عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں پہلے ہی سے نظر آ رہا ہو کہ عذاب آ رہا ہے، جس کے آنے سے وہ ہر وقت خوف زدہ رہیں اور اس کے نتیجے میں دن بدن ان کی جانیں، مال اور پیداوار کم ہوتی چلی جائیں، حتیٰ کہ دیکھتے دیکھتے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں آجائیں۔ یہ بھی عذاب کی نہایت تکلیف دہ صورت ہے، کیونکہ انسان خوف کی وجہ سے نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے، بلکہ گھلتا چلا جاتا ہے۔ اس تفسیر میں ” تَخَــوُّفٍ “ اور ” تَنَقُّص “ (خوف زدہ ہونا اور آہستہ آہستہ کم ہونا) دونوں معنی آگئے ہیں۔ - فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ : یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اگرچہ عذاب کی بیشمار صورتیں ہیں، مگر وہ تمہیں مہلت دیتا ہے اور درگزر فرماتا ہے، تاکہ تم نافرمانی چھوڑ کر واپس پلٹ آؤ۔ یہ اس کی بیحد شفقت اور نہایت مہربانی ہے کہ تم گناہ کرتے رہتے ہو، اس کے باوجود وہ تمہیں رزق دیتا ہے اور تندرستی بخشتا ہے اور اس کی طرف سے تمہاری فوری گرفت نہیں ہوتی۔ ورنہ اگر وہ تمہیں تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے پکڑے تو زمین پر کوئی چلنے والی چیز باقی نہ رہے۔ دیکھیے سورة فاطر کی آخری آیت۔
دنیا کا عذاب بھی ایک طرح کی رحمت :- آیات مذکورہ میں دنیا کے مختلف اقسام عذاب کا ذکر کرنے کے بعد خاتمہ آیات پر فرمایا فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ اس میں اول تو لفظ رب سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کی دنیا کے عذاب انسان کو متنبہ کرنے کے لئے شان ربوبیت کے تقاضے سے ہیں پھر لام تاکید کے ساتھ حق تعالیٰ کا مشفق و مہربان ہونا بتلا کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ دنیا کی تنبیہات درحقیقت شفقت و رحمت ہی کے داعیہ سے ہیں تاکہ غافل انسان متنبہ ہو کر اپنے اعمال کی اصلاح کرلے۔
اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ 47- تخوف - ظهور الخوف من الإنسان، قال : أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلى تَخَوُّفٍ [ النحل 47] .- ( خ و ف ) تخوف - التخوف ( تفعیل ) کسی انسان کا اظہار خوف کرنا تخوفنا ھم ۔ ہم نے انہیں اتنا کم کیا جسقدر کہ خوف اس کا مقتضی تھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلى تَخَوُّفٍ [ النحل 47] یا جب ان کو عذاب کا ڑد پیدا ہو اس وقت پکڑے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔- رأف - الرَّأْفَةُ : الرّحمة، وقد رَؤُفَ فهو رَئِفٌ «3» ورُؤُوفٌ ، نحو يقظ، وحذر، قال تعالی: لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] .- ( ر ء ف )- الرافتہ یہ رؤف ( ک ) سے ہے اور اس کے معنی شفقت اور رحمت کے ہیں صفت کا صیغہ رؤوف اور رئف مثل حزر وبقظ آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَأْخُذْكُمْ بِهِما رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ [ النور 2] اور اللہ کے حکم ( کی تعمیل ) میں تم کو ان ( کے حال ) پر ( کسی طرح کا ) ترس دامن گیر نہ ہو ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(٤٧) یا ان کے سردار اور ان کے ساتھیوں کو گھٹاتے گھٹاتے ان کو پکڑے، اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے پر مہربان ہے یا کہ عذاب کے موخر کرنے میں مہربان ہے۔
آیت ٤٧ (اَوْ يَاْخُذَهُمْ عَلٰي تَخَــوُّفٍ ۭ فَاِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ)- اگرچہ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں کو اچانک بھی پکڑ سکتا ہے مگر چونکہ وہ بہت شفیق اور نہایت رحم فرمانے والا ہے اس لیے اس کا عذاب یونہی بیخبر ی میں نہیں آتا بلکہ متعلقہ قوم کو پہلے پوری طرح آگاہ کیا جاتا ہے ان پر اتمام حجت کے تمام تقاضے پورے کیے جاتے ہیں تب کہیں جا کر عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسے سورة بنی اسرائیل میں فرمایا گیا : (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً ) ” اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ ہم رسول نہ بھیجیں “۔ یعنی ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے رسول بھیجا گیا جس نے ان پر حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا خوب اچھی طرح واضح کردیا ‘ یہاں تک کہ متعلقہ قوم پر حجت تمام ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اور ظلم پر اڑے رہے ان پر گرفت کی گئی اور عذاب کے ذریعے انہیں نیست و نابود کردیا گیا۔
20: یعنی ایک دم سے تو عذاب آکر انہیں ہلاک نہ کرے، لیکن اپنی بد عملی کی سزا میں دھیرے دھیرے ان کی افرادی قوت اور ان کا مال و دولت گھٹتا چلا جائے۔ یہ تفسیر روح المعانی میں متعدد صحابہ اور تابعین سے منقول ہے۔ 21: اس ’’ کیونکہ‘‘ کا تعلق بے خوف ہونے سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ شفیق اور مہربان ہے۔ اس لیے اس نے کافروں کو مہلت دی ہوئی ہے اور فوری طور پر انہیں عذاب میں نہیں پکڑا، اس لیے یہ کافر لوگ بے خوف ہوگئے ہیں، حالانکہ پچھلی امتوں کے واقعات سے سبق لے کر انہیں بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔