Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عرش سے فرش تک اللہ تعالیٰ ذو الجلال والاکرام کی عظمت و جلالت کبریائی اور بےہمتائی کا خیال کیجئے کہ ساری مخلوق عرش سے فرش تک اس کے سامنے مطیع اور غلام ۔ جمادات و حیوانات ، انسان اور جنات ، فرشتے اور کل کائنات ، اس کی فرماں بردار ، ہر چیز صبح شام اس کے سامنے ہر طرح سے اپنی عاجزی اور بیکسی کا ثبوت پیش کرنے والی ، جھک جھک کر اس کے سامنے سجدے کرنے والی ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سورج ڈھلتے ہی تمام چیزیں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑتی ہیں ہر ایک رب العالمین کے سامنے ذلیل و پست ہے ، عاجز و بےبس ہے ۔ پہاڑ وغیرہ کا سجدہ ان کا سایہ ہے ، سمندر کی موجیں اس کی نماز ہے ۔ انہیں گویا ذوی العقول سمجھ کر سجدے کی نسبت ان کی طرف کی ۔ اور فرمایا زمین و آسمان کے کل جاندار اس کے سامنے سجدے میں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا وَّظِلٰلُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ 15۝۞ السجدہ ) 13- الرعد:15 ) خوشی نا خوشی ہر چیز رب العالمین کے سامنے سر بسجود ہے ، ان کے سائے صبح و شام سجدہ کرتے ہیں ۔ فرشتے بھی باوجود اپنی قدر و منزلت کے اللہ کے سامنے پست ہیں ، اس کی عبادت سے تنگ نہیں آ سکتے اللہ تعالیٰ جل و علا سے کانپتے اور لرزتے رہتے ہیں اور جو حکم ہے اس کی بجا آوری میں مشغول ہیں نہ نافرمانی کرتے ہیں نہ سستی کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی اور اس کی جلالت شان کا بیان ہے کہ ہر چیز اس کے سامنے جھکی ہوئی اور مطیع ہے۔ جمادات ہوں یا حیوانات یا جن و انسان اور ملائکہ۔ ہر وہ چیز جس کا سایہ ہے اور اس کا سایہ دائیں بائیں جھکتا ہے تو وہ صبح و شام اپنے سائے کے ساتھ اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ امام مجاہد فرماتے ہیں جب سورج ڈھلتا ہے تو ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٦۔ الف ] مثلاً پہلے پہر اگر آپ جنوب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں تو سایہ آپ کی دائیں جانب ہوگا اور شمال کی طرف منہ کریں تو بائیں جانب پھر جب سورج سر پر آجائے گا تو آپ کا سایہ آپ کے قدموں میں آجائے گا اور سردیوں میں شمال کی جانب سیدھ میں آجائے گا۔ اور پچھلے پہر سمت بالکل برعکس ہوجائے گی۔- اس آیت میں دائیں جانب کے لیے تو اللہ نے واحد کا صیغہ (یمین) استعمال فرمایا اور بائیں جانب کے لیے جمع کا (شمائل واحد شمال) یہ بھی عرب کا محاورہ اور ان کی فصاحت کی ایک قسم ہے۔ اہل عرب جب دو صیغے جمع کے لانا چاہتے ہیں تو ایک کو مفرد کرکے لاتے ہیں۔ قرآن میں اس کی دوسری مثال یہ ہے (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ ) 2 ۔ البقرة)- [ ٤٧] کائنات کی ہر چیز کا سجدہ کیسے ؟ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اسے چند طبعی قوانین کا پابند بنادیا ہے۔ ان قوانین کا پابند رہنا ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ مخلوق اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز، مجبور محض اور انتہائی عجز کا اظہار کر رہی ہے مثلاً روشنی کے لیے ایک قانون بنادیا کہ وہ اگر ایک ہی قسم کے مادہ سے گزرے تو وہ ہمیشہ خط مستقیم میں چلتی ہے۔ اسی قانون کے مطابق ہر چیز کا سایہ بنتا ہے۔ گھٹتا اور بڑھتا ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سایہ صرف مادی چیز اور ٹھوس قسم کی چیز کا ہوتا ہے اور یہ چیزیں سب اللہ کی مخلوق ہیں۔ جو اللہ کے ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑی ہوئی ہیں اور چونکہ مخلوق ہیں لہذا کسی نہ کسی وقت تباہ بھی ہوجائیں گی لہٰذا ان میں الوہیت کا شائبہ تک نہیں ہے بلکہ سب اللہ کے حکم میں جکڑی ہوئی اور اس کی عاجز مخلوق ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۔۔ : ” يَّتَفَيَّؤُا “ ” فَاءَ یَفِیْئُ فَیْءًا “ (لوٹنا) سے باب تفعل ہے۔ سایوں کے لوٹنے سے مراد سورج نکلنے کے بعد ایک جگہ سے دوسری جگہ حتیٰ کہ زوال کے بعد بالکل ہی دوسری طرف منتقل ہونا ہے۔ ” دٰخِرُوْنَ “ ” دَخِرَ یَدْخَرُ دُخُوْرًا “ (ع) سے ہے، ” دَخِرَ فُلَانٌ لِفُلَانٍ “ فلاں شخص دوسرے کا بالکل مطیع اور اس کے سامنے عاجز اور ذلیل ہوگیا۔” اَوَلَمْ يَرَوْا “ میں استفہام پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ ڈانٹنے کے لیے ہے کہ کیا ان مشرکوں کو نظر نہیں آتا، یقیناً یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز اور عاجز و مطیع ہے، مگر یہ اللہ کے دیے ہوئے اختیار کو اس کی ساری مخلوق کی طرح عاجزی، اطاعت اور عبادت کے بجائے سرکشی اور کفر و شرک میں استعمال کر رہے ہیں۔ - اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۔۔ : یعنی دنیا کی کوئی بھی چیز جو اللہ نے پیدا فرمائی ہے، مثلاً پہاڑ، درخت اور انسان وغیرہ، جس کا سایہ بڑھتا، گھٹتا اور ڈھلتا ہے، ہر ایک تکوینی طور پر (اپنے اختیار کے بغیر) اللہ تعالیٰ ہی کی فرماں برداری میں مصروف ہے اور وہ قانون قدرت سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوسکتی۔ یہاں تمام چیزوں پر ذوی العقول کو غلبہ دے کر ” دٰخِرُوْنَ “ فرمایا ہے۔ (روح المعانی) شاہ عبد القادر (رض) اس سجدہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے، اس کا سایہ بھی کھڑا ہے، جب دن ڈھلا، سایہ بھی جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑگیا، جیسے نماز میں قیام سے رکوع اور رکوع سے سجدہ، اسی طرح ہر چیز اپنے سائے سے نماز ادا کرتی ہے۔ “ (موضح) ” الْيَمِيْنِ “ کو اختصار کے لیے واحد اور ” وَالشَّمَاۗىِٕلِ “ کو تفصیل کے لیے جمع لائے۔ پہلے سے مراد جنس ہے، اس میں بھی تمام افراد شامل ہیں، دوسرے سے مراد بائیں جانب کے تمام اطراف ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- کیا (ان) لوگوں نے اللہ کی ان پیدا کی ہوئی چیزوں کو نہیں دیکھا (اور دیکھ کر توحید پر استدلال نہیں کیا) جن کے سائے کبھی ایک طرف کو کبھی دوسری طرف کو اس طور پر جھکتے جاتے ہیں کہ (بالکل) خدا کے (حکم کے) تابع ہیں (یعنی سائے کے اسباب کہ آفتاب کی حرکت ہے پھر سایہ کے خواص یہ سب بحکم الہی ہے) اور وہ (سایہ دار) چیزیں بھی (اللہ کے رو برو) عاجز (اور تابع حکم) ہیں اور (جس طرح یہ اشیاء مذکورہ جن میں حرکت ارادیہ نہیں جیسا کہ یتفیئوا کی اسناد ظلال کی طرف اس کا قرینہ ہے کیونکہ متحرک بالارادہ میں سایہ کی حرکت خود اس متحرک بالا رادہ کی حرکت سے ہوتی ہے حکم خدا کے تابع ہیں اسی طرح) اللہ ہی کے مطیع (حکم ہیں) جتنی چیزیں (بالارادہ) چلنے والی آسمانوں میں (جیسے فرشتے) اور زمین میں (جیسے حیوانات) موجود ہیں اور (بالخصوص) فرشتے (بھی) اور وہ (فرشتے باوجود علو مکان و رفعت شان کے اطاعت خداوندی سے) تکبر نہیں کرتے (اور اسی لئے بالخصوص ان کا ذکر کیا گیا باوجودے کہ مافی السموت میں داخل تھے) وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں کہ ان پر بالا دست ہے اور ان کو جو کچھ (خدا کی طرف سے) حکم کیا جاتا ہے وہ اس کو کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے (تمام مکلفین کو بواسطہ رسل کے) فرمایا ہے کہ دو (یا زیادہ) معبود مت بناؤ پس ایک معبود ہی ہے (اور جب یہ بات ہے) تو تم لوگ خاص مجھ ہی سے ڈرا کرو (کیونکہ جب الوہیت میرے ساتھ خاص ہے تو جو جو اس کے لوازم ہیں کمال قدرت وغیرہ وہ بھی میرے ہی ساتھ خاص ہوں گے تو انتقام وغیرہ کا خوف مجھ ہی سے چاہئے اور شرک انتقام کو مستدعی ہے پس شرک نہ کرنا چاہئے) اور اسی کی (ملک) ہیں سب چیزیں جو کچھ کہ آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور لازمی طور پر اطاعت بجا لانا اسی کا حق ہے (یعنی وہی اس امر کا مستحق ہے کہ سب اس کی اطاعت بجا لاویں جب یہ بات ثابت ہے) تو کیا پھر بھی اللہ کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو (اور ان سے ڈر کر ان کو پوجتے ہو) اور (جیسا ڈرنے کے قابل سوائے پاس جو کچھ (کسی قسم کی) بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب تم کو (ذرا) تکلیف پہنچتی ہے تو (اس کے رفع ہونے کے لئے) اسی (اللہ) سے فریاد کرتے ہو (اور کوئی بت وغیرہ اس وقت یاد نہیں آتا جس سے توحید کا حق ہونا اس وقت تمہارے اقرار حال سے بھی معلوم ہوجاتا ہے لیکن) پھر جب (اللہ تعالیٰ ) تم سے اس تکلیف کو ہٹا دیتا ہے تو تم میں ایک جماعت (اور وہی بڑی جماعت ہے) اپنے رب کی ساتھ (بدستور سابق) شرک کرنے لگتی ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ہماری دی ہوئی نعمت کی (کہ وہ تکلیف کا رفع کرنا ہے) ناشکری کرتے ہیں (جو کہ عقلا بھی قبیح ہے) خیر چند روزہ عیش اڑا لو (دیکھو) اب جلدی (مرتے ہی) تم کو خبر ہوئی جاتی ہے (اور ایک جماعت اس لئے کہا گیا کہ بعضے اس حالت کو یاد رکھ کر توحید و ایمان پر قائم ہوجاتے ہیں کقولہ تعالیٰ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ) اور (منجملہ ان کے شرک کے ایک یہ ہے کہ) یہ لوگ ہماری دی ہوئی چیزوں میں ان (معبودوں) کا حصہ لگاتے ہیں جن کے (معبود ہونے کے) متعلق ان کو کچھ علم (اور ان کے معبود ہونے کی کوئی دلیل وسند) نہیں (جیسا اس کی تفصیل پارہ ہشتم کے رکوع سوم آیت وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ الخ میں گذری ہے) قسم ہے خدا کی تم سے تمہاری ان افتراء پردازیوں کی (قیامت میں) ضرور باز پرس ہوگی (اور ایک شرک ان کا یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں سبحان اللہ (کیسی مہمل بات ہے) اور (اس پر یہ طرہ کہ) اپنے لئے چاہتی چیز (یعنی بیٹے پسند کرتے ہیں)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ 48؀- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - فيأ - الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ- [ الحجرات 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر :- 360-- أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّة- «2» وکما قال :- 361-- إنّما الدّنيا كظلّ زائل - «3» والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:- إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] .- ( ف ی ء )- الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] جنکے سائے لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )- دخر - قال تعالی: وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل 48] ، أي : أذلّاء، يقال : أدخرته فَدَخَرَ ، أي :- أذللته فذلّ ، وعلی ذلک قوله : إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر 60] ، وقوله : يَدَّخِرُ أصله : يذتخر، ولیس من هذا الباب .- ( د خ ر ) الدخور - والد خور ۔ ( ف ) س ) کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ میں نے اسے ذلیل کیا تو وہ ذلیں ہوگیا قرآن میں ہے وَهُمْ داخِرُونَ [ النحل 48] اور وہ ذلیل ہوکر إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ داخِرِينَ [ غافر 60] جو لوگ میری عبادت سے از راہ تکبر کنیا تے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے ۔ اور یدخر اصل میں یذ تخر تھا ( پہلے تاء کو دال سے تبدیل کیا پھر ذال کو دال کو دال میں ادغام کرکے یدخر بنالیا اور یہ اس باب ( د خ ر ) سے نہیں ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٨) کیا مکہ والوں نے اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ان درختوں اور ان جانوروں کو نہیں دیکھا کہ جن کے سائے صبح کو دائیں جانب کو اور شام کو بائیں جانب کو اس طور پر جھک جاتے ہیں گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور ان کے سائے بھی صبح وشام اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (اَوَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَاۗىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ )- اس آیت میں ہمارے اردگرد کی اشیاء سے پیدا ہونے والے ماحول کی تصویر کشی کی گئی ہے جسے دیکھتے ہوئے ہم اللہ کی کبریائی کا ایک نقشہ اپنے تصور میں لاسکتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو تمام چیزوں کے سائے زمین پر بچھے ہوئے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پھر سورج کے بلند ہونے کے ساتھ ہی ساتھ یہ سائے سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ سورج کے ڈھلنے کے ساتھ دوسری سمت میں پھیلتے ہوئے یہ سایے پھر اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :41 یعنی تمام جسمانی اشیاء کے سائے اس بات کی علامت ہیں کہ پہاڑ ہوں یا درخت ، جانور ہوں یا انسان ، سب کے سب ایک ہمہ گیر قانون کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں ، سب کی پیشانی پر بندگی کا داغ لگا ہوا ہے ، الوہیت میں کسی کا کوئی ادنی حصہ بھی نہیں ہے ۔ سایہ پڑنا ایک چیز کے مادی ہونے کی کھلی علامت ہے ، اور مادی ہونا بندہ و مخلوق ہونے کا کھلا ثبوت ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

22: انسان کتنا بھی مغرور یا متکبر ہوجائے، اس کا سایہ جب زمین پر پڑتا ہے تو وہ عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے ساتھ اس کے سائے کی شکل میں ایک ایسی چیز پیدا فرمادی ہے جو اس کے اختیار کے بغیر ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ ریز رہتی ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ خود تو سورج کے آگے جھک رہے ہوتے ہیں اور ان کے سائے اس کی مخالف سمت میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔