Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] فرشتوں کی الوہیت کا رد :۔ تمام مخلوقات میں سے فرشتوں کا بالخصوص الگ ذکر فرمایا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ممالک میں اور اسی طرح عرب ممالک میں بھی فرشتوں کو معبود سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیا جاتا اور انھیں اللہ تعالیٰ یا بڑے خدا کا نائب اور کائنات میں بعض خاص امور کے تصرف کرنے والے اور اس کام میں اللہ کے مددگار سمجھا جاتا تھا۔ مصری اور یونانی اور ہندی تہذیب میں انہی فرشتوں کو یا ان کی ارواح کو دیوی دیوتاؤں کے نام سے پکارا جاتا ہے مثلاً بارش کا مالک فلاں دیوتا ہے۔ دولت کی مالک فلاں دیوی ہے اور محبت کی فلاں وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس باطل عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ فرشتے موجود ضرور ہیں اور مدبرات امر بھی ہیں لیکن اللہ کے حکم کے سامنے مجبور محض ہیں۔ اپنی مرضی سے کچھ بھی تصرف نہ کرتے ہیں نہ کرسکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور بندے اور غلام بن کر رہتے ہیں۔ اسی کی عبادت اور تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں اور اس بات میں قطعاً عار محسوس نہیں کرتے۔ پھر اس سے ڈرتے بھی رہتے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتے۔ پھر اگر اللہ کو منظور نہ ہو تو وہ تمہاری احتیاج کیسے پوری کرسکتے ہیں لہذا اصل حکمرانی اللہ ہی کے لیے ثابت ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۔۔ : پہلے ان چیزوں کا سجدہ بیان فرمایا جو زمین میں پائی جاتی ہیں، اب یہاں زمین و آسمان میں پائے جانے والے تمام جان دار، خصوصاً فرشتوں کا سجدہ بیان کرکے متنبہ فرمایا کہ ایسی مقرب ہستیاں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور ان میں کوئی تکبر یا غرور نہیں پایا جاتا، لہٰذا ان کے متعلق یہ سمجھنا قطعی غلط ہے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کا اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں کوئی حصہ ہے۔ (شوکانی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ 49؀- دأب - الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ- [إبراهيم 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها .- ( د ء ب ) الداب - کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٩) (اور وہ سایہ دار چیزیں بھی) اللہ تعالیٰ کی مطیع وفرمانبردار ہیں اور چاند وسورج ستارے اور حیوانات و پرندے اور وہ فرشتے بھی جو کہ آسمان و زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہیں اور وہ اطاعت خداوندی سے تکبر نہیں کرتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :42 یعنی زمین ہی کی نہیں ، آسمانوں کی بھی وہ تمام ہستیاں جن کو قدیم زمانے سے لے کر آج تک لوگ دیوی ، دیوتا اور خدا کے رشتہ دار ٹھیراتے آئے ہیں دراصل غلام اور تابعدار ہیں ۔ ان میں سے بھی کسی کا خداوندی میں کوئی حصہ نہیں ۔ ضمنا اس آیت سے ایک اشارہ اس طرف بھی نکل آیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی میں نہیں ہیں بلکہ عالم بالا کے سیاروں میں بھی ہیں ۔ یہی بات سورہ شوریٰ آیت ۲۹ میں بھی ارشاد ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani