ہر چیز کا واحد مالک وہی ہے اللہ واحد کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، وہ لا شریک ہے ، وہ ہر چیز کا خالق ہے ، مالک ہے ، پالنہار ہے ۔ اسی کی خالص عبادت دائمی اور واجب ہے ۔ اس کے سو دوسروں کی عبادت کے طر یقے نہ اختیار کرنے چاہئیں ۔ آسمان و زمین کی تمام مخلوق خوشی یا نا خوشی اس کی ماتحت ہے ۔ سب کو لوٹایا جانا اسی کی طرف ہے ، خلوص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو ۔ اسکے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے سے بچو ۔ دین خالص صرف اللہ ہی کا ہے آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک وہی تنہا ہے ۔ نفع نقصان اسی کے اختیار میں ہے ، جو کچھ نعمتیں بندوں کے ہاتھ میں ہیں سب اسی کی طرف سے ہیں ، رزق نعمتیں عافیت تصرف اسی کی طرف سے ہے ، اسی کے فضل و احسان بدن پر ہیں ۔ اور اب بھی ان نعمتوں کے پالنے کے بعد بھی تم اس کے ویسے ہی محتاج ہو مصیبتیں اب بھی سر پر منڈلا رہی ہیں ۔ سختی کے وقت وہی یاد آتا ہے اور گڑ گڑا کر پوری عاجزی کے ساتھ کٹھن وقت میں اسی کی طرف جھکتے ہو ۔ خود مشرکین مکہ کا بھی یہی حال تھا کہ جب سمندر میں گھر جاتے باد مخالف کے جھونکے کشتی کو پتے کی طرح ہچکو لے دینے لگتے تو اپنے ٹھاکروں ، دیوتاؤں ، بتوں ، فقیروں ، ولیوں ، نبیوں سب کو بھول جاتے اور خالص اللہ سے لو لگا کر خلوص دل سے اس سے بچاؤ اور نجات طلب کرتے ۔ لیکن کنارے پر کشتی کے پار لگتے ہی اپنے پرانے اللہ سب یاد آ جاتے اور معبود حقیقی کے ساتھ پھر ان کی پوجا پاٹ ہونے لگتی ۔ اس سے بڑھ کر بھی ناشکری کفر اور نعمتوں کی فراموشی اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہاں بھی فرمایا کہ مطلب نکل جاتے ہی بہت سے لوگ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔ لیکفروا کا لام لام عاقبت ہے اور لام تعلیل بھی کہا گیا ہے یعنی ہم نے یہ خصلت ان کی اس لئے کر دی ہے کہ وہ اللہ کی نعمت پر پر دے ڈالیں اور اس کا انکار کریں حالا نکہ دراصل نعمتوں کا دینے والا ، مصیبتوں کا دفع کرنے والا اس کے سوا کوئی نہیں ۔ پھر انہیں ڈراتا ہے کہ اچھا دنیا میں تو اپنا کام چلا لو ، معمولی سا فائدہ یہاں کا اٹھا لو لیکن اس کا انجام ابھی ابھی معلوم ہو جائے گا ۔
51۔ 1 کیونکہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں۔ اگر آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو نظام عالم قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا یہ فساد اور خرابی کا شکار ہوچکا ہوتا۔ جب کائنات کا خالق ایک ہے اور وہی بلا شرکت غیر تمام کائنات کا نظم و نسق چلا رہا ہے تو معبود بھی صرف وہی ہے جو اکیلا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ نہیں ہیں۔
[٥٠] دو خداؤں کا عقیدہ رکھنے والے مجوسی مذہب کا تعارف :۔ عہد نبوی میں ایران میں مجوسی مذہب رائج تھا یہ لوگ سورج پرست اور آتش پرست تھے۔ اپنے آپ کو سیدنا نوح کا پیرو کار بتاتے اور باقی سب نبیوں کے دشمن تھے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق خدا ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک خیر اور نور کا خدا جسے وہ یزدان کہتے تھے، دوسرا بدی اور تاریکی کا خدا جسے وہ اہرمن کہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی الہامی کتابوں کا نام زند اور اوستا بتاتے تھے اور اہل عرب ان سے متعارف تھے۔ انھیں لوگوں کے عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دو الٰہ بنانا چھوڑ دو کیونکہ اس کائنات کا الٰہ صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور دو خدا آپس میں برابر کی چوٹ ہوتے تو یقیناً ان میں کائنات میں تصرف کے سلسلہ میں جھگڑا ہوجاتا۔ پھر ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا۔ اس طرح یہ نظام کائنات کب کا درہم برہم ہوچکا ہوتا۔ جب تمہیں تجربہ سے معلوم ہے کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ نہ ہی کسی مملکت کے دو حکمران ہوسکتے ہیں۔ پھر اس کائنات میں دو خداؤں کی خدائی کا تصور کیسے درست سمجھا جاسکتا ہے۔
وَقَال اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ ۔۔ : اوپر بتایا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز اور اس کی مطیع و فرماں بردار ہیں، اس مناسبت کے ساتھ اب انسانوں کو اس مالک الملک کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانے سے منع فرمایا ہے۔- یہاں ایک سوال ہے کہ ” اِلٰـهَيْنِ “ کا معنی ہی دو معبود ہے، پھر ” اثْـنَيْنِ “ کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی چیز کی قباحت میں زور پیدا کرنے کے لیے بات تاکید کے ساتھ کی جاتی ہے، یہاں ” اثْـنَيْنِ “ کا مقصد یہی ہے۔ تو جب دو معبود نہیں بن سکتے تو زیادہ کس طرح بن سکتے ہیں ؟ صرف اللہ ہے جو اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ قرآن میں یہ بات کئی جگہ بیان فرمائی، چناچہ فرمایا : (لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا) [ الأنبیاء : ٢٢ ] ” اگر ان دونوں (زمین و آسمان) میں اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہوتے تو وہ دونوں ضرور بگڑ جاتے۔ “ اور دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٣٩) ۔- فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ : ” رَھْبَۃٌ“ اس خوف کو کہتے ہیں جس میں ساتھ بچا بھی جائے، باب ” عَلِمَ “ سے ہے۔ ” فَاِيَّايَ “ پہلے لانے میں اور پھر ” فَارْهَبُوْنِ “ (جو اصل میں فارْھَبُوْنِیْ تھا) میں دوبارہ یاء لانے میں تاکید پر تاکید ہے کہ صرف میری عبادت کرو۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا ذکر غائب کے ساتھ تھا، اب متکلم کے ساتھ ہوگیا، اس التفات کے لیے پہلی فاء آئی ہے۔ اور ” فَاِيَّايَ “ اور ” فَارْهَبُوْن “ دونوں پر فاء آئی ہے، پہلی عطف کے لیے ہے اور دوسری محذوف شرط کی جزا کے لیے ہے، گویا عبارت یوں ہے کہ صرف اللہ ہے جو اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے (اور وہ میں ہوں) پس صرف مجھ سے (اگر کسی سے ڈرنا ہے) تو مجھ سے ڈرو، کسی دوسرے سے نہیں۔
وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰـهَيْنِ اثْـنَيْنِ ۚ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ 51- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- رهب - الرَّهْبَةُ والرُّهْبُ : مخافة مع تحرّز و اضطراب، قال : لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] ، وقال : جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ، وقرئ : مِنَ الرَّهْبِ ، أي : الفزع . قال مقاتل : خرجت ألتمس تفسیر الرّهب، فلقیت أعرابيّة وأنا آكل، فقالت : يا عبد الله، تصدّق عليّ ، فملأت كفّي لأدفع إليها، فقالت : هاهنا في رَهْبِي «5» ، أي : كمّي . والأوّل أصحّ. قال تعالی: وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً- [ الأنبیاء 90] ، وقال : تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ- [ الأنفال 60] ، وقوله : وَاسْتَرْهَبُوهُمْ- [ الأعراف 116] ، أي : حملوهم علی أن يَرْهَبُوا، وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ- [ البقرة 40] ، أي : فخافون، والتَّرَهُّبُ : التّعبّد، وهو استعمال الرّهبة، والرَّهْبَانِيّةُ : غلوّ في تحمّل التّعبّد، من فرط الرّهبة . قال : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] ، والرُّهْبَانُ يكون واحدا، وجمعا، فمن جعله واحدا جمعه علی رَهَابِينَ ، ورَهَابِنَةٌ بالجمع أليق . والْإِرْهَابُ : فزع الإبل، وإنما هو من : أَرْهَبْتُ. ومنه : الرَّهْبُ «1» من الإبل، وقالت العرب : رَهَبُوتٌ خير من رحموت «2» .- ( ر ھ ب ) الرھب - والرھبۃ ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں احتیاط اور اضطراب بھی شامل ہو قرآن میں : ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر 13] تمہاری ہیبت تو ( ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے بڑھکر ہے جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور دفع ) خوف کے لئے اپنے بازو سکیڑ لو ) ۔ اس میں ایک قرآت رھب بضمہ الراء بھی ہے ۔ جس کے معنی فزع یعنی گھبراہٹ کے ہیں متقاتل کہتے ہیں کہ رھب کی تفسیر معلوم کرنے کی غرض سے نکلا دریں اثنا کہ میں کھانا کھا رہا تھا ایک اعرابی عورت آئی ۔ اور اس نے کہا اسے اللہ کے بندے مجھے کچھ خیرات دیجئے جب میں لپ بھر کر اسے دینے لگا تو کہنے لگے یہاں میری آستین میں ڈال دیجئے ( تو میں سمجھ گیا کہ آیت میں بھی ( ھب بمعنی آستین ہے ) لیکن پہلے معنی یعنی گھبراہٹ کے زیادہ صحیح ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَدْعُونَنا رَغَباً وَرَهَباً [ الأنبیاء 90] ہمارے فضل کی توقع اور ہمارے عذاب کے خوف سے ہمیں پکارتے رہتے ہیں ) تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ [ الأنفال 60] اس سے تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر دھاک بٹھائے رکھو گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] اور ان کو دہشت میں ڈال دیا ۔ میں استر ھاب کے معنی دہشت زدہ کرنے کے ہیں ۔ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ [ البقرة 40] اور مجھ سے ہی ڈرو ۔ اور ترھب ( تفعیل کے معنی تعبد یعنی راہب بننے اور عبادت ہیں خوف سے کام لینے کے ہیں اور فرط خوف سے عبادت گذاری میں غلو کرنے رھبانیۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها[ الحدید 27] اور رہبانیت ( لذت دنیا کا چوڑ بیٹھنا جو انہوں نے از خود ایجاد کی تھی ۔ اور رھبان ( صومعہ لوگ واحد بھی ہوسکتا ہے اور جمع بھی جو اس کو واحد دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی جمع رھا بین آتی ہے لیکن اس کی جمع رھا بتۃ بنانا زیادہ مناسب ہے الا رھاب ( افعال ) کے اصل معنی اونٹوں کو خوف زدہ کرنے کے ہیں یہ ارھبت ( فعال کا مصدر ہے اور اسی سے زھب ہے جس کے معنی لاغر اونٹنی ( یا شتر نر قوی کلاں جثہ ) کے میں مشہور محاورہ ہے : ۔ کہ رحم سے خوف بہتر ہے ۔
(٥١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو یا زیادہ معبودوں کی پوجا مت کرو، بس ایک ہی معبود وہی وحدہ لاشریک ہے تو ان بتوں کی پوجا کرنی میں مجھ سے خوف کرو۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :43 دو خداؤں کی نفی میں دو سے زیادہ خداؤں کی نفی آپ سے آپ شامل ہے ۔