Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

60۔ 1 یعنی کافروں کے برے اعمال بیان کئے گئے ہیں انھیں کے لئے بری مثال یا صفت ہے یعنی جہل اور کفر کی صفت۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی جو بیوی اور اولاد یہ ٹھہراتے ہیں، یہ بری مثال ہے جو یہ منکرین آخرت اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں۔ 60۔ 2 یعنی اس کی ہر صفت، مخلوق کے مقابلے میں اعلٰی و برتر ہے، مثلاً اس کا علم و سیع ہے، اس کی قدرت لا متناہی ہے، اس کی جود و عطا بےنظیر ہے۔ و علٰی ہذا القیاس یا یہ مطلب ہے کہ وہ قادر ہے، خالق ہے۔ رازق ہے اور سمیع وبصیر ہے وغیرہ (فتح القدیر) یا بری مثال کا مطلب نقص کوتاہی ہے اور مثل اعلی کا مطلب کمال مطلق ہر لحاظ سے اللہ کے لیے ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] یعنی ایسی گھٹیا صفات تو ان ظالموں کی ہی ہوسکتی ہیں جن کا روز آخرت پر ایمان ہی نہ ہو۔ نہ انھیں یہ معلوم ہے کہ ان کی ایسی ذلیل حرکتوں کی انھیں عبرتناک سزا ملنے والی ہے۔ رہی اللہ کی ذات تو وہ اولاد ہی سے بےنیاز ہے۔ اللہ کی ذات ان کے تصور سے بھی بلند تر اور ماورا ہے اور اس کے لیے ایسی مثالیں اور صفات ثابت کی جاسکتی ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور ہر بلند چیز سے بلند تر ہوں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۔۔ : ” مَثَلُ “ کا معنی کسی چیز کے مشابہ چیز بھی ہے، ضرب المثل، یعنی کہاوت بھی اور صفت اور حال بھی۔ یہاں اکثر مفسرین نے صفت معنی کیا ہے، یعنی وہ مشرکین جن کا اوپر ذکر ہوا، آخرت، حساب کتاب اور جزا و سزا پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بہت برا حال ہے جو قباحت کی انتہائی مثال ہے، اسی وجہ سے وہ اتنے بیوقوف اور سنگ دل ہوگئے ہیں کہ فرضی خداؤں کے لیے اپنی آمدنی کا ایک حصہ مقرر کرتے ہیں، بیٹیوں کو نہایت حقارت سے دیکھتے ہیں، انھیں زندہ درگور کردیتے ہیں، حالانکہ بڑھاپے اور کمزوری میں انھی کے محتاج ہوتے ہیں، اپنے لیے بیٹوں کی پیدائش پر فخر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹوں کے بجائے بیٹیاں بتاتے ہیں۔ فرشتوں کی عبادت کرتے اور انھیں اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔ یہ چند روزہ زندگی سے دھوکا کھانے اور آخرت پر ایمان نہ ہونے کا نتیجہ ہے، اگر انھیں اللہ کے سامنے پیش ہونے کا اور آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی کا یقین ہوتا تو ظلم کی ان صورتوں میں سے ایک کی بھی جرأت نہ کرتے۔ اور اللہ کی صفت تو سب سے اونچی ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں، وہ واحد ہے، احد ہے، اولاد اور والدین سے پاک ہے۔ صرف وہی تمام صفات کمال، جمال اور جلال کا مستحق ہے اور وہی سب پر غالب ہے، زبردست ہے، مگر کمال درجے کا حکیم بھی ہے، وہ اپنے غلبے کو اندھے کی لاٹھی کی طرح نہیں بلکہ نہایت حکمت سے عمل میں لاتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت کے آخیر میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ لڑکی پیدا ہونے کو مصیبت وذلت سمجھنا اور چھپتے پھرنا حکمت خداوندی کا مقابلہ کرنا ہے کیونکہ مخلوق میں نرو مادہ کی تخلیق عین قانون حکمت ہے (روح البیان)- مسئلہ : ان آیتوں میں واضح اشارہ پایا گیا کہ گھر میں لڑکی پیدا ہونے کو مصیبت وذلت سمجھنا جائز نہیں یہ کفار کا فعل ہے تفسیر روح البیان میں بحوالہ شرعہ لکھا ہے کہ مسلمان کو چاہئے کہ لڑکی پیدا ہونے سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے تاکہ اہل جاہلیت کے فعل پر رد ہوجائے اور ایک حدیث میں ہے وہ عورت مبارک ہوتی ہے جس کے پہلے پیٹ سے لڑکی پیدا ہو قرآن کریم کی آیت يَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَهَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ میں بھی اناث کو مقدم کرنے سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ پہلے پیٹ سے لڑکی پیدا ہونا افضل ہے۔- اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس کو ان لڑکیوں میں سے کسی کے ساتھ سابقہ پڑے اور پھر وہ ان کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم کے درمیان پردہ بن کر حائل ہوجائیں گی (روح البیان) - خلاصہ یہ ہے کہ لڑکی کے پیدا ہونے کو برا سمجھنا بری رسم ہے مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے اور اس کے بالمقابل جو اللہ کا وعدہ ہے اس پر مطمئن اور مسرور ہونا چاہئے واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۚ وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 60؀ۧ- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٠) جو لوگ مرنے کے بعد زندگی پر یقین نہیں رکھتے ان کے لیے جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے تو بڑے اعلی درجہ کے صفات یعنی الوہیت، ربوبیت، وحدت ثابت ہیں اور جو اس پر ایمان نہ لائے وہ اس کو سزا دینے میں بڑے زبردست ہیں اور حکمت والے بھی ہیں کہ اس چیز کا حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی کی بھی پرستش نہ کی جائے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَلِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ۭ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ )- عقیدۂ آخرت کے حوالے سے یہ حقیقت لائق توجہ ہے کہ یہ عقیدہ دنیوی زندگی میں انسانی اعمال پر تمام عوامل سے بڑھ کر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں آخرت اور ایمان بالآخرت کے بارے میں بہت تکرار پائی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani