Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

وہ بندوں کو مہلت دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے حلم و کرم لطف و رحم کا بیان ہو رہا ہے کہ بندوں کے گناہ دیکھتا ہے اور پھر بھی انہیں مہلت دیتا ہے اگر فوراً ہی پکڑے تو آج زمین پر کوئی چلتا پھرتا نظر نہ آئے ۔ انسانوں کی خطاؤں میں جانور بھی ہلاک ہو جائیں ۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے ۔ بروں کے ساتھ بھلے بھی پکڑ میں آ جائیں ۔ لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے حلم و کرم لطف و رحم سے پردہ پوشی کر رہا ہے ، در گزر فرما رہا ہے ، معافی دے رہا ہے ۔ ایک خاص وقت تک کی مہلت دئیے ہوئے ہے ، ورنہ کیڑے اور بھنگے بھی نہ بچتے ۔ بنی آدم کے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے عذاب الٰہی ایسے آتے کہ سب کو غارت کر جاتے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ کوئی صاحب فرما رہے ہیں ۔ ظالم اپنا ہی نقصان کرتا ہے تو آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ پرند اپنے گھونسلوں میں بوجہ اس کے ظلم کے ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ ذکر کر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا اللہ کسی نفس کو ڈھیل نہیں دیتا عمر کی زیادتی نیک اولاد سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عنایت فرماتا ہے پھر ان بچوں کی دعائیں ان کی قبر میں انہیں پہنچتی رہتی ہیں ، یہی ان کی عمر کی زیادتی ہے ۔ اپنے لئے یہ ظالم لڑکیاں ناپسند کریں ، شرکت نہ چاہیں اور اللہ کے لئے یہ سب روا رکھیں ۔ پھر یہ خیال کریں کہ یہ دنیا میں بھی اچھائیاں سمیٹنے والے ہیں اور اگر قیامت قائم ہوئی تو وہاں بھی بھلائی ان کے لئے ہے ۔ یہ کہا کرتے تھے کہ نفع کے مستحق اس دنیا میں تو ہم ہیں ہی اور صحیح بات تو یہ ہے کہ قیامت نے آنا نہیں ۔ بالفرض آئی بھی تو وہاں کی بہتری بھی ہمارے لئے ہی ہے ان کفار کو عنقریب سخت عذاب چکھنے پڑیں گے ، ہماری آیتوں سے کفر پھر آرزو یہ کہ مال و اولاد ہمیں وہاں بھی ملے گا ۔ سورہ کہف میں دو ساتھیوں کا ذکر کر تے ہوئے قرآن نے فرمایا ہے کہ وہ ظالم اپنے باغ میں جاتے ہوئے اپنے نیک ساتھی سے کہتا ہے میں تو اسے ہلاک ہو نے والا جانتا ہی نہیں نہ قیامت کا قائل ہوں اور اگر بالفرض میں دو بارہ زندہ کیا گیا تو وہاں اس سے بھی بہتر چیز دیا جاؤں گا ۔ کام برے کریں آ زو نیکی کی رکھیں ۔ کانٹے بوئیں اور پھل چاہیں ۔ کہتے ہیں کعبتہ اللہ شریف کی عمارت کو نئے سرے سے بنانے کے لئے جب ڈھایا تو بنیادوں میں سے ایک پتھر نکلا ، جس پر ایک کتبہ لکھا ہوا تھا ، جس میں یہ بھی لکھا تھا کہ تم برائیاں کرتے ہو اور نیکیوں کی امید رکھتے ہو یہ ایسا ہی ہے جیسے کانٹے بو کر انگور کی امید رکھنا ۔ پس انکی امیدیں تھیں کہ دنیا میں بھی انہیں جاہ و حشمت اور لونڈی غلام ملیں گے اور آخرت میں بھی ۔ اللہ فرماتا ہے دراصل ان کے لئے آتش دوزخ تیار ہے ۔ وہاں یہ رحمت رب سے بھلا دئیے جائیں گے اور ضائع اور برباد ہو جائیں گے آج یہ ہمارے احکام بھلائے بیٹھے ہیں ، کل انہیں ہم اپنی نعمتوں سے بھلا دیں گے ، یہ جلدی ہی جہنم نشین ہونے والے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61۔ 1 یہ اس کی نرم دلی ہے اور اس کی حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مواخذہ ہی کرتا ہے حالانکہ اگر ارتکاب معصیت کے ساتھ ہی وہ مواخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم اور معصیت اور کفر اور شرک اتنا عام ہے کہ روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہوجائے تو پھر عذاب عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کردیئے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ عند اللہ سرخرو رہیں گے جیسا کہ حدیث میں وضاحت آتی ہے (ملاحظۃ ہو صحیح بخاری۔ نمبر 2118۔ 61۔ 2 یہ اس کی حکمت کا بیان ہے جس کے تحت وہ ایک خاص وقت تک مہلت دیتا ہے تاکہ ایک تو ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ دوسرے، ان کی اولاد میں سے کچھ ایماندار نکل آئیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٨] ظالموں اور مشرکوں کو نیست ونابود کرنا اللہ کی مشیئت کے خلاف ہے :۔ عذاب کی جو بھی صورت ہو وہ بالآخر تمام مخلوق کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک معمولی سی مثال یہ لیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ بارش برسانا بند کردے۔ تو انسان کو پانی پینے کو ملے نہ حیوانات کو، نہ سبزی اور گھاس وغیرہ اگیں اور نہ پھلدار درخت اور چند ہی دنوں میں تمام مخلوق بھوک سے مرجائے اور دنیا ویران اور سنسان بن جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جتنے مشرک اور ظالم قسم کے انسان ہیں صرف انہی پر اللہ کا قہر نازل ہو اور باقی صرف نیک لوگ رہ جائیں۔ زمین میں ایسی آبادی بھی اللہ کی مشیئت نہیں اور ایسی مخلوق جو نیک ہی ہوں وہ تو پہلے سے ہی فرشتوں کی صورت میں موجود تھی اللہ نے تو اس دنیا کو امتحان گاہ بنانا اور اسے آباد رکھنا ہے اور اس کی واحد صورت یہی ہے کہ اس دنیا میں نیک و بد دونوں قسم کے لوگ موجود رہیں۔ معرکہ حق و باطل ہوتا رہے اور ان کی آزمائش کا عمل جاری رہے۔ لہذا مجرموں کو فوری طور پر سزا دے کر ہلاک کردینا اللہ کے دستور اور حکمت کے خلاف ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ ۔۔ : ” يُؤَاخِذُ “ یہاں ” یَأْخُذُ “ کے معنی میں ہے، باب مفاعلہ اس لیے استعمال کیا ہے کہ اس میں پوچھ گچھ کا مفہوم بھی واضح ہوتا ہے۔ ظلم سے مراد کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ رکھنا ہے، سب سے بڑا ظلم شرک ہے، پھر اللہ کی کسی حد سے تجاوز کرنا اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنا ظلم کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہی بات سورة فاطر کی آخری آیت میں بیان فرمائی ہے۔ - ” النَّاسَ “ سے مراد یا تو کافر و مشرک ہیں، یا سارے ہی انسان مراد ہیں، خواہ کتنے نیک ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر اور اس کے احکام کی پوری ادائیگی کوئی بھی نہ کرسکا ہے نہ کرسکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (ۭكَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ ) [ عبس : ٢٣ ] ” ہرگز نہیں، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا۔ “ یہ اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں نیک و بد سب کو ایک وقت تک مہلت ملی ہوئی ہے۔ لیکن اگر کبھی دنیا میں اللہ کی گرفت آجائے تو سب نیک و بد، حتیٰ کہ چرند پرند وغیرہ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، سوائے اس کے جس پر اللہ رحم کرے، پھر قیامت کے دن ہر ایک سے اس کے اپنے ایمان اور نیت و عمل کے مطابق معاملہ ہوگا۔ اس مفہوم کی حدیث کے لیے دیکھیے صحیح بخاری کی ” کِتَابُ الْبُیُوْعِ ، بَابُ مَا ذُکِرَ فِی الْأَسْوَاقِ (٢١١٨) “ میں اس لشکر کا ذکر جو کعبہ پر حملہ کے لیے آئے گا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور اگر اللہ تعالیٰ (ظالم) لوگوں پر ان کے ظلم (یعنی شرک وکفر) کے سبب (فی الفور دنیا میں پوری) دارو گیر فرماتے تو سطح زمین پر کوئی (حس) و حرکت کرنے والا نہ چھوڑتے (بلکہ سب کو ہلاک کردیتے لیکن (فی الفور داروگیر نہیں فرماتے بلکہ) ایک میعاد معین تک مہلت دے رہے ہیں (تاکہ اگر کوئی توبہ کرنا چاہے تو گنجائش ہو) پھر جب ان کا (وہ) وقت معین (نزدیک) آپہنچے گا اس وقت ایک ساعت نہ (اس سے) پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے (بلکہ فورا سزا ہو جائیگی) اور اللہ تعالیٰ کے لئے وہ امور تجویز کرتے ہیں جن کو خود (اپنے لئے) ناپسند کرتے ہیں (جیسا اوپر آیا ہے (آیت) وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ ) اور (پھر) اس پر اپنی زبان سے جھوٹے دعوے کرتے جاتے ہیں کہ ان کے (یعنی ہمارے) لئے (برتقدیر وقوع قیامت) ہر طرح کی بھلائی ہے (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بھلائی کہاں سے آئی تھی بلکہ) لازمی بات ہے کہ ان کے لئے (قیامت کے دن) دوزخ ہے اور بیشک وہ لوگ (دوزخ میں) سب سے پہلے بھیجے جائیں گے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کے کفر و جہالت پر کچھ غم نہ کیجئے کیونکہ) بخدا آپ (کے زمانہ) سے پہلے جو امتیں ہو گذری ہیں ان کے پاس بھی ہم نے رسولوں کو بھیجا تھا (جیسا کہ آپ کو ان کے پاس بھیجا ہے) سو (جس طرح یہ لوگ اپنی کفریات کو پسند کرتے ہیں اور اس پر قائم ہیں اسی طرح) ان کو شیطان نے ان کے اعمال (کفریہ) مستحسن کر کے دکھلائے پس وہ (شیطان) آج (یعنی دنیا میں) ان کا رفیق ہے (یعنی رفیق تھا کہ ان کو بہکاتا سکھاتا تھا پس دنیا میں تو ان کو یہ خسارہ ہوا) اور (پھر قیامت میں) ان کے واسطے دردناک سزا (مقرر) ہے (غرض یہ لاحقین بھی ان سابقین کی طرح کفر کر رہے ہیں اور انہی کی طرح ان کو سزا بھی ہوگی آپ کیوں غم میں پڑے) اور ہم نے آپ پر یہ کتاب (جس کا نام قرآن ہے اس واسطے نازل نہیں کی کہ سب کا ہدایت پر لانا آپ کے ذمہ ہوتا کہ بعض کے ہدایت پر نہ آنے سے آپ مغموم ہوں بلکہ) صرف اس واسطے نازل کی ہے کہ جن امور (دین) میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں (مثل توحید ومعاد و احکام حلال و حرام) آپ (عام) لوگوں پر اس کو ظاہر فرما دیں (یہ فائدہ تو قرآن کا عام ہے) اور ایمان والوں کی ہدایت (خاصہ) اور رحمت کی غرض سے (نازل فرمایا ہے سو یہ امور بفضلہ تعالیٰ حاصل ہیں) اور اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا (یعنی اس کی قوت نامیہ کو بعد اس کے خشک ہوجانے سے کمزور ہوگئی تھی تقویت دی) اس (امر مذکور) میں ایسے لوگوں کے لئے (توحید کی اور منعم ہونے کی) بڑی دلیل ہے جو (جی سے ان باتوں کو) سنتے ہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ 61؀- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- دأب - الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ- [إبراهيم 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها .- ( د ء ب ) الداب - کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔- أخر ( تاخیر)- والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم 44] - ( اخ ر ) اخر - التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر - أجل - الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص 28] .- ( ا ج ل ) الاجل - ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦١) اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے کفر پر پکڑ کریں تو سطح زمین پر جن وانس میں سے کسی کو نہ چھوڑیں، لیکن ان کو ان کی متعین زندگیوں تک مہلت دے رہے ہیں، پھر جب ان کی ہلاکت کا وقت معین آپہنچے گا، اس وقت ایک گھڑی نہ اس سے پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے کہ وقت سے پہلے ہلاک ہوجائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦١ (وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى)- یہ اللہ کی خاص رحمت ہے کہ وہ لوگوں کے ظلم و معصیت کی پاداش میں فوری طور پر ان کی گرفت نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دے کر انہیں اصلاح کا پورا پورا موقع دیتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani