Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

62۔ 1 یعنی بیٹیاں۔ یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔ 62۔ 2 یہ ان کی دوسری خرابی کا بیان ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ کرتے ہیں ان کی زبانیں یہ جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کا انجام اچھا ہے، ان کے لئے بھلائیاں ہیں اور دنیا کی طرح ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔ 62۔ 3 یعنی یقیناً ان کا انجام اچھا ہے اور وہ ہے جہنم کی آگ، جس میں وہ دوزخیوں کے پیش رو پہلے جانے والے ہوں گے۔ فَرَط کے یہی معنی حدیث سے بھی ثابت ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اَ نَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ (صحیح بخاری) میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا ایک دوسرے معنی مفرَطُوْنَ کے یہ کئے گئے ہیں کہ انھیں جہنم میں ڈال کر فراموش کردیا جائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] مشرک مکروہ باتیں اللہ کے لئے تجویز کرتے ہیں :۔ یہ مشرک اپنے لیے بیٹیوں کے وجود کو باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں مگر اللہ کے لیے وہی تجویز کرتے ہیں۔ خود یہ برداشت نہیں کرتے کہ ان کی جائیداد یا مال و دولت میں کوئی اجنبی آکر شریک ہوجائے لیکن اللہ کی کائنات میں اس کے شریک بنانا پسند کرتے ہیں۔ خود یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کا مذاق اڑایا جائے مگر اللہ کی آیات کا مذاق اڑا کر خوش ہوتے ہیں۔ کرتوت تو ان کے یہ ہیں اور زبانی دعوے یہ ہیں کہ اللہ ان پر مہربان ہے تبھی تو اس نے ہمیں خوشحال بنایا ہے اور اگر قیامت قائم ہوئی بھی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اس وقت ہم پر مہربان نہ ہو۔ لہذا ہمارے لیے یہاں دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت میں بھی بھلائی ہی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوزخ کی آگ ایسے لوگوں کی انتظار میں ہے اور سب سے پہلے یہی لوگ اس کا لقمہ بنیں گے۔ اور کچھ مشرک جو آخرت کا بھی موہوم سا اعتقاد رکھتے تھے، دعویٰ سے کہتے تھے کہ ہم ان فرشتوں یا اللہ کی بیٹیوں کی اس لیے پوجا کرتے ہیں کہ یہ ہمارے وسیلے ہیں لہذا آخرت میں ہمارے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے۔ جس کا اللہ نے یوں جواب دیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ : مثلاً یہ مشرک اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ ان کی ملکیت کا کوئی دوسرا بھی مالک بنے، مگر اللہ کی ملکیت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ (دیکھیے روم : ٢٨) اپنے قاصد کی تکریم چاہتے ہیں مگر اللہ کا پیغام لانے والوں سے ٹھٹھا کرتے ہیں، اپنے لیے گالی برداشت نہیں کرتے مگر اللہ کو گالی دیتے ہیں، مثلاً یہ کہنا کہ اللہ کی اولاد ہے، اس کے لیے گالی ہے اور کئی بدبخت ایسے ہیں کہ اللہ نے انھیں سب کچھ دیا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کو صاف گالیاں دیتے ہیں، پھر اپنے لیے بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ غرض جو کچھ وہ اپنے غلاموں کی طرف سے اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اللہ کے غلام بلکہ مخلوق ہو کر وہ ساری بدتمیزیاں اس کے ساتھ کرتے ہیں، وہ پھر بھی صبر کرتا ہے اور مہلت دیتا ہے۔ (سبحان اللہ) - وَتَصِفُ اَلْسِـنَتُهُمُ الْكَذِبَ : کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں چین اور خوش حالی ملی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کا ہم پر خوش ہونا ثابت ہوتا ہے، اس لیے اگر آخرت واقعی ہوئی تو وہاں ہمیں یہ سب کچھ ملے گا۔ دیکھیے سورة مریم (٧٧ تا ٨٠) ، سورة حٰمٓ السجدہ (٥٠) اور سورة کہف (٣٦) ۔- وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ :” مُّفْرَطُوْنَ “ باب افعال سے اسم مفعول ہے۔ ” فَرَطٌ“ اسے کہتے ہیں جسے کوئی قوم اپنے سے پہلے بھیج دے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ) [ بخاری، الرقاق، باب في الحوض : ٦٥٧٥، عن ابن مسعود (رض) ] ” میں حوض پر تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے ضروریات کا بندوبست کرنے والا ہوں۔ “ یعنی کوئی شک نہیں کہ انھی کے لیے آگ ہے اور یہ مشرک دوسرے گناہ گاروں سے پہلے وہاں پہنچائے جانے والے ہیں۔ ” مُّفْرَطُوْنَ “ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ وہ دوزخ میں جھونک دیے جانے کے بعد وہیں چھوڑ دیے جائیں گے اور انھیں قطعی فراموش کردیا جائے گا، وہیں پڑے سڑتے رہیں گے، فرمایا : (وَقِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا ) [ الجاثیۃ : ٣٤ ] ” اور کہہ دیا جائے گا کہ آج ہم تمہیں بھلا دیں گے جیسے تم نے اپنے اس دن کے ملنے کو بھلا دیا۔ “ عرب کہتے ہیں : ” مَا أَفْرَطْتُ وَرَاءِيْ أَحَدًا “ ” میں نے اپنے پیچھے کسی کو نہیں چھوڑا۔ “ مفسرین نے دونوں معانی بیان کیے ہیں اور دونوں باتیں ایک ہی وقت میں ہوسکتی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ وَتَصِفُ اَلْسِـنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰى ۭ لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ 62؀- كره - قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ :- ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] - ( ک ر ہ ) الکرہ - ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ - وصف - الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ :- الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116]- ( و ص ف ) الوصف - کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔ - لسن - اللِّسَانُ : الجارحة وقوّتها، وقوله : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] يعني به من قوّة لسانه، فإنّ العقدة لم تکن في الجارحة، وإنما کانت في قوّته التي هي النّطق به، ويقال : لكلّ قوم لِسَانٌ ولِسِنٌ بکسر اللام، أي : لغة . قال تعالی: فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58] ، وقال : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] ، وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ- [ الروم 22] فاختلاف الْأَلْسِنَةِ إشارة إلى اختلاف اللّغات، وإلى اختلاف النّغمات، فإنّ لكلّ إنسان نغمة مخصوصة يميّزها السّمع، كما أنّ له صورة مخصوصة يميّزها البصر .- ( ل س ن ) اللسان - ۔ زبان اور قوت گویائی کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي [ طه 27] اور میری زبان کی گرہ گھول دے ۔ یہاں لسان کے معنی قلت قوت گویائی کے ہیں کیونکہ وہ بندش ان کی زبان پر نہیں تھی بلکہ قوت گویائی سے عقدہ کشائی کا سوال تھا ۔ محاورہ ہے : یعنی ہر قوم را لغت دلہجہ جدا است ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّما يَسَّرْناهُ بِلِسانِكَ [ الدخان 58]( اے پیغمبر ) ہم نے یہ قرآن تمہاری زبان میں آسان نازل کیا ۔ بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195] فصیح عربی زبان میں ۔ اور آیت کریمہ : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور نگوں کا اختلاف ۔ میں السنہ سے اصوات اور لہجوں کا اختلاف مراد ہے ۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح دیکھنے میں ایک شخص کی صورت دوسرے سے نہیں ملتی اسی طرح قوت سامعہ ایک لہجہ کو دوسرے سے الگ کرلیتی ہے ۔- صدق وکذب - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔ الکذب - یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - جرم ( لاجرم)- وقیل : جَرَمَ وجَرِمَ بمعنی، لکن خصّ بهذا الموضع «جرم» كما خصّ عمر بالقسم، وإن کان عمر وعمر «7» بمعنی، ومعناه : ليس بجرم أنّ لهم النار، تنبيها أنهم اکتسبوها بما ارتکبوه إشارة إلى قوله تعالی: وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية 15] .- وقد قيل في ذلك أقوال، أكثرها ليس بمرتضی عند التحقیق «1» .- وعلی ذلک قوله عزّ وجل : فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل 22] ، لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل 23] ، وقال تعالی: لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل 109] - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل 109] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے لااصل میں محذوف پر داخل ہوا ہے جیسا کہ میں لا آتا ہے اور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( بتقادب ) (89) لاوابیک ابنۃ العامری اور جرم فعل ماضی ہے جس کے معنی اکسبیا جنی ٰ کے ہیں اس کے بعد ان لھم النار ( جملہ ) موضع مفعول میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے لئے ( دوزخ کی آگ ) حاصل کی ۔ بعض نے کہا ہے جرم اور جرم کے ایک ہی - معنی ہیں لیکن لا کے ساتھ جرم آتا ہے جیسا کہ قسم کے ساتھ عمرو کا لفظ مختض ہے اگرچہ عمر و عمر کے معنی ایک ہی ہیں اور معنی یہ ہے کہ ان کے لئے آگ کا ہونا کسی کا جرم نہیں ہوگا بلکہ یہ ان کے عملوں کی سزا ہوگی اور انہوں نے خود ہی اسے اپنے لئے حاصل کیا ہوگا جیسا کہ آیت وَمَنْ أَساءَ فَعَلَيْها [ الجاثية 15] اور جو برے کام کرے گا ۔ تو ان کا ضرو اسی کو ہوگا ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی تفسیر میں اور بھی بہت سے اقوال منقول ہیں ۔ لیکن ان میں سے اکثر تحقیق کی رو سے صحیح نہیں ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا :۔ فَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ [ النحل 22] لا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يُسِرُّونَ وَما يُعْلِنُونَ [ النحل 23] تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کررہے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں خدا ضرور اس کو جانتا ہے ۔ لا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخاسِرُونَ [ النحل 109] کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے - نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - فرط - فَرَطَ : إذا تقدّم تقدّما بالقصد يَفْرُطُ ، ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] . - ( ف ر ط ) فرط - یفرط ( ن ) کے معنی قصدا آگے بڑھ جانے کے ہیں ما فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ [يوسف 80] تم یوسف کے بارے میں قصؤر کرچکے ہو ۔ افرطت القریۃ مشکیزہ کو پانی سے خوب بھر دیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٢) (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں جن کو خود اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنی زبان سے جھوٹے دعوے کرتے جاتے ہیں کہ ہمارے لیے لڑکے یا یہ کہ ہمارے لیے جنت ہے، ان لوگوں کے لیے جنت کہاں سے ہوتی، یقینی بات ہے کہ ان کے لیے جہنم ہے اور یہ سب سے پہلے اس میں ڈالے جائیں گے یا یہ کہ یہ دوزخ کی طرف منسوب کیے جائیں گے اور یا یہ کہ یہ قول وفعل میں حد سے تجاوز کررہے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ مَا يَكْرَهُوْنَ )- یعنی ان میں سے کوئی بھی خود بیٹی کا باپ بننا پسند نہیں کرتا مگر اللہ کے ساتھ بیٹیاں منسوب کرتے ہوئے یہ لوگ ایسا کچھ نہیں سوچتے۔- (وَتَصِفُ اَلْسِـنَتُهُمُ الْكَذِبَ اَنَّ لَهُمُ الْحُسْنٰى)- یہ لوگ اس زعم میں ہیں کہ دنیا میں انہیں عزت ‘ دولت اور سرداری ملی ہوئی ہے ‘ تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ ان سے خوش ہے اور انہیں یہ خوش فہمی بھی ہے کہ اگر اس نے یہاں انہیں یہ سب کچھ دیا ہے تو آخرت میں بھی وہ ضرور انہیں اپنی نعمتوں سے نوازے گا۔ چناچہ دنیا ہو یا آخرت ان کے لیے تو بھلائی ہی بھلائی ہے۔- (لَا جَرَمَ اَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَاَنَّهُمْ مُّفْرَطُوْنَ )- دنیا میں ان کی رسی دراز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی میں جس حد تک جری ہو کر آگے بڑھ سکتے ہیں بڑھتے چلے جائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani