شیطان کے دوست اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ تسلی رکھیں ۔ آپ کو آپ کی قوم کا جھٹلانا کوئی انوکھی بات نہیں کون سا نبی آیا جو جھٹلایا نہ گیا ؟ باقی رہے جھٹلانے والے وہ شیطان کے مرید ہیں ۔ برائیاں انہیں شیطانی وسو اس سے بھلائیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کا ولی شیطان ہے وہ انہیں کوئی نفع پہنچانے والا نہیں ۔ ہمیشہ کے لئے مصیبت افزا عذابوں میں چھوڑ کر ان سے الگ ہو جائے گا ۔ قرآن حق و باطل میں سچ جھوٹ میں تمیز کرانے والی کتاب ہے ، ہر جھگڑا اور ہر اختلاف کا فیصلہ اس میں موجود ہے ۔ یہ دلوں کے لئے ہدایت ہے اور ایماندار جو اس پر عامل ہیں ، ان کے لئے رحمت ہے ۔ اس قرآن سے کس طرح مردہ دل جی اٹھتے ہیں ، اس کی مثال مردہ زمین اور بارش کی ہے جو لوگ بات کو سنیں ، سمجھیں وہ تو اس سے بہت کچھ عبرت حاصل کر سکتے ہیں ۔
63۔ 1 جس کی وجہ سے انہوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی جس طرح پیغمبر قریش مکہ تیری تکذیب کر رہے ہیں۔ 63۔ 2 اَلْیَوْمَ سے یا تو زمانہ دنیا مراد ہے، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، یا اس سے مراد آخرت ہے کہ وہاں بھی یہ ان کا ساتھی ہوگا۔ یعنی یہی شیطان جس نے پچھلی امتوں کو گمراہ کیا، آج وہ ان کفار مکہ کا دوست ہے اور انھیں تکذیب رسالت پر مجبور کر رہا ہے۔
[٦٠] پہلے رسولوں کی امتوں کو بھی یہی کچھ سوجھتا رہا۔ وہ بھی دنیا کی دل فریبیوں اور دلچسپیوں میں مگن اور مست ہوگئے اور شیطان انھیں بھی یہی پٹی پڑھاتا رہا کہ تمہارا پروردگار اس وقت تم پر بڑا مہربان ہے لیکن بالآخر وہ اللہ کی گرفت میں آگئے اور ان کا نام و نشان بھی صفحہ ئہستی سے مٹ گیا۔ اور آج شیطان ان مکہ کے کافروں کو یہی کچھ سجھا رہا ہے اور جو کچھ یہ ظلم اور زیادتیاں مسلمانوں سے کر رہے ہیں، انھیں نہایت اچھے کام بناکر ان کا جی خوش کر رہا ہے لیکن انجام ان کا بھی وہی ہونے والا ہے جو پہلے لوگوں کا ہوا تھا۔ اس آیت میں الیوم سے مراد قیامت کا دن بھی لیا جاسکتا ہے۔ یعنی قیامت کے دن بھی شیطان ہی ان کا لیڈر ہوگا جو انھیں جہنم کے دردناک عذاب میں جاپہنچائے گا۔
تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کی قسم کھا کر فرمایا اور اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا کہ ” ہم “ نے رسول بھیجے، ورنہ اللہ تعالیٰ تو ایک ہے۔ - فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ : تو شیطان جو ازلی دشمن تھا، اس نے ان کے وہی برے اعمال جو وہ کرتے تھے، مثلاً کفر و شرک اور دوسری کمینگیاں، وہ ان کے لیے ایسے خوش نما اور خوبصورت بنا دیے کہ انھوں نے سمجھا ہم بہت اچھے کام کر رہے ہیں، چناچہ اسی دھوکے میں انھوں نے رسولوں کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ - فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ ۔۔ : تو وہی جو ہمیشہ کا دشمن تھا آج ان کا دوست بن گیا اور ظاہر ہے کہ جہاں ان کا دوست جائے گا اس کے ساتھ ہی وہ بھی عذاب الیم میں جائیں گے۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ شیطان جو پہلی کافر قوموں کا دوست بنا تھا آج ان کفار عرب کا بھی وہی دوست ہے اور ان کا نتیجہ بھی وہی ہے جو ان کا ہوا۔ مقصد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان کفار کی حرکتوں سے رنجیدہ اور کبیدہ خاطر نہ ہوں، پہلے بھی ایسے ہوتا رہا ہے۔
تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ 63- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - الأُمّة :- كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام 38] - - الامۃ - ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں - زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )
(٦٣) بخدا آپ سے پہلے بھی دیگر امتوں کو شیطان نے ان کے اعمال کفریہ مستحسن کرکے دکھلائے اور وہ انبیاء کرام پر ایمان نہ لائے، وہ دنیا میں بھی ان کا رفیق تھا اور دوزخ میں بھی ان کے ساتھ ہوگا اور ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب مقرر ہے۔
آیت ٦٣ (تَاللّٰهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ )- شیطان کے بہکاوے کے سبب وہ لوگ اس خوش فہمی میں رہے کہ ان کا کلچر ان کی تہذیب اور ان کی روایات سب سے اعلیٰ ہیں۔
26: یعنی یہ پٹی پڑھائی کہ تم جو اعمال کر رہے ہو وہی بہترین اعمال ہے۔