Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 اس میں نبی کا یہ منصب بیان کیا گیا کہ عقائد و احکام شرعیہ کے سلسلے میں یہود و انصاری کے درمیان اور اسی طرح مجوسیوں اور مشرکین کے درمیان اور دیگر اہل مذاہب کے درمیان جو باہم اختلاف ہے، اس کی اس طرح تفصیل بیان فرمائیں کہ حق اور باطل واضح ہوجائے تاکہ لوگ حق کو اختیار اور باطل سے پرہیز کریں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦١] اختلافات کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟ کفار مکہ سے اختلاف یہ تھے کہ آیا اللہ اکیلا ہی الٰہ ہے یا اس کے ساتھ دوسرے الٰہ بھی ہونا ضروری ہیں۔ قیامت قائم ہوگی یا یہ محض ایک وہم ہے فلاں حلال چیز کو اللہ نے حرام کیا ہے یا دوسروں نے یا فلاں حرام چیز کو کس نے حلال بنایا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ اور قرآن اس لیے اتارا گیا کہ ایسے سب مسائل کو وضاحت اور تحقیق کے ساتھ بیان کر دے تاکہ کچھ اشکال یا اشتباہ باقی نہ رہے اور رسول اللہ کا یہ کام تھا کہ آپ ایسی تمام اختلافی باتوں کا دو ٹوک فیصلہ سنا کر بندوں پر اللہ کی حجت قائم کردیں یہ تو دور نبوی کے اختلاف تھے اور آج کے اختلافی مسائل ان مسائل سے کچھ ملتے جلتے بھی ہیں اور کچھ الگ نوعیت کے بھی ہیں۔ تاہم ان کا بھی علاج وہی ہے جو کفار مکہ کے لیے تجویز کیا گیا تھا یعنی کتاب و سنت کو اگر مستحکم بنیاد قرار دے دیا جائے تو آج بھی اختلافی مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور فرقوں میں بٹی ہوئی امت متحد ہوسکتی ہے۔ لہذا یہ قرآن اور اللہ کا رسول یا اس کی سنت ہر دور کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث بن سکتے ہیں بشرطیکہ لوگ انھیں حکم تسلیم کرلیں اور ایسے ایمان لائیں جیسے ایمان لانے کا حق ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ ۔۔ : پہلی امتوں کی طرح اس وقت بھی جو لوگ شیطان کے خوش نما پھندوں میں گرفتار ہیں، ان کے لیے ہر اختلاف کا فیصلہ کرکے اصل حقیقت کھول کر بیان کرنے ہی کے لیے ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب نازل کرنے کا مقصد ان تمام چیزوں کی تبیین و وضاحت بھی ہے جس میں لوگ خود فیصلہ نہیں کرسکتے، اس لیے قرآن کی ہر بات کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل اور تقریر سے فرمائی، ورنہ اللہ کی عبادت نماز، زکوٰۃ، حج، روزہ غرض سب کچھ اختلاف کی نذر ہوجاتا، لوگ ایک طریقے پر متفق ہی نہ ہوسکتے، نہ کتاب اللہ پر عمل ہوسکتا۔ منکرین حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وضاحت کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اس لیے وہ اس ہدایت اور رحمت سے بھی محروم ہیں جو اس کتاب سے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبیین و وضاحت سے اہل ایمان ” لِقَوْمٍ یُّوْمِنُوْنَ “ کو حاصل ہوتی ہے اور درحقیقت وہ قرآن کو بھی نہیں مانتے، ورنہ قرآن کی متعدد آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر جھگڑے اور اختلاف میں فیصل ماننے، ان کا اتباع کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم موجود ہے۔ مزید دیکھیے اسی سورت کی آیت (٨٩) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ۙ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ 64؀- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال :- فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) اور ہم نے آپ پر یہ قرآن حکیم صرف اس لیے نازل کیا ہے کہ جن امور دین میں لوگوں میں اختلاف ہیں آپ لوگوں پر اس کو ظاہر کردیں اور اس پر ایمان لانے والوں کی گمراہیوں سے ہدایت اور عذاب سے رحمت کی غرض سے نازل فرمایا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ )- اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة یونس کی یہ دو آیات بھی ذہن میں رکھیے : - (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ 57؀ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا ۭ ھُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ )- ” اے لوگو آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے جو روگ ہیں ان) کی شفا اور ہدایت اور اہل ایمان کے حق میں (بہت بڑی) رحمت۔ (اے نبی ان سے) کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں وہ بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :53 دوسرے الفاظ میں ، اس کتاب کے نزول سے ان لوگوں کو اس بات کا بہترین موقع ملا ہے کہ اوہام اور تقلیدی تخیلات کی بنا پر جن بے شمار مختلف مسلکوں اور مذہبوں میں یہ بٹ گئے ہیں ان کے بجائے صداقت کی ایک بڑی پائیدار بنیاد پالیں جس پر یہ سب متفق ہو سکیں ۔ اب جو لوگ اتنے بے وقوف ہیں کہ اس نعمت کے آجانے پر بھی اپنی پچھلی حالت ہی کو ترجیح دے رہے ہیں وہ تباہی اور ذلت کے سوا اور کوئی انجام دیکھنے والے نہیں ہیں ۔ اب تو سیدھا راستہ وہی پائے گا اور وہی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال ہوگا جو اس کتاب کو مان لے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani