83۔ 1 یعنی اس بات کو جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ساری نعمتیں پیدا کرنے والا اور ان کا استعمال میں لانے کی صلاحیتیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، پھر بھی اللہ کا انکار کرتے ہیں اور اکثر ناشکری کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔
[٨٥] یعنی بار بار اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلاتے رہنے کے باوجود بھی اگر یہ لوگ اس طرف متوجہ نہیں ہوتے تو آپ اپنا کام کرتے جائیے۔ آپ کی صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے کہ آپ انھیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا کریں۔ اور حقیقت حال یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں مگر جب شکرگزاری اور اظہار اطاعت کا وقت آتا ہے تو سب کچھ بھول جاتے ہیں گویا دل سے سمجھتے تو ہیں مگر عمل سے انکار کرتے ہیں۔
يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا : یعنی خوب جانتے ہیں کہ یہ تمام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات عنایت فرما رہی ہے، مگر جب عملاً شکر گزاری کا وقت آتا ہے تو انکار کردیتے ہیں۔ ” ثُمَّ “ یہاں تعجب کے لیے ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے پھر اللہ کی نعمتوں کا انکار کردیتے ہیں، گویا دل میں نعمتوں کا اقرار اور اپنے عمل سے انکار کرتے ہیں، بلکہ پوچھنے پر اللہ کی نعمتوں کا اقرار زبان سے بھی کرتے ہیں، مثلاً تمہیں کس نے پیدا کیا ؟ جواب دیں گے اللہ نے۔ (دیکھیے زخرف : ٨٧) اسی طرح سورة مومنون (٨٤ تا ٨٩) میں ان کے اعترافات ذکر فرمائے ہیں۔ مگر وہ ایمان لانے پر تیار نہ تھے، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ صرف ” لا الٰہ الا اللہ “ کہنے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ اپنی مرضی چھوڑ کر ہر کام میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم ماننا پڑے گا اور اس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ ہمارے ہاں بس ” لا الٰہ الا اللہ “ کہنا جنت کے لیے کافی سمجھا گیا ہے، خواہ پوری زندگی اس کے خلاف ہو۔ وجہ اس کی محض طوطے کی طرح کہنا اور مفہوم سے مکمل لاتعلقی ہے۔ بعض اہل علم نے ” نِعْمَتَ اللّٰهِ “ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی لی ہے، یعنی یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے بھی ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ - وَاَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ :” اَكْثَرُهُمُ “ اس لیے فرمایا کہ ان کے اکثر جانتے ہوئے کافر تھے۔ کچھ جہل کی وجہ سے بھی انکار کرتے تھے، کچھ دل میں ایمان کا ارادہ بھی رکھتے تھے، کچھ چھوٹے بچے تھے، جو فطرتاً مسلمان تھے مگر کفار کی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کا شمار دنیوی لحاظ سے کفار میں ہوتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے انصاف کا اور انتہائی احتیاط کا ایک نمونہ ہے کہ ان سب کو نعمت پہچان کر پھر کفر کرنے والے قرار نہیں دیا، بلکہ یہ حکم ان کے اکثر پر لگایا۔
يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا وَاَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ 83ۧ- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، - قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(٨٣) چناچہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کو یہ نعمتیں یاد دلائیں تو کہنے لگے بیشک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں، اس کے بعد پھر اس چیز کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے بتوں کی سفارش سے یہ نعمتیں ملی ہیں، اسی چیز کو اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ خود اقرار کر رہے ہیں کہ یہ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر پھر کہتے ہیں کہ ہمارے بتوں کی سفارش سے ایسا ہوا ہے ان اللہ تعالیٰ کے منکر اور کافر ہیں۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ یعرفون نعمت اللہ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ایک اعرابی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے آپ سے کچھ پوچھا، آپ نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت ) ” واللہ جعل لکم من بیوتکم “۔ (الخ) وہ کہنے لگا ٹھیک ہے، پھر آپ نے اس کے سامنے اگلی آیت ”۔ وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا “۔ تا۔ ویوم اقامتکم “۔ (الخ) تلاوت فرمائی، وہ پھر کہنے لگا ٹھیک ہے، پھر آپ نے اس کے سامنے اور آیتیں پڑھیں ہر ایک آیت پر وہ کہتا تھا ٹھیک ہے، یہاں تک کہ آپ اس آیت پر پہنچے۔ (آیت) ” کذالک یتم نعمۃ علیکم لعلکم تسلمون “۔ یہ سن کر وہ اعرابی رخ پھیر کرچلایا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانتے ہیں، پھر اس کے منکر ہوتے ہیں اور زیادہ ان میں ناشکرگزار ہیں۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :79 انکار سے مراد وہی طرز عمل ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ۔ کفار مکہ اس بات کے منکر نہ تھے کہ یہ سارے احسانات اللہ نے ان پر کیے ہیں ، مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ نے یہ احسانات ان کے بزرگوں اور دیوتاؤں کی مداخلت سے کیے ہیں ، اور اسی بنا پر وہ ان احسانات کا شکریہ اللہ کے ساتھ ، بلکہ کچھ اللہ سے بڑھ کر ان متوسط ہستیوں کو ادا کرتے تھے ۔ اِسی حرکت کو اللہ تعالیٰ انکار نعمت اور احسان فراموشی اور کفران سے تعبیر کرتا ہے ۔