ہر امت کا گواہ اس کا نبی قیامت کے دن مشرکوں کی جو بری حالت بنے گی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس دن ہر امت پر اس کا نبی گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا کافروں کو کسی عذر کی بھی اجازت نہ ملے گی کیونکہ ان کا بطلان اور جھوٹ بالکل ظاہر ہے ۔ سورۃ والمرسلات میں بھی یہی فرمان ہے کہ اس دن نہ وہ بولیں گے ، نہ انہیں کسی عذر کی اجازت ملے گی ۔ مشرکین عذاب دیکھیں گے لیکن پھر کوئی کمی نہ ہو گی ایک ساعت بھی عذاب ہلکا نہ ہو گا نہ انہیں کوئی مہلت ملے گی اچانک پکڑ لئے جائیں گے ۔ جہنم آ موجود ہو گی جو ستر ہزار لگاموں والی ہو گی ۔ جس کی ایک لگام پر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ اس میں سے ایک گردن نکلے گی جو اس طرح پھن پھیلائے گی کہ تمام اہل محشر خوف زدہ ہو کر بل گر پڑیں گے ۔ اس وقت جہنم اپنی زبان سے باآواز بلند اعلان کرے گی کہ میں اس ہر ایک سرکش ضدی کے لئے مقرر کی گئی ہوں ۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کیا ہو اور ایسے ایسے کام کئے ہوں چنانچہ وہ کئی قسم کے گنہگاروں کا ذکر کرے گی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے پھر وہ ان تمام لوگوں کو لپٹ جائے گی اور میدان محشر میں سے انہیں لپک لے گی جیسے کہ پرند دانہ چگتا ہے ۔ جیسے کہ فرمان باری ہے آیت ( اذا رایتھم ) الخ جب کہ وہ دور سے دکھائی دے گی تو اس کا شور و غل ، کڑکنا ، بھڑکنا یہ سننے لگیں گے اور جب اس کے تنگ و تاریک مکانوں میں جھونک دئیے جائیں تو موت کو پکاریں گے ۔ آج ایک چھوڑ کئی ایک موتوں کو بھی پکاریں تو کیا ہو سکتا ہے؟ اور آیت میں ہے ( وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا 53ۧ ) 18- الكهف:53 ) گنہگار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اس میں جھونک دئے جائیں گے لیکن کوئی بچاؤ نہ پائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( لو یعلم الذین کفروا ) کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیتے جب کہ وہ اپنے چہروں پر سے اور اپنی کمروں پر سے جہنم کی آگ کو دور نہ کر سکیں گے نہ کسی کو مددگار پائیں گے اچانک عذاب الہٰی انہیں ہکا بکا کر دیں گے نہ انہیں ان کے دفع کرنے کی طاقت ہو گی نہ ایک منٹ کی مہلت ملے گی ۔ اس وقت ان کے معبودان باطل جن کی عمر بھر عبادتیں اور نذریں نیازیں کرتے رہے ان سے بالکل بےنیاز ہو جائیں گے اور ان کی احتیاج کے وقت انہیں مطلقا کام نہ آئیں گے ۔ انہیں دیکھ کر یہ کہیں گے کہ اے اللہ یہ ہیں جنہیں ہم دنیا میں پوجتے رہے تو وہ کہیں گے جھوٹے ہو ہم نے کب تم سے کہا تھا کہ اللہ چھوڑ کر ہماری پرستش کرو ؟ اسی کو جناب باری نے فرمایا آیت ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ ) 46- الأحقاف:5 ) یعنی اس سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو اسے قیامت تک جواب نہ دیں بلکہ وہ ان کے پکار نے سے بھی بےخبر ہوں اور حشر کے دن ان کے دشمن ہو جانے والے ہوں اور ان کی عبادت کا انکار کر جانے والے ہوں ۔ اور آیتوں میں ہے کہ اپنا حمایتی اور باعث عزت جان کر جنہیں یہ پکارتے رہے وہ تو ان کی عبادتوں کے منکر ہو جائیں گے ۔ اور ان کے مخالف بن جائیں گے خلیل اللہ علیہ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ آیت ( ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 25ڎ ) 29- العنكبوت:25 ) یعنی قیامت کے دن ایک دوسروں کے منکر ہو جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے کہ انہیں قیامت کے دن حکم ہو گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو الخ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں کلام اللہ میں موجود ہیں ۔ اس دن سب کے سب مسلمان تابع فرمان ہو جائیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( اَسْمِعْ بِهِمْ وَاَبْصِرْ ۙيَوْمَ يَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْيَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 38 ) 19-مريم:38 ) یعنی جس دن یہ ہمارے پاس آئیں گے ، اس دن خوب ہی سننے والے ، دیکھنے والے ہو جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ 12 ) 32- السجدة:12 ) تو دیکھے گا کہ اس دن گنہگار لوگ اپنے سر جھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہم نے دیکھ سن لیا ، الخ ۔ اور آیت میں ہے کہ سب چہرے اس دن اللہ حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے ، تابع اور مطیع ہوں گے ، زیر فرمان ہوں گے ۔ ان کے سارے بہتان و افترا جاتے رہیں گے ۔ ساری چالاکیاں ختم ہو جائیں گی کوئی ناصر و مددگار کھڑا نہ ہو گا ۔ جنہوں نے کفر کیا ، انہیں ان کے کفر کی سزا ملے گی اور دوسروں کو بھی حق سے دور بھگاتے رہتے تھے دراصل وہ خود ہی ہلاکت کے دلدل میں پھنس رہے تھے لیکن بےوقوف تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے عذاب کے بھی درجے ہوں گے ، جس طرح مومنوں کے جزا کے درجے ہوں گے جیسے فرمان الہٰی ہے آیت ( قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38 ) 7- الاعراف:38 ) ہر ایک کے لیے دوہرا اجر ہے لیکن تمہیں علم نہیں ۔ ابو یعلی میں حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ عذاب جہنم کے ساتھ ہی زہر یلے سانپوں کا ڈسنا بڑھ جائے گا جو اتنے بڑے بڑے ہوں گے جتنے بڑے کھجور کے درخت ہو تے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عرش تلے سے پانچ نہریں آتی ہیں جن سے دوزخیوں کو دن رات عذاب ہو گا ۔
84۔ 1 یعنی ہر امت پر اس امت کا پیغمبر گواہی دے گا کہ انھیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی ان کافروں کو عذر پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اس لئے کہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر یا حجت ہوگی ہی نہیں۔ نہ ان سے رجوع یا عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی ضرورت بھی اس وقت پیش آتی ہے جب کسی کو گنجائش دینا مقصود ہو، ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ انھیں اپنے رب کو راضی کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ وہ موقع تو دنیا میں دیا جا چکا ہے جو دارالعمل ہے۔ آخرت تو دارعمل نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، وہاں تو اس چیز کا بدلہ ملے گا جو انسان دنیا سے کر کے گیا ہوگا، وہاں کچھ کرنے کا موقع کسی کو نہیں ملے گا۔
[٨٦] قیامت کا ایک منظر مشرکوں کی ایک دوسرے کے خلاف گفتگو :۔ اس سے آگے اب میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا جارہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی تو ہر امت اور ہر فرقہ سے ایک گواہ سامنے لایا جائے گا۔ ہر امت میں سے گواہ اس امت کا نبی ہوگا یا پھر وہ نیک بندہ جس نے اللہ کا پیغام پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کو پہنچا دیا ہو۔ گواہوں کی یہ گواہی کافروں پر اتمام حجت کے لیے ہوگی اور مفصل ہوگی۔ یعنی وہ گواہ یہ گواہی دے گا کہ فلاں فلاں لوگوں نے میری بات تسلیم کرلی تھی اور فلاں فلاں لوگ اکڑ گئے تھے۔ اور انہوں نے راہ حق کی مخالفت میں یہ اور یہ کام کیے تھے اور ہمیں ایسا اور ایسا جواب دیا کرتے تھے۔ اس گواہی کے دوران کافروں کو بولنے کی قطعاً اجازت نہ ہوگی۔ اور کافر جب میدان محشر کا یہ ہولناک منظر دیکھیں گے تو اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیں گے مگر اس وقت انھیں توبہ کا موقع نہیں دیا جائے گا کیونکہ توبہ کا موقع تو صرف اس دنیا میں ہے اور جب موت کی آخری ہچکی آجائے اور جان لبوں پر آئے تو اس لمحہ سے توبہ کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا : یعنی قیامت کے دن ہر امت کا پیغمبر اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا اور ان تک حق پہنچا دینے کی شہادت دے گا، ساتھ ہی اگر انھوں نے تصدیق کی ہوگی تو اس کی اور اگر جھٹلایا ہوگا تو اس کی بھی شہادت دے گا۔ پیغمبروں کی وفات کے بعد جن لوگوں نے حق پہنچایا وہ یہ شہادت دیں گے۔ اس میں نعمت کے منکروں کے لیے وعید ہے۔ شہادت کے مفہوم کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٤٣) ، نساء (٤١) ، حج (٧٨) اور سورة زمر (٦٩) ۔- ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : پھر کافروں کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ کس چیز کی ؟ دوسری جگہ اس کی وضاحت آئی ہے، اس میں سے ایک تو یہ ہے کہ اس دن نہ وہ بول سکیں گے اور نہ انھیں عذر کرنے کی اجازت دی جائے گی، جیسے فرمایا : (هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ 35ۙوَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُوْنَ ) [ المرسلات : ٣٥، ٣٦ ] ” یہ دن ہے کہ نہ وہ بولیں گے اور نہ انھیں اجازت دی جائے گی کہ وہ عذر کریں۔ “ دوسری یہ کہ جب وہ کہیں گے : ( رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99 ۙلَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ ) [ المؤمنون : ٩٩، ١٠٠ ] (اے میرے رب مجھے واپس بھیجو، تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں) تو انھیں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ واپس جانے پر بھی وہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ ( دیکھیے انعام : ٢٨) قرآن کی بلاغت دیکھیے، یہ فرمایا کہ اجازت نہیں دی جائے گی، یہ ذکر نہیں کیا کہ کس چیز کی ؟ کیونکہ وہ کئی چیزیں ہیں۔ - وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ : ” عَتَبَ یَعْتُبُ عَتْبًا “ (ن، ض) ناراض ہونا۔ ” أَعْتَبَ یُعْتِبُ “ ناراضگی دور کرنا۔ ” اَلْعُتْبٰی “ راضی کرنا، منانا۔ ” اِسْتَعْتَبَ فُلَانٌ فُلَانًا “ یعنی فلاں نے دوسرے پر اپنی ناراضگی ظاہر کی، تاکہ وہ اس کی ناراضگی دور کرسکے، یا معافی مانگ سکے۔ ” وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ “ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے سامنے اس لیے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا جائے گا کہ وہ معافی کی درخواست کرکے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور کرسکیں، یعنی انھیں اللہ کو راضی کرنے کی درخواست کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا۔
خلاصہ تفسیر :- اور (وہ دن یاد کرنے کے قابل ہے) جس دن ہم ہر ہر امت میں سے ایک ایک گواہ (کہ اس امت کا پیغمبر ہوگا) قائم کریں گے (جو ان کے اعمال سیہ کی شہادت دیں گے) پھر ان کافروں کو (عذر و معذرت کرنے کی) اجازت نہ دی جائے گی اور نہ ان سے حق تعالیٰ کے راضی کرنے کی فرمائش کی جائے گی (یعنی ان سے یوں نہ کہا جائے گا کہ تم توبہ یا کوئی عمل کر کے اللہ کو خوش کرلو، وجہ اس کی ظاہر ہے کہ آخرت دارالجزاء ہے دارالعمل نہیں) اور جب ظالم (یعنی کافر) لوگ عذاب کو دیکھیں گے (یعنی اس میں پڑیں گے) تو وہ عذاب نہ ان سے ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ (اس میں) کچھ مہلت دئیے جائیں گے (کہ چند روز کے بعد وہ عذاب جاری کیا جائے) اور جب مشرک لوگ اپنے شریکوں کو (جن کو خدا کے سوا پوجتے تھے) دیکھیں گے تو (بطور اقرار جرم کے) کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار وہ ہمارے شریک یہی ہیں کہ آپ کو چھوڑ کر ہم ان کی پوجا کرتے تھے سو وہ (شرکاء ڈریں گے کہ کہیں ہماری کم بختی نہ آجائے اس لئے) وہ ان کی طرف کلام کو متوجہ کریں گے کہ تم جھوٹے ہو (اصل مطلب ان کا یہ ہوگا کہ ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں جس سے مقصود اپنی حفاظت ہے اب خواہ یہ مطلب ان کا صحیح ہو جیسا اگر مقبولین مثل ملائکہ وانبیاء (علیہم السلام) کے یہ بات کہیں تو صحیح ہے کقولہ تعالیٰ (آیت) بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنَّ اور خواہ یہ غلط ہو جیسے خود شیاطین کہنے لگیں اور خواہ ان کو صحیح غلط ہونے کی خبر ہی نہ ہو جیسے اصنام واشجار وغیرہ کہنے لگیں) اور یہ مشرک اور کافر لوگ اس روز اللہ تعالیٰ کے سامنے اطاعت کی باتیں کرنے لگیں گے اور جو کچھ (دنیا میں) افتراء پر دازیاں کرتے تھے (اس وقت) وہ سب گم ہوجائیں گے (اور ان میں) جو لوگ (خود بھی) کفر کرتے تھے (اور دوسروں کو بھی) اللہ کی راہ (یعنی دین) سے روکتے تھے ان کے لئے ہم ایک سزا پر (کہ کفر کے مقابلہ میں ہوگی) دوسری سزا بمقابلہ ان کے فساد کے (کہ راہ خدا سے روکتے تھے) بڑھا دیں گے،- اور (وہ دن میں بھی یاد کرنے اور لوگوں کے ڈرنے کا ہے) جس دن ہم ہر ہر امت کے ایک ایک گواہ جو انہی میں سے ہوگا ان کے مقابلہ میں قائم کریں گے (مراد اس امت کا نبی ہے اور انہی میں کا ہونا عام ہے خواہ باعتبار شرکت نسب کے ہو خواہ باعتبار شرکت سکنی کے ہو) اور ان لوگوں کے مقابلہ میں آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے (اور اس اخبار شہادت سے جو آپ کی رسالت کا اخبار مفہوم ہوتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ) ہم نے آپ پر قرآن اتارا ہے جو (علاوہ معجز ہونے کے جو کہ مدار ہے اثبات رسالت کا ان خوبیوں کا جامع ہے) کہ تمام (دین کی) باتوں کا (بواسطہ یا بلاواسطہ عامۃ الناس کے لئے) بیان کرنے والا ہے اور (خاص) مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور (ایمان پر) خوشخبری سنانے والا ہے۔
وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ 84- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال :- بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - ( ب ع ث ) البعث ( ف )- اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ - عتب - العَتَبُ : كلّ مکان نابٍ بنازله، ومنه قيل للمرقاة ولأُسْكُفَّةِ البابِ : عَتَبَةٌ ، وكنّي بها عن المرأة فيما روي : «أنّ إبراهيم عليه السلام قال لامرأة إسماعیل : قولي لزوجک غيّر عَتَبَةَ بَابِكَ» «4» واستعیر العَتْبُ والمَعْتَبَةُ لغِلْظَةٍ يجدها الإنسان في نفسه علی غيره، وأصله من العتبِ ، وبحسبه قيل : خَشُنْتُ بصدر فلان، ووجدت في صدره غلظة، ومنه قيل : حمل فلان علی عَتَبَةٍ صعبةٍ «5» ، أي : حالة شاقّة کقول الشاعر : 308-- وحملناهم علی صعبة زو ... راءَ يعلونها بغیر وطاء - «1» وقولهم أَعْتَبْتُ فلاناً ، أي : أبرزت له الغلظة التي وُجِدَتْ له في الصّدر، وأَعْتَبْتُ فلاناً :- حملته علی العَتْبِ. ويقال : أَعْتَبْتُهُ ، أي : أزلت عَتْبَهُ عنه، نحو : أشكيته . قال تعالی: فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت 24] ،- والاسْتِعْتَابُ :- أن يطلب من الإنسان أن يذكر عَتْبَهُ لِيُعْتَبَ ، يقال : اسْتَعْتَبَ فلانٌ. قال تعالی: وَلا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل 84] ، يقال : «لک العُتْبَى» «2» ، وهو إزالة ما لأجله يُعْتَبُ ، وبینهم أُعْتُوبَةٌ ، أي : ما يَتَعَاتَبُونَ به، ويقال : عَتبَ عَتْباً : إذا مشی علی رجل مشي المرتقي في درجة .- ( ع ت ب ) العتب ۔- ہر اس جگہ کو کہتے ہیں جو وہاں اترنے والے کے لئے ساز گار نہ ہو نیز دروازہ کی چوکھٹ اور سیڑھی کو بھی عتبہ کہا جاتا ہے ۔ اور حضرت ابراھیم (علیہ السلام) نے حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی بیوی سے جو فرمایا تھا قولی زوجک غیر عتبتہ بابک اپنے خاوند سے کہنا کہ اپنے دروازہ کی چو کھٹ تبدیل کرلے تو یہاں عتبتہ کے معنی بطور کنایہ عورت کے ہیں اور استعارہ کے طور پر عتب ومعتب کے معنی اس نارضگی یا سختی کے بھی آجاتے ہیں جو انسان کے دل میں دوسرے کے متعلق پیدا ہوجاتی ہے یہ بھی اصل میں العتب ہی سے اسی کے مطابق خشنت بصدر فلان ووجدت فی صدرہ غلظتہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اسی سے کہا گیا ہے ۔ حمل فلان علٰی عتبتہ صبعبتہ فلان کو ناگورا ھالت پر مجبور کیا گیا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 300 ) وحملنا ھم علٰی صعبتہ رایعلونھا بغیر وطاء ہم نے انہیں نہایت ٹیڑھی حالت پر سوار کیا چناچہ وہ بغیر نمدہ کے اس پر سوار ہیں ۔ اعتبت فلان ( 1 ) ناراضگی ظاہر کرنا ( 2 ) ناراضگی پر ابھارنا ( 3 ) میں نے اس کی ناراضگی دو ۔ کردو یعنی راضی کرلیا جیسا کہ اشکیتہ کے معنی ہیں میں نے اس کی شکایت دور کردی ( یعنی سلب ماخذ کے معنی پائے جاتے ہیں ) قرآن میں ہے : ۔ فَما هُمْ مِنَ الْمُعْتَبِينَ [ فصلت 24] ان سے عتاب دور نہیں کیا جائے گا ۔- الاستعتاب - ( رضامندی چاہنا ) کسی سے یہ خواہش کرنا کہ وہ اپنے عتاب کو دور کردے تاکہ راضی ہوجائے کہا جاتا ہے استعتب فلان کسی سے عتاب کو دور کرنے کی کو اہش کی ۔ قرآن میں ہے ولا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ [ النحل 84] اور نہ ان کی معذرت قبول کر کے ان سے عتاب دور کیا جائیگا ۔ لک العتبی تیرے لئے رضا مندی ہے ۔ بینھم اعتوبتہ وہ باہم کشادہ ہیں ۔ عتب عتبا آدمی کا ایک پاؤں پر کود کر چلنا جیسے اوپر چڑھنے والا سیڑھی پر قدم رکھتا چلا جاتا ہے ۔
(٨٤) اور جس دن ہم ہر ایک قوم میں سے ان کے پیغمبر کو ان پر تبلیغ احکام کے لیے گواہ قائم کریں گے پھر ان کفار کو کلام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ یہ توبہ کے لیے دنیا میں واپس بھیجے جائیں گے۔
آیت ٨٤ (وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا)- شہادتِ حق کا یہ مضمون اس سورت میں دو مرتبہ (مزید ملاحظہ ہو آیت ٨٩) آیا ہے۔ جبکہ قبل ازیں سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ اور سورة النساء کی آیت ٤١ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ آیت زیر نظر میں ہر امت میں سے جس گواہ کا ذکر ہے وہ اس امت کا نبی یا رسول ہوگا۔ جیسا کہ سورة الاعراف میں فرمایا گیا : (فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ ) ” ہم ضرور پوچھیں گے ان سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور ہم رسولوں سے بھی پوچھیں گے “۔ روز محشر ہر امت کی پیشی کے وقت اس امت کا رسول عدالت کے سرکاری گواہ ( ) کی حیثیت سے گواہی دے گا کہ اے اللہ تیری طرف سے جو پیغام مجھے اس قوم کے لیے ملا تھا وہ میں نے بےکم وکاست ان تک پہنچا دیا تھا۔ اب یہ لوگ جو ابدہ ہیں ‘ ان سے محاسبہ ہوسکتا ہے۔ اس طرح تمام انبیاء و رسل اپنی اپنی امت کے خلاف گواہی دیں گے۔- (ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ )- اس وقت انہیں ایسا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا کہ وہ عذر تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرسکیں۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :80 یعنی اس امت کا نبی ، یا کوئی ایسا شخص جس نے نبی کے گزر جانے کے بعد اس امت کو توحید اور خالص خدا پرستی کی دعوت دی ہو ، شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم پر متنبہ کیا ہو ، اور روز قیامت کی جواب دہی سے خبردار کیا ہو ۔ وہ اس امر کی شہادت دے گا کہ میں نے پیغام حق ان لوگوں کو پہنچا دیا تھا ، اس لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ ناواقفیت کی بنا پر نہیں کیا ، بلکہ جانتے بوجھتے کیا ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :81 یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں صفائی پیش کر نے کی اجازت نہ دی جائے گی ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے جرائم ایسی صریح ناقابلِ انکار اور ناقابلِ تاویل شہادتوں سے ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے صفائی پیش کرنے کی کوئی گنجائش نہ رہے گی ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :82 یعنی اس وقت ان سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے رب سے اپنے قصوروں کی معافی مانگ لو ۔ کیونکہ وہ فیصلے کا وقت ہو گا ، معافی طلب کر نے کا وقت گزر چکا ہوگا ۔ قرآن اور حدیث دونوں اس معاملہ میں ناطق ہیں کہ تو بہ و استغفار کی جگہ دنیا ہے نہ کہ آخرت ۔ اور دنیا میں بھی اس کا موقع صرف اسی وقت تک ہے جب تک آثار موت طاری نہیں ہو جاتے جس وقت آدمی کو یقین ہو جائے کہ ا سکا آخری وقت آن پہنچا ہے اس وقت کی توبہ ناقابل قبول ہے ۔ موت کی سرحد میں داخل ہوتے ہی آدمی کی مہلت عمل ختم ہو جاتی ہے اور صرف جزا و سزا ہی کا اسحقاق باقی نہیں رہ جاتا ہے ۔
35: اس سے مراد ہر امت کے پیغمبر ہیں جو یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس امت کے لوگوں کو حق کا پیغام پہنچایا تھا، اور ان کافروں نے اسے قبول نہیں کیا۔ 36: اس لیے کہ توبہ کا دروازہ موت سے پہلے پہلے تک تو کھلا رہتا ہے۔ اس کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی۔