85۔ 1 ہلکا نہ کرنے کا مطلب، درمیان میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا، عذاب اور مسلسل بلا توقف عذاب ہوگا۔ اور نہ ڈھیل ہی دیئے جائیں گے یعنی، ان کو فوراً لگاموں سے پکڑ کر اور زنجیروں میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا یا توبہ کا موقع نہیں دیا جائے گا، کیونکہ آخرت عمل کی جگہ نہیں، جزا کا مقام ہے۔
وَاِذَا رَاَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ ۔۔ : ” وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا “ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ موحدین تو اپنے گناہوں کی سزا پا کر، یا شفاعت سے، یا محض اللہ کی رحمت سے عذاب سے نکل آئیں گے، فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ) [ النساء : ١١٦ ] ” بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا۔ “ جب کہ ان ظالموں کے عذاب دیکھ لینے کے بعد نہ اس میں کمی کی جائے گی، نہ ایک لمحے کی مہلت دی جائے گی، بلکہ اسی وقت عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ” الذین ظلموا “ سے مراد کفار کے ہر طبقے کے لیے خاص عذاب مراد ہے۔ - 3 اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی، جب کہ ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، جب آپ کے پاس آپ کے چچا کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا : ( لَعَلَّہُ تَنْفَعُہُ شَفَاعَتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُجْعَلُ فِيْ ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ یَغْلِيْ مِنْہُ دِمَاغُہُ ) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب قصۃ أبي طالب : ٣٨٨٥۔ مسلم : ٢١٠ ] ” امید ہے کہ قیامت کے دن اسے میری شفاعت پہنچے گی تو اسے ہلکی آگ میں ڈالا جائے گا جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی، اس سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔ “ صحیح بخاری ہی میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَلَوْلَا أَنَا لَکَانَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ) ” اگر میں نہ ہوتا تو وہ آگ کے درک اسفل میں ہوتا۔ “ [ بخاری، مناقب الأنصار، باب قصۃ أبي طالب : ٣٨٨٣ ] ان دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ کفار کے حق میں کوئی سفارش آگ سے نکلنے کے لیے قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی سفارش ان کے والد کے حق میں قبول نہیں ہوگی اور سورة شعراء (١٠٠) اور سورة مدثر (٤٨) میں کفار کے متعلق سفارش نہ ہونے کا ذکر ہے۔ ہاں صحیح بخاری کی اس حدیث سے بظاہر کفار کے حق میں سفارش سے عذاب کی تخفیف ثابت ہوتی ہے۔ - واضح رہے کہ جنت کے طبقات کی طرح جہنم کے بھی درکات ہیں۔ جنت کا سب سے اعلیٰ طبقہ فردوس ہے اور جہنم کا سب سے سخت حصہ درک اسفل ہے۔ یہ فیصلہ ہونے کے بعد کہ کس کافر کو کون سا عذاب ہوگا جب انھیں جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا تو جہنم کے سات دروازوں میں سے ہر ایک کے لیے جو دروازہ اور جو عذاب مقرر ہے وہ وہاں پہنچیں گے، اسے دیکھنے کے بعد پھر انھیں کوئی تخفیف یا مہلت نہیں ملے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خیر خواہی، خدمت اور سفارش کی وجہ سے ابوطالب کا فیصلہ پہلے ہی سب سے ہلکے عذاب کا ہوچکا ہوگا، اب وہاں جانے کے بعد اسے مزید تخفیف یا جہنم سے خلاصی حاصل نہیں ہو سکے گی۔
وَاِذَا رَاَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُوْنَ 85- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- و ثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی:- الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86]- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں
(٨٥) اور نہ ان کفار سے عذاب کم کیا جائے گا اور نہ عذاب کم جائے گا اور نہ عذاب خداوندی میں ان کو کچھ مہلت دی جائے گی۔