[٩٩] مفادات خواہ کتنے ہو ایفائے عہد کے مقابلہ میں ہیچ ہیں :۔ اللہ سے کیے ہوئے عہد سے مراد عہد الست بھی ہے اور ہر وہ عہد بھی جس میں اللہ کو درمیان میں لاکر، اسے شاہد اور ضامن بنا کر یا اس کی قسم کھا کر کیا گیا ہو اور اس عہد کو توڑنے کے عوض اگر تمہیں دنیا بھر کے مفادات اور مال و دولت بھی مل جائیں وہ تھوڑا اور ایفائے عہد کی ارفع قدر کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ لہذا تمہیں دنیوی مفادات پر نظر رکھنے کی بجائے آخرت کے اجر پر نظر رکھنی چاہیے جو ان مفادات کے مقابلہ میں بدرجہا بہتر ہے۔
وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا : اوپر کی آیات میں باہمی معاہدوں کی پابندی پر زور دیا، اب بتایا کہ ایمان لا کر جو اللہ سے عہد باندھا ہے اسے مت توڑو، یعنی مال کے طمع میں آ کر شریعت کی خلاف ورزی نہ کرو (جس میں باہمی معاہدوں کو توڑنا بھی ہے) جو مال خلاف شرع ہاتھ آئے وہ موجب وبال ہے۔ (موضح) کم قیمت سے مراد یہ نہیں کہ زیادہ قیمت لے لو، بلکہ مراد دنیا کا مال ہے، جو قلیل ہی ہے، خواہ پوری دنیا ہو، جیسا کہ فرمایا : (ۭ قُلْ مَتَاع الدُّنْيَا قَلِيْلٌ ) [ النساء : ٧٧ ] ” کہہ دے دنیا کا سامان بہت ہی تھوڑا ہے۔ “- اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ : یہ ” اِنَّمَا “ کلمۂ حصر نہیں بلکہ ” اِنَّ مَا “ ہے، جو مصحف عثمانی کے رسم الخط کے مطابق اکٹھا لکھا گیا ہے۔ ” مَا “ موصولہ میں مقدر ضمیر کی تاکید ” انما “ کے ساتھ کرنے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا ہے، یعنی جو مال شریعت کے مطابق ہاتھ آئے وہی تمہارے حق میں بہتر ہے، دوسرا کوئی نہیں، جیسا کہ شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : ( بَقِيَّتُ اللّٰهِ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ ھود : ٨٦ ] ” اللہ کا باقی بچا ہوا تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم مومن ہو۔ “ ” جو اللہ کے پاس ہے “ میں جنت بھی شامل ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ رہنے والی ہے اور دنیا فانی ہے۔
رشوت لینا سخت حرام اور اللہ سے عہد شکنی ہے :- (آیت) وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا۔ یعنی اللہ کے عہد کو تھوڑی سی قیمت کے بدلے میں نہ توڑو یہاں تھوڑی سی قیمت سے مراد دنیا اور اس کے منافع ہیں وہ مقدار میں کتنے بھی بڑے ہوں آخرت کے منافع کے مقابلہ میں ساری دنیا اور اس کی ساری دولتیں بھی قلیل ہی ہیں جس نے آخرت کے بدلے میں دنیا لے لی اس نے انتہائی خسارہ کا سودا کیا ہے کہ ہمیشہ رہنے والی اعلیٰ ترین نعمت و دولت کو بہت جلد فنا ہونے والی گھٹیا قسم کی چیز کے عوض بیچ ڈالنا کوئی سمجھ بوجھ والا انسان گوارا نہیں کرسکتا۔- ابن عطیہ نے فرمایا کہ جس کام کا پورا کرنا کسی شخص کے ذمہ واجب ہو وہ اللہ کا عہد اس کے ذمہ ہے اس کے پورا کرنے پر کسی سے معاوضہ لینا اور بغیر لئے نہ کرنا اللہ کا عہد توڑنا ہے اسی طرح جس کا نہ کرنا کسی کے ذمہ واجب ہے کسی سے معاوضہ لے کر اس کو کردینا یہ بھی اللہ کا عہد توڑنا ہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ رشوت کی مروجہ قسمیں سب حرام ہیں جیسے کوئی سرکاری ملازم کسی کام کی تنخواہ حکومت سے پاتا ہے تو اس نے اللہ سے عہد کرلیا ہے کہ یہ تنخواہ لے کر مفوضہ خدمت پوری کروں گا اب اگر وہ اس کے کرنے پر کسی سے معاوضہ مانگے اور بغیر معاوضہ اس کو ٹلائے تو یہ عہد اللہ تو توڑ رہا ہے اسی طرح جس کام کا اس کو محکمہ کی طرف سے اختیار نہیں اس کو رشوت لے کر ڈالنا بھی اللہ سے عہد شکنی ہے (بحرمحیط)- اخذ الاموال علیٰ فعل ما یجب علی الاخذ فعلہ اوفعل ما یجب علیہ ترکہ :- یعنی جس کام کا کرنا اس کے ذمہ واجب ہے اس کے کرنے پر معاوضہ لینا یا جس کام کا چھوڑنا اس کے ذمہ لازم ہے اس کے کرنے پر معاوضہ لینا رشوت ہے (تفسیر بحرمحیط ص ٥٣٣ ج ٥)- اور پوری دنیا کی ساری نعمتوں کا قلیل ہونا اگلی آیت میں اس طرح بیان فرمایا (آیت) مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ یعنی جو کچھ تمہارے پاس ہے (مراد اس سے دنیوی منافع ہیں) وہ سب ختم اور فنا ہونے والا ہے او جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے (مراد اس سے آخرت کا ثواب و عذاب ہے) وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 95- شری - الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] ، أي : باعوه،- ( ش ر ی ) شراء - اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔- ثمن - قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی:- إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران 77] ،- ( ث م ن ) الثمن - اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔
(٩٥) اور تم لوگ جھوٹی قسمیں کھا کر دنیا کا معمولی سا فائدہ مت حاصل کرو، تمہارے پاس جو متاع دنیوی ہے، اس سے ثواب آخرت کئی درجے بہتر ہے، جب کہ تم ثواب خداوندی کو سمجھنا چاہو۔
(اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ )- تمہیں دنیا کے چھوٹے چھوٹے مفادات بہت عزیز ہیں اور ان حقیر مفادات کے لیے تم لوگ اللہ کی ہدایت کو ٹھکرا رہے ہو ‘ مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تم لوگ اس ہدایت کو قبول کرلو گے تو اللہ کے ہاں اخروی انعامات سے نوازے جاؤ گے۔ اللہ کے ہاں جنت کی دائمی نعمتیں تمہارے ان مفادات کے مقابلے میں کہیں بہتر ہیں جن کے ساتھ تم لوگ آج چمٹے ہوئے ہو۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :96 یعنی اس عہد کو جو تم نے اللہ کے نام پر کیا ہو ، یا دین الہٰی کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کیا ہو ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :97 یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے بڑے فائدے کے بدلے بیچ سکتے ہو ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا کا جو فائدہ بھی ہے وہ اللہ کے عہد کی قیمت میں تھوڑا ہے ۔ اس لیے اس بیش بہا چیز کو اس چھوٹی چیز کے عوض بیچنا بہرحال خسارے کا سودا ہے ۔