Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] صبر کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیوی مفادات کی خاطر اسلام کی اعلیٰ اقدار اور اصولوں کو قربان نہیں کردیتے بلکہ اصولوں کی خاطر دنیوی مفادات کو قربان کردیتے ہیں اور دنیا کا مال و دولت جتنا بھی ہو اور دنیوی مفادات جتنے بھی ہوں وہ کم ہی ہیں کیونکہ وہ سب ختم اور فنا ہوجانے والے ہیں۔ مگر اصولوں کی خاطر دنیوی مفادات کو ٹھکرا دینے سے جو آخرت میں اجر ملے گا وہ بہت بہتر، پائیدار اور ابدی ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ : چاہے وہ مقدار کے لحاظ سے کتنا ہی زیادہ ہو، بلکہ خواہ ساری دنیا ہو۔ - وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا ۔۔ : لام تاکید اور نون ثقیلہ کی تاکید اکٹھے ہوں تو قسم جیسی تاکید کا فائدہ دیتے ہیں۔ صبر کا معنی اپنے آپ کو کسی چیز پر باندھنا اور روک کر رکھنا ہے، یعنی جنھوں نے دنیوی طمع کے مقابلے میں اپنے آپ کو حق پر قائم رکھا۔ صبر بہترین عمل ہے، کیونکہ یہ تمام اعمال کی بنیاد ہے، اس کی تین قسمیں ہیں، اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر قائم رہنا اور طبیعت کو ان کا پابند رکھنا صبر ہے، اسی طرح اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیزوں سے روکنا صبر ہے اور تیسری قسم مصیبت کے وقت جزع فزع اور اللہ تعالیٰ کے شکوے سے اپنے آپ کو روکنا صبر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا کہ ہم صبر کرنے والوں کو ان کے بہترین اعمال کے مطابق بدلہ دیں گے۔ بہترین عمل سے مراد صبر ہے، یعنی ان کے صبر کے مطابق اجر دیں گے۔ ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہم انھیں ان کے عمل سے بہت زیادہ اچھا اجر دیں گے، جو کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ بےحساب ہوگا، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف کامل صبر کرنے والوں کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دنیا کی راحت وکلفت دوستی دشمنی سب فنا ہونے والے ہیں اور ان کے ثمرات و نتائج جو اللہ کے پاس ہیں وہ باقی رہنے والے ہیں :- مَا عِنْدَكُمْ کے لفظ سے عام طور پر ذہن صرف مال و متاع کی طرف جاتا ہے استاذ محترم مولانا سید اصغر حسین صاحب (رح) نے فرمایا کہ لفظ ما لغت کے اعتبار سے عام ہے اور عموم کے معنی مراد لینے سے کوئی امر شرعی مانع نہیں اس لئے اس میں دنیا کا مال و متاع بھی داخل ہے اور اس میں پیش آنے والے تمام حالات و معاملات خوشی اور غم رنج اور راحت بیماری اور صحت نفع اور نقصان کسی کی دوستی یا دشمنی یہ سب چیزیں شامل ہیں کہ سب کی سب فنا ہونے والی ہیں البتہ ان حالات و معاملات پر جو آثار مرتب ہونے والے ہیں اور قیامت میں ان پر عذاب وثواب ہونے والا ہے وہ سب باقی رہنے والے ہیں فنا ہوجانے والے حالات و معاملات کی دھن میں لگا رہنا اور اپنی زندگی اور اس کی توانائی کو اسی کی فکر میں لگا کر دائمی عذاب وثواب سے غفلت برتنا کسی ذی عقل کا کام نہیں۔- دوران بقاء چو باد صحرا بگذشت تخلی و خوشی وزشت وزیبا بگذشت - بنداشت ستمگر کہ جفا برما کرد برگردن وے بماند وبرما بگذشت

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ ۭ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 96؀- نفد - النَّفَادُ : الفَناءُ. قال تعالی: إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص 54] يقال : نَفِدَ يَنْفَدُ «1» قال تعالی: قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف 109] ، ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان 27] . وأَنْفَدُوا : فَنِيَ زادُهم، وخَصْمٌ مُنَافِدٌ: إذا خَاصَمَ لِيُنْفِدَ حُجَّةَ صاحبِهِ ، يقال : نَافَدْتُهُ فَنَفَدْتُهُ.- ( ن ف د ) النفاد - ( س ) ختم ہوجانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص 54] یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا ۔ اور اس معنی میں فعل نفد ( س ) استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف 109] کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان 27] تو خدا کی باتیں ( یعنی اس کی صفتیں ختم نہ ہوں ۔ انفدوا ان کا تو شہ ختم ہوگیا ۔ اور خصم منا فد دوسرے کی حجت کو ختم کرنے کے لئے جھگڑنے والے کو کہتے ہیں اور نافدۃ ونفد تہ کے معنی دوسرے کی دلیل کو ختم کرنے کے ہیں ۔- بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء،- وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] - ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر .- يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] - ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٦) یا یہ کہ جب تم اس کی تصدیق کرنا چاہو اور جو مال و دولت تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجائے گا اور ثواب خداوندی باقی رہے گا اور جو لوگ وفائے عہد وغیرہ پر ثابت قدم ہیں۔ ہم ان کے دنیا کے اچھے کاموں کے بدے میں آخرت میں ان کو اس کو ثواب دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ )- ہر نیکو کار شخص کے تمام اعمال ایک درجے کے نہیں ہوتے کوئی نیکی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے اور کوئی نسبتاً چھوٹے درجے کی۔ مگر جن لوگوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجائیں گے ان کی اعلیٰ درجے کی نیکیوں کو سامنے رکھ کر ان کے اجر وثواب کا تعین کیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :98 صبر سے کام لینے والوں کو ، یعنی ان لوگوں کو جو راہ طمع اور خواہش اور جذبہ نفسانی کے مقابلہ میں حق اور راستی پر قائم رہیں ، ہر اس نقصان کو برداشت کرلیں جو اس دنیا میں راستبازی اختیار کرنے سے پہنچتا ہو ، ہر اس فائدے کو ٹھکرا دیں جو دنیا میں ناجائز طریقے اختیار کرنے سے حاصل ہو سکتا ہو ، اور حسن عمل کے مفید نتائج کے لیے اس وقت تک انتظار کر نے کے لیے تیار ہوں جو موجودہ دنیوی زندگی ختم ہو جانے کے بعد دوسری دنیا میں آنے والا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

42: پہلے کئی بار عرض کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی اصطلاح میں ’’ صبر‘‘ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دبا کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کو بھی صبر کہا جاتا ہے، اور کسی تکلیف کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کوئی شکایت نہ کی جائے تو وہ بھی صبر ہے۔