Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کتاب و سنت کے فرماں بردار اللہ تبارک و تعالیٰ جل شانہ اپنے ان بندوں سے جو اپنے دل میں اللہ پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھیں اور کتاب و سنت کی تابعداری کے ماتحت نیک اعمال کریں ، وعدہ کرتا ہے کہ وہ انہیں دنیا میں بھی بہترین اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا ۔ عمدگی سے ان کی عمر بسر ہو گی ، خواہ وہ مرد ہوں ، خواہ عورتیں ہوں ، ساتھ ہی انہیں اپنے پاس دار آخرت میں بھی ان کی نیک اعمالیوں کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا ۔ دنیا میں پاک اور حلال روزی ، قناعت ، خوش نفسی ، سعادت ، پاکیزگی ، عبادت کا لطف ، اطاعت کا مزہ ، دل کی ٹھنڈک ، سینے کی کشادگی ، سب ہی کچھ اللہ کی طرف سے ایماندار نیک عامل کو عطا ہوتی ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس نے فلاح حاصل کر لی جو مسلمان ہو گیا اور برابر سرابر روزی دیا گیا اور جو ملا اس پر قناعت نصیب ہوئی اور حدیث میں ہے جسے اسلام کی راہ دکھا دی گئی اور جسے پیٹ پالنے کا ٹکڑا میسر ہو گیا اور اللہ نے اس کے دل کو قناعت سے بھر دیا ، اس نے نجات پا لی ( ترمذی ) صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ان کی نیکی کا بدلہ دنیا میں عطا فرماتا ہے اور آخرت کی نیکیاں بھی انہیں دیتا ہے ، ہاں کافر اپنی نیکیاں دنیا میں ہی کھا لیتا ہے آخرت کے لئے اس کے ہاتھ میں کوئی نیکی باقی نہیں رہتی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 حیات طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے، اس لئے آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک مومن باکردار کو صالحانہ اور متقیانہ زندگی گزارنے اور اللہ کی عبادت و اطاعت اور زہد و قناعت میں جو لذت و حلاوت محسوس ہوتی ہے، وہ ایک کافر اور نافرمان کو دنیا بھر کی آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود میسر نہیں آتی، بلکہ وہ ایک طرح کی بےچینی و اضطراب کا شکار رہتا ہے۔ " ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا " جس نے میری یاد سے اعراض کیا اس کا گزران تنگی والا ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠١] پاکیزہ زندگی کیسے حاصل ہوتی ہے ؟:۔ اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔- ایک یہ کہ اگرچہ تقسیم کار کی بنا پر مرد کو اس دنیا میں عورت پر فوقیت حاصل ہے مگر اخروی اجر کے لحاظ سے دونوں کا مرتبہ یکساں ہے۔ وہاں معیار صرف ایمان اور نیک اعمال ہوں گے۔ اگر اس معیار کے مطابق عورت مرد سے فائق ہوگی تو اسے یقیناً مردوں سے بہتر درجہ بھی مل سکتا ہے۔- دوسری یہ کہ ایمان اور اعمال صالحہ اختیار کرنے سے مومن کی دنیا بھی سنورتی ہے اور آخرت بھی۔ اور یہ جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک ایماندار، دیانتدار اور را ستباز انسان کو آخرت میں تو ضرور اجر ملے گا مگر وہ دنیا میں نقصان میں ہی رہتا ہے۔ یہ خیال سراسر غلط ہے۔ بلکہ جو لوگ راستباز اپنے عہد پر قائم رہنے والے اپنی بات کے پکے اور صاف نیت ہوتے ہیں۔ انھیں بد عمل، عہد شکن، مفاد پرست لوگوں کے مقابلہ میں جو ساکھ سچی عزت اور قلبی سکون میسر ہوتا ہے وہ ان لوگوں کو کبھی میسر نہیں آسکتا جو نیت کے کھوٹے، فریب کار اور عہد شکن ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں دنیوی لحاظ سے بھی راست باز لوگ با لآخر فائدہ میں رہتے ہیں اور یہی حیوۃ طبیۃ کا واـضح مفہوم ہے۔- اور تیسری یہ بات کہ ایسے ایماندار اور نیکو کار لوگوں کو آخرت میں جو مرتبہ ملے گا وہ ان کے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہوگا۔ مثلاً ایک شخص نے اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہیں تو اسے وہ اونچا مقام عطا کیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى : لفظ ” مَنْ “ (جو بھی) میں مرد اور عورت دونوں آجاتے ہیں، مگر پھر دونوں کا خاص الگ الگ ذکر فرمایا، تاکہ نہ عورتیں اپنے آپ کو کمتر یا محروم سمجھیں، نہ کوئی اور انھیں ایسا خیال کرے۔ اسلام کے سوا کہیں عورت کو یہ عزت نہیں ملی۔ - حَيٰوةً طَيِّبَةً : پاکیزہ زندگی میں حلال روزی، قناعت (اللہ نے جس حال میں رکھا ہے اسی پر خوش رہنا) ، سچی عزت، سکون و اطمینان، دل کا غنی ہونا، اللہ کی محبت، ایمان کی لذت سبھی چیزیں شامل ہیں، جو ایمان اور عمل صالح کی بدولت نصیب ہوتی ہیں، ایمان یا عمل صالح یا دونوں سے محروم لوگوں کو یہ چیزیں کبھی حاصل نہیں ہوتیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھ اور چین سے گزرے گی۔ مہائمی (رض) نے فرمایا کہ ایسا شخص دنیا میں اپنے عمل سے ایسی لذت پاتا ہے جو مال و جاہ کی لذت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے اس کی قسمت پر راضی کر کے اسے قناعت عطا فرما دیتا ہے، جس کے نتیجے میں مال بچا بچا کر رکھنے اور بڑھانے کی حرص کم ہوجاتی ہے۔ کافر کی زندگی مال وجاہ کے باوجود خوشگوار نہیں ہوتی، کیونکہ اس کی حرص اور دولت کے ہاتھ سے نکل جانے کا خوف دونوں بڑھتے جاتے ہیں۔ اہل ایمان کو آخرت میں اس سے بھی بہت بہتر اجر بدلے میں دیا جائے گا۔ چناچہ ان سے یہ نہیں کہا جائے گا : ( اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰتِكُمْ فِيْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا) [ الأحقاف : ٢٠ ] ” تم اپنے اچھے اعمال کا بدلہ اپنی دنیا کی زندگی میں لے چکے۔ “ بلکہ ان کے ادنیٰ اعمال بھی مکمل کرکے اعلیٰ کے ساتھ ملا دیے جائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (اس سے پہلی آیات میں ایفاء عہد کی تاکید اور عہد شکنی کی مذمت کا بیان تھا جو ایک خاص عمل ہے اس آیت میں تمام اعمال صالحہ اور عاملین صالحین کا عمومی بیان ہے مضمون آیت کا یہ ہے کہ آخرت کا اجر وثواب اور دنیا کی برکات صرف ایفائے عہد میں منحصر نہیں اور نہ کسی عامل کی تخصیص ہے بلکہ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی کوئی نیک کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحب ایمان ہو (کیونکہ کافر کے اعمال صالحہ مقبول نہیں) تو ہم اس شخص کو (دنیا میں تو) بالطف زندگی دیں گے اور (آخرت میں) ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ان کا اجر دیں گے۔- معارف و مسائل :- حیات طیبہ کیا چیز ہے ؟- جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں حیات طیبہ سے مراد دنیا کی پاکیزہ اور بالطف زندگی ہے اور بعض ائمہ تفسیر نے اس سے آخرت کی زندگی مراد لی ہے اور جمہور کی تفسیر کے مطابق بھی اس سے یہ مراد نہیں کہ اس کو کبھی فقر وفاقہ یا بیماری پیش نہ آئے گی بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو اگر کبھی معاشی تنگی یا کوئی تکلیف بھی پیش آتی ہے تو دو چیزیں اس کو پریشان نہیں ہونے دیتیں ایک قناعت اور سادہ زندگی کی عادت جو تنگدستی میں بھی چل جاتی ہے دوسرے اس کا یہ عقیدہ کہ مجھے اس تنگی اور بیماری کے بدلے میں آخرت کی عظیم الشان دائمی نعمتیں ملنے والی ہیں بخلاف کافر وفاجر کے کہ اگر اس کو تنگدستی اور بیماری پیش آتی ہے تو اس کے لئے کوئی تسلی کا سامان نہیں ہوتا عقل وہوش کھو بیٹھتا ہے بعض اوقات خود کشی کی نوبت آجاتی ہے اور اگر اس کو فراخی عیش بھی نصیب ہو تو اس کو زیادتی کی حرص کسی وقت چین سے نہیں بیٹھنے دیتی وہ کروڑ پتی ہوجاتی ہے تو ارب پتی بننے کی فکر اس کے عیش کو خراب کرتی رہتی ہے۔- ابن عطیہ نے فرمایا کہ مؤمنین صالحین کو حق تعالیٰ دنیا میں بھی وہ فرحت و انبساط اور پر لطف زندگی عطا فرماتے ہیں جو کسی حال میں متغیر نہیں ہوتی تندرستی اور فراخ دستی کے وقت تو ان کی زندگی کا پر لطف ہونا ظاہر ہے ہی خصوصا اس بنا پر کہ بلاضرورت مال کو بڑھانے کی حرص ان میں نہیں ہوتی جو انسان کو ہر حال میں پریشان رکھتی ہے اور تنگدستی یا بیماری بھی پیش آئے تو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر ان کا مکمل یقین اور مشکل کے بعد آسانی کلفت کے بعد راحت ملنے کی قوی امید ان کی زندگی کو بےلطف نہیں ہونے دیتی جیسے کاشتکار کھیت بولے اور اس کی پرورش کے وقت اس کو کتنی ہی تکلیفیں پیش آجائیں سب کو اس لئے راحت محسوس کرتا ہے کہ چند روز کے بعد اس کا بڑا صلہ اس کو ملنے والا ہے تاجر اپنی تجارت میں ملازم اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں کیسی کیسی محنت ومشقت بلکہ بعض اوقات ذلت بھی برداشت کرتا ہے مگر اس لئے خوش رہتا ہے کے چند روز کے بعد اس کو تجارت کا بڑا نفع یا ملازمت کی تنخواہ ملنے کا یقین ہوتا ہے مومن کا بھی یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ مجھے ہر تکلیف پر اجر مل رہا ہے اور آخرت میں اس کا بدلہ دائمی عظیم الشان نعمتوں کی صورت میں ملے گا اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے یہاں کے رنج و راحت اور سرد وگرم سب کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہے اس کی زندگی ایسے حالات میں بھی مشوش اور بےلطف نہیں ہوتی یہی وہ حیات طیبہ ہے جو مومن کو دنیا میں نقد ملتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 97؀- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- طيب ( پاكيزه)- يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] - قوله تعالی: مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم 24] ، وقوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وَمَساكِنَ طَيِّبَةً [ التوبة 72] ، أي : طاهرة ذكيّة مستلذّة . - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں - اسی معنی میں فرمایا ؛ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ [إبراهيم 24] پاک عمل کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہے ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمے پڑھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٧) اور جو شخص بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی اچھا کام کرے گا اور اللہ تعالیٰ پر یقین قائم رکھے گا، بشرطیکہ مومن مخلص ہو تو ہم اس کو لطف والی زندگی دیں گے یعنی طاعت میں یا قناعت میں یا یہ کہ جنت میں اور ان کے دنیاوی اچھے کاموں کے بدلہ ان کو آخرت میں ثواب دیں گے، یہ آیت مبارکہ عبدان بالاشوع اور امرء القیس کندگی کے متعلق نازل ہوئی ہے، ان دونوں میں ایک زمین کا جھگڑا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً )- ایسے لوگ بیشک دنیا میں روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کریں مگر انہیں سکون قلب کی دولت نصیب ہوگی ان لوگوں کے دل غنی ہوں گے کیونکہ حضور کا فرمان ہے : (اَلْغِنٰی غِنَی النَّفْسِ ) کہ اصل امیری تو دل کی امیری ہے۔ اگر انسان کا دل غنی ہے تو انسان واقعتا غنی ہے اور اگر ڈھیروں دولت پا کر بھی دل لالچ کے پھندے میں گرفتار ہے تو ایسا شخص دراصل غنی یا امیر نہیں فقیر ہے۔ چناچہ نیکو کار انسانوں کو دنیوی زندگی میں ہی غنا اور سکون قلب کی نعمت سے نوازا جائے گا کیونکہ یہ نعمت تو ثمرہ ہے اللہ کی یاد کا : (اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ ) (الرعد) ” آگاہ رہو دل تو اللہ کے ذکر ہی سے مطمئن ہوتے ہیں “۔ ایسے لوگوں کا شمار اللہ کے دوستوں اور اولیاء میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ خصوصی شفقت کا معاملہ فرمایا جاتا ہے اور انہیں حزن و ملال کے سایوں سے محفوظ رکھا جاتا ہے : (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ) ( یونس) ” آگاہ رہو یقیناً اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :99 اس آیت میں مسلم اور کافر دونوں ہی گروہوں کے ان تمام کم نظر اور بے صبر لوگوں کی غلط فہمی دور کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی اور دیانت اور پرہیزگاری کی روش اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت چاہے بن جاتی ہو مگر اس کی دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے ۔ اللہ تعالی ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے ۔ اس صحیح رویہ سے محض آخرت ہی نہیں بنتی ، دنیا بھی بنتی ہے ۔ جو لوگ حقیقت میں ایماندار اور پاکباز اور معاملہ کے کھرے ہوتے ہیں ان کی دنیوی زندگی بھی بے ایمان اور بد عمل لوگوں کے مقابلہ میں صریحا بہتر رہتی ہے ۔ جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بے داغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی ۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گھناؤنے طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئی ادنی سا حصہ بھی محلول میں رہنے والے فساق و فجار نہیں پا سکتے ۔ سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :100 یعنی آخرت میں ان کا مرتبہ ان کے بہتر سے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہوگا ۔ بالفاظ دیگر جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی ، ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی اسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani