آعوذ کا مقصد اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنے مومن بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے وہ اعوذ پڑھ لیا کریں ۔ یہ حکم فرضیت کے طور پر نہیں ۔ ابن جریر وغیرہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ آعوذ کی پوری بحث مع معنی وغیرہ کے ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں لکھ آئے ہیں فالحمد اللہ ۔ اس حکم کی مصلحت یہ ہے کہ قاری قرآن میں الھنے ، غور و فکر سے رک جانے اور شیطانی وسوسوں میں آنے سے بچ جائے ۔ اسی لئے جمہور کہتے ہیں کہ قرأت شروع کرنے سے پہلے آعوذ پڑھ لیا کر ۔ کسی کا قول یہ بھی ہے کہ ختم قرأت کے بعد پڑھے ۔ ان کی دلیل یہی آیت ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور احادیث کی دلالت بھی اس پر ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ ایماندار متوکلین کو وہ ایسے گناہوں میں پھانس نہیں سکتا ، جن سے وہ توبہ ہی نہ کریں ۔ اس کی کوئی حجت ان کے سامنے چل نہیں سکتی ، یہ مخلص بندے اس کے گہرے مکر سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ہاں جو اس کی اطاعت کریں ، اس کے کہے میں آ جائیں ، اسے اپنا دوست اور حمایتی ٹھہرا لیں ۔ اسے اللہ کی عبادتوں میں شریک کرنے لگیں ۔ ان پر تو یہ چھا جاتا ہے ۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ب کو سبیبہ بتلائیں یعنی وہ اس کی فرمانبرداری کے باعث اللہ کے ساتھ شرکت کرنے لگ جائیں ، یہ معنی بھی ہیں کہ وہ اسے اپنے مال میں ، اپنی اولاد میں شریک الہ ٹھیرا لیں ۔
98۔ 1 خطاب اگرچہ نبی سے ہے لیکن مخاطب ساری امت ہے۔ یعنی تلاوت کے آغاز میں اَ عُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھا جائے۔
[١٠٢] تلاوت سے پہلے تعوذ پڑھنا :۔ ایمان کی حقیقت اور اعمال صالحہ کے علم کا منبع قرآن ہی ہے لہذا قرآن کی تلاوت بذات خود بہت بڑا صالح عمل ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ ( خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ ) (تم میں سے بہتر شخص وہ ہے کہ جو خود قرآن سیکھے پھر اسے دوسروں کو سکھلائے) اور قرآن کی تلاوت کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ تلاوت شروع کرنے سے پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا جائے یعنی میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں یا اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ پناہ عموماً کسی نقصان دینے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے زیادہ طاقتور ہو، شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر تلاوت کرنے والے آدمی کی فکر پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور تلاوت کے دوران اسے گمراہ کن وسوسوں اور کج فکری میں مبتلا کرسکتا ہے۔ لہذا شیطان کی اس وسوسہ اندازی سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کے آگے شیطان بالکل بےبس ہے۔ گویا یہ دعا دراصل قرآن سے صحیح رہنمائی حاصل کرنے کی دعا ہے۔ جبکہ شیطان کی انتہائی کوشش ہی یہ ہوتی ہے کہ کوئی شخص قرآن سے ہدایت نہ حاصل کرنے پائے۔
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ ۔۔ : ہدایت کا سرچشمہ قرآن کریم ہے، ادھر گمراہی کا سرچشمہ شیطان ہے، جو انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اسے کسی صورت آدمی کا قرآن پڑھنا برداشت نہیں، سو وہ ہر حال میں اسے قرآن پڑھنے سے باز رکھتا ہے اور اگر کوئی پڑھنے لگے تو اس کے دل میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لو۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھنے سے پہلے ” أَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ “ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ اللہ کی پناہ کی دعا کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہی ہمیں اس ظالم سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ شیطان انسان بھی ہوتے ہیں، جن بھی۔ (دیکھیے انعام : ١١٢) ان سے پناہ کی دعا کے ساتھ ان سے بچنے کے ذرائع اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان سے میل جول اور دلی دوستی رکھے اور ” أَعُوْذُ باللّٰہِ “ پڑھ کر اپنے آپ کو ان سے محفوظ سمجھے تو اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو توپ کے گولوں سے اوٹ لیے بغیر اللہ سے پناہ مانگتا رہے اور اپنے آپ کو گولوں سے محفوظ سمجھے۔
ربط آیات : - سابقہ آیات میں اول ایفاء عہد کی تاکید اور مطلقا اعمال صالحہ کی تاکید و ترغیب کا بیان آیا ہے انسان کو ان احکام میں غفلت اغواء شیطانی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے اس آیت میں شیطان رجیم سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے جس کی ضرورت ہر نیک عمل میں ہے مگر اس آیت میں اس کو خاص طور سے قراءت قرآن کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس تخصیص کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تلاوت قرآن ایک ایسا عمل ہے جس سے خود شیطان بھاگتا ہے۔- دیوبگر یزدازاں قوم کہ قرآن خوانند - اور بعض خاص آیات اور سورتیں بالخاصہ شیطانی اثرات کو زائل کرنے کیلئے مجرب ہیں جن کا مؤ ثر ومفید ہونا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے (بیان القرآن) اس کے باوجود جب تلاوت قرآن کے ساتھ شیطان سے تعوذ کا حکم دیا گیا تو دوسرے اعمال کے ساتھ اور بھی زیادہ ضروری ہوگیا۔- اس کے علاوہ خود تلاوت قرآن میں شیطانی وساوس کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ تلاوت کے آداب میں کمی ہوجائے تدبر و تفکر اور خشوع خضوع نہ رہے تو اس کے لئے بھی وساوس شیطانی سے پناہ مانگنا ضروری سمجھا گیا (ابن کثیر مظہری وغیرہ)- خلاصہ تفسیر :- (اور جب عمل صالح کی فضیلت معلوم ہوئی اور کبھی کبھی شیطان اس میں خلل ڈالتا ہے کبھی وفائے عہد میں بھی خلل ڈالتا ہے اور کبھی دوسرے عمل مثل قرآت قرآن میں بھی) تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور آپ کے واسطہ سے آپ کی امت سن لیں کہ) جب آپ (کیسا ہی نیک کام کرنا چاہئیں حتی کہ) قرآن پڑھنا چاہئیں تو شیطان مردود (کے شر) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں (اصلا تو دل سے خدا پر نظر رکھنا ہے اور یہی حقیقت استعاذہ کی واجب ہے اور قرآت میں پڑھ لینا زبان سے بھی مسنون ہے اور پناہ مانگنے کا حکم ہم اس لئے دیتے ہیں کہ) یقینا اس کا قابو ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر (دل سے) بھروسہ رکھتے ہیں بس اس کا قابو تو صرف ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں پر (چلتا ہے) جو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔- معارف و مسائل :- ابن کثیر نے مقدمہ تفسیر میں فرمایا کہ انسان کے دشمن دو قسم کے ہیں ایک خود نوع انسانی میں سے جیسے عام کفار دوسرے جنات میں سے جو شیطان و نافرمان ہیں پہلی قسم کے دشمن کے ساتھ اسلام نے جہاد و قتال کے ذریعہ مدافعت کا حکم دیا ہے مگر دوسری قسم کے لئے صرف اللہ سے پناہ مانگنے کا حکم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی قسم کا دشمن اپنی ہی جنس ونوع سے ہے اس کا حملہ ظاہر ہو کر ہوتا ہے اس لئے اس سے جہاد و قتال فرض کردیا گیا اور دشمن شیطانی نظر نہیں آتا اس کا حملہ بھی انسان پر آمنا سامنے نہیں ہوتا اس لئے اس کی مدافعت کے لئے ایک ایسی ذات کی پناہ لینا واجب کیا گیا جو نہ انسان کو نظر آتی ہے نہ شیطان کو اور شیطان کی مدافعت کو حوالہ بخدا تعالیٰ کرنے میں یہ بھی مصلحت ہے کہ جو اس سے مغلوب ہوجائے وہ اللہ کے نزدیک راندہ درگاہ اور مستحق عذاب ہے بخلاف عدد انسانی یعنی کفار کہ ان کے مقابلہ میں کوئی شخص مغلوب ہوجائے یا مارا جائے تو وہ شہید اور مستحق ثواب ہے اس لئے عدد انسانی کا مقابلہ اعضاء وجوارح کیساتھ ہر حال میں نفع ہی نفع ہے یا دشمن پر غالب آ کر قوت کو ختم کر دے گا پھر شہید ہو کر عند اللہ ماجور ہوگا۔- مسئلہ : تلاوت قرآن سے پہلے اَعُوذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ کا پڑھنا اس آیت کی تعمیل کے لئے ثابت ہے اس لئے جمہور علماء امت نے اس حکم کو واجب نہیں بلکہ سنت قرار دیا ہے اور ابن جریز طبری نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے اس معاملے میں روایات حدیث قولی اور عملی تلاوت سے پہلے اکثر حالات میں اعوذ باللہ پڑھنے کی اور بعض حالات میں نہ پڑھنے کی یہ سب ابن کثیر نے اپنی تفسیر کے شروع میں مبسوط ذکر کی ہیں۔- مسئلہ : نماز میں تعوذ (یعنی اعوذ باللہ) صرف پہلی رکعت کے شروع میں پڑھا جائے یا ہر رکعت کے شروع میں ؟ اس میں ائمہ فقہاء کے اقوال مختلف ہیں امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک صرف پہلی رکعت میں پڑھنا چاہئے اور امام شافعی ہر رکعت کے شروع میں پڑھنے کو مستحب قرار دیتے ہیں دنوں کے دلائل تفسیر مظہری میں مبسوط لکھے گئے ہیں (ص ٤٩ ج ٥)- مسئلہ : تلاوت قرآن نماز میں ہو یا خارج نماز دونوں صورتوں میں تلاوت سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا سنت ہے مگر ایک دفعہ پڑھ لیا تو آگے جتنا پڑہتا رہے وہی ایک تعوذ کافی ہے، البتہ تلاوت کو درمیان میں چھوڑ کر کسی دنیوی کام میں مشغول ہوگیا اور پھر دوبارہ شروع کیا تو اس وقت دوبارہ تعوذ اور بسم اللہ پڑھنا چاہئے۔- مسئلہ : تلاوت قرآن کے علاوہ کسی دوسرے کلام یا کتاب پڑھنے سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا سنت نہیں وہاں صرف بسم اللہ پڑھنا چاہئے (درمختار شامی)- البتہ مختلف اعمال اور حالات میں تعوذ کی تعلیم حدیث میں منقول ہے مثلا جب کسی کو غصہ زیادہ آئے تو حدیث میں ہے کہ (اَعُوذُبِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ) پڑھنے سے شدت غضب فرو ہوجاتی ہے (ابن کثیر) - نیز حدیث میں ہے کہ بیت الخلاء میں جانے سے پہلے اللہم انی اعوذ بک من الخبث والخبآئث پڑھنا مستحب ہے (شامی)
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ 98- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال :- عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔
استعاذہ کا بیان - قرآن پڑھنے سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا ضروری ہے - قول باری ہے (فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم۔ پھر جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو) عمرو بن مرہ نے عباد بن عاصم سے، انہوں نے نافع بن جبیربن مطعم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز شروع کرتے وقت یہ پڑھتے ہوئے سنا تھا (اللھم اعوذ بک من الشیطان من ھمزہ و نفخہ و نفشہ اے اللہ میں شیطان سے ، اس کے خطرات سے ، اس کی پھونک سے اور اس کے وسوسے سے تیری پناہ میں آتا ہوں) حضرت ابو سعید خدری نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے اندر قرأت سے پہلے تعوذ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عمر اور حضرت ابن عمر سے قرأت سے پہلے تعوذ پڑھنا مروی ہے۔ ابن جریج نے عطاء سے روایت کی ہے کہ نماز اور غیر نماز میں قرآن کی قرأت سے پہلے تعوذ پڑھنا واجب ہے۔ محمد بن سیرین کا قول ہے کہ جب تم ایک مرتبہ تعوذ پڑھ لو یا ایک مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ لو تو یہ تمہارے لئے کافی ہوگا۔ ابراہیم نخعی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ حسن بصری نماز شروع کرتے وقت سورة فاتحہ کی قرأت سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھا کرتے تھے۔- ابن سیرین سے ایک اور روایت کے مطابق منقول ہے کہ ” جب کبھی تم سورة فاتحہ پڑھو اور آمین کہو اس وقت اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بھی پڑھو۔ “ ہمارے اصحاب، سفیان ثوری، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ نمازی قرأت سے قبل ت عوذ پڑھے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ نمازی فرض نمازوں میں تعوذ نہیں پڑھے گا البتہ رمضان کے اندر قیام اللیل یعنی تراویح اور تہجد میں قرأت کرتے وقت تعوذ پڑھے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری افاذا فرأت القران فاستعذ باللہ) ظاہری طور پر اس امر کا مقتضی ہے کہ استعاذہ قرأت کے بعد وقوع پذیر ہو جس طرح یہ قول باری ہے (فاذا قضیتم الصلوۃ فازکرواللہ قیاماً و قعوداً جب تم نماز ختم کرو تو قیام وقعود کی حالت میں اللہ کا ذکر کیا کرو) لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیز سلف کے ان حضرات سے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے قرأت سے پہلے تعوذ پڑھنا ثابت ہے۔ محاورے میں اس قسم کے فقرے کا عام اطلاق ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ مفہوم ہوتا ہے ۔” اذا اروت ذلک (جب تم قرأت قرآن کا ارادہ کرو) جس طرح یہ قول باری ہے (واذا قلم فاعدلوا جب تم کہو تو انصاف کی بات کہو) یعنی جب تم کوئی بات کہنا چاہو تو انصاف کی بات کہو۔- اسی طرح یہ قول باری ہے (فاذا اسالتموھن متاعاً فاسئلوھن من وراء حجاب جب تم ازواج مطہرات سے کوئی سامان طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے مانگو) یہاں یہ مراد نہیں ہے کہ پہلی دفعہ طلب کرنے کے بعد پھر پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (اذا ناجیتم الرسول فقد مواب ین یدی نجوا کم صدقۃ جب تم رسول سے سرگوشی کرو تو اپنی سرگوشی سے قبل کچھ خیرات دے دیا کرو) درج بالا آیات کی طرح یہ قول باری بھی ہے (فاذا قرأت القرآن فاستعذ باللہ) اس کے معنی ہیں ” جب تم قرأت کرنے لگو تو قرأت پر تعوذ پر مقدم کرو۔ “ اس کے حقیقی معنی یہ ہیں ” جب تم قرأت قرآن کا ارادہ کرو تو تعوذ پڑھ لو۔ “ جس طرح قائل کا یہ قول ہے ” اذا قلت فاصدق “ (جب بات کرو تو سچ بولو) یا ” اذا حرمت فاغتسل (جب تم احرام باندھنے لگو تو غسل کرو) یعنی احرام باندھنے سے پہلے ان تمام فقرات کا مفہوم یہ ہے کہ ” جب تم اس کا ارادہ کرو۔ “- اسی طرح قول باری (فاذا قرأت القرآن) کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو۔ جن حضرات کا یہ قول ہے کہ قرأت سے فراغت کے بعد اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھا جائے ان کا یہ قول شاذ ہے۔ استعاذہ قرأت سے پہلے ہونا چاہیے تاکہ اس کے ذریعے قرأت کے وقت شیطانی وسواس کی نفی ہوجائے۔ ارشاد باری ہے (وما ارسلنا من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایاتہ اور ہم نے آپ سے قبل کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا مگر یہ کہ جب اس نے کچھ پڑھا ہو تو شیطان نے اس کے پڑھنے کے باب میں شبہ ڈالا، سو اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہ کو مٹا دیتا ہے ، پھر اللہ اپنی آیات کو اور زیادہ مضبوط کردیتا ہے) اللہ تعالیٰ نے اسی سبب کی بنا پر قرأت سے پہلے استعاذہ کو مقدم کرنے کا حکم دیا۔- استعاذہ فرض نہیں ہے - تاہم استعاذہ نہیں ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بدوی کو جب نماز سکھائی تو آپ نے اسے اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھنے کی تعلیم نہیں دی، اگر استعاذہ فرض ہوتا تو آپ اسے اس کی تعلیم ضرور فرماتے۔
(٩٨) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ قرآن کریم پڑھنا چاہیں خواہ نماز کی پہلی رکعت میں یا نماز کے علاوہ تو شیطان لعین سے جو کہ رحمت خداوندی سے مردود ہے پناہ مانگ لیا کریں۔
آیت ٩٨ (فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ )- اس حکم کی رو سے قرآن کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنا ضروری ہے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :101 اس کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس زبان سے اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ کہہ دیا جائے ، بلکہ اس کے ساتھ فی الواقع دل میں یہ خواہش اور عملا یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ آدمی قرآن پڑھتے وقت شیطان کے گمراہ کن وسوسوں سے محفوظ رہے ، غلط اور بے جا شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہو ، قرآن کی ہر بات کو اس کی صحیح روشنی میں دیکھے ، اور اپنے خود ساختہ نظریات یا باہر سے حاصل کیے ہوئے تخیلات کی آمیزش سے قرآن کے الفاظ کو وہ معنی نہ پہنانے لگے جو اللہ تعالی کے منشاء کے خلاف ہوں ۔ اس کے ساتھ آدمی کے دل میں یہ احساس بھی موجود ہونا چاہیے کہ شیطان سب سے بڑھ کر جس چیز کے درپے ہے وہ یہی ہے کہ ابن آدم قرآن سے ہدایت نہ حاصل کر نے پائے ۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو شیطان اسے بہکانے اور اخذ ہدایت سے روکنے اور فکر و فہم کی غلط راہوں پر ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے ۔ اس لیے آدمی کو اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت انتہائی چوکنا رہنا چاہیے اور ہر وقت خدا سے مانگتے رہنا چاہیے کہ کہیں شیطان کی دراندازیاں اسے اس سرچشمہ ہدایت کے فیض سے محروم نہ کر دیں ۔ کیونکہ جس نے یہاں سے ہدایت نہ پائی وہ پھر کہیں ہدایت نہ پا سکے گا ، اور جو اس کتاب سے گمراہی اخذ کر بیٹھا اسے پھر دنیا کی کوئی چیز گمراہیوں کے چکر سے نہ نکال سکے گی ۔ اس سلسلہ کلام میں یہ آیت جس غرض کے لیے آئی ہے وہ یہ ہے کہ آگے چل کر ان اعتراضات کا جواب دیا جا رہا ہے کہ جو مشرکین مکہ قرآن مجید پر کیا کرتے تھے ۔ اس لیے پہلے تمہید کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ قرآن کو اس کی اصلی روشنی میں صرف وہی شخص دیکھ سکتا ہے جو شیطان کے گمراہ کن وسوسہ اندازیوں سے چوکنا ہو اور ان سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے پناہ مانگے ۔ ورنہ شیطان کبھی آدمی کو اس قابل نہیں رہنے دیتا کہ وہ سیدھی طرح قرآن کو اور اس کی باتوں کو سمجھ سکے ۔
43: پچھلی آیتوں میں نیک عمل کی فضیلت بیان فرمائی گئی تھی، چونکہ نیکی کے کاموں میں سب سے زیادہ خلل شیطان کے اثر سے پڑتا ہے، اس لئے اس آیت میں اس کا یہ علاج بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لی جائے یعنی اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ: پڑھا جائے۔ تلاوت قرآن کا ذکر خاص طور پر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم ہی تمام نیک کاموں کی ہدایت دینے والا ہے،، لیکن شیطان سے پناہ مانگنا صرف تلاوت ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، ہر نیک کام کے وقت پناہ مانگ لی جائے تو ان شاء اللہ شیطانی اثرات سے حفاظت رہے گی۔