Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢١] سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے دھڑلے سے جواب دیا۔ بات یوں نہیں جو تم مجھے کہہ رہے ہو بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری تباہی کے دن قریب آگئے ہیں جو اتنے واضح معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لارہے۔ تمہارے جادوگر تو حقیقت کو سمجھ کر ایمان لاچکے ہیں پھر بھی تمہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ جادو کی شعبدہ بازیوں سے نہ کسی ملک میں کبھی قحط پڑا ہے، نہ پڑ سکتا ہے، پوری قوم پر طرح طرح کے عذاب لانا جادوگروں کی بساط سے باہر ہے۔ ایسے کام صرف وہ ہستی کرسکتی ہے جو قادر مطلق اور مختار کل ہو اور اگر تم یہ سب کچھ دیکھ کر اس ہستی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو تمہیں اپنے انجام کی فکر کرنا چاہیئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔ : یعنی مجھ پر تو کسی نے جادو نہیں کیا، مگر تو جو ان معجزات کو دیکھ لینے اور ان کے اللہ کی طرف سے ہونے کے یقین کے باوجود اپنی ضد پر قائم ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیری تباہی کے دن قریب آگئے ہیں۔ ” ثُبُوْرٌ“ کا معنی ہلاکت ہے۔ دیکھیے فرقان (١٤) اس مفہوم کی آیت سورة نمل کی آیت (١٣) ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا ١٠٢؁- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے - ثبر - الثُّبُور : الهلاک والفساد، المُثَابِر علی الإتيان، أي : المواظب، من قولهم : ثَابَرْتُ. قال تعالی:- دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان 13- 14] ، وقوله تعالی: وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء 102] ، قال ابن عباس رضي اللہ عنه : يعني ناقص العقل «1» . ونقصان العقل أعظم هلك . وثبیر جبل بمكة .- ( ث ب ر )- البوثر ( مصدر ن ) کے معنی ہلاک ہونے یا ( زخم کے ) خراب ہونے کے ہیں اور المنابر کسی کام کو مسلسل کرنے والا ) سے ( اسم فاعل کا صیغہ ) ہے ۔ جس کے معنی کسی کام کو مسلسل کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ : ۔ دَعَوْا هُنالِكَ ثُبُوراً لا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُوراً واحِداً وَادْعُوا ثُبُوراً كَثِيراً [ الفرقان 13- 14] تو وہاں ہلاکت کو پکاریں گے آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو سی ہلاکتوں کو پکارو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يا فِرْعَوْنُ مَثْبُوراً [ الإسراء 102] اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ میں ابن عباس نے مثبورا کے معنی ناقص العقل کئے ہیں کیونکہ نقصان عقل سب سے بڑی ہلاکت ہے ۔ ثبیر ۔ مکہ کی ایک پہاڑی کا نام

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٢) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اے فرعون تو اپنے دل میں خوب جانتا ہے کہ موسیٰ پر یہ عجائبات خاص رب العالمین نے نازل کیے ہیں جو کہ میری نبوت کی دلیل اور اس کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔- اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ کفر کی حالت میں تو برے طریقہ سے تباہ ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا)- ایک تو حضرت موسیٰ کا مزاج جلالی تھا دوسرے آپ بچپن سے اس فرعون کے ساتھ پلے بڑھے تھے ‘ اس طرح اس کی حیثیت آپ کے چھوٹے بھائی کی سی تھی۔ چناچہ آپ نے بڑے با رعب انداز میں بلا جھجک جواب دیا کہ تمہیں تو مجھ پر جادو کے اثر کا گمان ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ تو رب کائنات کی بصیرت افروز واضح نشانیوں کو جھٹلا کر اپنی ہلاکت اور بربادی کو یقینی بنا چکا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :115 یہ بات حضرت موسی علیہ السلام نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پر قحط آجانا ، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا ، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا ، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو ، یا کسی انسانی طاقت کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے ۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی ، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل ہو جاتی تھی ، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول رب السموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :116 یعنی میں تو سحرزدہ نہیں ہوں مگر تو ضرور شامت زدہ ہے ۔ تیرا ان خدائی نشانیوں کے پے درپے دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنا صاف بتا رہا ہے کہ تیری شامت آگئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani