Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پانچ معجزے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو ایسے معجزے ملے جو آپ کی نبوت کی صداقت اور نبوت پر کھلی دلیل تھی ۔ لکڑی ، ہاتھ ، قحط ، دریا ، طوفان ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک اور خون ۔ یہ تھیں تفصیل وار آیتیں ۔ محمد بن کعب کا قول ہے کہ یہ معجزے یہ ہیں ہاتھ کا چمکیلا بن جانا ۔ لکڑی کا سانپ ہو جانا اور پانچ وہ جن کا بیان سورہ اعراف میں ہے اور مالوں کا مٹ جانا اور پتھر ۔ ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ یہ معجزے آپ کا ہاتھ ، آپ کی لکڑی ، قحط سالیاں پھلوں کی کمی طوفان ٹڈیان جوئیں مینڈگ اور خون ہیں ۔ یہ قول زیادہ ظاہر ، بہت صاف ، بہتر اور قوی ہے ۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے قحط سالی اور پھلوں کی کمی کو ایک گن کر نواں معجزہ آپ کی لکڑی کا جادو گروں کے سانپوں کو کھا جانا بیان کیا ہے ۔ لیکن ان تمام معجزوں کے باوجود فرعونیوں نے تکبر کیا اور گنہگاری پر اڑے رہے باوجودیکہ دل یقین لا چکا تھا مگر ظلم وزیا دتی کر کے کفر انکار پر جم گئے ۔ اگلی آیتوں سے ان آیتوں کا ربط یہ ہے کہ جیسے آپ کی قوم آپ سے معجزے طلب کرتی ہے ایسے ہی فرعونیوں نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معجزے طلب کئے جو ظاہر ہوئے لیکن انہیں ایمان نصیب نہ ہوا آخرش ہلاک کر دئے گئے ۔ اسی طرح اگر آپ کی قوم بھی معجزوں کے آ جانے کے بعد کافر رہی تو پھر مہلت نہ ملے گی اور معا تباہ برباد کر دی جائے گی ۔ خود فرعون نے معجزے دیکھنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جادوگر کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا ۔ پس یہاں جن نو نشانیوں کا بیان ہے یہ وہی ہیں اور ان کا بیان والق عصاک سے قوما فاسقین تک میں ہے ان آیتوں کا بیان سورہ اعراف میں ہے ۔ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزے دئیے تھے مثلا آپ کی لکڑی کے لگنے سے ایک پتھر میں سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا ، بادل کا سایہ کرنا ، من وسلوی کا اترنا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب نعمتیں بنی اسرائیل کو مصر کے شہر چھوڑنے کے بعد ملیں پس ان معجزوں کو یہاں اس لئے بیان نہیں فرمایا کہ وہ فرعونیوں نے دیکھے تھے اور انہیں جھٹلایا تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا چل تو ذرا اس نبی سے ان کے قران کی اس آیت کے بارے میں پوچھ لیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ نو آیات کیا ملی تھیں ؟ دوسرے نے کہا نبی نہ کہہ ، سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی ۔ اب دونوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، چوری نہ کرو ، زنا نہ کرو ، کسی جان کو ناحق قتل نہ کرو ، جادو نہ کرو ، سود نہ کھاؤ ، بےگناہ لوگوں کو پکڑ کر بادشاہ کے دربار میں نہ لے جاؤ کہ اسے قتل کرا دو اور پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو یا فرمایا جہاد سے نہ بھاگو ۔ اور اے یہودیو تم پر خاص کر یہ حکم بھی تھا کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو ۔ اب تو وہ بےساختہ آپ کے ہاتھ پاؤں چومنے لگے اور کہنے لگے ہماری گواہی ہے کہ آپ اللہ کی نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر تم میری تابعداری کیوں نہیں کرتے ؟ کہنے لگے حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ میری نسل میں نبی ضرور رہیں اور ہمیں خوف ہے کہ آپ کی تابعداری کے بعد یہود ہمیں زندہ چھوڑیں گے ۔ ترمذی نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں لیکن ہے ذرا مشکل کام اس لئے کہ اس کے راوی عبداللہ بن سلمہ کے حافظ میں قدرے قصور ہے اور ان پر جرح بھی ہے ممکن ہے نو کلمات کا شبہ نو آیات سے انہیں ہو گیا ہو اس لئے کہ یہ توراۃ کے احکام ہیں فرعون پر حجت قائم کرنے والی یہ چیزں نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اسی لئے فرعون سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے فرعون یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ سب معجزے سچے ہیں اور ان میں سے ایک ایک میری سچائی کی جیتی جاگتی دلیل ہے میرا خیال ہے کہ تو ہلاک ہونا چاہتا ہے اللہ کی لعنت تجھ پر اترا ہی چاہتی ہم تو مغلوب ہو گا اور تباہی کو پہنچے گا ۔ مثبور کے معنی ہلاک ہونے کے اس شعر میں بھی ہیں اذا جار الشیطان فی سنن الغی ومن مال میلہ مثبور یعنی شیطان کے دوست ہلاک شدہ ہیں ۔ علمت کی دوسری قرأت علمت تے کے زبر کے بدلے تے کے پیش سے بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت کے زبر سے ہی ہے ۔ اور اسی معنی کو وضاحت سے اسی آیت میں بیان فرماتا ہے ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ 14۝ۧ ) 27- النمل:14 ) یعنی جب ان کے پاس ہماری ظاہر اور بصیرت افروز نشانیاں پہنچ چکیں تو وہ بولے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے یہ کہہ کر منکرین انکار کر بیٹھے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین آ چکا تھا لیکن صرف ظلم و زیادتی کی راہ سے نہ مانے الخ الغرض یہ صاف بات ہے کہ جن نو نشانیوں کا ذکر ہوا ہے یہ عصا ، ہاتھ ، قحط سالی ، پھلوں کی کم پیداواری ، ٹڈیاں ، جوئیں ، مینڈک ، اور دم ( خون ) تھیں ۔ جو فرعون اور اس کی قوم کے لئے اللہ کی طرف سے دلیل برہان تھا اور آپ کے معجزے تھے جو آپ کی سچائی اور اللہ کے وجود پر دلائل تھے ان نو نشانیوں سے مراد احکام نہیں جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئے کیونکہ وہ فرعون اور فرعونیوں پر حجت ہونے اور ان احکام کے بیان ہونے کے درمیان کوئی مناسبت ہی نہیں ۔ یہ وہم صرف عبداللہ بن سلمہ راوی حدیث کی وجہ سے لوگوں کو پیدا ہوا اس کی بعض باتییں واقعی قابل انکار ہیں ، واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے کہ ان دونوں یہودیوں نے دس کلمات کا سوال کیا ہو اور راوی کو نو آیتوں کا وہم رہ گیا ہو ۔ فرعون نے ارادہ کیا کہ انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔ پس ہم نے خود اسے مچھلیوں کا لقمہ بنایا اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی ۔ اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرما دیا کہ اب زمین تمہاری ہے رہو سہو کھاؤ پیو ۔ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زبردست بشارت ہے کہ مکہ آپ کے ہاتھوں فتح ہو گا ۔ حالانکہ سورت مکی ہے ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ۔ واقع میں ہوا بھی اسی طرح کہ اہل مکہ نے آپ کو مکہ شریف سے نکال دینا چاہا جیسے قرآن نے آیت ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا 76؀ ) 17- الإسراء:76 ) میں بیان فرمایا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا اور مکے کا مالک بنا دیا اور فاتحانہ حیثیت سے آپ بعد از جنگ مکے میں آئے اور یہاں اپنا قبضہ کیا اور پھر اپنے حلم و کرم سے کام لے کر مکے کے مجرموں کو اور اپنے جانی دشمنوں کو عام طور پر معافی عطا فرما دی ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کو مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا تھا اور فرعون جیسے سخت اور متکبر بادشاہ کے مال ، زمین ، پھل ، کھیتی اور خزانوں کا مالک کر دیا جیسے آیت ( كَذٰلِكَ ۭ وَاَوْرَثْنٰهَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ 59؀ۭ ) 26- الشعراء:59 ) میں بیان ہوا ہے ۔ یہاں بھی فرماتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اب تم یہاں رہو سہو قیامت کے وعدے کے دن تم اور تمہارے دشمن سب ہمارے سامنے اکٹھے لائے جاؤ گے ، ہم تم سب کو جمع کر لائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101۔ 1 وہ نو معجزے ہیں۔ ہاتھ، لاٹھی، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان، جراد (ٹڈی دل) قمل (کھٹمل، جوئیں) ضفاد (مینڈک) اور خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، بادلوں کا سایہ کرنا، من وسلوی وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس (رض) نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٩] سیدنا موسیٰ کے نو معجزات :۔ یہ نو واضح آیات یا معجزے قرآن کریم میں سورة اعراف میں مذکور ہیں اور یہ ہیں عصائے ١ موسیٰ ، ید ٢ بیضا، بھری مجلس ٣ میں برسرعام جادوگروں کی شکست، سارے ملک میں قحط واقع ہونا، یکے بعد دیگر طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں، اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا۔ یہ ایسے واضح معجزات تھے جو سیدنا موسیٰ کی نبوت پر بھی واضح دلائل تھے اور ان کے قلبی اطمینان کے لیے بھی کافی تھے لیکن وہ پھر بھی ایمان نہ لائے اس کی وجہ بھی وہی ہے جو اوپر کے حاشیہ میں مذکور ہوئی ہے۔ قریش کا بھی یہی حال تھا۔ کچھ معجزات تو وہ دیکھ چکے تھے مگر ایمان نہ لائے تھے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر ان کے مطلوبہ معجزات دکھلا بھی دیئے جائیں تو یہ بھی فرعونیوں کی طرح ایمان لانے کی طرف کبھی نہ آئیں گے۔ علاوہ ازیں ان نو واضح آیات سے متعلق ترمذی میں ایک حدیث ہے جو درج ذیل ہے :- صفوان بن عسال مرادی سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے دوسرے سے کہا آؤ اس نبی کے پاس چلیں اور اس سے کچھ پوچھیں وہ کہنے لگا اسے نبی نہ کہو، اگر اس نے یہ بات سن لی تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں گی چناچہ وہ دونوں آپ کے پاس آئے اور پوچھا کہ موسیٰ کو کون سی نو واضح آیات دی گئی تھیں ؟ آپ نے فرمایا : یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، زنا نہ کرو، جس جان کو اللہ نے مارنا حرام قرار دیا ہے اسے ناحق نہ مارو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بےقصور کو سلطان کے ہاں نہ لے جاؤ کہ وہ اسے مار ڈالے، کسی پاکدامنہ پر تہمت نہ لگاؤ، جنگ سے فرار نہ کرو۔ راوی شعبہ کو شک ہے کہ نویں بات آپ نے یہ کہی کہ اے یہود نویں بات خالصتاً تمہارے لیے ہے کہ ہفتہ کے دن میں زیادتی نہ کرو وہ کہنے لگے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں آپ نے پوچھا پھر کون سی چیز تمہارے اسلام لانے میں مانع ہے ؟ کہنے لگے داؤد نے دعا کی تھی کہ نبی انہی کی اولاد سے ہو۔ نیز ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے تو یہود ہمیں مار ڈالیں گے (ترمذی ابو اب التفسیر)- اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے راوی عبداللہ بن مسلمہ کی وجہ سے مجروح قرار دیا ہے اور تطبیق کی یہ صورت پیش کی ہے کہ شاید یہود نے ان احکام عشرہ کے متعلق پوچھا ہو جو تورات کے شروع میں بطور وصایا لکھے جاتے تھے۔- [١٢٠] فرعون کی نظروں میں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی سحر زدگی یا دیوانگی یہ تھی کہ آپ نے اس سے برملا بنی اسرائیل کی آزادی اور انھیں اپنے ہمراہ بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔ کیونکہ وہ خود کو ایسا شہنشاہ سمجھتا تھا جو اپنی تمام رعایا کے سیاہ و سپید کا مالک بنا بیٹھا تھا اور از راہ تکبر سیدنا موسیٰ کے دعٰوئے نبوت اور اس مطالبہ کو دیوانگی پر محمول کرتا تھا اور بعض لوگوں نے یہاں مسحور سے مراد ساحر لیا ہے جیسا کہ فرعون اپنی رعایا کو یہی یقین دلانا چاہتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ ۔۔ : یعنی ہم موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے نو (٩) معجزے دے چکے ہیں جو ان کی نبوت پر کھلی نشانی تھے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور قریش کو اس مطالبے کا جواب دیا ہے جو انھوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا تھا کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ آپ یہ کام کرکے نہ دکھا دیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ سے تو چھ معجزوں کا مطالبہ کیا گیا ہے، ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو معجزے دیے، مگر نہ ماننے والوں نے پھر بھی نہ مانا۔ ان نو (٩) معجزوں کا ذکر سورة اعراف کی آیات (١٠٧، ١٠٨، ١٣٠، ١٣٣) میں ہے۔ بعض نے ان سے شریعت کے نو (٩) احکام مراد لیے ہیں، جو تمام شریعتوں میں ثابت تھے، مگر صحیح یہی ہے کہ یہاں نو (٩) معجزات ہی مراد ہیں وہ نو احکام دراصل تورات میں مذکور نو وصیتیں ہیں جو بنی اسرائیل کو دی گئیں، ان کا فرعون کے سامنے پیش کیے گئے معجزوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی دلیل سورة نمل کی آیات (١٠ تا ١٢) ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے عصائے موسیٰ اور ید بیضا کا ذکر کرکے فرمایا : (فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَقَوْمِهٖ ) [ النمل : ١٢ ] یعنی یہ دونوں معجزے ان نو (٩) معجزوں میں شامل تھے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اور معجزات بھی دیے گئے، مثلاً پتھر سے بارہ چشمے جاری ہونا، گائے کا حصہ مارنے سے مردہ زندہ ہونا، من وسلویٰ ، بادلوں کا سایہ، پہاڑ کا اکھڑ کر ان پر آکھڑا ہونا وغیرہ، مگر یہ بنی اسرائیل کے لیے تھے۔ - اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا : یہ بالکل اسی قسم کا الزام ہے جو کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیتے تھے، جیسا کہ قرآن میں ہے : (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ) [ بني إسرائیل : ٤٧ ]” تم پیروی نہیں کرتے مگر ایسے آدمی کی جس پر جادو کیا گیا ہے۔ “ ہر زمانے میں باطل پرست ناقابل تردید دلائل سن کر حق پرستوں کے بارے میں ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے ہوئے نو معجزے دیئے (جنکا ذکر پارہ نہم کے رکوع ششم آیت اول میں ہے) جبکہ وہ بنی اسرائیل کے پاس آئے تھے سو آپ بنی اسرائیل سے (بھی چاہے) پوچھ دیکھئے (اور چونکہ آپ فرعون کی طرف بھی بھیجے گئے تھے اور فرعون وآل فرعون کے ایمان نہ لانے سے وہ عجائبات معجزات ظاہر ہوئے تھے اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو دوبارہ ایمان لانے کے لئے یاد دہانی کی اور ان آیات بینہ سے ڈرایا) تو فرعون نے ان سے کہا کہ اے موسیٰ میرے خیال میں تو ضرور تم پر کسی نے جادو کردیا ہے (جس سے تمہاری عقل مخبوط ہوگئی کہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تو (دل میں) خوب جانتا ہے (گو عار کیوجہ سے زبان سے اقرار نہیں کرتا) کہ یہ عجائبات خاص آسمان اور زمین کے پروردگار ہی نے بھیجے ہیں جو کہ بصیرت کے لئے (کافی) ذرائع ہیں اور میرے خیال میں ضرور تیری کمبختی کے دن آگئے ہیں (اور یا تو فرعون کی یہ حالت تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر بھی بنی اسرائیل کو مصر سے جانے کی اجازت نہ دیتا تھا اور) پھر (یہ ہوا کہ) اس نے (اس احتمال سے کہ کہیں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے اثر سے قوت نہ پکڑ جاویں خود ہی) چاہا کہ بنی اسرائیل کا اس سر زمین سے قدم اکھاڑ دے (یعنی ان کو شہر بدر کردے) سو ہم نے (قبل اس کے کہ وہ کامیاب ہو خود) اس (ہی) کو اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو غرق کردیا اور اس (کے غرق کرنے) کے بعد ہم نے بنی اسرائیل کو کہہ دیا کہ (اب) تم اس سر زمین (کے جہاں سے تم کو نکالنا چاہتا تھا مالک ہو تم ہی اس) میں رہو سہو (خواہ بالقوہ یا بالفعل مگر یہ مالکیت حیوۃ دنیا تک ہے) پھر جب آخرت کا وعدہ آ جاوے گا تو ہم سب کو جمع کر کے (قیامت کے میدان میں مملوکانہ محکومانہ) لاکر حاضر کریں گے (یہ ابتدا میں ہوگا پھر مومن و کافر اور نیک و بد کو الگ الگ کردیا جاوے گا) اور (جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزے دیئے اسی طرح آپ کو بھی بہت سے معجزات دیئے جن میں عظیم الشان معجزہ قرآن ہے کہ) ہم نے اس قرآن کو راستی ہی کے ساتھ تو نازل کیا اور وہ راستی ہی کے ساتھ (آپ پر) نازل ہوگیا (یعنی جیسا کاتب کے پاس سے چلا تھا اسی طرح مکتوب الیہ تک پہنچ گیا اور درمیان میں کوئی تغیر و تبدل و تصرف نہیں ہوا پس سر تا سر راستی ہی راستی ہے) اور (جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبر بنایا تھا اور ہدایت ان کے اختیار میں نہ تھی اسی طرح) ہم نے آپ کو (بھی) صرف (ایمان پر ثواب کی) خوشی سنانے والا اور (کفر پر عذاب سے) ڈرانیوالا بنا کر بھیجا ہے (اگر کوئی ایمان نہ لاوے کچھ غم نہ کیجئے) اور قرآن (میں صفت راستی کے ساتھ بمتقضائے رحمت اور بھی ایسے صفات کی رعایت کی گئی ہے کہ اس سے ہدایت زیادہ آسان ہو چناچہ ایک تو یہ کہ اس) میں ہم نے (آیات وغیرہ کا) جا بجا فصل رکھا تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں (جس میں وہ اچھی طرح سمجھ سکیں کیونکہ تقریر طویل مسلسل بعض اوقات ضبط میں نہیں آتی) اور (دوسرے یہ کہ) ہم نے اس کو اتارنے میں بھی (حسب واقعات) تدریجا اتارا (تاکہ معانی کا خوف انکشاف ہو اب ان سب امور کا مقتضا یہ تھا کہ یہ لوگ ایمان لے آتے لیکن اس پر بھی ایمان نہ لاویں تو آپ کچھ پروا نہ کیجئے بلکہ صاف) کہہ دیجئے کہ تم اس قرآن پر خواہ ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ (مجھ کو کوئی پرواہ نہیں دو وجہ سے اول تو یہ کہ میرا کیا ضرر کیا۔ دوسرے یہ کہ تم ایمان نہ لائے تو کیا ہوا دوسرے لوگ ایمان لے آئے چنانچہ) جن لوگوں کو قرآن (کے نزول) سے پہلے (دین کا) علم دیا گیا تھا (یعنی منصف علماء اہل کتاب) یہ قرآن جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا رب (وعدہ خلافی سے) پاک ہے بیشک ہمارے رب کا وعدہ ضرور پورا ہی ہوتا ہے (سو جس کتاب کا جس نبی پر نازل کرنے کا وعدہ کتب سابقہ میں کیا تھا اس کو پورا فرما دیا اور ٹھوڑیوں کے بل (جو) گرتے ہیں (تو) روتے ہوئے (گرتے ہیں) اور یہ قرآن (یعنی اس کا سننا) ان کا (دلی) خشوع اور بڑھا دیتا ہے (کیونکہ ظاہر و باطن کا توافق کیفیت کو قوی کردیتا ہے)- معارف و مسائل :- وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نو آیات بینات عطا فرمانے کا ذکر ہے آیت کا لفظ معجزے کے معنی میں آتا ہے اور آیات قرآن یعنی احکام الہیہ کے معنی میں بھی اس جگہ دونوں معنی کا احتمال ہے اسی لئے ایک جماعت مفسرین نے اس جگہ آیات سے مراد معجزات لئے ہیں اور نو کے عدد سے یہ ضروری نہیں کہ نو سے زائد نہ ہوں مگر اس جگہ نو کا ذکر کسی خاص اہمیت کی بناء پر کیا گیا ہے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے یہ نو معجزات اس طرح شمار فرمائے ہیں (١) عصاء موسیٰ جو اژدھا بن جاتی تھی (٢) یدبیضا جس کو گریبان میں ڈال کر نکالنے سے چمکنے لگتا تھا (٣) زبان میں لکنت تھی وہ دور کردی گئی (٤) بنی اسرائیل کے دریا پار کرنے کے لئے دریا کو پھاڑ کر اس کے دو حصے الگ کردیئے اور راستہ دے دیا (٥) ٹڈی دل کا عذاب غیر معمولی صورت میں بھیج دیا گیا (٦) طوفان بھیج دیا گیا (٧) بدن کے کپڑوں میں بیحد جوئیں پیدا کردی گئیں جن سے بچنے کا کوئی راستہ نہ رہا (٨) مینڈکوں کا ایک عذاب مسلط کردیا گیا کہ ہر کھانے پینے کی چیز میں مینڈک آجاتے تھے (٩) خون کا عذاب بھیجا گیا کہ ہر برتن اور کھانے پینے میں خون مل جاتا تھا۔- اور ایک صحیح حدیث کے مضمون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آیات سے مراد احکام الہیہ ہیں یہ حدیث ابوداؤد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ میں بسند صحیح حضرت صفوان بن عسال (رض) سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ مجھے اس نبی کے پاس لے چلو ساتھی نے کہا کہ نبی نہ کہو اگر ان کو خبر ہوگئی کہ ہم بھی ان کو نبی کہتے ہیں تو ان کی چار آنکھیں ہوجاویں گی یعنی ان کو فخر و مسرت کا موقع مل جاوے گا پھر یہ دونوں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نو آیات بینات دی گئی تھیں وہ کیا ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (١) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو (٢) چوری نہ کرو (٣) زنا نہ کرو (٤) جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو ناحق قتل نہ کرو (٥) کسی بےگناہ پر جھوٹا الزام لگا کر قتل و سزاء کے لئے پیش نہ کرو (٦) جادو نہ کرو (٧) سود نہ کھاؤ (٨) پاک دامن عورت پر بدکاری کا بہتان نہ باندھو (٩) میدان جہاد سے جان بچا کر نہ بھاگو اور اے یہود خاص کر تمہارے لئے یہ بھی حکم ہے کہ یوم سبت (ہفتہ) کے جو خاص احکام تمہیں دیئے گئے ان کی خلاف ورزی نہ کرو۔ - رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سن کر دونوں نے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں اور پاؤں کو بوسہ دیا اور کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں آپ نے فرمایا کہ پھر تمہیں میرا اتباع کرنے سے کیا چیز روکتی ہے کہنے لگے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنے رب سے یہ دعا کی تھی کہ ان کی ذریت میں ہمیشہ نبی ہوتے رہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ اگر ہم آپ کا اتباع کرنے لگیں تو یہود ہمیں قتل کردیں گے چونکہ یہ تفسیر صحیح حدیث سے ثابت ہے اس لئے بہت سے مفسیرین نے اسی کو ترجیح دی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا ١٠١؁- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- فِرْعَوْنُ- : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة .- فرعون - یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠١) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے ہوئے نومعجزے یعنی یدبیضاء، عصا، طوفان، ٹڈیاں، گھن کے کیڑے، مینڈک، خون، قحط سالی، اور مالوں کی کمی و بربادی دیے جب کہ وہ بنی اسرائیل کے پاس آئے تھے۔- آپ مثلا حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں سے بھی پوچھ کر دیکھ لیجیے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ تم ضرور مغلوب العقل ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠١ (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ )- ان میں سے دو نشانیاں تو وہ تھیں جو آپ کو ابتدا میں عطا ہوئی تھیں یعنی عصا کا اژدھا بن جانا اور ید بیضا۔ ان کے علاوہ سات نشانیاں وہ تھیں جن کا ذکر سورة الاعراف کی آیات ١٣٠ اور ١٣٣ میں ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف قسم کے عذاب تھے (قحط سالی پھلوں اور فصلوں کا نقصان طوفان ٹڈی دل چچڑیاں مینڈک اور خون) جو مصر میں قوم فرعون پر مختلف اوقات میں آتے رہے۔ جب وہ لوگ عذاب کی تکالیف سے تنگ آتے تو اسے ٹالنے کے لیے حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے اور حضرت موسیٰ کی دعا سے وہ عذاب ٹل جاتا۔ - یہاں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ سورت کے آغاز میں بھی حضرت موسیٰ کا ذکر ہوا تھا اور اب آخر میں بھی آپ کا ذکر ہونے جا رہا ہے۔ یہ اسلوب ہمیں قرآن حکیم کی ان سورتوں میں ملتا ہے جو ایک خطبے کے طور پر ایک ہی تنزیل میں نازل ہوئی ہیں۔ ایسی سورتوں کی ابتدائی اور آخری آیات خصوصی اہمیت اور فضیلت کی حامل ہوتی ہیں اور ان کے مضامین میں ایک خاص ربط پایا جاتا ہے۔ سورت کے آغاز میں حضرت موسیٰ کی حیات مبارکہ کے اس دور کا ذکر کیا گیا ہے جب آپ مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں آ چکے تھے اور وہاں سے آپ کو کوہ طور پر بلا کر تورات عطا کی گئی تھی : (وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَلاَّ تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً ) ” اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (تورات) دی اور ہم نے اسے بنایا ہدایت بنی اسرائیل کے لیے کہ تم مت بناؤ میرے سوا کسی کو کارساز “۔ اب آخر میں بنی اسرائیل کے زمانۂ مصر کے حالات کے حوالے سے پھر حضرت موسیٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے :- (فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا)- دیکھئے جو الفاظ فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہے تھے عین وہی الفاظ حضور کے لیے آپ کے مخالفین کی طرف سے استعمال کیے گئے ہیں۔ اسی سورت میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ قریش مکہ آپ کے بارے میں کہتے تھے : (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ الاَّ رَجُلاً مَّسْحُوْرًا) ” تم نہیں پیروی کر رہے مگر ایک سحر زدہ شخص کی۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :113 واضح رہے کہ یہاں پھر کفار مکہ کو معجزات کے مطالبے پر جواب دیا گیا ہے ، اور تیسرا جواب ہے ۔ کفار کہتے تھے کہ ہم تم پر ایمان نہ لائیں گے جب تک تم یہ اور یہ کام کر کے نہ دکھاؤ ۔ جواب میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سے پہلے فرعون کو ایسے ہی صریح معجزات ، ایک دو نہیں ، پے در پے ۹ دکھائے گئے تھے ، پھر تمہیں معلوم ہے کہ جو نہ ماننا چاہتا تھا اس نے انہیں دیکھ کر کیا کہا ؟ اور یہ بھی خبر ہے کہ جب اس نے معجزات دیکھ کر بھی نبی کو جھٹلایا تو اس کا انجام کیا ہوا ؟ وہ نو نشانیاں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ، اس سے پہلے سورہ اعراف میں گزر چکی ہیں ۔ یعنی عصاء ، جو اژدہا بن جاتا تھا ، یدِ بیضاء جو بغل سے نکالتے ہی سورج کی طرح چمکنے لگتا تھا ، جادوگروں کے جادو کو برسرعام شکست دینا ، ایک اعلان کے مطابق سارے ملک میں قحط برپا ہو جانا ، اور پھر یکے بعد دیگرے طوفان ، ٹڈی دل ، سرسریوں ، مینڈکوں اور خون کی بلاؤں کا نازل ہونا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :114 یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ۔ اسی سورت کی آیت ٤۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً ۔ ( تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جا رہے ہو ) ۔ اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسٰی علیہ السلام کو نوازا تھا ۔ اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ زمانہ حال میں منکرین حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادہ اثر ہوگیا تھا ، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں ۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ اس طرح راویان حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے ۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہ قرآن کی رو سے حضرت موسی علیہ السلام پر بھی فرعون کا یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحرزدہ آدمی ہیں ، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ۔ فَاَوجَسَ فِیْ نَفْسِہ خِیْفَةً مُّوْسٰی ۔ یعنی جب جادوگروں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسی علیہ السلام کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں ، پس موسی علیہ السلام اپنے دل میں ڈر سا گیا ۔ کیا یہ الفاظ صریح طور پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسی علیہ السلام اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرین حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے؟ دراصل اس طرح کے اعتراضات اٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کو مسحور کہتے تھے ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوانہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثرات یہ نبوت کا دعوی کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں ۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے ۔ رہا وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حاسئہ جسم کا جادو سے متاثر ہو جانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے ، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگایا تھا ، نہ قرآن نے اس کی تردید کی ، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ منصب نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہو جائیں ، حتی کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے ۔ مخالفین حق حضرت موسی علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام لگاتے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

53: ایک صحیح حدیث میں ان نو نشانیوں کی تفسیر خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ نو احکام تھے : شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، کسی پر جھوٹا الزام لگا کر اسے قتل یا سزا کے لئے پیش نہ کرو، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو، اور جہاد میں پیٹھ دکھاکر نہ بھاگو۔ (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ