Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

انسانی فطرت کا نفسیانی تجزیہ انسانی طبیعت کا خاصہ بیان ہو رہا ہے کہ رحمت الہٰی جیسی نہ کم ہونے والی چیزوں پر بھی اگر یہ قابض ہو جائے تو ہاں بھی اپنی بخیلی اور تنگ دلی نہ چھوڑے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اگر ملک کے کسی حصے کے یہ مالک ہو جائیں تو کسی کو ایک کوڑی پرکھنے کو نہ دیں ۔ پس یہ انسانی طبیعت ہے ہاں جو اللہ کی طرف سے ہدایت کئے جائیں اور توفیق خیر دئیے جائیں وہ اس بدخصلت سے نفرت کرتے ہیں وہ سخی اور دوسروں کا بھلا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ انسان بڑا ہی جلد باز ہے تکلیف کے وقت لڑکھڑا جاتا ہے اور راحت کے وقت بھول جاتا ہے اور دوسروں کے فائدہ سے اپنے ہاتھ روکنے لگتا ہے ہاں نمازی لوگ اس سے بری ہیں الخ ایسی آیتیں قرآن میں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اس سے اللہ کے فضل و کرم اس کی بخشش و رحم کا پتہ چلتا ہے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ دن رات کا خرچ اللہ کے ہاتھ میں ہیں اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ابتدا سے اب تک کے خرچ نے بھی اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں کی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 خشیۃ الانفاق کا مطلب ہے۔ خشیۃ ان ینفقوا فیفتقروا۔ اس خوف سے کہ خرچ کر کے ختم کر ڈالیں گے، اس کے بعد فقیر ہوجائیں گے۔ حالانکہ یہ خزانہ الٰہی جو ختم ہونے والا نہیں لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے، اس لئے بخل سے کام لیتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَمْ لَھُمْ نَصِيْبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَاِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيْرًا) ۔ 4 ۔ النساء :53) ۔ یعنی ان کو اگر اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں۔ نقیر کھجور کی گٹھلی میں جو گڑھا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں یعنی تل برابر بھی کسی کو نہ دیں یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں جس طرح حدیث میں ہے اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں کس قدر خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں وہ بھرے کے بھرے ہیں۔ البخاری۔ مسلم۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٨] کفار مکہ کی تنگ نظری اور انسان کی فطرت :۔ قریشی سردار جو آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے اور نہ یہ تھی کہ انھیں دعوت دین کے دلائل کی سمجھ نہیں آتی تھی بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیتے تو ان کی سرداریاں اور چودھراہٹیں انھیں چھنتی نظر آرہی تھیں۔ اور انھیں پیغمبر اسلام کے تابع ہو کر رہنا پڑتا تھا۔ نیز اگر اسلام پھیل جاتا تو انھیں کعبہ کی تولیت کی وجہ سے عرب بھر میں جو عزت اور وقار حاصل تھا وہ بھی ان سے چھنتا نظر آرہا تھا۔ لہذا ان کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام کا خاتمہ ہی کردیا جائے اور حقیقتاً انسان ایسا ہی بخیل واقع ہوا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے مقابلے پر سر نہ نکالے۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ اگر ان کے پاس زمین بھر کے خزانے بھی ہوں تو ان کا یہ حال ہے کہ وہ کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیں۔ مبادا کہ وہ کسی وقت ان کے مقابلہ پر آجائے۔ یہ تو اللہ کی مہربانی ہے کہ ہر طرح کے خزانے اسی کے پاس ہیں اور جس کسی پر جس طرح کا چاہے فضل کرتا رہتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ ۔۔ : یعنی اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے، جن کے ختم ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں، تب بھی تم کسی کو پھوٹی کوڑی نہ دیتے۔ اس شدید بخل کا نتیجہ ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کا بھی کسی کو نعمت عطا کرنا برداشت نہیں، نہ تمہیں یہ برداشت ہے کہ اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت سے سرفراز فرمایا، اس لیے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت پر حسد و بخل کرتے ہو۔ یہ دونوں صفات بیحد قبیح ہیں۔ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورة نساء (٥٣ تا ٥٥) روح المعانی میں ہے کہ ماقبل سے ربط میں مختلف اقوال ہیں مگر ان میں تکلف ہے۔ - وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا :” قَتَرَ یَقْتُرُ قَتْرًا وَ قُتُوْرًا “ (ن، ض) خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل، حتیٰ کہ اپنی ذات پر خرچ کرنے میں بھی بخل کرے۔ اس میں انسان کی طبعی اور جبلی خصلت بیان فرمائی ہے، جو ہمیشہ سے اس میں پائی جاتی ہے اور جس سے چھٹکارا انھی اعمال کی بدولت ہوسکتا ہے جو ” مرد ہلوع “ (تھڑدلا مرد) کے علاج کے لیے سورة معارج کی آیات (١٩ تا ٣٥) میں بیان ہوئے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- آخری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اگر تم لوگ اللہ کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوجاؤ تو بخل کرو گے کسی کو نہ دو گے اس خطرہ سے کہ اگر لوگوں کو دیتے رہے تو یہ خزانہ ختم ہوجائے گا اگرچہ رحمت رب کا خزانہ ختم ہونے والا نہیں مگر انسان اپنی طبیعت سے تنگ دل کم حوصلہ ہوتا ہے اس کو فراخی کے ساتھ لوگوں کے دینے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔- اس میں خزائن رحمت رب کے لفظ سے عام مفسرین نے مال و دولت کے خزائن مراد لئے ہیں اور اس کا ربط ماسبق سے یہ ہے کہ کفار مکہ نے اس کی فرمائش کی تھی کہ اگر آپ واقعی نبی حق ہیں تو آپ اس مکہ کے خشک ریگستان میں نہریں جاری کر کے اس کو سرسبز باغات میں منتقل کردیں جیسا ملک شام کا خطہ ہے جس کا جواب پہلے آ چکا ہے کہ تم نے تو گویا مجھے خدا ہی سمجھ لیا کہ خدائی کے اختیارات کا مجھے مطالبہ کر رہے ہو میں تو صرف ایک رسول ہوں خدا نہیں کہ جو چاہوں کر دوں یہ آیت بھی اگر اسی کے متعلق قرار دی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ سر زمین مکہ کو نہری زمین اور سبزہ زار بنانے کی فرمائش اگر میری نبوت و رسالت کے امتحان کے لئے ہے تو اس کے لئے اعجاز قرآن کا معجزہ کافی ہے دوسری فرمائشوں کی ضرورت نہیں اور اگر اپنی قومی اور ملکی ضرورت رفع کرنے کے لئے ہے تو یاد رکھو کہ اگر تمہاری فرمائش کے مطابق تمہیں زمین مکہ میں سب کچھ دے بھی دیا جائے اور خزائن کا مالک تمہیں بنادیا جائے تو اس کا انجام بھی قومی اور ملک کے عوام کی خوشحالی نہیں ہوگی بلکہ انسانی عادت کے مطابق جن کے قبضہ میں یہ خزائن آ جاویں گے وہ ان پر سانپ بن کر بیٹھ جاویں گے عوام پر خرچ کرتے ہوئے افلاس کا خوف ان کو مانع ہوگا ایسی صورت میں بجز اس کے کہ مکہ کے چند رئیس اور زیادہ امیر اور خوشحال ہوجائیں عوام کا کیا فائدہ ہوگا اکثر مفسرین نے اس آیت کا یہی مفہوم قرار دیا ہے۔- سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی نے بیان القرآن میں اس جگہ رحمت رب سے مراد نبوت و رسالت اور خزائن رحمت سے مراد کمالات نبوت لئے ہیں اس تفسیر کے مطابق اس کا ربط آیات سابقہ سے یہ ہوگا کہ تم جو نبوت و رسالت کے لئے بےسروپا اور بیہودہ مطالبات کر رہے ہو اس کا حاصل یہ ہے کہ میری نبوت کو ماننا نہیں چاہتے تو کیا پھر تمہاری خواہش یہ ہے کہ نبوت کا نظام تمہارے ہاتھوں میں دے دیا جائے جس کو چاہو نبی بنالو اگر ایسا کرلیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی کو بھی نبوت و رسالت نہ دو گے بخل کر کے بیٹھ جاؤ گے حضرت نے اس تفسیر کو نقل کر کے فرمایا ہے کہ یہ تفسیر مواہب الہیہ میں سے کہ مقام کے ساتھ نہایت چسپاں ہے اس میں نبوت کو رحمت کے ساتھ تعبیر کرنا ایسا ہی ہوگا۔ جیسا (آیت) اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ میں بالاجماع رحمت سے مراد نبوت ہی ہے واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا ١٠٠۝ۧ- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] - ( لو ) لو - ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 1 00] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔- ملك - المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، - ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ - خزن - الخَزْنُ : حفظ الشیء في الخِزَانَة، ثمّ يعبّر به عن کلّ حفظ کحفظ السّرّ ونحوه، وقوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21]- ( خ زن ) الخزن - کے معنی کسی چیز کو خزانے میں محفوظ کردینے کے ہیں ۔ پھر ہر چیز کی حفاظت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے جیسے بھیدہ وغیرہ کی حفاظت کرنا اور آیت :۔ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنا خَزائِنُهُ [ الحجر 21] اور ہمارے ہاں ہر چیز کے خزانے ہیں ۔ رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہتہل نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- قتر - القَتْرُ : تقلیل النّفقة، وهو بإزاء الإسراف، وکلاهما مذمومان، قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان 67] . ورجل قَتُورٌ ومُقْتِرٌ ، وقوله : وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] ، تنبيه علی ما جبل عليه الإنسان من البخل، کقوله : وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] ، وقد قَتَرْتُ الشیء وأَقْتَرْتُهُ وقَتَّرْتُهُ ، أي : قلّلته . ومُقْتِرٌ: فقیر، قال : وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] ، وأصل ذلک من القُتَارِ والْقَتَرِ ، وهو الدّخان الساطع من الشِّواء والعود ونحوهما، فكأنّ الْمُقْتِرَ والْمُقَتِّرَ يتناول من الشیء قتاره، وقوله : تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس 41] ، نحو : غَبَرَةٌ «2» وذلک شبه دخان يغشی الوجه من الکذب . والقُتْرَةُ : ناموس الصائد الحافظ لقتار الإنسان، أي : الریح، لأنّ الصائد يجتهد أن يخفي ريحه عن الصّيد لئلّا يندّ ، ورجل قَاتِرٌ: ضعیف كأنّه قَتَرَ في الخفّة کقوله : هو هباء، وابن قِتْرَةَ : حيّة صغیرة خفیفة، والقَتِيرُ : رؤوس مسامیر الدّرع .- ( ق ت ر )- ( القتر ( ن ) کے معنی بہت ہی کم خرچ کرنے اور بخل کرنے کے ہیں یہ اسراف کی ضد ہے اور یہ دونوں صفات مذمومیہ سے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان 67] بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم اسی سے صفت مشبہ کا صیغہ قتور ومقتر آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان فطرۃ کنجوس واقع ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء 128] اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں قترت الشئی واقتر تہ وقتر تہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے کے ہیں اور مقتر بمعنی فقیر ہے قرآن میں ہے : ۔ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة 236] اور تنگد ست اپنی حثیت کے مطابق ۔ اصل میں یہ قتار وقتر سے ہے جس کے معنی اس دھواں کے ہیں جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے گویا مقتر اور مقتر بھی ہر چیز سے دھوئیں کی طرح لیتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس 41] اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی میں قترۃ غبرۃ کی طرح ہے مراد دھوئیں کی طرح سیاہی اور افسر دگی ہے جو جھوٹ کیوجہ سے چہرہ پر چھا جاتی ہے ۔ القترۃ شکار ی کی کین گاہ جو انسان کی بوکو بھی شکار تک نہیں پہچنے دیتی کیونکہ شکاری کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کی بو بھی شکار تک نہ پہنچنے تاکہ شکار بھاگ نہ جائے ۔ رجل قاتر کمزور آدمی ۔ گو یا وہ ضعف میں دھوئیں کی طرح ہے جیسا کہ کمزور آدمی کو ھو ھباء کہا جاتا ہے ۔ ابن قترۃ ایک بار یک اور چھوٹا سا سانپ القتیرۃ زرہ کی میخوں کے سرے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٠) آپ ان مکہ والوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے ہاتھ میں میرے پروردگار کے رزق کے خزانوں کی کنجیاں ہوتیں تو اس صورت میں تم فاقہ کے ڈر سے ان کے خرچ کرنے سے ضرور ہاتھ روک لیتے اور کافر بڑا تنگ، دل بخیل اور لالچی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

( اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ )- اگر اللہ کی رحمت کے بےحساب خزانے تمہارے اختیار میں ہوتے تو تم لوگ اپنے فطری بخل کے سبب ان کے دروازے بھی بند کردیتے کہ کہیں خرچ ہو کر ختم نہ ہوجائیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :112 یہ اشارہ اسی مضمون کی طرف ہے جو اس سے پہلے آیت ۵۵ وَ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ میں گزر چکا ہے ۔ مشرکین مکہ جن نفسیاتی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے تھے ان میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس طرح انہیں آپ کا فضل وشرف ماننا پڑتا تھا ، اور اپنے کسی معاصر اور ہم چشم کا فضل ماننے کے لیے انسان مشکل ہی سے آمادہ ہوا کرتا ہے ۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی بخیلی کا حال یہ ہے کہ کسی کے واقعی مرتبے کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے بھی ان کا دل دکھتا ہے ، انہیں اگر کہیں خدا نے اپنے خزانہائے رحمت کی کنجیاں حوالے کر دی ہوتیں تو وہ کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

52: رحمت کے خزانوں سے یہاں مراد نبوت عطا کرنے کا اختیار ہے، کفار مکہ آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہیں دی گئی ؟ گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کو نبوت ہماری مرضی سے دینی چاہئیے تھی، اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرمارہے ہیں کہ اگر نبوت عطا کرنے کا اختیار تمہیں دے دیا جاتا تو تم اس میں اسی طرح بخل سے کام لیتے جیسے دنیوی دولت کے معاملے میں بخل کرتے ہو کہ خرچ ہونے کے ڈر سے کسی کو نہیں دیتے۔