Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قرآن کریم کی صفات عالیہ ارشاد ہے کہ قرآن حق کے ساتھ نازل ہوا ، یہ سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ اسے نازل فرمایا ہے اس کی حقانیت پر وہ خود شاہد ہے اور فرشتے بھی گواہ ہیں اس میں وہی ہے جو اس نے خود اپنی دانست کے ساتھ اتارا ہے اس کے تمام حکم احکام اور نہی و ممانعت اسی طرف سے ہے حق والے نے حق کے ساتھ اسے اتارا اور یہ حق کے ساتھ ہی تجھ تک پہنچا نہ راستے میں کوئی باطل اس میں ملا نہ باطل کی یہ شان کہ اس سے مخلوط ہو سکے ۔ یہ بالکل محفوظ ہے ، کمی زیادتی سے یکسر پاک ہے ۔ پوری طاقت والے امانتدار فرشتے کی معرفت نازل ہوا ہے جو آسمانوں میں ذی عزت اور وہاں کا سردار ہے ۔ تیرا کام مومنوں کو خوشی سنانا اور کافروں کو ڈرانا ہے ۔ اس قرآن کو ہم نے لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر نازل فرمایا جو آسمان اول میں ہے ۔ وہاں سے متفرق تھوڑا تھوڑا کر کے واقعات کے مطابق تیئس برس میں دنیا پر نازل ہوا ۔ اس کی دوسری قرأت فرقناہ ہے یعنی ایک ایک آیت کر کے تفسیر اور تفصیل اور تبیین کے ساتھ اتارا ہے کہ تو اسے لوگوں کو بہ سہولت پہنچا دے اور آہستہ آہستہ انہیں سنا دے ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شدید القوی، الامین، المکین اور المطاع فی الملاء الاعلی ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ 105۔ 2 بَشِیْر اطاعت گزار مومن کے لئے اور نَذِیْر نافرمان کے لئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] یعنی جن مقاصد کی خاطر ہم نے یہ قرآن جس حق و صداقت کے ساتھ نازل کیا تھا بعینہ اسی حق و صداقت کے ساتھ یہ رسول اللہ کے دل تک پہنچ گیا۔ اس میں کسی طرح کی کمی بیشی نہیں ہوئی نہ اس راہ میں کہیں باطل کی آمیزش ہوئی، نہ ہی اس میں سے کچھ کلام نازل ہونے سے رہ گیا جو کچھ رسول پر نازل ہوا وہ بعینہ وہی کچھ تھا جو ہم نے نازل کیا تھا۔ اب رسول کا کام یہ ہے کہ جو کچھ نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے لیے اس کلام میں جو بشارتیں ہیں ان سے انھیں مطلع کر دے اور سرکشوں کے لیے جو جو عذاب مذکور ہیں ان کے ذریعہ نافرمانوں کو ڈرائے اور انھیں متنبہ کردے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۭوَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ : یعنی اس میں جو بات بھی ہے سراسر حق ہے۔ ” وَبِالْحَقِّ نَزَلَ “ اور جیسے ہم نے اتارا ویسے ہی وہ اترا ہے، درمیان میں کسی کا دخل نہیں ہوا کہ وہ کوئی کمی بیشی یا تبدیلی کرسکے۔ وحئ الٰہی کی حفاظت کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة جن کی آیات (٢٦ تا ٢٨) اور اس مفہوم کے قریب سورة انعام کی آیت (١١٥) موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر کرکے جو قرآن کا ذکر فرمایا تو اس سے مقصود کفار قریش کو متنبہ کرنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الٹی سیدھی فرمائشیں کرنے کے بجائے اسی قرآن پر غور کیوں نہیں کرتے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا : یعنی ہم نے آپ کو یہ قدرت دے کر نہیں بھیجا کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کردیں، بلکہ آپ کا کام صرف دعوت دینا، قبول کرنے والے کو خوش خبری دینا اور انکار کرنے والے کو جہنم سے ڈرانا ہے۔ دیکھیے سورة غاشیہ (٢١، ٢٢) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ١٠٥؀ۘ- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٥) اور اسی طرح اس قرآن کریم کو بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے ہدایت ہی کے ساتھ تو نازل کیا ہے اور یہ وہ ہدایت ہی کے ساتھ آپ پر نازل ہوگیا اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو بھی جنت کی خوشخبری سنانے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ )- یہاں ” حق “ کا لفظ خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور اس لفظ کی معنوی تاثیر کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے دونوں دفعہ خاص طور پر زور دے کر اور واضح کر کے پڑھا جائے۔ اس آیت کا انداز بالکل وہی ہے جو سورة الطارق کی ان آیات میں پایا جاتا ہے : (اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ وَّمَا هُوَ بالْهَزْلِ ) ” یقیناً یہ (قرآن) قول فیصل ہے اور یہ کوئی ہنسی مذاق نہیں ہے “۔ اس مفہوم کی وضاحت ہمیں حضرت عمر سے مروی اس حدیث نبوی میں ملتی ہے : (اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ ) ” یقیناً اللہ اس کتاب کی بدولت کئی قوموں کو اٹھائے گا اور کئی دوسری قوموں کو گرائے گا “۔ چناچہ قرآن کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عروج بخشا اور جب ہم اس کے تارک ہوئے تو اسی جرم کی پاداش میں ہمیں زمین پر پٹخ دیا گیا :- خوار از مہجورئ قرآں شدی - شکوہ سنج گردش دوراں شدی - اے چوں شبنم بر زمین افتندۂ- در بغل داری کتاب زندۂ- (اقبال)

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :118 یعنی تمہارے ذمے یہ کام نہیں کیا گیا ہے کہ جو لوگ قرآن کی تعلیمات کو جانچ کر حق اور باطل کا فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، ان کو تم چشمے نکال کر اور باغ اگا کر اور آسمان پھاڑ کر کسی نہ کسی طرح مومن بنانے کی کوشش کرو ، بلکہ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے حق بات پیش کر دو اور پھر انہیں صاف صاف بتا دو کہ جو اسے مانے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو نہ مانے گا وہ برا انجام دیکھے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani