106۔ 1 فَرَقْنَاہُ کے ایک دوسرے معنی بَیَّنَّاہ وَ اَوْضَحْنَاہ (ہم نے اسے کھول کر وضاحت سے بیان کردیا) بھی کئے گئے ہیں
[١٢٥] قرآن کو بتدریج نازل کرنے کے فوائد :۔ مشرکین مکہ کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر قرآن اللہ کا کلام ہوتا تو یکبارگی نازل ہوجاتا۔ ہو نہ ہو یہ نبی ساتھ ساتھ اسے تصنیف کرتا جاتا ہے اور جیسے حالات ہوں اس کے مطابق لوگوں کو سناتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اس قرآن کو موقع بہ موقع اور بتدریج ہم ہی نے اتارا ہے اور اس طرح وقفہ وقفہ پر اتارنے میں کئی مصلحتیں اور فوائد ہیں۔ مثلاً یہ کہ لوگوں کو اس کے حفظ کرنے میں آسانی رہے نیز ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ فلاں آیت کس موقع پر نازل ہوئی تھی اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے نیز یہ کہ لوگوں کو اس کے اوامر پر عمل کرنے اور نواہی سے اجتناب کرنے میں آسانی رہے اور اگر یکدم ہی ان پر سب اوامرو نواہی نازل کردیتے تو سب انکار کردیتے اور کوئی ان کو اپنے آپ پر نافذ کرنے کی ہمت نہ پاتا۔ نیز یہ کہ اس طرح مختلف اوقات پر آیات نازل کرنے سے مومنوں کا ایمان زیادہ ہوتا رہتا ہے اور پختہ تر بنتا جاتا ہے ان میں مصائب کو برداشت کرنے کی قوت اور استقلال پیدا ہوتا ہے اور یہ سب فوائد اسی صورت میں حاصل ہوسکتے تھے کہ قرآن وقفہ وقفہ سے نازل ہوتا اور اوامرو نواہی میں تدریج کو ملحوظ رکھا جاتا۔
ۘوَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ ۘ۔۔ : ” قُرْاٰنًا “ پر تنوین تعظیم کی ہے اور یہ فعل محذوف ” ٰاتَیْنَا “ کا مفعول ہے۔ یعنی ہم نے آپ کو یہ عظیم قرآن دیا، ہم نے اسے جدا جدا کرکے نازل کیا، یعنی اس کی سورتیں اور آیتیں جدا جدا رکھیں اور تقریباً تیئیس برس میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا۔ اس میں کئی حکمتیں ہیں، مثلاً یہ کہ اس کے پڑھنے، یاد کرنے، سمجھنے اور عمل کرنے میں آسانی ہو، موقع محل کے اعتبار سے اس کے مطالب ذہن نشین ہوجائیں، تاکہ آئندہ کسی آیت کے بےموقع استعمال کی گنجائش نہ رہے۔ جب بھی کفار کے طرز عمل سے کوئی پریشانی یا گھبراہٹ ہو تو اس کی آیات کے ساتھ آپ کے دل کو قائم رکھا جائے اور مسلمانوں کو کوئی مسئلہ پیش آئے یا کفار کی طرف سے کوئی اعتراض ہو تو اس کا جواب موقع پر دیا جاسکے۔ مزید دیکھیے سورة فرقان کی آیت (٣٢، ٣٣) ۔
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا ١٠٦- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- فرق - الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، - ( ف ر ق ) الفرق - والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے - قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - مكث - المکث : ثبات مع انتظار، يقال : مَكَثَ مکثا . قال تعالی: فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ، وقرئ : مکث «5» ، قال : إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] ، قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29]- ( م ک ث ) المکث - کسی چیز کے انتظار میں ٹھہرے رہنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔ ایک قرات میں مکث ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف 77] تم ہمیشہ ( اسی حالت میں ) رہو گے ۔ قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص 29] تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھہرو ۔
قرآن تدریجاً نازل ہوا - قول باری ہے (وقراناً فوقناہ لتقراہ علی الناس علی مکث اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھہر ٹھہر ک را سے لوگوں کو سنائو) قول باری (فرقناہ) کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے حق کو باطل سے الگ بیان کر کے اسے جدا جدا کر رکھا ہے۔ قول باری (لتقراہ علی الناس علی مکث ) کا مفہوم ہے کہ آپ ٹھہر ٹھہر کر اور توقف کے ساتھ لوگوں کو اسے سنائیں تاکہ لوگ اسے اچھی طرح سمجھ لیں اور انہیں ان کے معانی پر غور و فکر کا موقع مل جائے نیز وہ اس قابل ہوجائیں کہ اپنی سمجھ سے کام لے کر اس میں موجود حکمت کی باتوں اور علوم عالیہ کا استخراج کرسکیں۔ ایک قول کے مطابق قرآن ک کچھ حصہ نازل ہوجاتا۔ جب صحابہ کرام کو اس پر پورا عبور ہوجاتا تو پھر کوئی اور حصہ نازل ہوتا ۔ یہی اس قول باری کا بھی مفہوم ہے (ورتل القرآن ترتیلاً ) اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر عمدہ طریقے سے پڑھو) سفیان نے عبید الملکتب سے روایت کی ہے کہ مجاہد نے کسی سے پوچھا کہ دو شخصوں میں سے ایک نے نماز میں سوئرہ بقرہ اور سورة آل عمران کی تلاوت کی جبکہ دوسرے نے صرف سورة بقرہ کی قرأت کی ۔ دونوں کی نماز، رکوع، سجود اور قعود کے لحاظ سے یکساں تھی۔ ان میں سے کونسا شخص افضل ہے، مجاہد نے جواب میں فرمایا کہ جس نے صرف سورة بقرہ کی قرأت کی تھی۔ پھر انہوں نے اپنے قول کی تائید میں یہ آیت تلاوت کی (وقراناً فرقناہ لتقراہ علی الناس علی مکث)- قرآن ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھنا چاہیے - معاویہ بن قرہ نے حضرت عبید اللہ بن مغفل سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا : میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر سوار دیکھا تھا اس وقت آپ سورة فتح یا سورة فتح کی آیتیں تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ کی تلاوت بڑی واضح اور صاف تھی۔ حماد بن سلمہ نے ابوحمزہ الضبعی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے فرمایا :” میں اگر ترتیل کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر قرآن کی تلاوت کروں تو یہ مجھے قرآن کی صرف تلاوت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ “ اعمش نے عمارہ سے، انہوں نے ابوالاحوص سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : تین دنوں سے کم میں پورے قرآن کی تلاوت نہ کرو بلکہ پورا قرآن سات دنوں میں تلاوت کرو۔ “ اعمش نے ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کی ہے کہ وہ سات دنوں میں قرآن مجید ختم کرلیتے تھے جبکہ اسود چھے دنوں میں اور علقمہ پانچ دنوں میں ختم کرلیتے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان سے مروی ہے کہ آپ نے ایک رات میں قرآن مجید ختم کرلیا تھا۔- نماز بھی سمجھ کر پڑھنی چاہیے - قاضی ابن ابی لیلیٰ نے صدقہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مسجد نبوی میں ایک کمرہ نما جگہ بنادی گئی اور آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں وہاں اعتکاف کیا۔ آپ اسی کمرہ نما جگہ میں نمازیں پڑھتے تھے۔ آپ نے باہر سر نکالا اور دیکھا کہ لوگ نماز میں مصروف ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب نمازی نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے۔ اس لئے تم میں سے ہر شخص کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ کس قسم کی سرگوشی کر رہا ہے۔ “ اس روایت میں یہ دلیل موجود ہے کہ تلاوت میں ترتیل مستحب ہے اس لئے کہ ترتیل کے ذریعے ہی پتہ چل سکے گا کہ وہ اپنے رب کے ساتھ کیا سرگوشی کر رہا ہے اور جو کچھ پڑھے گا اسے خود بھی سمجھنے کے قابل ہوگا۔
(١٠٦) اور ہم نے قرآن کریم بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) آپ پر نازل کیا اور اس میں حلال و حرام اور امر و نواہی کو بیان کیا تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر اور اطمینان کے ساتھ پڑھیں۔- اور ہم نے اس میں مضامین کو خوب کھول کھول کر بیان کیا ہے یا یہ کہ ہم نے قرآن کریم کو بذریعہ جبریل امین تھوڑا تھوڑا ایک ایک، دو دو، تین تین آیات کر کے اور جا بجا تفصیل کے ساتھ مختلف اوقات میں نازل کیا ہے۔
(وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا)- قرآن کے مختلف احکام حالات کے عین مطابق مختلف مواقع پر نازل کیے جاتے رہے تاکہ جن آیات یا احکام کی جس وقت ضرورت ہو وہی لوگوں کو پڑھ کر سنائے جائیں۔ جیسے جیسے رسول اللہ کی تحریک اور دعوت آگے بڑھتی گئی ویسے ویسے قرآن کے احکام کے ذریعے اس کے لیے فکری رہنمائی مہیا کی جاتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ پورا قرآن یکبارگی نازل نہیں کیا گیا۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :119 یہ مخالفین کے اس شبہہ کا جواب ہے کہ اللہ میاں کو پیغام بھیجنا تھا تو پورا پیغام بیک وقت کیوں نہ بھیج دیا ؟ یہ آخر ٹھیر ٹھیر کر تھوڑا تھوڑا پیغام کیوں بھیجا جا رہا ہے؟ کیا خدا کو بھی انسانوں کی طرح سوچ سوچ کر بات کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے؟ اس شبہہ کا مفصل جواب سورہ نحل آیات ١۰١ ، ١۰۲ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں ، اس لیے یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے ۔