Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سماعت قرآن عظیم کے بعد فرمان ہے کہ تمہارے ایمان پر صداقت قرآن موقوف نہیں تم مانو یا نہ مانو قرآن فی نفسہ کلام اللہ اور بیشک بر حق ہے ۔ اس کا ذکر تو ہمیشہ سے قدیم کتابوں میں چلا آ رہا ہے ۔ جو اہل کتاب ، صالح اور عامل کتاب اللہ ہیں ، جنہوں نے اگلی کتابوں میں کوئی تحریف و تبدیلی نہیں کی وہ تو اس قرآن کو سنتے ہی بےچین ہو کر شکریہ کا سجدہ کرتے ہیں کہ اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہماری موجودگی میں اس رسول کو بھیجا اور اس کلام کو نازل فرمایا ۔ اپنے رب کی قدرت کاملہ پر اس کی تعظیم و توقیر کرتے ہیں ۔ جانتے تھے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، غلظ نہیں ہوتا ۔ آج وہ وعدہ پورا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ، اپنے رب کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے وعدے کی سچائی کا اقرار کرتے ہیں ۔ خشوع و خضوع ، فروتنی اور عاجزی کے ساتھ روتے گڑ گڑاتے اللہ کے سامنے اپنی ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں ایمان و تصدیق اور کلام الہٰی اور رسول اللہ کی وجہ سے وہ ایمان و اسلام میں ، ہدایت و تقویٰ میں ، ڈر اور خوف میں اور بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ عطف صفت کا صفت پر ہے سجدے کا سجدے پر نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

107۔ 1 یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انھیں آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن و رسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٦] منصف مزاج اہل کتاب کا قرآن اور نبی کی تصدیق کرنا :۔ اے قریش مکہ تم قرآن کو منزل من اللہ تسلیم کرو یا نہ کرو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ سابقہ امتوں میں سے بھی جو لوگ اہل علم اور منصف مزاج ہیں وہ قرآن کے انداز بیان سے ہی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ واقعی کلام الٰہی ہے کیونکہ اس میں سابقہ آسمانی کتابوں کے طرز بیان سے بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ لہذا اس کی آیات سنتے ہیں تو ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے اور وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور انھیں یہ یقین ہوجاتا ہے اور پکار اٹھتے ہیں کہ یہ تو وہی نبی ہے جس کے متعلق تورات و انجیل میں بشارتیں مذکور ہیں اور یہ نبی اللہ کا وہی وعدہ ہے جو اب پورا ہو کے رہا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا : یعنی تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے اس کی عظمت نہ بڑھتی ہے اور نہ گھٹتی ہے۔ یہ تہدید و انکار کے طور پر ان لوگوں سے خطاب ہے جو قرآن کے واضح دلائل کی موجودگی میں معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ : یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، تم سے اچھے اور نیک اہل علم جو پچھلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور وحی و نبوت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں، جیسے ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی اور نجاشی، وہ آپ کو رسول مانتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہے جس کی بشارت تورات و انجیل میں دی گئی ہے۔- يُتْلٰى عَلَيْهِمْ ۔۔ : ” أَذْقَانٌ“ ” ذَقَنٌ“ کی جمع ہے، ٹھوڑیاں۔ ” اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا “ اصل میں ” إِنَّہُ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا “ تھا، یعنی حنفاء اور اہل کتاب علماء کے سامنے جب قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں کہ اس اللہ کا احسان ہے کہ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پا لیا اور قرآن پر ایمان لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں کہ ہمارا رب وعدہ خلافی اور ہر عیب سے پاک ہے، یقیناً ہمارے رب کا وعدہ ہمیشہ پورا ہو کر رہتا ہے، اس لیے اس نے اپنے وعدے کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرما دیا۔ - 3 امام شافعی (رض) نے اس آیت سے استدلال کیا کہ ” سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا “ کو سجدۂ تلاوت میں پڑھنا مستحب ہے۔ (اکلیل) - يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ۔۔ : قرآن کریم میں مذکور نصیحت سن کر شدت تاثر سے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور قرآن سننا ان کے خشوع اور عجز و انکسار میں اور اضافہ کردیتا ہے، ایسے اہل کتاب کی یہ کیفیت قرآن میں کئی جگہ بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے مائدہ (٨٣، ٨٤) اور قصص ( ٥٢ تا ٥٤) ۔- ٹھوڑیوں کے بل گرنے کے تکرار سے مقصود دو مختلف حالتوں کو ظاہر کرنا ہے، یعنی سجدہ ریز ہو کر اللہ کی تسبیح کرنا اور سجدے میں گر کر رونا۔ یا یہ سجدے کے تکرار کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ بار بار سجدہ کرتے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” نماز میں سجدہ دو بار ہوتا ہے، اس واسطے دو بار فرمایا کہ پہلی بار قرآن کی اعجازی تاثیر کے نتیجے میں اور دوسری بار خشوع و خضوع کے لیے۔ “ (موضح) واضح رہے کہ احادیث میں اللہ کے ذکر کے وقت (جس میں قرآن بھی شامل ہے) رونے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ چناچہ حدیث میں عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش بختوں میں ایک وہ بندہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ ) [ مسلم : ١٠٣١۔ بخاری، الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ : ٦٤٧٩ ]” جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہ پڑیں۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ١٠٧؀ۙ- تلو - ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] ، أراد به هاهنا الاتباع علی سبیل الاقتداء والمرتبة،. والتلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة،- ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - التلاوۃ ۔- بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا - خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- ذقن - قوله تعالی: وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء 109] ، الواحد : ذَقَنٌ ، وقد ذَقَنْتُهُ :- ضربت ذقنه، وناقة ذَقُونٌ: تستعین بذقنها في سيرها، ودلو ذَقُونٌ: ضخمة مائلة تشبيها بذلک .- ذ ق ن ) ذقن - ۔ ( تھوڑی ) اس کی جمع اذقان ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء 109] اور - ٹھوڑیوں کے بل گرنے پڑتے ہیں ( اور ) روتے جاتے ہیں ۔ ذقنتہ ۔ میں نے اس کی ٹھوڑی پر مارا ۔ ناقۃ ذقون وہ اونٹنی جو ٹھوڑی کے سہارے پر چلتی ہو ۔ پھر تشبیہ کے طور بڑے ڈول کو جو ایک جانب سے مائل ہوا سے دلو ذقوق کہ دیتے ہیں - سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

چہرے کے بل سجدہ کرنا - قول باری ہے (ان الذین اوتوا العلم من قبلہ اذا یتلیٰ علیھم یخرون للاذقان سجداً جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ چہروں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ ” چہروں کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ “ معمر نے کہا حسن کا قول ہے ۔ جبڑے کے بل سجدے میں گرجاتے ہیں۔ “ ابن سیرین سے ناک کے بل سجدے کے متعلق پوچھا گیا ، تو انہوں نے جواب میں درج بالا آیت تلاوت کردی۔- سجدہ سات اعضاء پر کرنا چاہیے، نماز میں بالوں کو اکٹھا کیا جائے نہ کپڑوں کو - طائوس نے حضرت ابن عباس سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (امرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم ولا اکف شعراً ولا ثوباً مجھے سات ہڈیوں کے بل سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے نیز یہ کہ میں نہ بالوں کو سمیٹوں اور نہ کپڑے کو) طائوس نے مزید کہا کہ آپ نے پیشانی اور ناک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دونوں ایک ہڈی ہیں۔ عامر بن سعد نے حضرت عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے ساتھ اعضاء بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں اس کا چہرہ ، اس کے دونوں کف دست ، اس کے دونوں گھٹنے اور اس کے دونوں قدم، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد بھی مروی ہے کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنی پیشانی اور ناک اچھی طرح زمین پر جما دو ۔ “- سجدہ میں ناک زمین پر لگنی چاہیے - حضرت وائل بن حجر نے روایت کرتے ہوئے فرمایا :” میں نے دیکھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب سجدہ کیا تو اپنی پیشانی اور اپنی ناک زمین پر رکھ دی۔ “ ابو سلمہ بن عبدالرحمٓن نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناک اور ناک کے بانسے پر سجدے کے نشان کے طور پر مٹی لگی ہوئی دیکھی تھی۔ اس رات بارش ہوئی تھی۔ عاصم احوال نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو سجدے میں دیکھ کر فرمایا : اس وقت تک نماز قبول نہیں ہوگی جب تک زمین پر ناک اس طرح نہ لگے جس طرح پیشانی لگتی ہے۔ یہ تمام روایات اس پر دال ہیں کہ سجدہ کی جگہ پیشانی اور ناک دونوں ہیں۔- عبدالعزیز بن عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے کہا : میں نے وہب بن کیسان سے پوچھا۔” ابونعیم، کیا بات ہے کہ آپ سجدہ کرتے وقت پیشانی اور ناک کو پوری طرح زمین پر نہیں جماتے ہیں ؟ انہوں نے جواب میں کہا۔” اس لئے کہ میں نے حضرت جابر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیشانی کے بل سر کے بالوں کے منتہی کے ساتھ سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ابو الشعثاء نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عمر کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ آپ نے سجدہ کرتے وقت اپنی ناک زمین پر نہیں رکھی تھی۔ آپ سے جب اسکی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا : میری ناک میرے چہرے کا عمدہ اور خالص حصہ ہے اور میں اس حصے کو بدنما کرنا پسند نہیں کرتا۔ “ قاسم اور سالم سے مروی ہے کہ یہ دونوں اپنی پیشانیوں پر سجدہ کرتے تھے اور ان کی ناک زمین پر نہیں لگتی تھی۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جہاں تک حضرت جابر کی روایت کا تعلق ہے تو ہوسکتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی عذر کی بنا پر سر کے بالوں کے منتہی کے بل سجدہ کیا ہو اور اس عذر کی وجہ سے ناک کے بل سجدہ کرنا مشکل ہوگیا ہو جن حضرات نے وجوہ یعنی چہروں کی تاویل جبڑے سے کی ہے ان کی یہ تاویل اس پر دلالت کرتی ہے کہ پیشانی کی بجائے صرف ناک کے بل سجدے پر اکتفا کرنا جائز ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں کے بل سجدہ کیا جائے۔ اس جواز کی وجہ یہ ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ تاویل کرنے والے حضرات نے ذقن یعنی ٹھوڑی کے بل سجدہ کرنا مراد نہیں لیا ہے اس لئے کہ کسی بھی اہل علم کا یہ قول نہیں ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس سے ناک مراد ہے اس لئے کہ یہ ٹھوڑی کے قریب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کسی نے پیشانی کی بجائے صرف ناک کے بل سجدہ کرلیا تو اس کا سجدہ ہوجائے گا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ سجدہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر اس نے ناک کی بجائے صرف پیشانی کے بل سجدہ کرلیا تو سب کے نزدیک اس کا سجدہ ہوجائے گا۔- العطاف بن خالد نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا :” جب تمہاری ناک زمین سے لگ جائیتو گویا تم نے سجدہ کرلیا۔ “ سفیان نے حنظلہ سے اور انہوں نے طائوس سے روایت کی ہے کہ پیشانی اور ناک ان سات اعضاء میں سے ہیں جن کے بل نماز میں سجدہ ہوتا ہے اور یہ دونوں ایک عضو ہیں۔ ابراہیم بن میسرہ نے طائوس سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ناک پیشانی کا حصہ ہے۔ نیز کہا کہ پیشانی کا بہترین حصہ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٧۔ ١٠٨۔ ١٠٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرمادیجیے کہ تم اس قرآن کریم پر خواہ ایمان لاؤ یا نہ ایمان لاؤ یہ ان لوگوں کے لیے وعید ہے مجھے کچھ پرواہ نہیں۔- چناچہ جن حضرات کو قرآن کے نزول سے قبل رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کا بذریعہ توریت علم دیا گیا تھا یہ قرآن کریم جب ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار اولاد اور شریک سے پاک ہے اور ہمارے پروردگار نے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا وعدہ فرمایا ہے وہ ضرور پورا ہوگا اور ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گرتے ہیں وہ سجدے میں روتے ہوئے گرتے ہیں اور اس قرآن کریم کا سننا ان کا خشوع اور تواضع اور بڑھا دیتا ہے یہ آیت کریمہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا)- اس آیت میں یہود کے بعض علماء کی طرف اشارہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :120 یعنی وہ اہل کتاب جو آسمانی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہیں اور ان کے انداز کلام کو پہچانتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani