109۔ 1 ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑنے کا دوبارہ ذکر کیا، کیونکہ پہلا سجدہ اللہ کی تعظیم کے لئے اور بطور شکر تھا اور قرآن سن کر جو خشیت و رقت ان پر طاری ہوئی اور اس کی تاثیر و اعجاز سے جس درجہ وہ متأثر ہوئے، اس نے دوبارہ انھیں سجدہ ریز کردیا۔
[١٢٧] اہل کتاب میں بھی کچھ منصف مزاج اور اہل علم موجود تھے جن میں بعض ایمان بھی لے آئے قرآن نے ان کا ذکر خیر کئی مقامات پر کیا ہے مثلاً سورة آل عمران کی آیت نمبر ١١٣ تا ١١٥ میں اور ١٩٩ میں نیز سورة مائدہ کی آیت نمبر ٨٢ تا ٨٥ میں۔ علاوہ ازیں مشرکین میں بھی معدودے چند ایسے افراد بعثت نبوی کے دور میں تھے جو شرک سے سخت بیزار تھے۔ علاوہ ازیں شراب اور دوسری معاشرتی برائیوں سے بھی متنفر رہتے تھے اور انبیاء سابقین کی خبروں کی وجہ سے نبی آخرالزمان کے منتظر تھے۔ مثلاً زید بن عمرو بن نفیل، ورقہ بن نوفل، سیدنا ابوبکر صدیق (رض) ، سلمان فارسی اور ابو ذرغفاری وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ ایسے منصف مزاج لوگوں کی خواہ وہ دور جاہلیت کے مشرکانہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہوں یا اہل کتاب سے۔ جب ان کے سامنے قرآن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو اس کی اثر پذیری کی وجہ سے روتے روتے سجدہ میں گرپڑتے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت ان کے ایمان میں اضافہ، پختگی اور اللہ کے حضور خشوع کا سبب بن جاتی ہے ایسے ہی لوگوں کی مطابقت میں علماء نے اس آیت پر سجدہ واجب قرار دیا ہے۔
(آیت) يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا تفسیر مظہری میں ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم میں نہ جاوے گا وہ شخص جو اللہ کے خوف سے رویا جب تک کہ دوہا ہوا دودھ دوبارہ تھنوں میں واپس نہ لوٹ جائے (یعنی جیسے یہ نہیں ہوسکتا کہ تھنوں سے نکالا ہوا دودھ پھر تھنوں میں واپس ڈال دیا جائے اسی طرح یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں چلا جائے اور ایک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو آنکھوں پر جہنم کی آگ حرام کردی ایک وہ جو اللہ کے خوف سے روئے دوسرے جو اسلامی سرحد کی حفاظت کے لئے رات کو بیدار رہے (بیہقی و حاکم و صحیحہ) اور حضرت نضر بن سعد (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس قوم میں کوئی اللہ کے خوف سے رونے والا ہو تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو اس کی وجہ سے آگ سے نجات عطا فرماویں گے (روح عن الحکیم الترمذی)- آج سب سے بڑی مصیبت جو مسلمانوں پر پڑی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ان میں خدا کے خوف سے رونے والے بہت کم رہ گئے صاحب روح المعانی اس موقع پر خدا کے خوف سے رونے کے فضائل کی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں وینبغی ان یکون ذلک حال العلماء۔ یعنی علماء دین کا یہی حال ہونا چاہئے کیونکہ ابن جریر ابن منذر وغیرہ نے عبد الاعلیٰ تیمی کا یہ مقولہ نقل کیا ہے۔- جس شخص کو صرف ایسا علم ملا ہو جو اس کو رلاتا نہیں تو سمجھ لو کہ اس کو علم نافع نہیں ملا۔
وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا ١٠٩۞ - بكي - بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58]- ( ب ک ی ) بکی - یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے ؎ رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - خشع - الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» «2» . قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] .- ( خ ش ع ) الخشوع - ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر )
نماز کی حالت میں گریہ کا بیان - قول باری ہے (ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوعاً اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے) اسی طرح یہ قول باری ہے (خروا سجداً ویکیاً وہ روتے ہوئے سجدے میں گرپڑے) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ نماز کے اندر خشیت الٰہی کی بنا پر گریہ کرنے سے نماز منقطع نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکور لوگوں کی اس بنا پر تعریف فرمائی ہے کہ وہ سجدے میں جا کر روتے ہیں۔ اللہ نے سجدئہ صلوۃ سجدہ تلاوت اور سجدہ شکر کے درمیان اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا ہے۔- سفیان بن عینیہ نے روایت بیان کی ہے، انہیں اسماعیل بن محمد بن سعد نے، انہیں حضرت عبداللہ بن شداد نے، وہ کہتے ہیں کہ ایک متربہ میں نے باجماعت نماز ادا کی۔ میں آخری صف میں تھا ۔ حضرت عمر نماز پڑھا رہے تھے، مجھے حضرت عمر کی ہچکیوں کی آواز آئی۔ ایک دفعہ آپ نے صبح کی نماز میں سورة یوسف کی قرأت شروع کی جب آیت (انما اشکو ابنی وحزنی الی اللہ) پر پہنچے تو آپ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ آپ کی اقتدا میں صحابہ کرام نماز ادا کر رہے تھے لیکن کسی نے آپ کو اس پر نہیں ٹوکا۔ اس طرح اس مسئلے پر گویا صحابہ کرام کا اجماع ہوگیا۔ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مروی ہے کہ آپ نماز پڑھتے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکلتی جیسی چولہے پر رکھی ہوئی دیگ سے۔ قول باری صویزیدھم خشوعاً ) س ے مراد یہ ہے کہ نماز کے اندر یہ جس قدر خشوع کرتے ہیں سجدے میں جا کر گریہ کرنے کی وجہ سے ان کے اس خشوع میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ چیز ان کے دلوں میں موجود خوف خدا پر دلالت کرتی ہے۔ یہی خوف انہیں گریہ و زاری کی منزل تک پہنچا دیتا ہے اور اللہ کی اطاعت کا سبب بن جاتا ہے نیز اسی خوف خدا کی بن اپر ا ن کے اندر عبادت میں اس طرح کا اخلاص پیدا ہو جات ا ہے جیسا اخلاص اللہ تعالیٰ ٰکی دی ہوئی نعمتوں کا کما حقہ، شکر بجا لانے کے سلسلے میں عبادت کے اندر ہونا چاہیے۔
آیت ١٠٩ (وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا)- اب وہ دو آخری آیات آرہی ہیں جن کے متعلق آغاز میں بتایا گیا تھا کہ وہ معرفت خداوندی اور توحید ربانی کے عظیم خزانے ہیں۔ اس کے بعد سورة الکہف کے آخر میں بھی دو آیات آئیں گی جو ان آیات کی طرح بہت عظیم ہیں۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :122 صالحین اہل کتاب کے اس رویے کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ۔ مثلا آل عمران آیات ١١۳ تا ١١۵ ، ١۹۹ ۔ اور المائدہ آیات ۸۲ ۔ ۸۵ ۔
55: یہ سجدہ تلاوت کی آیت ہے، یہ آیت جب بھی عربی زبان میں پڑھی جائے سجدہ کرنا واجب ہے، البتہ صرف ترجمہ پڑھنے سے یا دل میں زبان ہلائے بغیر پڑھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔