Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

رحمن یا رحیم ؟ کفار اللہ کی رحمت کی صفت کے منکر تھے اس کا نام رحمن نہیں سمجھتے تھے تو جناب باری تعالیٰ اپنے نفس کے لئے اس نام کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہی نہیں کہ اللہ کا نام اللہ ہو رحمن ہو یا رحیم اور بسم ان کے سوا بھی بہت سے بہترین اور احسن نام اس کے ہیں ۔ جس پاک نام سے چاہو اس سے دعائیں کرو ۔ سورہ حشر کے آخر میں بھی اپنے بہت سے نام اس نے بیان فرمائے ہیں ۔ ایک مشرک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سجدے کی حالت میں یا رحمن یا رحیم سن کر کہا کہ لیجئے یہ موحد ہیں دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس پر یہ آیت اتری ۔ پھر فرماتا ہے اپنی نماز کو بہت اونچی آواز سے نہ پڑھو ۔ اس آیت کے نزول کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو ، اللہ کو ، رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی آواز سے قرأت کیا کرو ۔ پھر جب آپ ہجرت کر کے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں ۔ مشرکین جہاں قرآن کی تلاوت شروع ہوتی تو بھاگ کھڑے ہوتے ۔ اگر کوئی سننا چاہتا تو انکے خوف کے مارے چھپ چھپ کر بچ بچا کر کچھ سن لیتا ۔ لیکن جہاں مشرکوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے انہیں سخت ایذاء دہی شروع کی اب اگر بہت بلند آواز کریں تو ان کی چڑ اور ان کی گالیوں کا خیال اور اگر بہت پست کرلیں تو وہ جو چھپے لگے کان لگائے بیٹھے ہیں وہ محروم اس لئے درمیانہ آواز سے قرآت کرنے کا حکم ہوا ۔ الغرض نماز کی قرأت کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی نماز میں پست آواز سے قرأت پڑھتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ با آواز بلند قرأت پڑھا کر تے تھے ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ آہستہ کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ اپنے رب سے سرگوشی ہے وہ میری حاجات کا علم رکھتا ہے تو فرمایا کہ یہ بہت اچھا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا شیطان کو بھگاتا ہوں اور سوتوں کو جگاتا ہوں تو آپ سے بھی فرمایا گیا بہت اچھا ہے لیکن جب یہ آیت اتری تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے بلند آواز کرنے کو اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قدرے پست آواز کرنے کو فرمایا گیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اسی طرح ثوری اور مالک ہشام بن عروہ سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں آپ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہی قول حضرت مجاہد ، حضرت سعید بن جبیر ، حضرت ابو عیاض ، حضرت مکحول ، حضرت عروہ بن زبیر رحمہم اللہ کا بھی ہے ۔ مروی ہے کہ بنو تمیم قبیلے کا ایک اعرابی جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے یہ دعا کرتا کہ اے اللہ مجھے اونٹ عطا فرما مجھے اولاد دے پس یہ آیت اتری ۔ ایک دوسرا قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ نہ تو ریا کاری کرو نہ عمل چھوڑو ۔ یہ بھی کرو کہ علانیہ تو عمدہ کر کے پڑھو اور خفیہ برا کر کے پڑھو ۔ اہل کتاب پوشیدہ پڑھتے اور اسی درمیان کوئی فقرہ بہت بلند آواز سے چیخ کر زبان سے نکالتے اس پر سب ساتھ مل کر شور مچا دیتے تو ان کی موافقع سے ممانعت ہوئی اور جس طرح اور لوگ چھپاتے تھے اس سے بھی روکا گیا پھر اس کے درمیان کا راستہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون فرمایا ہے ۔ اللہ کی حمد کرو جس میں تمام تر کمالات اور پاکیزگی کی صفتیں ہیں ۔ جس کے تمام تر بہترین نام ہیں جو تمام تر نقصانات سے پاک ہے ۔ اس کی اولاد نہیں ، اس کا شریک نہیں ، وہ واحد ہے ، صمد ہے ، نہ اس کے ماں باپ ، نہ اولاد ، نہ اس کی جنس کا کوئی اور ، نہ وہ ایسا حقیر کہ کسی کی حمایت کا محتاج ہو یا وزیر و مشیر کی اسے جاجت ہو بلکہ تمام چیزوں کا خالق مالک صرف وہی ہے سب کا مدبر مقدر وہی ہے اسی کی مشیت تمام مخلوق میں چلتی ہے وہ وحدہ لا شریک لہ ہے نہ اس کی کسی سے بھائی بندی ہے نہ وہ کسی کی مدد کا طالب ہے ۔ تو ہر وقت اس کی عظمت جلالت کبریائی بڑائی اور بزرگی بیان کرتا رہ اور مشرکین جو تہمیں اس پر باندھتے ہیں تو ان سے اس کی ذات کی بزرگی برائی اور پاکیزگی بیان کرتا رہ ۔ یہود و نصاریٰ تو کہتے تھے کہ اللہ کی اولاد ہے ۔ مشرکین کہتے تھے لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک یعنی ہم حاضر باش غلام ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں لیکن جو خود تیری ملکیت میں ہیں تو ہی ان کا اور ان کی ملکیت کا مالک ہے ۔ صابی اور مجوسی کہتے ہیں کہا اگر اولیاء اللہ نہ ہوں تو اللہ سارے انتظام آپ نہیں کر سکتا ۔ اس پر یہ آیت اتری اور ان سب باطل پرستوں کی تردید کر دی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو یہ آیت سکھایا کرتے تھے ۔ آپ نے اس آیت کا نام آیت العز یعنی عزت والی آیت رکھا ہے ۔ بعض آثار میں ہے کہ جس گھر میں رات کو یہ آیت پڑھی جائے ۔ اس گھر میں کوئی آفت یا چوری نہیں ہو سکتی واللہ اعلم ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا یا آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا راہ چلتے ایک شخص کو آپ نے دیکھا نہایت ردی حالت میں ہے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیماریوں اور نقصانات نے میری یہ درگت کر رکھی ہے آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں کچھی وظیفہ بتا دوں کہ یہ دکھ بیماری سب کچھ جاتی رہے؟ اس نے کہا ہاں ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتلائے احد اور بدر میں آپ کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس میرا جاتا رہے گا اس پر آپ ہنس پڑے اور فرمایا تو بدری اور احدی صحابہ کے مرتبے کو کہاں سے پا سکتا ہے تو ان کے مقابلے میں محض خالی ہاتھ اور بےسرمایہ ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جانے دیجئے آپ مجھے بتلا دیئجے ۔ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یوں کہو توکلت علی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الخ میں نے یہ وظیفہ پڑھنا شروع کر دیا تھاچند دن گزرے تھے کہ میری حالت بہت ہی سنور گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور پوچھا ابو ہریرہ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ان کلمات کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکت ہے جو آپ نے مجھے سکھائے تھے اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے متن میں بھی نکارت ہے ۔ اسے حافظ ابو یعلی اپنی کتاب میں لائے ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام رحمٰن یا رحیم نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) 110۔ 2 اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ مکہ میں رسول اللہ چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ بھی نہ سن سکیں، خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی کا گزر حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا، میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا، اپنی آواز قدرے بلند کرو اور حضرت عمر سے کہا، اپنی آواز کچھ پست رکھو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢٨] رحمان اللہ کا ذاتی نام ہے قریش کی رحمن سے چڑ اللہ کے دوسرے صفاتی نام :۔ اللہ کے بعد رحمان بھی اللہ تعالیٰ کا دوسرے نمبر پر ذاتی نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مخلوق کا جس طرح اللہ نام یا اس کی صفت نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح رحمان بھی کسی مخلوق کا نام یا صفت نہیں ہوتی لیکن اللہ کا یہ نام عرب میں رائج نہ تھا اور اس نام سے انھیں چڑ بھی تھی اور وہ اللہ پر اس نام کا اطلاق کرنے سے بدکتے تھے اور جب آپ کی زبان سے یہ نام سنتے تو کہتے کہ ہمیں تو اللہ کا شریک بنانے سے منع کرتے ہو۔ جبکہ تم نے خود بھی اللہ کے ساتھ رحمان کو بھی الٰہ بنا رکھا ہے۔ ان کے اسی اعتراض کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دوالٰہ نہیں بلکہ ایک ہی ذات کے دو نام ہیں۔ تم جونسا چاہو پکار سکتے ہو .۔ بلکہ اللہ کے تو اور بھی بہت سے اچھے صفاتی نام ہیں۔ تم ان سے اللہ کو پکار سکتے ہو اور صحیح احادیث کی رو سے یہ نام ننانوے ہیں۔ اور جو ننانوے نام حدیث میں مذکور ہیں۔ استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ اور بھی کئی نام ہیں جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ (نیز دیکھئے سورة رعد آیت نمبر ٣٠ کا حاشیہ)- [١٢٩] قرآن کی تلاوت آہستہ جہری آواز سے :۔ اس جملہ کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ آیت اس وقت اتری جب آپ مکہ میں کافروں سے چھپے رہتے جب آپ صحابہ کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن پڑھتے۔ جب مشرک قرآن سنتے تو قرآن، صاحب قرآن اور قرآن لانے والے (جبرئیل) سب کو برا بھلا کہتے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ نماز میں قرآن بلند آواز سے نہ پڑھئے کہ مشرک قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ اتنی آہستہ پڑھئے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانی راہ اختیار کیجئے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، ترمذی، ابو اب التفسیر) اور سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے باب میں اتری۔ (حوالہ ایضاً )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۔۔ : کفار مکہ ” رحمان “ نام سے نفرت کرتے تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس نام سے ان کی نفرت کا تذکرہ کئی آیات میں کیا ہے، چناچہ فرمایا : (وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِ ۚ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ ۤ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا ) [ الفرقان : ٦٠ ] ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں اور رحمٰن کیا چیز ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کے لیے تو ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ بات بدکنے میں انھیں اور بڑھا دیتی ہے۔ “ ان کی اس نفرت کا ذکر سورة انبیاء (٣٦) میں بھی ہے۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جانے لگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کاتب سے فرمایا : ” لکھو ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ “ تو (کفار کے نمائندے) سہیل بن عمرو نے کہا : ” رحمان اللہ کی قسم میں نہیں جانتا رحمٰن کیا ہے ؟ بلکہ لکھو ” بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ “ جیسا کہ (پہلے) لکھا کرتے تھے۔ “ [ بخاری، الشروط، باب الشروط فی الجہاد۔۔ : ٢٧٣١، ٢٧٣٢ ] اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اللہ کو پکارو یا رحمٰن کو، اللہ تعالیٰ کو اس کے جس نام سے بھی پکارا جائے وہ سب ہی بہترین ہیں، جب سب ہی بہترین ہیں تو یہ دونوں کیوں بہترین نہ ہوں گے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة اعراف (١٨٠) کی تفسیر۔ ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ ۔۔ :” صَلَاۃٌ“ سے مراد نماز میں قرآن مجید کی قراءت ہے، چناچہ اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت اس وقت اتری جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں چھپے ہوئے تھے۔ آپ جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو قرآن پڑھتے ہوئے اپنی آواز بلند کرتے، جب مشرکین اسے سنتے تو قرآن کو اور اس کے اتارنے والے کو گالی دیتے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا : ( وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ ) أَيْ بِقِرَاءَ تِکَ فَیَسْمَعَ الْمُشْرِکُوْنَ فَیَسُبُّوا الْقُرْآنَ (وَلَا تُخَافِتْ بِهَا ) عَنْ أَصْحَابِکَ فَلَا تُسْمِعُھُمْ (وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ) [ بخاري، التفسیر، سورة بني إسرائیل باب : ( ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بھا ) : ٤٧٢٢ ] ” وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ “ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی قراءت کے ساتھ آواز بلند نہ کرو کہ مشرکین اسے سنیں گے تو اسے گالی دیں گے اور نہ اسے اپنے اصحاب سے چھپا کر پڑھو، کیونکہ آپ اسے ان کو سنا نہیں سکیں گے اور اس کے درمیان کا کوئی راستہ تلاش کرو۔ “ ام المومنین عائشہ (رض) نے فرمایا کہ یہ آیت دعا کے متعلق نازل ہوئی۔ [ بخاري، التفسیر، سورة بني إسرائیل باب : ( ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بھا ) : ٤٧٢٣ ] ابوداؤد میں صحیح حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیام اللیل میں ابوبکر (رض) کو پست آواز اور عمر (رض) کو بلند آواز سے قراءت کرتے ہوئے سنا تو ابوبکر (رض) کو کچھ بلند اور عمر (رض) کو کچھ آہستہ پڑھنے کے لیے فرمایا۔ [ أبوداوٗد، التطوع، باب رفع الصوت بالقراء ۃ فی صلاۃ اللیل : ١٣٢٩ ] آیت کے الفاظ قراءت اور دعا دونوں معنوں کی گنجائش رکھتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- آپ فرما دیجئے کہ خواہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو گے (تو بہتر ہے کیونکہ) اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں (اور اس کا شرک سے کوئی واسطہ نہیں کیونکہ ایک ہی ذات کے کئی نام ہونے سے اس کی توحید میں کوئی فرق نہیں آتا) اور اپنی جہری نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھیے (کہ مشرکین سنیں اور خرافات بکیں اور نماز میں قلب مشوش ہو) اور نہ بالکل ہی آہستہ پڑھئیے (کہ مقتدی نمازیوں کو بھی سنائی نہ دے کیونکہ اس سے ان کی تعلیم و تربیت میں کمی آتی ہے) اور دونوں کے درمیان ایک (متوسط) طریقہ اختیار کرلیجئے (تاکہ مصلحت فوت نہ ہو اور مضرت پیش نہ آئے) اور (کفار پر رد کرنے کے لئے علی الا علان) کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اسی اللہ کے لئے (خاص) ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اس کا کوئی شریک سلطنت ہے اور نہ کمزوری کی وجہ سے کوئی اس کا مددگار ہے اور اس کی خوب بڑائی بیان کیا کیجئے۔- معارف و مسائل :- یہ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیات ہیں اس سورت کے شروع میں بھی حق تعالیٰ کی تنزیہیہ اور توحید کا بیان تھا ان آخری آیات میں بھی اسی پر ختم کیا جا رہا ہے ان آیتوں کا نزول چند واقعات کی بناء پر ہوا اول یہ کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز دعا میں یا اللہ اور یارحمن کہہ کر پکارا تو مشرکین نے سمجھا کہ یہ دو خداؤں کو پکارتے ہیں اور کہنے لگے کہ ہمیں تو ایک کے سوا کسی اور کو پکارنے سے منع کرتے ہیں اور خود دو معبودوں کو پکارتے ہیں اس کا جواب آیت کے پہلے حصہ میں دیا گیا ہے کہ اللہ جل شانہ کے دو ہی نہیں اور بھی بہت سے اچھے اچھے نام ہیں کسی نام سے بھی پکاریں مراد ایک ہی ذات ہے تمہارا وہم غلط ہے۔- دوسرا قصہ یہ ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں بلند آواز سے تلاوت قرآن فرماتے تو مشرکین تمسخر و استہزاء کرتے اور قرآن اور جبرائیل امین اور خود حق تعالیٰ کی شان میں گستاخانہ باتیں کہتے تھے اس کے جواب میں اسی آیت کا آخری حصہ نازل ہوا جس میں آپ کو جہر و اخفاء میں میانہ روی اختیار کرنے کی تلقین فرمائی کہ ضرورت تو اس درمیانہ آواز سے پوری ہوجاتی ہے اور زیادہ بلند آواز سے جو مشرکین کو موقع ایذاء رسانی کا ملتا تھا اس سے نجات ہو۔ - تیسرا قصہ یہ ہے کہ یہود و نصاری اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد قرار دیتے تھے اور عرب بتوں کو اللہ کا شریک کہتے تھے اور صابی اور مجوسی کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے مخصوص مقرب نہ ہوں تو اس کی قدر و عزت میں کمی آ جاوے ان تینوں فرقوں کے جواب میں آخری آیت نازل ہوئی جس میں تینوں چیزوں کی نفی ذکر کی گئی ہے۔- دنیا میں جس سے مخلوق کو کسی قدر قوت پہنچا کرتی ہے وہ کبھی تو اپنے سے چھوٹا ہوتا ہے جیسے اولاد اور کبھی اپنے برابر ہوتا ہے جیسے شریک اور کبھی اپنے سے بڑا ہوتا ہے جیسے حامی و مددگار حق تعالیٰ نے اس آیت میں بہ ترتیب تینوں کی نفی فرما دی۔- مسئلہ : آیت مذکورہ میں نماز کے اندر تلاوت کرنے کا یہ ادب بتلایا گیا ہے کہ بہت بلند آواز سے ہو نہ بہت آہستہ جس کو مقتدی نہ سن سکیں یہ حکم ظاہر ہے کہ جہری نمازوں کے ساتھ مخصوص ہے ظاہر اور عصر کی نمازوں میں تو بالکل اخفاء ہونا سنت متواترہ سے ثابت ہے۔- جہری نماز میں مغرب عشاء اور فجر کے فرض بھی داخل ہیں اور نماز تہجد بھی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز تہجد کے وقت سیدنا صدیق اکبر (رض) اور حضرت فاروق اعظم (رض) کے پاس سے گذرے تو صدیق اکبر تلاوت آہستہ کر رہے تھے اور فاروق اعظم خوب بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق سے فرمایا کہ آپ ایسا آہستہ کیوں پڑھتے ہیں صدیق اکبر (رض) نے عرض کیا کہ مجھے جس کو سنانا تھا اس کو سنا دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر خفی سے خفی آواز کو بھی سنتے ہیں آپ نے فرمایا کہ کسی قدر جہر سے پڑھا کرو پھر عمر بن خطاب (رض) سے فرمایا کہ آپ اتنی بلند آواز سے کیوں پڑھتے ہیں حضرت عمر (رض) نے عرض کیا کہ میں نیند اور شیطان کو دفع کرنے لئے بلند آواز سے پڑھتا ہوں آپ نے ان کو بھی یہ حکم دیا کہ کچھ پست آواز سے پڑھا کرو (ترمذی از مظہری) - نماز اور غیر نماز میں تلاوت قرآن کو جہر سے اور اخفاء سے ادا کرنے کے متعلقہ مسائل سورة اعراف میں بیان ہوچکے ہیں آخری آیت قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ کے متعلق حدیث میں ہے کہ آیت عزت یہ آیت ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ الخ (رواہ احمد و الطبرانی عن معاذ الجہنی کذا فی المظہری) اس آیت میں یہ ہدایت بھی ہے کہ کوئی انسان کتنی ہی اللہ کی عبادت اور تسبیح و تمحید کرے اپنے عمل کو اس کے حق کے مقابلہ میں کم سمجھنا اور قصور کا اعتراف کرنا اس کے لئے لازم ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ١١٠؁- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- جهر - جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع .- أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] - ( ج ھ ر ) الجھر - ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ - أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نماز میں اونچی آواز سے قرأت کرنا اور دعا مانگا - قول باری ہے (ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذلک سجیلاً اور اپنی نماز نہ بہت زیادہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کرو) حضرت ابن عباس سے ایک روایت کے مطابق، نیز حضرت عائشہ مجاہد اور عطار سے مروی ہے کہ بہت زیادہ بلند آواز سے دعائیں نہ مانگو اور نہ ہی بہت آواز سے۔ “ حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اونچی آواز سے قرأت کرتے تو مشرکین آپ کو تنگ کرتے لیکن جب پست آواز سے قرأت کرتے تو مقتدیوں کو آواز سنائی نہ دیتی۔ یہ صورت حال مکہ میں تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی اور اس سے نماز کے اند رقرأت مراد لی حسن بصری نے آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :” اتنی بلند آواز سے نماز نہ پڑھیں کہ یہ آواز ان لوگوں کے کانوں میں پہنچ جائے جو آپ کو ستانے پر تلے ہوئے ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ دھیمی آواز سے نہ پڑھیں۔ “ گویا حسن بصری کے نزدیک ایک حالت میں ترک جہر مراد ہے اور دوسری حالت میں آواز پست نہ رکھنا مراد ہے۔- ایک تفسیر کے مطابق ” تمام نمازوں میں نہ آواز بلند رکھیں اور نہ پست بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط درجے کا لہجہ اختیار کریں وہ اس طرح کہ رات کی نماز بلند آواز سے پڑھیں اور دن کی نماز پشت آواز سے جیسا کہ ہم نے تمہیں حکم دیا ہے۔ “ عبادہ بن تسی سے مروی ہے، انہیں عفیف بن الحارث نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ آیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلند آواز سے قرآن کی قرأت کرتے تھے یا پست آواز سے ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ بعض دفعہ آپ بلند آواز سے قرأت کرتے اور بعض دفعہ پست آواز سے۔ ابو خالد الوالبی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب وہ رتا کو اٹھ کر نماز پڑھتے تو کبھی بلند آوا ز سے قرأت کرتے اور کبھی پست آواز سے اور فرماتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت بھی اسی طرح ہوتی تھی۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو آخر رمضان میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس موقعہ پر آپ نے فرمایا :” نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے مناجات یعنی سرگوشی کرتا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب سے کیا سرگوشی کر رہا ہے۔ اس لئے تم ایک دوسرے سے قرأت کی آواز کو بلند نہ کرو۔ “ ابو اسحاق نے حارث سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت علی سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرما دیا تھا کہ کوئی شخص عشاء کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کر کے اپنے ساتھیوں کی نماز کو غلط کرنے کا سبب بن جائے۔ رتا کے وقت ادا کی جانے والی نماز میں بلند آواز سے قرأت کے سلسلے میں کئی روایات منقول ہیں۔ کریب نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے کے اندر قرأت کرتے اور آپ کی آواز حجرے سے باہر تک سنائی دیتی تھی۔ ابراہیم نخعی نے علقمہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے ایک رتا حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے بلند آواز سے قرات کی جس کی آواز پورے گھر والوں کو پہنچ رہی تھی۔- ایک روایت ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) جب نماز پڑھتے تو اپنی آواز پست رکھتے اور حضرت عمر (رض) جب نماز پڑھتے تو آواز بلند رکھتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) سے پوچھا کہ تم اپنی آواز پست کیوں رکھتے ہو تو انہوں نے عرض کیا :” میں اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہوں حالانکہ اسے میری حاجت کا علم ہے۔ “ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” مبہت خوب “ پھر آپ نے یہی سوال حضرت عمر (رض) سے کہا کہ تم اونچی آواز سے کیوں پڑھتے ہو ؟ انہوں نے جواب میں عرض کیا : میں اس کے ذریعے اونگھنے والے کو جگاتا اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر فرمایا :” بہت خوب “ لیکن جب آیت زیربحث نازل ہوئی تو آپ نے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا :” اپنی آواز ذرا اونچی کرلو “ اور حضرت عمر (رض) سے فرمایا : اپنی آواز ذرا پست کرو۔ “- زہری نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو موسیٰ کی آواز سنی تو فرمایا :” ابو موسیٰ کو آل دائود (علیہ السلام) کا ترنم عطا ہوا ہے۔ “ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز بلند کرنے کو ناپسند نہیں فرمایا۔- عبدالرحمٰن بن عوسجہ نے حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (زینوا القرآن باصواتکم اپنی آوازوں سے قرآن کو مزین کرو) حماد نے ابراہیم سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ فرماتے تھے۔ ” تم اپنی آوازوں سے قرآن کو حسین بنادو ۔ “ ابن جریج نے طائوس سے روایت کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ کس شخص کے اندر سب سے زیادہ حسن قرأت پائی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا (الذی اذا سمعت قوأتہ رأیت انہ یخشی اللہ۔ اس شخص کے اندر جس کی قرأت اگر تم سنو تو اس کے سوزسے تمہیں یوں محسوس ہو گویا اس پر خشیت الٰہی طاری ہے)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٠) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے اچھے اچھے نام اور بہت ہی بلند صفات ہیں، خواہ اللہ، اللہ پکارو یا رحمن جس نام اور جس صفت کے ساتھ اس کا پکارو، سو بہتر ہے اور آپ اپنی نمازوں میں نہ تو بہت پکار کر قرآن کریم پڑھیے کہ مشرکین اس کو سن کر اول فول بکیں اور وہ حسد کریں اور نہ قرآن کریم کو اتنا آہستہ پڑھیے کہ آپ کے اصحاب بھی نہ سن سکیں اور دونوں کے درمیان ایک متوسط طریقہ اختیار کرلیجیے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ قل ادعواللہ او ادعوالرحمن “۔ (الخ)- ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ میں کھڑے ہو کر دعا کی اور اپنی دعا میں فرمایا، یا اللہ، یارحمن، یہ سن کر مشرکین بولے کہ اس بےدین کو دیکھو ہمیں تو دو خداؤں کے پکارنے سے روکتا ہے اور خود دو خداؤں کو پکار رہا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی آپ فرما دیجیے، خواہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو گے اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ ولا تجہر بصلاتک “۔ (الخ)- امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے فرمان خداوندی۔ ( آیت) ” ولا تجھر بصلاتک “۔ (الخ) کی تفسیر میں رورایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی ہے جب کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں کفار کے ڈر سے چھپے رہتے، آپ جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو بلند آواز سے قرآن کریم نازل کیا ہے اور جو قرآن کریم لے کر آیا ہے سب کو برا کہتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- نیز امام بخاری (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور ابن جریر (رح) نے بھی حضرت ابن عباس (رض) سے اسی طرح روایت نقل کی ہے مگر پھر پہلی روایت کو ترجیح دی ہے کیوں کہ وہ سند کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح ہے اور اسی طرح امام نووی نے بھی پہلی روایت ہی کو ترجیح دی ہے۔- حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں ان دونوں روایتوں میں تطبیق ممکن ہے کہ یہ آیت کریمہ اس دعا کے بارے میں بھی نازل ہوئی جو نماز کے اندر ہوتی ہے اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت بیت اللہ کے قریب نماز پڑھتے تو بلند آواز سے دعا فرماتے اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور ابن جریر (رح) اور امام حاکم (رح) نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ تشہد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ روایت حضرت عائشہ (رض) کی سابقہ روایت کی تشریح کررہی ہے، نیز ابن منیعہ نے اپنی مسند میں حضرت ابن عباس (رض) سے کہ صحابہ کرام (رض) یہ دعا زور سے مانگا کرتے تھے۔ ” الھم ارحمنی “۔ (الخ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور اس بات کا حکم دیا گیا کہ نہ بہت زور سے دعا مانگیں اور نہ بہت آہستہ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى)- ہرخیر ہر خوبی ہر بھلائی ہر حسن ہر کمال ہر جمال جس کا تم تصور کرسکتے ہو وہ بہ تمام و کمال اللہ تعالیٰ کی ذات میں موجود ہے۔- (وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا)- تمہاری نمازیں اور دعائیں نہ تو بہت زیادہ جہری ہوں نہ بالکل ہی سری بلکہ ان کے بین بین کی راہ اختیار کرو۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :123 یہ جواب ہے مشرکین کے اس اعتراض کا کہ خالق کے لیے اللہ کا نام تو ہم نے سنا تھا ، مگر یہ رحمان کا نام تم نے کہاں سے نکالا ؟ ان کے ہاں چونکہ اللہ تعالی کے لیے یہ نام رائج نہ تھا اس لیے وہ اس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :124 ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مکے میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نماز پڑھتے وقت بلند آواز سے قرآن پڑھتے تھے تو کفار شور مچانے لگتے اور بسا اوقات گالیوں کی بوچھاڑ شروع کر دیتے تھے ۔ اس پر حکم ہوا کہ نہ تو اتنے زور سے پڑھو کہ کفار سن کر ہجوم کریں ، اور نہ اس قدر آہستہ پڑھو کہ تمہارے اپنے ساتھی بھی نہ سن سکیں ۔ یہ حکم صرف انہی حالات کے لیے تھا ۔ مدینے میں جب حالات بدل گئے تو یہ حکم باقی نہ رہا ۔ البتہ جب کبھی مسلمانوں کو مکے سے حالات سے دو چار ہونا پڑے ، انہیں اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

56:: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عرب کے مشرکین اللہ تعالیٰ کے نام رحمن کو نہیں مانتے تھے چنانچہ جب مسلمان یا اللہ یا رحمن کہہ کر دعا کرتے تو وہ مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ اللہ ایک ہے، اور دوسری طرف دو خداؤں کو پکاررہے ہو، ایک اللہ کو اور ایک رحمن کو، اس آیت میں ان کے لغو اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دونوں اللہ ہی کے نام ہیں بلکہ اسکے اور بھی اچھے اچھے نام ہیں جنہیں اسمائے حسنی کہا جاتا ہے ان میں سے کسی بھی نام سے اس کو پکاراجاسکتا ہے اس سے عقیدہ ٔ توحید پر کوئی حرف نہیں آتا۔ 57: وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا : نماز میں جب بلند آواز سے تلاوت کی جاتی تو مشرکین شور مچا کر مذاق اڑاتے اور اس میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے تھے، اس لئے فرمایا گیا ہے کہ بہت اونچی آواز سے تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یوں بھی معتدل آواز زیادہ پسندیدہ ہے۔