[١٣٠] کیا اللہ کو کسی اور مددگار کی ضرورت ہے ؟ اس آیت میں مشرکین کے اس بنیادی عقیدے کی تردید کی گئی ہے جس کی بنا پر کئی قسم کا شرک رائج ہوگیا ہے۔ اور پھر عقیدہ یہ ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ کو اپنا انتظام سلطنت چلانے کے لئے امیروں وزیروں اور کئی طرح کے مددگاران کی احتیاج ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ کو اتنی بڑی سلطنت کا کاروبار چلانے کے لئے کارکنوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور ہماری یہ دیویاں اور دیوتا غوث قطب ابدال وغیرہ سب اس انتظام کے مختلف شعبے سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی گمراہی جس نے بیشمار قسموں کے شرک کو جنم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بےہودہ عقیدہ کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ اسے اس وقت کسی شریک کی احتیاج ہے اور نہ آئندہ ہوگی کہ وہ کسی کو بیٹا بنالے جو ناتوانی میں اس کا معاون ثابت ہو۔ اسے تخلیق کائنات کے وقت بھی کسی کو مددگار بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئی نہ ہی اس کائنات کا انتظام چلانے کے لئے ضرورت ہے اور نہ ہی ایسی ضرورت آئندہ کبھی پیش آسکتی ہے۔ وہ ہر ایک کی فریاد پکار براہ راست سنتا ہے ان کا جواب دیتا اور شرف قبولیت بخشتا ہے۔ اسے درمیانی واسطوں کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔ اس کے پاس ہر چیز کے لاتعداد اور غیر محدود خزانے ہیں۔ جن سے وہ ہر وقت اپنی مخلوق کو نوازتا ہے اور جو کچھ بھی اس سے مانگا جائے وہ عطا کرتا ہے۔ بشرطیکہ دعا کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ گویا اس آیت میں اہل کتاب مشرکین مکہ موجودہ دور کے مشرکوں سب کا رد موجود ہے اور جس معبود میں مندرجہ بالا صفات پائی جائیں وہ معبود حقیقی ہوسکتا ہے لہذا ہر طرح کی تعریف اسی ذات کو لائق ہے۔ آپ اس کی تعریف کیا کیجئے اور اسی کی بڑائی بیان کیا کیجئے۔- اس سورة بنی اسرائیل کی ابتدا سبحان الذی سے ہوئی اور تسبیح سے مراد اللہ کی تمام عیوب اور نقائص یعنی صفات سلبیہ سے تنزیہہ بیان کرنا ہے۔ پھر اس سورة کا خاتمہ بھی اس بیان پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اولاد شرکاء اور حمائتیوں کی کسی طرح کی بھی مدد کا محتاج نہیں۔ اور یہ فصاحت و بلاغت کے انتہائی کمال کی دلیل ہوتی ہے کہ مضمون کو جس عنوان سے شروع کیا جائے۔ درمیان میں اس کی جملہ تفصیلات بیان کرنے کے بعد اس کا خاتمہ بھی اسی بیان پر کیا جائے جس سے اس کی ابتدا کی گئی تھی۔
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا ۔۔ : یعنی ہر خوبی جس کی تعریف ہوسکتی ہے، خواہ وہ صفت جمال ہو یا جلال یا کمال، صرف اللہ کے لیے ہے۔ اس کے سوا کسی اور میں کوئی خوبی ہے تو اسی کی عطا کردہ ہے، اس لیے وہ بھی اسی کی خوبی ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس کے سوا کوئی خواہ کتنا ہی بڑا ہے یا تو اولاد کا محتاج ہے، کیونکہ اسے بوڑھا ہونا اور فوت ہونا ہے، اس لیے زندگی میں اسے مدد کے لیے اور مرنے کے بعد وارث کے طور پر اولاد کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گا، وہی سب کا وارث ہے، وہ اولاد کی محتاجی سے پاک ہے۔ پھر والد اور اولاد ایک جنس سے ہوتے ہیں، اگر اس کی اولاد ہو تو اس کا ” وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ “ ہونا باقی نہیں رہتا۔ پھر ایک جیسے دو یا کئی الٰہ ماننا پڑیں گے، جس کا نتیجہ سورة انبیاء (٢٢) میں مذکور ہے۔ ” لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا “ میں یہود و نصاریٰ کا رد ہوگیا جو عزیر یا مسیح (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے تھے اور مشرکین عرب کا بھی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور اسلام کے پردے میں چھپے ہوئے ان لوگوں کا بھی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یا علی، فاطمہ اور حسن و حسین (رض) کو اللہ کے ذاتی نور کا ٹکڑا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں - خدا کے نور سے پیدا ہوئے پانچوں تن - محمد است و علی، فاطمہ، حسن و حسین - یا پھر اللہ کے سوا جو بھی ہے وہ اکیلا ہر کام سرانجام نہیں دے سکتا، اس لیے بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اپنے ولی عہد یا وزیر و مشیر کو حکومت میں شریک کرنا پڑتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اکیلا ہی پوری کائنات کا ایسا بادشاہ ہے جسے کسی شریک کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح اس کے سوا ہر ایک کی زندگی میں ایسا مرحلہ آتا ہے جب اسے اپنی کمزوری یا عاجزی کی وجہ سے کسی مددگار اور حمایتی کی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ عزیز ہے، سب پر غالب ہے، نہ اسے کوئی کمزوری یا بےبسی لاحق ہوتی ہے، نہ کوئی ایسا ہے جو اس کی بےبسی اور عاجزی میں اس کا پشت پناہ بنے۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نبی اور اے ہر مخاطب تو اللہ تعالیٰ کے ہر خوبی اور ہر تعریف کے مالک ہونے کا اعلان کر دے، کیونکہ اس میں یہ تینوں کمزوریاں نہیں ہیں اور اس کی بڑائی جتنی ہوسکتی ہے زیادہ سے زیادہ بیان کر۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نہایت جامع آیت ہے، جس میں اللہ کی حمد، تسبیح، تہلیل اور تکبیر تمام چیزیں دلیل کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں۔
اور حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ بنی عبد المطلب میں جب کوئی بچہ زبان کھولنے کے قابل ہوجاتا تو اس کو آپ یہ آیت سکھا دیتے تھے (آیت) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا (مظہری)- اور حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں ایک روز میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ باہر نکلا اس طرح کہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا آپ کا گذر ایک ایسے شخص پر ہوا جو بہت شکستہ حال اور پریشان تھا آپ نے پوچھا کہ تمہارا یہ حال کیسے ہوگیا اس شخص نے عرض کیا کہ بیماری اور تنگدستی نے یہ حال کردیا آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں چند کلمات بتلاتا ہوں وہ پڑھو گے تو تمہاری بیماری اور تنگدسی جاتی رہے گی وہ کلمات یہ تھے۔- (توکلت علی الحی الذی لا یموت الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا الآیۃ) اس کے کچھ عرصہ بعد پھر آپ اس طرف تشریف لے گئے تو اس کو اچھے حال میں پایا آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اس نے عرض کیا کہ جب سے آپ نے مجھے یہ کلمات بتلائے تھے میں پابندی سے ان کو پڑھتا ہوں (ابویعلی و ابن سنی از مظہری) تم تفسیر سورة بنی اسرائیل بعون اللہ وحمدہ بعد العشاء لعاشر جمادی الاولی ١٩٩٠ ھ فالحمد اللہ اولہ واخرہ۔- عرض حال از مؤ لف :- آج ٢٩ شعبان ١٣٩٠ ھ یوم السبت میں بحمد اللہ معارف القرآن کے مسودہ پر نظر ثانی بھی مکمل ہوگئی ہے اب یہ نصف قرآن کریم کی تفسیر حق تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے پوری کرا دی جس کی بظاہر اسباب کوئی امید نہیں تھی کیونکہ رمضان ١٣٨٨ ھ کے آخر میں یہ ناکارہ ایسے مختلف امراض میں مبتلا ہوا کہ تقریبا ایک سال تو بستر ہی پر موت وحیات کی کشمکس میں گذرا اس وقت مجبوری و معذوری کے عالم میں بار بار یہ حسرت ہوتی تھی کہ بعض تصانیف کے مسودات جو قریب تکمیل تھے کاش ان کی تکمیل ہوجاتی معارف القرآن کے نام سے جو درس قرآن عرصہ دراز تک ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا رہا بہت سے دوستوں کے تقاضہ سے اس پر نظر ثانی اور درمیان سے باقی رہی ہوئی آیات کی تفسیر تکمیل کا جو سلسلہ چل رہا تھا کسی طرح اس کی تکمیل ہوجاتی اسی طرح سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے قرآن کریم کی دو منزلیں پانچویں اور چھٹی کے احکام القرآن بزبان عربی لکھنے کے لئے احقر کو مامور فرمایا تھا اس کا بھی آخری حصہ لکھنے سے باقی رہ گیا تھا موت وحیات کی کشمکش اٹھنے بیٹھنے سے معذوری ہی کے عالم میں شاید اس حسرت نایافت کی شنوائی بارگاہ رب العزت میں ہوگئی اور یہ خیال غالب آیا کہ جو کچھ جتنا بن پڑے وہ کام کرلیا جائے یہ فکر چھوڑ دی جائے کہ جو رہ جائے گا اس کا کیا ہوگا اس خیال نے ایک عزم کی صورت اختیار کرلی بستر پر لیٹے ہوئے ہی تفسیر پر نظر ثانی اور احکام القرآن کی تکممیل کا کام شروع کردیا۔- عجائب قدرت سے ہے کہ اس بیماری کے زمانے میں کام اتنی سرعت سے چلا کہ تندرستی میں بھی یہ رفتار نہ تھی اور پھر شاید اسی کی برکت سے حق تعالیٰ نے ان معذور و مجبور کو دینے والے امراض سے شفاء بھی فرما دی اور ایک حد تک تندرستی کی صورت حاصل ہوگئی تو اب وقت کی قدر پہچانی اور ان کاموں پر بقدر استطاعت وقت صرف کیا یہ محض حق تعالیٰ کا فضل و انعام ہی تھا کہ احکام القرآن کی دونوں منزلوں کی تکمیل بھی ہوگئی اور اسی عرصہ میں یہ دونوں جلدیں چھپ کر شائع بھی ہوگئی اور تفسیر معارف القرآن کی دو جلدیں سورة نساء تک چھپ کر شائع ہوگئی ہیں تیسری جلد سورة اعراف تک زیر طباعت ہے اور آج نصف قرآن کے مسودہ تفسیر پر نظر ثانی کی بھی تکمیل ہوگئی (فللہ الحمد اولہ وآخرہ)- اس وقت جبکہ یہ سطور زیر تحریر ہیں احقر ناکارہ کی عمر کے ٧٥ سال پورے ہو کر ٢١ شعبان ١٣٩٠ ھ کو عمر کی چھیترویں منزل شروع ہوگئی مختلف امراض میں ابتلاء ضعف طبعی اس پر مشاغل و افکار کا ہجوم ہے اب آگے کسی تصنیف و تالیف کی توقع رکھنا امید موہوم سے زائد کچھ نہیں ہوسکتا لیکن خدمت قرآن کے نام پر خامہ فرسائی کتنی ہی ناقص در ناقص خدمت ہو لکھنے والے کے لئے سعادت ہی سعادت ہے اس خیال نے اس پر آمادہ کردیا کہ سورة کہف کی تفسیر بھی بنام خدا تعالیٰ شروع کردی جائے اور بقیہ عمر میں جو کچھ ہو سکے اس کو غنیمت سمجھا جائے کیونکہ مقصد قرآن ختم کرنا نہیں قرآن میں اپنی عمر و توانائی ختم کرنا ہے واللہ الموفق و المعین۔- سورة بنی اسرائیل ختم شد
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا ١١١ۧ- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11]- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- ملك - المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور، وذلک يختصّ بسیاسة الناطقین، ولهذا يقال : مَلِكُ الناسِ ، ولا يقال : مَلِك الأشياءِ ، وقوله : مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] فتقدیره : الملک في يوم الدین، - ( م ل ک ) الملک - ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے یہی وجہ ہے کہ ملک امن اس تو کہا جاتا ہے لیکن ملک الاشیاء کہنا صحیح نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مَلِكِ يومِ الدّين [ الفاتحة 3] انصاف کے دن کا حاکم ۔ میں ملک کی اضافت یوم کی طرف نہیں ہے بلکہ یہ اسل میں ملک الملک فی یوم دین ہے ۔ یعنی قیامت کے دن اسی کی بادشاہت ہوگی ۔ - ذُّلُّ- متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها «1» ، أي : مسالکها وطرقها .- ذل - پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل 69] یعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔- ( کبر) تَّكْبِيرُ- والتَّكْبِيرُ يقال لذلک، ولتعظیم اللہ تعالیٰ بقولهم : اللہ أَكْبَرُ ، ولعبادته واستشعار تعظیمه، وعلی ذلك : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] ، وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] ، وقوله : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] فهي إشارة إلى ما خصّهما اللہ تعالیٰ به من عجائب صنعه، وحکمته التي لا يعلمها إلّا قلیل ممّن وصفهم بقوله : وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] فأمّا عظم جثّتهما فأكثرهم يعلمونه . وقوله : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] فتنبيه أنّ كلّ ما ينال الکافر من العذاب قبل ذلک في الدّنيا وفي البرزخ صغیر في جنب عذاب ذلک الیوم .- التکبیر ( تفعیل )- اس کے ) ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں ۔ اور دوم اللہ اکبر کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس ر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلى ما هَداكُمْ [ البقرة 185] اور اس احسان کے بدلے کو خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو ۔۔ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيراً [ الإسراء 111] اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو ۔ اور آیت : لَخَلْقُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ [ غافر 57] آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کر نا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے ۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ میں اکبر کا لفظ سے قدرت الہی کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں ۔ اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں ۔ جن کی وصف میں فرمایا ۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ آل عمران 191] اور آسمان اور زمین پیدا ئش میں غور کرتے ہیں ۔ ور نہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں ( اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں ) اور آیت : يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرى[ الدخان 16] جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا علم برزخ میں کافر کو جس قد ر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔
(١١١) اور فرما دیجیے کہ تمام خوبیاں اور شکر اور خدائی اسی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے کہ جو نہ فرشتوں اور نہ انسانوں میں سے کوئی اولاد رکھتا ہے کہ اس کی بادشاہت کا نعوذ باللہ وہ مالک بنے اور نہ اس کا سلطنت میں کوئی شریک ہے کہ اس کی معاذ باللہ مخالفت کرسکے اور نہ ان ذلیلوں یعنی یہود و نصاری میں سے کوئی اس کا مددگار ہے کیوں کہ یہ ذلیل ترین لوگ ہیں یا یہ کہ نہ کمزوری کی وجہ سے اب یہود نصاری اور مشرکین وغیرہ میں سے کوئی اس کا مددگار ہے اور یہود و نصاری اور مشرکین وغیرہ کی جو کہ احکم الحاکمین کے شریک اور اس کے دربار میں سفارشی تجویز کرتے ہیں، علیحدگی اختیار کیجیے اور اس ذات کی خوب بڑائیاں بیان کیجیے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ وقل الحمدللہ الذی “۔ (الخ)- ابن جریررحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن کعب قرظی (رض) سے سے روایت کیا ہے کہ یہود اور عیسائی اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرتے تھے عرب حج میں یہ کہتے تھے۔ لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک “۔ (الخ) یعنی نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کا ایک شریک ٹھہراتے تھے اور ستاروں کے بچاری اور آتش پرست کہتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے مددگار نہ ہوتے تو معاذ باللہ اللہ تعالیٰ کمزور ہوجاتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور کہہ دیجیے کہ تمام خوبیاں اسی اللہ کے لیے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے اور نہ اس کا کوئی سلطنت میں شریک ہے اور نہ کمزوری کی وجہ سے کوئی اس کا مددگار ہے۔
آیت ١١١ (وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ )- یہ آیت اپنے مضمون کے اعتبار سے سورة الاخلاص کی ہم وزن ہے۔ اس میں پانچ مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور توحید کا بیان ہے۔ اس ضمن میں یہ پہلی بات ہے یعنی حضور کی زبان مبارک سے یہ اعلان کہ تمام تعریفیں اور ہر قسم کا شکر اللہ ہی کے لیے ہے۔- (الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا)- یہ دوسری بات ہے جسے سورة الاخلاص میں (لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔- (وَّلَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ )- تیسری بات اقتدار و اختیار سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ تنہا ہرچیز کا مالک و مختار اور مالک الملک ہے۔ اس کے علاوہ کسی کے پاس کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں۔- (وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ )- یہ چوتھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کو اپنی دوستیوں پر قیاس مت کرو۔ تم تو دوستیاں اس لیے پالتے ہو کہ تم اپنے دوستوں کے محتاج ہوتے ہو۔ انسان دوست اس لیے بناتا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت کام آئے گا۔ بعض دفعہ انسان اپنے کسی دوست کی انتہائی ناجائز بات صرف اس لیے ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ کل وہ میری بھی کوئی ضرورت پوری کرے گا۔ انسان کی یہی کمزوری اسے دوست بنانے اور دوستانہ تعلق نبھانے پر مجبور کرتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی تمام کمزوریوں سے پاک ہے۔ وہ کسی کا محتاج نہیں بلکہ سب اس کے محتاج ہیں۔ چناچہ اللہ کی دوستی کسی ضرورت کی بنیاد پر نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کا کوئی دوست اس سے اپنی کوئی بات زبردستی منوا سکتا ہے۔ پانچویں اور آخری بات بہت اہم ہے :- (وَكَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا)- یہ ترجمہ ( تکبیر کرو) بہت اہم اور توجہ طلب ہے۔ صرف زبان سے ” اللہ اکبر “ کہہ دینے سے اللہ کی تکبیر نہیں ہوجاتی اس کے لیے عملی طور پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ زبان سے اللہ اکبر کہنا تو تکبیر کا پہلا درجہ ہے کہ کسی نے زبان سے اقرار کرلیا کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے بعد اہم اور کٹھن مرحلہ اپنے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اللہ کو عملی طور پر بڑا کرنے کا ہے۔ یہ مرحلہ تب طے ہوگا جب ہمارے گھر میں بھی اللہ کو بڑا تسلیم کیا جائے گا اور گھر کے تمام معاملات میں اسی کی بات مانی جائے گی جب ہماری پارلیمنٹ میں بھی اس کی بڑائی کو تسلیم کیا جائے گا اور کوئی قانون اس کی شریعت کے خلاف نہیں بن سکے گا جب ہماری عدالتوں میں بھی اس کی بڑائی کا ڈنکا بجے گا اور تمام فیصلے اسی کے احکامات کی روشنی میں کیے جائیں گے۔ غرض جب تک ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اور ہر کہیں اس کا حکم آخری حکم کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا اللہ کی تکبیر کا حق ادا نہیں ہوگا۔ اللہ کے احکام کو عملی طور پر نافذ نہ کرنے والوں کے لیے سورة المائدۃ کا یہ حکم بہت واضح ہے : (ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) ۔ آج ہم نے اللہ کو (نعوذ باللہ) اپنے تئیں مسجدوں میں بند کردیا ہے کہ اے اللہ آپ یہیں رہیں ہم یہیں پر آکر آپ کی تکبیر کے ترانے گائیں گے آپ کی تسبیح وتحمید کریں گے۔ لیکن مسجد سے باہر ہماری مجبوریاں ہیں۔ کیا کریں مارکیٹ میں مالی مفادات کے ہاتھوں مجبور ہیں گھر میں بیوی بڑی ہے کسی اور جگہ کوئی اور بڑا ہے۔ ایسے حالات میں ہمارے ہاں اللہ کی تکبیر کا مفہوم ہی بدل کر رہ گیا ہے اور اب تکبیر فقط دو الفاظ (اللہ اکبر) پر مشتمل ایک کلمہ ہے جسے زبان سے ادا کردیں تو گویا اللہ کی بڑائی کا حق ادا ہوجاتا ہے۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :125 اس فقرے میں ایک لطیف طنز ہے ان مشرکین کے عقائد پر جو مختلف دیوتاؤں اور بزرگ انسانوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ میاں نے اپنی خدائی کے مختلف شعبے یا اپنی سلطنت کے مختلف علاقے ان کے انتظام میں دے رکھے ہیں ۔ اس بیہودہ عقیدے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی خود اپنی خدائی کا بار سنبھالنے سے عاجز ہے اس لیے وہ اپنے پشتیباں تلاش کر رہا ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اللہ عاجز نہیں ہے کہ اسے کچھ ڈپٹیوں اور مددگاروں کی حاجت ہو ۔
58:: بہت سے کافروں کا یہ خیال تھا کہ جس ذات کا نہ کوئی بیٹا ہو اور نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہو، وہ تو بڑی کمزور ذات ہوگی، اس آیت نے واضح فرمادیا کہ اولاد اور مددگاروں کی حاجت اس کو ہوتی ہے جو کمزور ہو، اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی قوی ہے کہ اسے کمزوری دور کرنے کے لئے نہ کسی اولاد کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی حاجت۔