بد دعا اور انسان یعنی انسان کبھی کبھی گیر اور ناامید ہو کر اپنی سخت غلطی سے خود اپنے لئے برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے ۔ کبھی اپنے مال واولاد کے لئے بد دعا کرنے لگتا ہے کبھی موت کی ، کبھی ہلاکت کی ، کبھی بردباری اور لعنت کی ۔ لیکن اس کا اللہ اس پر خود اس سے بھی زیادہ مہربان ہے ادھر وہ دعا کرے ادھر وہ قبول فرما لے تو ابھی ہلاک ہو جائے ۔ حدیث میں بھی ہے کہ اپنی جان و مال کے لئے دعا نہ کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت میں کوئی ایسا بد کلمہ زبان سے نکل جائے ۔ اس کی وجہ صرف انسان کی اضطرابی حالت اور اس کی جلد بازی ہے ۔ یہ ہے ہی جلد باز ۔ حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقعہ پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ ابھی پیروں تلے روح نہیں پہنچتی تھی کہ آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا روح سر کی طرف سے آ رہی تھی ناک تک پہنچی تو چھینک آئی آپ نے کہا الحمد للہ ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمک ربک یا ادم اے آدم تجھ پر تیرا رب رحم کرے جب آنکھوں تک پہنچی تو آنکھیں کھول کر دیکھنے لگے ۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ۔ جب اور نیچے کے اعضا میں پہنچی تو خوشی سے اپنے آپ کو دیکھنے لگے ابھی پیروں تک نہیں پہنچی تو چلنے کا ارادہ کیا لیکن نہ چل سکے تو دعا کرنے لگے کہ اے اللہ رات سے پہلے روح آ جائے ۔
11۔ 1 انسان چونکہ جلد باز اور بےحوصلہ ہے اس لیے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لیے اسی طرح بد دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لیے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا یہی مضمون (وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّٰهُ للنَّاس الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بالْخَيْرِ لَقُضِيَ اِلَيْهِمْ اَجَلُھُمْ ۭ فَنَذَرُ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ ) 10 ۔ یونس :11) میں گزر چکا ہے۔
[٠ ١] انسان کی جلد باز طبیعت اور اس کا نقصان :۔ اس آیت میں انسان کی اس فطرت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب اسے کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو فوراً بد دعا دینا شروع کردیتا ہے خواہ وہ بددعا اس کے دشمنوں کے حق میں ہو یا اس کے اپنے حق میں ہو یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں ہو۔ پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی یہ بددعا جلد قبول ہوجائے۔ حالانکہ بعد میں خود اسے احساس ہوجاتا ہے کہ اگر اس کی بددعا قبول ہوجاتی تو اس کا اسے کتنا زیادہ نقصان پہنچ سکتا تھا جیسا کہ ابو جہل نے اپنے حق میں بددعا کی تھی کہ اے اللہ اگر یہ نبی اور یہ قرآن برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ اسی طرح مسلمان بھی کفار مکہ سے سختیاں برداشت کرنے پر بعض دفعہ بددعا کیا کرتے تھے۔ حالانکہ انھیں لوگوں میں سے اکثر بعد میں ایمان لے آئے تھے۔ اسی طرح بعض دفعہ انسان تنگ آکر اپنی اولاد کے حق میں بددعا کر بیٹھتا ہے حالانکہ اگر اس کی دعا قبول ہوجاتی تو اسے اس وقت سے بہت زیادہ صدمہ پہنچتا جس وقت اس نے یہ بددعا مانگی تھی۔ گویا انسان کی جلد باز طبیعت اکثر اوقات نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اللہ کے کاموں میں تدریج اور امہال کا قانون جاری وساری ہے جس میں طرح طرح کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
وَيَدْعُ الْاِنْسَان بالشَّرِّ : ” يَدْعُ “ اصل میں ” یَدْعُوْ “ تھا، مگر مصحف عثمانی کے خط میں اسے پڑھنے کے مطابق لکھ دیا گیا، کیونکہ یہ واؤ پڑھنے میں نہیں آتی، جیسا کہ : (سَـنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ ) [ العلق : ١٨ ] میں بھی واؤ نہیں لکھی گئی، اسی لیے مسلمانوں نے اسی مصحف کے خط کی حفاظت کرتے ہوئے واؤ نہیں لکھی۔ فراء نے فرمایا کہ اگر یہ واؤ کے ساتھ لکھا جائے تو بھی درست ہوگا۔ (ابن عاشور)- دُعَاۗءَهٗ بالْخَيْرِ یہ ” کَدُعَاءِہِ بالْخَیْرِ “ تھا، کاف حذف کرنے سے منصوب ہوگیا۔ مفعول مطلق کا بھی یہی معنی ہے، یعنی انسان بعض اوقات غصے میں یا اکتا کر اپنے لیے یا اپنے اہل و عیال کے لیے اللہ تعالیٰ سے بد دعائیں کرتا ہے، مثلاً اللہ کرے میں مرجاؤں، اللہ کرے تمہارا بیڑہ غرق ہوجائے، تمہارا خانہ خراب ہوجائے وغیرہ۔ انسان اسی طرح اصرار سے بددعا کرتا ہے جس طرح حالت اعتدال میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے، مثلاً یا اللہ ہمیں بخش دے، یا اللہ ہماری حفاظت فرما وغیرہ۔ اسی طرح وہ کفار کے ایمان نہ لانے پر ان کے لیے تباہی و بربادی کی فوراً بددعا کرنے لگتا ہے، حالانکہ اسے کیا خبر کہ ان میں سے کئی لوگوں نے آگے چل کر ایمان لے آنا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں شروع سے بہت جلد بازی پائی جاتی ہے۔ ” کَانَ “ جلد بازی کے استمرار اور تمکن کو ظاہر کر رہا ہے اور ترجمہ بھی اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔ ” عَجُوْلًا “ مبالغے کا صیغہ ہے، بہت جلد باز۔ اپنے حق میں بددعا کی ایک بدترین مثال ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کی وہ دعا ہے جس میں انھوں نے اپنے آپ پر پتھر برسانے یا عذاب الیم لانے کی بددعا کی تھی۔ دیکھیے سورة انفال (٣٢، ٣٣) ۔- 3 مگر اللہ تعالیٰ ایسا مہربان ہے کہ بددعاؤں کو فوراً قبول نہیں فرماتا اور اگر وہ قبول کرے تو انسان تباہ و برباد ہوجائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس کی آیت (١١) ۔
شاید اسی مناسبت سے مذکورہ آیات میں سے آخری آیت میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ انسان تو بعض اوقات جلد بازی میں اپنے لئے ایسی دعا مانگ لیتا ہے جو اس کے لئے تباہی و بربادی کا سبب ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کی ایسی دعا کو قبول فرما لیں تو یہ برباد ہوجائے مگر اللہ تعالیٰ اکثر ایسی دعاؤں کو فورا قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ خود انسان سمجھ لیتا ہے کہ میری یہ درخواست غلط اور میرے لئے سخت مضر تھی اور آیت کے آخری جملہ میں انسان کی ایک طبعی کمزوری کو بطور ضابطہ کے بھی ذکر فرمایا کہ انسان اپنی طبیعت سے ہی جلد باز واقع ہوا ہے سرسری نفع نقصان پر نظر رکھتا ہے انجام بینی اور عاقبت اندیشی میں کوتاہی کرتا ہے فوری راحت چاہے تھوڑی ہو اس کو بڑی اور دائمی راحت پر ترجیح دینے لگتا ہے اس تقریر کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت میں عام انسانوں کی ایک طبعی کمزوری کا بیان ہے۔- اور بعض ائمہ تفسیر نے اس آیت کو ایک خاص واقعہ کے متعلق قرار دیا ہے وہ یہ کہ نضر بن حارث نے اسلام کی مخالفت میں ایک مرتبہ یہ دعا کر ڈالی (آیت) اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ یعنی یا اللہ اگر آپ کے نزدیک یہ اسلام ہی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسادے یا کوئی اور درد ناک عذاب بھیج دے اس صورت میں انسان سے یہ خاص انسان یا جو اس کے ہم طبع ہوں مراد ہوں گے۔
وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بِالْخَيْرِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا 11- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] - ( ش ر ر ) الشر - وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔
(١١) اور نضر بن حارث کافر اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے برائی اور تکالیف کی ایسی درخواست کرتا ہے جیسا کہ عافیت اور رحمت کی درخواست کی جاتی ہے اور یہ نضر عذاب کا بہت ہی جلدی مطالبہ کررہا ہے۔
آیت ١١ (وَيَدْعُ الْاِنْسَان بالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بالْخَيْرِ )- یعنی انسان اللہ سے دعا کر رہا ہوتا ہے کہ اے اللہ میرے لیے یوں کر دے یوں کر دے۔ حالانکہ اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ اپنے لیے مانگ رہا ہے وہ اس کے لیے مفید ہے یا مضر۔ اس طرح انسان اپنے لیے اکثر وہ کچھ مانگ لیتا ہے جو اس کے لیے الٹا نقصان دہ ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ میں فرمایا گیا ہے : (عَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تُحِبُّوْا شَـيْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) ” ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے شر ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے “۔ چناچہ بہتر لائحہ عمل یہ ہے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے انسان اپنے معاملات اس کے حوالے کر دے کہ اے اللہ میرے معاملات تیرے سپرد ہیں کیونکہ میرے نفع و نقصان کو تو مجھ سے بہتر جانتا ہے : - سپردم بتو مایۂ خویش را - تو دانی حساب کم و بیش را - دعائے استخارہ میں بھی ہمیں تفویض امر کا یہی انداز سکھایا گیا ہے :- اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ‘ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ (١)- ” اے اللہ میں تیرے علم کی بدولت تجھ سے خیر چاہتا ہوں اور تیری قدرت کی برکت سے طاقت مانگتا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے فضل عظیم کا ‘ بیشک تو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے اور میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں تو سب کچھ جانتا ہے اور میں کچھ بھی نہیں جانتا اور تو ہر قسم کے غیب کو جاننے والا ہے۔ “- بہرحال انسان کا عمومی رویہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ پر توکل کرنے کے بجائے اپنی عقل اور سوچ پر انحصار کرتا ہے اور اس طرح اپنے لیے خیر کی جگہ شر کی دعائیں کرتا رہتا ہے۔- (وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا)- اپنی اس جلد بازی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ شر کو خیر اور خیر کو شر سمجھ بیٹھتا ہے۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :12 یہ جواب ہے کفار مکہ کی ان احمقانہ باتوں کا جو وہ بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ بس آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈرایا کرتے ہو ۔ اوپر کے بیان کے بعد معا یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے غرض اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ بیوقوفو خیر مانگنے کے بجائے عذاب مانگتے ہو؟ تمہیں کچھ اندازہ بھی ہے خدا کا عذاب جب کسی قوم پر آتا ہے تو اس کی کیا گت بنتی ہے؟ اس کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف تنبیہ مسلمانوں کے لیے بھی تھی جو کفار کے ظلم و ستم اور ان کی ہٹ دھرمیوں سے تنگ آکر کبھی کبھی ان کے حق میں نزول عذاب کی دعا کرنے لگتے تھے ، حالانکہ ابھی انہی کفار میں بہت سے وہ لوگ موجود تھے جو آگے چل کر ایمان لانے والے اور دنیا بھر میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے والے تھے ۔ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ انسان بڑا بے صبر واقع ہوا ہے ۔ ، ہر وہ چیز مانگ بیٹھتا ہے جس کی بروقت ضرورت محسوس ہوتی ہے ، حالانکہ بعد میں اسے خود تجربہ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر اس وقت اس کی دعا قبول کرلی جاتی تو وہ اس کے حق میں خیر نہ ہوتی ۔
6: کافر لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں ہمارے کفر پر عذاب ہونا ہے تو ابھی فوراً کیوں نہیں ہوجاتا؟ یہ ان کی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ جلد بازی میں عذاب کی برائی کو اس طرح مانگ رہے ہیں جیسے وہ کوئی اچھی چیز ہو۔