Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دن اور رات کے فوائد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے دو کا یہاں بیان فرماتا ہے کہ دن رات اس نے الگ الگ طرح کے بنائے ۔ رات آرام کے لئے دن تلاش معاش کیلئے ۔ کہ اس میں کام کاج کرو صنعت و حرفت کرو سیر و سفر کرو ۔ رات دن کے اختلاف سے دنوں کی ، جمعوں کی ، مہینوں کی ، برسوں کی گنتی معلوم کر سکو تاکہ لین دین میں ، معاملات میں ، قرض میں ، مدت میں ، عبادت کے کاموں میں سہولت اور پہچان ہو جائے ۔ اگر ایک وقت رہتا تو بڑی مشکل ہو جاتی سچ ہے اگر اللہ چاہتا تو ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ رات ہی رات رکھتا کوئی اتنی قدرت نہیں رکھتا کہ دن کر دے اور اگر وہ ہمیشہ دن ہی دن رکھتا تو کس کی مجال تھی کہ رات لا دے ؟ یہ نشانات قدرت سننے دیکھنے کے قابل ہیں ۔ یہ اسی کی رحمت ہے کہ رات سکون کے لئے بنائی اور دن تلاش معاش کے لئے ۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا تار آنے والے بنایا تاکہ شکر و نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں ۔ اسی کے ہاتھ رات دن کا اختلاف ہے وہ رات کا پردہ دن پر اور دن کا نقاب رات پر چڑھا دیتا ہے ۔ سورج چاند اسی کی ماتحتی میں ہے ہر ایک اپنے مقررہ وقت پر چل پھر رہا ہے وہ اللہ غالب اور غفار ہے ۔ صبح کا چاک کرنے والا ہے اسی نے رات کو سکون والی بنایا ہے اور سورج چاند کو مقرر کیا ہے یہ اللہ عزیز و حلیم کا مقرر کیا ہوا انداہ ہے ۔ رات اپنے اندھیرے سے چاند کے ظاہر ہونے سے پہچانی جاتی ہے اور دن روشنی سے اور سورج کے چڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے ۔ سورج چاند دونوں ہی روشن اور منور ہیں لیکن ان میں بھی پورا تفاوت رکھا کہ ہر ایک پہچان لیا جا سکے ۔ سورج کو بہت روشن اور چاند کو نورانی اسی نے بنایا ہے منزلیں اسی نے مقرر کی ہیں تاکہ حساب اور سال معلوم رہیں اللہ کی یہ پیدائش حق ہے ۔ الخ قرآن میں ہے لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دے کہ وہ لوگوں کے لئے اوقات ہیں اور حج کے لئے بھی الخ رات کا اندھیرا ہٹ جاتا ہے دن کا اجالا آ جاتا ہے ۔ سورج دن کی علامت ہے چاند رات کا نشان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو کچھ سیاہی والا پیدا کیا ہے پس رات کی نشانی چاند کو بہ نسبت سورج کے اندر کر دیا ہے اس میں ایک طرح کا دہبہ رکھ دیا ہے ۔ این الکواء نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ چاند یہ جھائیں کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ ہم نے رات کے نشان یعنی چاند میں سیاہ دھندلکا ڈال دیا اور دن کا نشان خوب روشن ہے یہ چاند سے زیادہ منور اور چاند سے بہت بڑا ہے دن رات کو دو نشانیاں مقرر کر دی ہیں پیدائش ہی ان کی اسی طرح کی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی رات کو بےنور یعنی تاریک کردیا تاکہ تم آرام کرسکو اور تمہاری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوجائے اور دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش کے ذریعے سے تم رب کا فضل تلاش کرو۔ علاوہ ازیں رات اور دن کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہفتوں، مہینوں اور برسوں کا شمار اور حساب تم کرسکو، اس حساب کے بھی بیشمار فوائد ہیں۔ اگر رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات یا دن ہی دن رہتا تو تمہیں آرام اور سکون کا یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا اور اسی طرح مہینوں اور سالوں کا حساب بھی ممکن نہ رہتا۔ 12۔ 2 یعنی انسان کے لئے دین اور دنیا کی ضروری باتیں سب کھول کر ہم نے بیان کردی ہیں تاکہ ان سے انسان فائدہ اٹھائیں، اپنی دنیا سنواریں اور آخرت کی بھی فکر اور اس کے لئے تیاری کریں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١ ١] ہر رات کا ذکر سے پہلے۔ دن کا شمار شام سے اگلی شام تک تدریج وامھال کا قانون فطری ہے۔ دن اور رات کے فائدے :۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں دن اور رات کا ذکر فرمایا تو پہلے رات کا ہی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری تقویم یہی ہے کہ دن (٢٤ گھنٹے) کا شمار ایک شام یا غروب آفتاب سے لے کر دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ہو۔ دن خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، راتیں لمبی ہو رہی ہوں یا چھوٹی یہ مدت ہمیشہ اور ہر موسم میں برابر ٢٤ گھنٹے) ہی رہے گی اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دن، رات کے آنے جانے میں نہ رات کی تاریکی یکدم آتی ہے اور نہ ہی دن اپنی پوری روشنی اور پوری تمازت کے ساتھ یکدم نمودار ہوتا ہے بلکہ اللہ کے ہر کام میں امہال اور تدریج کا قانون کام کرتا ہے۔ رات کی تاریکی آتی ہے تو بتدریج چاند کی روشنی آتی اور بڑھتی ہے تو بتدریج اسی طرح سورج کی روشنی اور تمازت بھی بتدریج بڑھتی ہے۔ پھر موسموں میں جو تبدیلی آتی ہے وہ بھی بتدریج آتی ہے۔ اسی طرح جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو وہاں بھی یہی تدریج اور امہال کا قانون کارفرما ہوتا ہے۔ انسان کے جلدی مچانے سے کچھ نہیں بنتا۔ پھر اس طرح رات اور دن کی آمدورفت میں انسانوں کے لیے کئی فائدے بھی ہیں۔ دن کو وہ کسب معاش کرسکتے ہیں اور رات کو آرام۔ علاوہ ازیں وہ اسی نظام لیل و نہار سے مدت کی تعیین اور اس کا شمار بھی کرسکتے ہیں۔- [٢ ١] اضداد کے وجود سے دنیا کی رنگینی قائم ہے اور یہی اللہ کی حکمت ہے :۔ یہاں ہر چیز سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کو ان کی ضد سے پہچانا جاتا ہے۔ یعنی رات کے مقابلہ میں دن، تاریکی کے مقابلہ میں روشنی، حرارت کے مقابلہ میں ٹھنڈک وغیرہ وغیرہ۔ اس اختلاف سے ہی یہ کارخانہ عالم قائم ہے یعنی اگر ہمیشہ دن ہی رہتا یا ہمیشہ رات ہی رہتی تو اس زمین پر نہ انسان کا وجود قائم رہتا اور نہ ہی کسی دوسرے جانور کا۔ نہ ہی کوئی نباتات اگ سکتی۔ اسی طرح اگر یہاں سارے انسان نیک ہی ہوتے یا بدکاریوں کو کلیتاً تباہ کردیا جاتا تو بھی انسان کی پیدائش کا کچھ مقصد باقی نہ رہتا لہذا روحانی طور پر اس دنیا کی آبادی میں یہ حکمت مضمر ہے کہ یہاں حق بھی موجود رہے اور باطل بھی اور ان میں معرکہ آرائی ہوتی رہے۔ ان کی آمدورفت ہوتی رہے اور انسان کی آزمائش کا سلسلہ جاری رہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ : ان دونوں کو نشانیاں اس لیے قرار دیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا، اس کی کمال کاریگری اور قدرت کا اور اس اکیلے کے عبادت کا حق دار ہونے کا پتا چلتا ہے۔ رات اور دن کو بطور دلیل اور نعمت کے قرآن نے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة حم السجدہ (٣٧) ، یٰسٓ (٣٧) ، یونس (٦) ، آل عمران (١٩٠) ، بقرہ ( ١٦٤) ، فرقان ( ٦٢) ، سورة زمر (٥) اور دیگر آیات۔ - فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ ۔۔ : ” مَحَا یَمْحُوْ مَحْوًا “ (ن) کسی چیز کا نشان ختم کردینا، مٹا دینا، یعنی رات اور دن جس طرح نشانیاں ہیں اسی طرح ان کا وجود اور ان کا کم یا زیادہ ہوتے ہوئے مسلسل روزانہ ایک دوسرے کے پیچھے آنا بھی نعمت ہیں، کیونکہ رات کی تاریکی اور خاموشی انسان کے سکون، راحت اور نیند کے لیے ضروری ہے اور دن کی روشنی ہر کام کے لیے اور اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ اللہ کا انعام ہے کہ آرام کے لیے رات بنادی، پھر اسے مٹا کر کام کے لیے دن بنادیا، اگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ رات یا ہمیشہ دن بنا دیتا تو زندگی کا سلسلہ کس طرح قائم رہ سکتا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧١ تا ٧٣) ، سورة نبا (٩ تا ١١) اور سورة روم (٢٣) ۔- وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ : یعنی اگر نہ دن رات ہوتے اور نہ رات اور دن کے بتدریج روزانہ چھوٹے یا بڑے ہونے کا سلسلہ ہوتا، نہ چاند کے ہلال سے بدر اور بدر سے ہلال بننے کی منزلیں ہوتیں تو ہمیشہ ایک جیسا موسم رہتا اور سال اور مہینوں کا کچھ پتا نہ چلتا، نہ وقت کا وجود ہوتا جس پر کئی دینی معاملات، مثلاً نماز، روزے، زکوٰۃ، حج، عید، عدت وغیرہ کا اور تمام دنیوی معاملات کا انحصار ہے۔ ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا : یعنی ہر وہ چیز جس میں تمہاری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اسے ہم نے خوب کھول کر بیان کردیا ہے۔ ” تَفْصِيْلًا “ مصدر تاکید کے لیے ہے، اس لیے معنی کیا ہے خوب کھول کر بیان کرنا۔ مزید دیکھیے سورة انعام (٣٨) اور سورة نحل (٨٩) ۔- ان آیات (١٠ تا ١٣) کی باہمی مناسبت ابن عاشور اور شاہ عبد القادر ; کے کلام کو ملا کر یہ ہے کہ آیت (١٠) میں جب کفار کے لیے عذاب الیم تیار کرنے کا ذکر فرمایا تو آیت (١١) میں کفار کے اس عناد پر مبنی مطالبے کی وجہ بتائی جو وہ مسلمانوں سے کرتے تھے کہ وہ عذاب الیم ابھی لاؤ، چلو ہم پر آسمان گرا دو ، اللہ تعالیٰ ہم پر پتھروں کی بارش برسا دے۔ فرمایا انسان جلد بازی سے بغیر سوچے سمجھے اپنے نقصان کی دعا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت اور خود انسان کی مصلحت کا تقاضا اس کی بددعا کو قبول نہ کرنا ہے۔ (ابن عاشور) آیت (١٣) میں بتایا کہ کفار کے جلد عذاب کے مطالبے سے یا مسلمانوں کے کفار کو فوراً برباد کرنے کی بددعا سے کچھ حاصل نہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” گھبرانے سے فائدہ نہیں، ہر چیز کا وقت اور اندازہ مقرر ہے، جیسے رات اور دن، کسی کے گھبرانے سے رات کم نہیں ہوجاتی، اپنے وقت پر آپ صبح ہوجاتی ہے۔ “ (موضح)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا سو رات کی نشانی (یعنی خود رات) کو ہم نے دھندلا بنادیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا (کہ اس میں سب چیزیں بےتکلف دکھائی دیں) تاکہ (دن میں) اپنے رب کی روزی تلاش کرو اور (رات اور دن کی آمدو رفت اور دونوں کے رنگ میں امتیاز کہ ایک روشن دوسرا اندھیرا ہے اور دونوں کی مقداروں میں اختلاف سے) برسوں کا شمار اور (دوسرے چھوٹے چھوٹے) حساب معلوم کرلو (جیسا کہ سورة یونس کے پہلے رکوع میں بیان ہوا ہے) اور ہم نے ہر چیز کو خوب تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے (لوح محفوظ میں تو تمام کائنات کی مکمل تفصیل بغیر کسی استثناء کے ہے اور قرآن کریم میں تفصیل بقدر ضرورت ہے اس لئے یہ بیان دونوں کی طرف منسوب ہوسکتا ہے) اور ہم نے ہر (عمل کرنے والے) انسان کا عمل (نیک ہو یا بد) اس کے گلے کا ہار بنا رکھا ہے (یعنی ہر شخص کا عمل اس کے ساتھ لازم و ملازم ہے) اور (پھر) قیامت کے دن اس کا اعمال نامہ اس کے (دیکھنے کے) واسطے نکال کر سامنے کردیں گے جس کو وہ کھلا ہوا دیکھ لے گا (اور اس سے کہا جاوے گا کہ لے) اپنا اعمال نامہ (خود) پڑھ لے آج تو خود ہی اپنا حساب جانچنے کے لئے کافی ہے (یعنی اس کی ضرورت نہیں کہ تیرے اعمال کو کوئی دوسرا آدمی گناوے بلکہ تو خود ہی اپنا نامہ اعمال پڑھتا جا اور حساب لگاتا جا کہ تجھے کتنی سزا اور کتنی جزاء ملنی چاہئے مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ابھی عذاب سامنے نہیں آیا مگر وہ ٹلنے والا نہیں ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ انسان اپنے سب اعمال کو کھلی آنکھوں دیکھ لے گا اور عذاب کی حجت اس پر قائم ہوجائے گیا اور) جو شخص (دنیا میں سیدھی) راہ پر چلتا ہے وہ اپنے ہی نفع کے لئے چلتا ہے اور جو شخص بےراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنے ہی نقصان کے لئے بےراہ ہوتا ہے (وہ اس وقت اس کا خمیازہ بھگتنے کا کسی دوسرے کا کچھ نقصان نہیں کیونکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ اور کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہ اٹھاوے گا (اور جس کسی کو کوئی سزا دیجاتی ہے وہ اس پر حجت تمام کرنے کے بعد دی جاتی ہے کیونکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ) ہم (کبھی) سزا نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو (اس کی ہدایت کے لئے) نہیں بھیج لیتے۔- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ میں اول رات اور دن کے اختلاف کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی نشانی قرار دیا اور پھر بتلایا کہ رات کو تاریک اور دن کو روشن کرنے میں بڑی حکمتیں ہیں رات کے تاریک کرنے کی حکمت تو اس جگہ بیان نہیں فرمائی دوسری آیات میں مذکور ہے کہ رات کی تاریکی نیند اور آرام کے لئے مناسب ہے اور قدرت نے ایسا نظام بنادیا ہے کہ ہر انسان اور جانور کو اسی رات کی تاریکی میں نیند آتی ہے پورا عالم بیک وقت محو خواب ہوتا ہے اگر مختلف لوگوں کی نیند کے مختلف اوقات ہوتے تو جاگنے والوں کے شور وشغب اور کام کاج کی وجہ سے سونے والوں کی نیند بھی حرام ہوجاتی۔- اور دن کو روشن کرنے کی اس جگہ دو حکمتیں بیان فرمائی ہیں اول یہ کہ دن کی روشنی میں آدمی اپنی روزی تلاش کرسکتا ہے محنت مزدوری صنعت وحرفت سے متعلق ہیں اگر رات دن کا یہ اختلاف نہ ہو تو مزدور کی مزدوری ملازم کی ملازمت معاملات کی میعادیں متعین کرنا سب مشکل ہوجائے گا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا 12؀- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - نهار - والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62]- ( ن ھ ر ) النھر - النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔- محو - المَحْو : إزالة الأثر، ومنه قيل للشّمال : مَحْوَةٌ ، لأنها تَمْحُو السّحاب والأثر . قال تعالی:- يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] .- ( م ح و ) المحو - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے اثر اور نشان کو زائل کرنا اور مٹا دینا کے ہیں ۔ اسی - سے بادشاہ کو محوۃ کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بادل کے آثار اور نشانات کے مٹادیتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] خدا جس کو چاہتا ہے مٹادیتا ہے ۔ اور ( جس کو چاہتا ہے ) قائم رکھتا ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- ابتغاء - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے - پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5]- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب - حسب - الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] - ( ح س ب ) الحساب - کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (فمحونا ایۃ اللیل رات کی نشانی کو ہم نے نور بنادیا) یعنی ہم نے اسے اس طرح کردیا کہ وہ بےنور ہوگئی جس طرح کتاب کے لئے ہوئے الفاظ بےنور ہوتے ہیں، فقرے میں بلاغت اپنے انتہا کر پہنچی ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ” ہم نے رات کی نشانی یعنی اس تاریکی کو مٹا دینا جو چاند کے اندر ہے۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢) اور ہم نے چاند اور سورج کو اپنی قدرت کی دو نشانیاں بنائیں سو ہم نے رات کی نشانی یعنی چاند کی روشنی کو دھندلابنایا اور سورج کو خوب روشن بنایا تاکہ تم دن میں دنیا وآخرت کماؤ اور تاکہ چاند کی کمی اور زیادتی سے برسوں، مہینوں اور دنوں کا حساب معلوم کرلو اور ہم نے حلال و حرام اور اوامرو نواہی میں سے ہر ایک چیز کو قرآن کریم میں خوب تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ اٰيَـتَيْنِ فَمَــحَوْنَآ اٰيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْنَآ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ )- دن کو روشن بنایا تاکہ اس کی روشنی میں تم لوگ آسانی سے کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرسکو۔- (وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَالْحِسَابَ ۭ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِيْلًا )- یہ دن اور رات کا الٹ پھیر ہی ہے جو نظام الاوقات کا بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے اور دنوں سے ہفتے مہینے اور پھر سال بنتے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :13 مطلب یہ ہے کہ اختلافات سے گھبرا کر یکسانی ویک رنگی کے لیے بے چین نہ ہو ۔ اس دنیا کا تو سارا کارخانہ ہی اختلاف اور امتیاز اور تنوع کی بدولت چل رہا ہے ۔ مثال کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں ترین نشانیاں یہ رات اور دن ہیں جو روز تم پر طاری ہوتے رہتے ہیں ۔ دیکھوں کہ ان کے اختلافات میں کتنی عظیم الشان مصلحتیں موجود ہیں ۔ اگر تم پر دائما ایک ہی حالت طاری رہتی تو کیا یہ ہنگامہ وجود چل سکتا تھا ؟ پس جس طرح تم دیکھ رہے ہو کہ عالم طبیعیات میں فرق و اختلاف اور امتیاز کے ساتھ بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں ، اسی طرح انسانی مزاجوں اور خیالات اور رحجانات میں بھی جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ بڑی مصلحتوں کا حامل ہے ۔ خیر اس میں نہیں ہے کہ اللہ تعالی اپنی فوق الفطری مداخلت سے اس کو مٹا کر سب انسانوں کو جبرا نیک اور مومن بنا دے ، یا کافروں اور فاسقوں کو ہلاک کر کے دنیا میں صرف اہل ایمان و طاعت ہی کو باقی رکھا کرے ۔ اس کی خواہش کرنا تو اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خواہش کرنا کہ صرف دن ہی دن میں رہا کرے ، رات کی تاریکی سرے سے کبھی طاری ہی نہ ہو ۔ البتہ خیر جس چیز میں ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہدایت کی روشنی جن لوگوں کے پاس ہے وہ اسے لے کر ضلالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہیں ، اور جب رات کی طرح کوئی تاریکی کا دور آئے تو وہ سورج کی طرح اس کا پیچھا کریں ، یہاں تک کہ روز روشن نمودار ہو جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: یعنی دن اور رات کا ایک دوسرے کے بعد تسلسل کے ساتھ آنا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت وحکمت کی نشانی ہے، رات کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے، تاکہ لوگ اس میں آرام کرسکیں اور دن کے وقت روشنی ہوتی ہے تاکہ لوگ اپنا روز گار تلاش کرسکیں، جس کو قرآن کریم‘‘ اللہ کا فضل ’’ سے تعبیر کرتا ہے اور رات اور دن کے بدلنے ہی سے تاریخوں کا تعین ہوتا ہے۔