انسان کے اعمال اوپر کی آیتوں میں زمانے کا ذکر کیا جس میں انسان کے اعمال ہوتے ہیں اب یہاں فرمایا ہے کہ اس کا جو عمل ہوتا ہے بھلا ہو یا برا وہ اس پر چپک جاتا ہے بدلہ ملے گا ۔ نیکی کا نیک ۔ بدی کا بد ۔ خواہ وہ کتنی ہی کم مقدار میں کیوں نہ ہو ؟ جیسے فرمان ہے ذرہ برابر کی خیر اور اتنی ہی شر ہر شر ہر شخص قیامت کے دن دیکھ لے گا ۔ اور جیسے فرمان ہے دائیں اور بائیں جانب وہ بیٹھے ہوئے ہیں جو بات منہ سے نکلے وہ اسی وقت لکھ لیتے ہیں ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ 10ۙ ) 82- الإنفطار:10 ) تم پر نگہبان ہیں جو بزرگ ہیں اور لکھنے والے ہیں ۔ تمہارے ہر ہر فعل سے باخبر ہیں ۔ اور آیت میں ہے تمہیں صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال کا بدلہ ملے گا ۔ اور جگہ ہے ہر برائی کرنے والے کو سزا دی جائے گی ۔ مقصود یہ کہ ابن آدم کے چھوٹے بڑے ظاہر و باطن نیک و بد اعمال صبح شام دن رات برابر لکھے جا رہے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں البتہ ہر انسان کی شامت عمل اس کی گردن میں ہے ۔ ابن لہیعہ فرماتے ہیں یہاں تک کہ شگون لینا بھی ، لیکن اس حدیث کی یہ تفسیر غریب ہے واللہ اعلم ، اس کے اعمال کے مجموعے کی کتاب قیامت کے دن یا تو اس کے دائیں ہاتھ میں دی جائے گی یا بائیں میں ۔ نیکوں کے دائیں ہاتھ میں اور بروں کے بائیں ہاتھ میں کھلی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی پرھ لے اور دوسرے بھی دیکھ لیں اس کی تمام عمر کے کل عمل اس میں لکھے ہوئے ہوں گے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13ۭ ) 75- القيامة:13 ) اس دن انسان اپنے تمام اگلے پچھلے اعمال سے خبردار کر دیا جائے گا انسان تو اپنے معاملے میں خود ہی حجت ہے گو اپنی بےگناہی کے کتنے ہی بہانے پیش کر دے ۔ اس وقت اس سے فرمایا جائے گا کہ تو خوب جانتا ہے کہ تجھ پر ظلم نہ کیا جائے گا ۔ اس میں وہی لکھا گیا ہے جو تو نے کیا ہے اس وقت چونکہ بھولی بسری چیزیں بھی یاد آ جائیں گی ۔ اس لئے درحقیقت کوئی عذر پیش کرنے کی گنجائش نہ رہے گی پھر سامنے کتاب ہے جو پڑھ رہا ہے خواہ وہ دنیا میں ان پڑھ ہی تھا لیکن آج ہر شخص اسے پڑھ لے گا ۔ گردن کا ذکر خاص طریقے پر اس لئے کیا کہ وہ ایک مخصوص حصہ ہم اس میں جو چیز لٹکا دی گئی ہو چپک گئی ضروری ہو گئی شاعرونں نے بھی اس خیال کو ظاہر کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے بیماری کا متعدی ہونا کوئی چیز نہیں ، فال کوئی چیز نہیں ، ہر انسان کا عمل اس کے گلے کا ہار ہے اور روایت میں ہے کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے کا ہار ہے ۔ آپ کا فرمان ہے کہ ہر دن کے عمل پر مہر لگ جاتی ہے جب مومن بیمار پڑتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے اللہ تو نے فلاں کو تو روک لیا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے اس کے جو عمل تھے وہ برابر لکھتے جاؤ یہاں تک کہ میں اسے تندرست کر دوں یا فوت کر دو قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں طائر سے مراد عمل ہیں ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے ابن آدم تیرے دائیں بائیں فرشتے بیٹھے ہیں صحیفے کھلے رکھے ہیں داہنی جانب والا نیکیاں اور بائیں طرف والا بدیاں لکھ رہا ہے اب تجھے اختیار ہے نیکی کر یا بدی کر یا زیادہ تیری موت پر یہ دفتر لپیٹ دئے جائیں گے اور تیری قبر میں تیری گردن میں لٹکا دیئے جائیں گے قیامت کے دن کھلے ہوئے تیرے سامنے پیش کر دئے جائیں گے اور تجھ سے کہا جائے گا لے اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور تو ہی حساب اور انصاف کر لے ۔ اللہ کی قسم وہ بڑا ہی عادل ہے جو تیرا معاملہ تیرے ہی سپرد کر رہا ہے ۔
13۔ 1 طَائِر کے معنی پرندے کے ہیں اور عُنُق کے معنی گردن کے۔ امام ابن کثیر نے طائر سے مراد انسان کے عمل کے لئے ہیں۔ فِیْ عُنُقِہِ کا مطلب ہے، اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اس کو اچھی یا بری جزا دی جائے گی، گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے، اللہ کے ہاں اس کا پورا ریکارڈ محفوظ ہوگا۔ قیامت والے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور امام شوکانی نے طائر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے، جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا، وہ بھی اس کے علم میں تھا، یہی قسمت (سعادت مندی یا بدبختی) ہر انسان کے ساتھ گلے کے ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہوگی۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔
[٣ ١] انسان کا اعمال نامہ اس کے وجود کے اندر ہے :۔ طائر کا لغوی معنی پرندہ ہے اور دوسرا معنی شومئی قسمت ہے۔ مگر اس سے مراد انسان کا اعمال نامہ لیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی بدبختی یا نیک بختی کا ریکارڈ باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ وہ خود انسان کے اندر موجود ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا : (بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ 14ۙ ) 75 ۔ القیامة :14) بلکہ انسان اپنے آپ پر خود ہی دلیل ہے۔ اگرچہ (اپنی بےقصوری کے لیے بہانے پیش کرے) اور اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دائیں اور بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں جو اس کا ایک ایک چھوٹا بڑا عمل ساتھ ساتھ لکھتے جاتے ہیں اور اس کا یہ اعمال نامہ تیار ہوتا رہتا ہے اور یہی توجیہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اور موجودہ تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو کام بھی کرتا ہے یا زبان سے الفاظ نکالتا ہے تو اس کے اثرات اس کے بدن پر مترتب ہوتے ہیں اور فضا میں بھی محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔ اور مدت مدید تک قائم رہتے ہیں۔ پھر جب قیامت کی صبح نمودار ہوگی تو انسان کی نگاہ اس قدر تیز ہوجائے گی کہ انسان یہ سب کچھ دیکھ اور پڑھ سکے گا۔ یہ خارجی شہادات اس کے اعمال نامہ کے علاوہ ہوں گی جس کا ذکر کتاب و سنت میں جابجا موجود ہے۔
وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ ۔۔ : ” طَاءِرٌ“ کا لفظی معنی اڑنے والا ہے۔ مراد کسی بھی چیز کا وہ جز ہے جو انسان کے حصے میں آئے، گویا وہ اڑ کر اس کے پاس آتا ہے۔ شگون لینے یا قرعہ ڈالنے کی صورت میں اس کے حق میں نکلنے والا نتیجہ خواہ اچھا ہو یا برا۔ انسان کے حصے میں آنے والی چیز یا اس کا عمل جو اس نے کرنا ہے اور اس کا رزق جو اسے ملنا ہے، سب پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل وتمیز دے کر یہ اختیار دیا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر چلے یا غلط راستے پر، نیک عمل کرے یا بد، پھر بھی اس نے جو کچھ کرنا ہے، خواہ اس کے اختیار میں ہے، جیسے نیکی یا بدی اور خواہ اس کے اختیار میں نہیں ہے، جیسے اس کی عمر، اسے پیش آنے والے اچھے یا برے حوادث، سب اللہ تعالیٰ کو پہلے سے معلوم ہے اور وہ ہر انسان نے کرنا ہی کرنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم اور اندازہ (تقدیر) غلط نہیں ہوسکتے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہر انسان کے نصیب اور حصے میں جو کچھ آنے والا ہے وہ ہم نے اس کی گردن کے ساتھ لازم کردیا ہے، جیسے گردن میں پڑا ہوا طوق یا ہار۔ جو چیز کسی کو لازم کردی جائے اور وہ اس سے جدا نہ ہو سکے اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ” أَلْزَمْتُہُ فِيْ عُنُقِہِ “ کہ میں نے اسے اس کی گردن میں چپکا دیا ہے۔- يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۔۔ : آیت کا پہلا حصہ تقدیر کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ حصہ انسان کے ان اعمال سے متعلق ہے جو اس نے دنیا میں کیے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے تحریر کرنے کے لیے فرشتے مقرر فرما رکھے ہیں۔ دیکھیے سورة قٓ (١٦ تا ١٨) اور انفطار (١٠ تا ١٢) ان کی تیار کردہ کتاب اعمال قیامت کے دن ہر انسان کے سامنے آجائے گی، ایسی صورت میں کہ خودبخود کھلی ہوگی، آدمی خواہ پڑھا ہوا ہے یا ان پڑھ، ہر ایک کو حکم ہوگا کہ اپنے اعمال کی کتاب پڑھ لے اور ہر شخص اسے پڑھ لے گا، گویا اس کی زندگی کی مکمل تصویر اس کے سامنے آجائے گی، جسے وہ پہلے بھی بہانہ سازیوں کے باوجود خوب جانتا ہوگا۔ (دیکھیے قیامہ : ١٣ تا ١٥) اس کتاب اعمال میں اس کا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل درج ہونے سے رہ نہیں جائے گا۔ دیکھیے سورة کہف (٤٩) ۔ ۭ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا : اس کی ترکیب یہ کی جاتی ہے ” كَفٰى“ فعل، باء زائدہ، ” نَفْسِکَ “ فاعل، ” حَسِيْبًا “ تمیز اور ” عَلَيْكَ “ اس کے متعلق ہے۔ یہ ترکیب درست ہے، مگر اس میں کمی صرف یہ ہے کہ باء کو محض زائدہ کہہ دیا گیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں ایک حرف بھی بےمقصد و زائد نہیں، چناچہ شنقیطی، طنطاوی اور کئی مفسرین نے صراحت فرمائی ہے کہ یہ ” کَفیٰ “ کی تاکید کے لیے ہے، یعنی آج تو خود اپنے آپ پر بطور محاسب بہت کافی ہے۔ یہی بات ” وَكَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا “ (بنی اسرائیل : ٦٥) میں بھی ملحوظ رکھیں۔- نفس کے بطور محاسب کافی ہونے میں وہ صورت بھی شامل ہے کہ جب انسان اس کتاب اعمال کو جھٹلا دے گا، پھر اللہ کے حکم سے زبان پر مہر لگ جائے گی اور خود انسان کے جسم کا ہر حصہ اپنے اعمال کی شہادت دے گا۔ اب خود اپنے جسم سے زیادہ کافی محاسب کون ہوسکتا ہے۔ دیکھیے سورة یس (٦٥) ، حم السجدہ (١٩ تا ٢٣) اور سورة مجادلہ (١٨) ۔
نامہ اعمال گلے کا ہار ہونے کا مطلب :- یہ ہے کہ انسان کسی جگہ کسی حال میں رہے اس کا صحیفہ عمل اس کے ساتھ رہتا ہے اس کا عمل لکھا جاتا رہتا ہے جب وہ مرتا ہے تو بند کر کے رکھدیا جاتا ہے پھر قیامت کے روز یہ صحیفہ عمل ہر ایک کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا کہ خود پڑھ کر خود ہی اپنے دل میں فیصلہ کرلے کہ وہ مستحق ثواب ہے یا مستحق عذاب حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ اس روز بےپڑھا آدمی بھی نامہ اعمال پڑھ لے گا اس موقع پر اصبہانی نے بروایت حضرت ابوامامہ (رض) یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض لوگوں کا نامہ اعمال جب ان کے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ دیکھے گا کہ اس کے بعض اعمال صالحہ اس میں لکھے ہوئے نہیں ہیں تو عرض کرے گا کہ ہم نے ان اعمال کو اس لئے مٹا دیا کہ تم لوگوں کی غبیت کیا کرتے تھے (مظہری )
وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ ۭ وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا 13- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - لزم - لُزُومُ الشیء : طول مكثه، ومنه يقال : لَزِمَهُيَلْزَمُهُ لُزُوماً ،- والْإِلْزَامُ ضربان :- إلزام بالتّسخیر من اللہ تعالی، أو من الإنسان، وإلزام بالحکم والأمر . نحو قوله : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28]- ( ل ز م ) لزمہ - یلزمہ لزوما کے معنی کسی چیز کا عرصہ دراز تک ایک جگہ پر ٹھہرے رہنا کے ہیں ۔- اور الزام ( افعال ) دوقسم پر ہے - ایک تو الزام بالتسخیر ہے اسکی نسبت اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں کی طرف ہوسکتی ہے اور دوسرے الزام بالحکم والامر یعنی کسی چیز کو حکما واجب کردینا جیسے فرمایا : أَنُلْزِمُكُمُوها وَأَنْتُمْ لَها كارِهُونَ [هود 28] تو کیا ہم اس کے لئے تمہیں مجبور کرسکتے ہیں ۔ اور تم ہو کہ اس سے ناخوش ہورہے ہو ۔- طير - الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً- [ ص 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ- [ النمل 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] - ( ط ی ر ) الطائر - ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ - عنق - العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ- ( ع ن ق ) العنق - ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - كتب) حكم)- قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، وقوله : إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ [ التوبة 36] أي : في حكمه . ويعبّر عن الإيجاد بالکتابة، وعن الإزالة والإفناء بالمحو . قال : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] ، يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَيُثْبِتُ [ الرعد 39] نبّه أنّ لكلّ وقت إيجادا، وهو يوجد ما تقتضي الحکمة إيجاده، ويزيل ما تقتضي الحکمة إزالته، ودلّ قوله : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] علی نحو ما دلّ عليه قوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وقوله : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] ، - ( ک ت ب ) الکتب ۔- اور نحو سے کسی چیز کا زائل اور فناکر نامراد ہوتا ہے چناچہ آیت : لِكُلِّ أَجَلٍ كِتابٌ [ الرعد 38] میں تنبیہ ہے کہ کائنات میں ہر لمحہ ایجاد ہوتی رہتی ہے اور ذات باری تعالیٰ مقتضائے حکمت کے مطابق اشیاء کو وجود میں لاتی اور فنا کرتی رہتی ہے ۔ لہذا اس آیت کا وہی مفہوم ہے ۔ جو کہ آیت كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن 29] وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے اور آیت : وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ [ الرعد 39] میں اور اس کے پاس اصل کتاب ہے کا ہے - اور آیت : وَما کانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتاباً مُؤَجَّلًا[ آل عمران 145] اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر مرجائے ( اس نے موت کا ) وقت مقرر کرکے لکھ رکھا ہے ۔ میں کتابا موجلا سے حکم الہی مراد ہے ۔ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے روبرو حاضر ہونا ہے ۔- نشر - النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] «2» ، وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً- [ المرسلات 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي :- حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ- [ الملک 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ- [ عبس 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر :- 440-- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً- «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه :- نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها .- ( ن ش ر )- النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔
قول باری ہے (وکل انسان الزمناہ طائرۃ فی عنقہ ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے) ایک قول کے مطابق طائر سے مراد ایک انسان کے اپنے عمال خیر و شر میں جس طرح عربوں کا دستور تھا کہ اگر پرندہ دائیں جانب سے آ جاتا تو اسے بربرکت سمجھتے اور نیک شگون قرار دیتے جبکہ بائیں جانب سے آنے والے پرندے کو نحوست قرار دیتے اور اس سے بدشگونی لیتے۔ اس بناء پر طائر کو خیر و شر کے لئے اسم قرار دیا گیا اور ان دونوں کے ذکر کی بجائے صرف پرندے کے ذکر پر اکتفا کیا گیا اس لئے کہ یہ لفظ دونوں باتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں اس طرح آویزاں ہے جس طرح طوق اس کے گلے میں آویزاں ہا ہے اور کبھی اس سے الگ نہیں ہوتا دراصل یہ طرز بیان کسی کو نصیحت کرنے خدا کے عذاب سے ڈرانے صلاح کی دعوت دینے اور گناہ روکنے کے لئے انتہائی بلیغ ہے۔
(١٣۔ ١٤) اور ہم نے ہر ایک انسان کا عمل یعنی قبر میں منکر ونکیر کو سوال و جواب کا دفتر اس کی گردن کا ہار کر رکھا ہے یا یہ کہ اس کی نیکی وبدی اس کا نفع ونقصان اور شقاوت وسعادت اس کے ساتھ لازم ہے اور پھر قیامت کے دن ہم اس کا نامہ اعمال اس کے دیکھنے کے لیے سامنے کردیں گے جس میں نیکیاں اور برائیاں سب واضح ہوں گی اور وہ ان کو دیکھ لے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے، آج تو خود اپنے اعمال کا آپ ہی محاسب کافی ہے۔
آیت ١٣ (وَكُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰۗىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ )- ” طاءِر “ کا لفظ عربی میں عام طور پر شگون نحوست اور بد قسمتی کے لیے بولا جاتا ہے لیکن یہاں پر خوش بختی اور بد بختی دونوں ہی مراد ہیں۔ یعنی کسی انسان کا جو بھی مقسوم و مقدور ہے زندگی میں اچھا برا جو کچھ بھی اسے ملنا ہے جیسے بھی اچھے برے حالات اسے پیش آنے ہیں اس سب کچھ کے بارے میں اس کا جو کھاتہ ” اُمّ الکتاب “ میں موجود ہے اس کا حاصل اس کی گردن میں چپکا دیا گیا ہے۔ گردن میں چپکانے کے الفاظ کا استعمال محاورۃً بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی کچھ مادی حقیقت بھی ہو۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی گردن میں کسی کی صورت میں واقعی کوئی مائیکرو کمپیوٹر نصب کر رکھا ہو۔ واللہ اعلم - (وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا)- ان الفاظ سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ انسانی جسم کے اندر ہی کوئی ایسا سسٹم لگا دیا گیا ہے جس میں اس کے تمام اعمال و افعال ریکارڈ ہو رہے ہیں اور قیامت کے دن ایک کی شکل میں اسے اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اس کے اندر اس کی زندگی کی ساری فلم موجود ہوگی ایک ایک حرکت جو اس نے کی ہوگی ایک ایک لفظ جو اس نے منہ سے نکالا ہوگا ایک ایک خیال جو اس کے ذہن میں پیدا ہوا ہوگا ایک ایک نیت جو اس کے دل میں پروان چڑھی ہوگی سب ڈیٹا پوری تفصیل کے ساتھ اس میں محفوظ ہوگا۔ روز قیامت اس کو کھول کر کھلی کتاب کی طرح اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور کہا جائے گا :
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :14 یعنی ہر انسان کی نیک بختی و بدبختی ، اور اس کے انجام کی بھلائی اور برائی کے اسباب و وجوہ خود اس کی اپنی ذات ہی میں موجود ہیں ۔ اپنے اوصاف ، اپنی سیرت و کردار ، اور اپنی قوت تمیز اور قوت فیصلہ و انتخاب کے استعمال سے وہ خود ہی اپنے آپ کو سعادت کا مستحق بھی بناتا ہے اور شفاف کا مستحق بھی ۔ نادان لوگ اپنی قسمت کے شگون باہر لیتے پھرتے ہیں اور ہمیشہ خارجی اسباب ہی کو اپنی بدبختی کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا پروانہ خیر و شر ان کے اپنے گلے کا ہار ہے ۔ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈالیں تو دیکھ لیں کہ جس چیز نے ان کو بگاڑ اور تباہی کے راستے پر ڈالا اور آخرکار خائب و خاسر بنا کر چھوڑا وہ ان کے اپنے ہی برے اوصاف اور برے فیصلے تھے ، نہ یہ کہ باہر سے آکر کوئی چیز زبردستی ان پر مسلط ہوگئی تھی ۔
8: انجام کو گلے سے چمٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے تمام اعمال ہر لمحے لکھے جارہے ہیں جو اسکے اچھے یا برے انجام کی نشان دہی کرتے ہیں، اور جب قیامت آئے گی تو یہ سارا اعمال نامہ اسکے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا جسے وہ خود پڑھ سکے گا، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دنیا میں ان پڑھ تھا قیامت کے دن اسے بھی اپنا اعمال نامہ پڑھنے کی صلاحیت دے دی جائے گی۔