Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

طالب دنیا کی چاہت کچھ ضروری نہیں کہ دنیا کی ہر ایک چاہت پوری ہو ، جس کا جو ارادہ اللہ پورا کرنا چاہے کر دے لیکن ہاں ایسے لوگ آخرت میں خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ یہ تو وہاں جہنم کے گڑھے میں گھرے ہوئے ہوں گے نہایت برے حال میں ذلت و خواری میں ہوں گے ۔ کیونکہ یہاں انہوں نے یہی کیا تھا ، فانی کو باقی پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دی تھی اس لئے وہاں رحمت الہٰی سے دور ہیں ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا اس کا گھر ہے جس کے پاس اپنی گرہ کی عقل بالکل نہ ہو ۔ ہاں جو صحیح طریقے سے طالب دار آخرت میں کام آنے والی نیکیاں سنت کے مطابق کرتا رہے اور اس کے دل میں بھی ایمان تصدیق اور یقین ہو عذاب ثواب کے وعدے صحیح جانتا ہو ، اللہ و رسول کو مانتا ہو ، ان کی کوشش قدر دانی سے دیکھی جائے گی نیک بدلہ ملے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی دنیا کے ہر طالب کو دنیا نہیں ملتی، صرف اسی کو ملتی ہے جس کو ہم چاہیں، پھر اس کو بھی اتنی دنیا نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی ہم اس کے لئے فیصلہ کریں۔ لیکن اس دنیا طلبی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨ ١] یعنی جو شخص دنیا ہی کا ہو رہے اور جو کام کرے صرف دنیا کا مال و دولت کمانے یا دوسرے مفادات کے لیے کرے تو ایسے شخص کو بھی دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی اللہ کو منظور ہو۔ اس سے بڑھ کر نہیں۔ اور چونکہ ایسا شخص آخرت پر یقین ہی نہیں رکھتا لہذا وہ یقیناً دنیا کمانے میں جائز اور ناجائز طریقوں میں کوئی امتیاز روا نہ رکھے گا لہذا آخرت میں اسے دوزخ کی سزا بھگتنا ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ ۔۔ : صاحب کشاف نے فرمایا، وہ شخص جس کا مقصود جلدی حاصل ہونے والی (یعنی دنیا) ہو اور اس کے سوا اس کا کچھ مقصد نہ ہو، جیسا کہ کفار اور اکثر فاسقوں کا حال ہے تو ہم دنیا کے فوائد میں سے جس قدر چاہتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں عطا فرما دیتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں دو قیدیں لگا دیں، ایک یہ کہ ہم دنیا کی وہ چیز اتنی دیتے ہیں جتنی ہم چاہتے ہیں، دوسری قید یہ کہ صرف اسے دیتے ہیں جس کا ہم ارادہ کرتے ہیں۔ اور واقعی ایسا ہی ہے، آپ ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ جتنی بھی تمنا رکھیں انھیں اس کا کچھ حصہ ہی ملتا ہے اور بعض اوقات کچھ بھی نہیں ملتا، سو ان کے لیے دنیا کا فقر اور آخرت کا فقر دونوں جمع ہوگئے۔ رہا متقی مومن تو اس کا مقصود صرف آخرت ہوتا ہے، چناچہ آخرت میں اس کا غنی ہونا یقینی ہے، اسے پروا نہیں ہوتی کہ دنیا کی آسائش اسے ملتی ہے یا نہیں، اگر اسے دنیا میں بھی مل جائے تو وہ شکر کرتا ہے، اگر نہ ملے تو صبر کرتا ہے، پھر کئی دفعہ فقر اس کے لیے بہتر اور اس کی مراد کے حصول میں زیادہ مددگار ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورة ہود (١٥، ١٦) اور سورة شوریٰ (٢٠) ۔- ” مَذْمُوْمًا “ ” ذَمَّ “ سے اسم مفعول ہے جو مدح کی ضد ہے۔ ” مَّدْحُوْرًا “ ” دُحُوْرٌ“ سے ہے، جس کا معنی دور کرنا، دفع کرنا ہے، یعنی آخرت میں اس کے عمل کسی طرح بھی قبول نہیں کیے جائیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- جو شخص (اپنے نیک اعمال سے صرف) دنیا (کے نفع) کی نیت رکھے گا (خواہ اس لئے کہ وہ آخرت کا منکر ہے یا اس لئے کہ آخرت سے غافل ہے) ہم ایسے شخص کو دنیا ہی میں جتنا چاہیں گے (پھر یہ بھی سب کے لیے نہیں) بلکہ جس کے واسطے چاہیں گے فی الحال ہی دیدیں گے (یعنی دنیا ہی میں کچھ جزاء مل جاوے گی) پھر ( آخرت میں خاک نہ ملے گا بلکہ وہاں) ہم اس کے لئے جہنم تجویز کردیں گے وہ اس میں بدحال راندہ (درگاہ) ہو کر داخل ہوگا اور جو شخص (اپنے اعمال میں) آخرت (کے ثواب) کی نیت رکھے گا اور اس کے لئے جیسی کوشش کرنی چاہئے ویسی ہی کوشش بھی کرے گا (مطلب یہ ہے کہ ہر کوشش بھی مفید نہیں بلکہ کوشش صرف وہی مفید ہے جو شریعت اور سنت کے موافق ہو کیونکہ حکم ایسی ہی کوشش کا دیا گیا ہے جو عمل اور سعی شریعت و سنت کے خلاف ہو وہ مقبول نہیں) بشرطیکہ وہ شخص مومن بھی ہو سو ایسے لوگوں کی یہ سعی مقبول ہوگی (غرض اللہ کے یہاں کامیابی کی شرطیں چار ہوئیں اول تصحیح نیت یعنی خالص ثواب آخرت کی نیت ہونا جس میں اغراض نفسانی شامل نہ ہوں دوسرے اس نیت کے لئے عمل اور کوشش کرنا صرف نیت و ارادہ سے کوئی کام نہیں ہوتا جب تک اس کے لئے عمل نہ کرے تیسرے تصحیح عمل یعنی سعی وعمل کا شریعت اور سنت کے مطابق ہونا کیونکہ مقصد کے خلاف سمت میں دوڑنا اور کوشش کرنا بجائے مفید ہونے کے مقصد سے اور دور کردیتا ہے چوتھی شرط جو سب سے اہم اور سب کا مدار ہے وہ تصحیح عقیدہ یعنی ایمان ہے ان شرائط کے بغیر کوئی عمل اللہ کے نزدیک مقبول نہیں اور کفار کو دنیا کی نعمتیں حاصل ہونا ان کے اعمال کی مقبولیت کی علامت نہیں کیونکہ دنیا کی نعمتیں بارگارہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ) آپ کے رب کی عطاء (دنیوی) میں سے تو ہم ان (مقبولین) کی بھی امداد کرتے ہیں اور ان (غیرمقبولین) کی بھی (امداد کرتے ہیں) اور آپ کے رب کی عطاء (دنیوی کسی پر) بند نہیں آپ دیکھ لیجئے کہ ہم نے (اس دنیوی عطاء میں بلا شرط ایمان و کفر کے) ایک کو دوسرے پر کس طرح فوقیت دی ہے (یہاں تک کہ اکثر کفار اکثر مومنین سے زیادہ نعمت و دولت رکھتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں قابل وقعت نہیں) اور البتہ آخرت (جو مقبولین بارگاہ کے ساتھ خاص ہے وہ) درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے اعتبار سے بھی (اس لئے اہتمام اسی کا کرنا چاہئے)- معارف و مسائل :- آیات مذکورہ میں اپنے عمل سے صرف دنیا کا ارادہ کرنے والوں کا اور ان کی سزاء کا جو بیان فرمایا ہے اس کے لئے تو الفاظ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ استعمال فرمائے جو استمرار و دوام پر دلالت کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سزاء جہنم صرف اس صورت میں ہے کہ اس کے ہر عمل میں ہر وقت صرف دنیا ہی کی غرض چھائی ہوئی ہو آخرت کی طرف کوئی دھیان ہی نہ ہو اور ارادہ آخرت کرنے اور اس کی جزاء کے بیان میں لفظ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ کا استعمال فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن جس وقت بھی جس عمل میں آخرت کا ارادہ اور نیت کرے گا اس کا وہ عمل مقبول ہوجائے گا خواہ کسی دوسرے عمل کی نیت میں کوئی فساد بھی شامل ہوگیا ہو۔- پہلا حال صرف کافر منکر آخرت کا ہوسکتا ہے اس لئے اس کا کوئی بھی عمل مقبول نہیں اور دوسرا حال مومن کا ہے اس کا وہ عمل جو اخلاص نیت کے ساتھ آخرت کے لئے ہو اور باقی شرائط بھی موجود ہوں وہ مقبول ہوجائے گا اور اس کے بھی جس عمل میں اخلاص نہ ہو یا دوسری شرطیں مفقود ہوں وہ مقبول نہیں ہوگا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - عجل - العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2» . قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] ،- ( ع ج ل ) العجلۃ - کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- ذم - يقال : ذَمَمْتُهُ أَذُمُّهُ ذَمّاً ، فهو مَذْمُومٌ وذَمِيمٌ ، قال تعالی: مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 18] ، وقیل : ذَمَّتُّهُ أَذُمُّهُ علی قلب إحدی المیمین تاء .- والذِّمَام : ما يذّمّ الرّجل علی إضاعته من عهد، وکذلک المَذَمَّةُ والمَذِمَّة . وقیل : لي مَذَمَّة فلا تهتكها، وأذهب مَذَمَّتَهُمْ بشیء، أي : أعطهم شيئا لما لهم من الذّمام . وأَذَمَّ بکذا : أضاع ذمامه، ورجل مُذِمٌّ: لا حراک «2» به، وبئر ذَمَّةٌ:- قلیلة الماء، قال الشاعر :- 170-- وتری الذّميم علی مراسنهم ... يوم الهياج کمازن الجثل - «3» الذَّمِيم : شبه بثور صغار . يقال : أصله الذنة والذنین .- ( ذ م م )- ذمتہ ( ن) ذما کے معنی مذمت کرنے کے ہیں ۔ اس سے صیغہ صفت مفعول مذموم وذمیم آتا ، قرآن میں ہے : مَذْمُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 18] نفرین سنکر اور ( درگاہ خدا سے ) راندہ ہوکر ۔ اور بعض ذممتہ صیغہ واحد متکلم میں دوسری میم کا ناد ست بدل کر ذمتہ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ الذمام ۔ وہ عہد وغیرہ جس کا ضائع کرنا باعث مذمت ہو یہی معنی ذمتہ ومذمتہ کے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ میرے عہد یا حرمت کا پاس کیجئے توڑیئے نہیں یعنی ان کے حق احترام کا بدلہ اتاریئے ۔ اذم بکذا ۔ اس کی حرمت کو ضائع کردیا ۔ تہاون سے کام لیا ۔ رجل مذم بےحس و حرکت بئر ذمتہ کم پانی والا کنواں چیونٹی کے انڈوں کی طرح سفید سا مادہ جو ناک پر ظاہر ہوجاتا ہے اسے الذمیم کہا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔- دحر - الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً- [ الأعراف 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] .- ( د ح ر ) - الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینگے جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

خد ا اپنی مرضی سے جتنا چاہے طالبان دنیا کو نوازتا ہے - قول باری ہے (من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن نرید جو عاجلہ کا خواہشمند ہو اسے یہیں ہم دے دیتے ہیں جو کچھ بھی جسے دینا چاہیں) عاجلہ سے مراد دنیا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (کلا بل تحبون العاجلۃ وتذرون الاخرۃ) ہرگز ایسا نہیں، اصل یہ ہے کہ تم دنیا سے تو محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو) اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ جس شخص کی ساری تگ و دو دنیا کی طلب تک محدود ہو اور اس کے دل میں آخرت کی نہ کوئی فکر ہو اور نہ چاہت اسے یہیں جتنا وہ چاہے مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سے دینے کو دو باتوں کے ساتھ معلق کردیا ہے۔ ایک پر یہ قول دلالت کرتا ہے (عجلنا لہ فیھا ھا نشآء) اسی بنا پر دی جانے والی چیز میں (ما نساء) کے ذریعے استثناء کردیا جو اس چیز کی مقدار، اس کی جنس اور اس کے دوام یا انقطاع کو متضمن ہے پھر اس پر ایک اور استثنا داخل کرتی ہوئے فرمایا (لمن نرید) یعنی حصول دنیا کی کوششیں کرنے والے تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا نہیں دیتا بلکہ ان میں سے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے محروم رکھتا ہے، اسی لئے درج بالا قول کے ذریعے دنیا پانے والوں کے اندر بھی استثناء کردیا ۔- اس طرح طالبان دنیا کو دنیا دینے کے سلسلے میں دو استثنائوں کا ذکر فرمایا تاکہ دنیا کے طلبگار اس بھروسے پر نہ بیٹھے رہیں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں انہیں ضرور بالضرور دنیا مل کر ہی رہے گی۔ پھر فرمایا (ومن ادادا الآخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مرمن فاولئک کان سعیھم مشکوراً اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لئے سعی کرے جیسی کہ اس کے لئے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مومن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی) اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے کوئی استثناء نہیں کیا۔ درست طریقے سے سعی کرنے کے بعد طالبان آخرت کی جزاء کے لئے کسی اسثناء نہیں کیا۔ درست طریقے سے سعی کرنے کے بعد طالبان آخرت کی جزاء کے لئے کسی استثناء کی ضرورت نہیں رہی تاہم آخرت کی سعی کے لئے یہ شرط ضرور لگا دی گئی کہ سعی کرنے والا مومن ہو اور اس کے پیش نظر آخرت کا ثواب ہو۔- جنت میں داخلہ تین باتوں سے مشروط ہے - محمد بن عجلان کا قول ہے کہ جس شخص کے اندر تین باتیں نہیں ہوں گی وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا اول درست نیت، دوم سچا ایمان اور سوم صحیح عمل۔ “ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ تینوں باتیں کہاں سے اخذ کی ہیں۔ انہوں نے جواب میں فرمایا، اللہ کی کتاب سے، ارشاد ربانی ہے (ومن ارادا الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن) اللہ تعالیٰ نے ثواب کے استحقاق کے سلسلے میں آخرت کے لئے سعی کو چند اوصاف کے ساتھ معلق کردیا اور مقصود کے اندر کسی چیز کا استثناء نہیں کیا دوسری طرف طلب دنیا کو کسی وصف کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اسے مطلق رہنے دیا لیکن دنیا میں سے حاصل ہونے والی چیز اور دنیا حاصل کرنے والوں کے سلسلے میں دو استثنائوں کا ذکر فرمایا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨) جو شخص اپنے ان نیک اعمال سے جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض کیے ہیں، دنیا کی نیت رکھے گا اور آخرت کا منکر ہوگا تو ہم ایسے شخص کو دنیا میں جتنا چاہیں گے جس کے واسطے چاہیں گے فی الحال دے دیں گے پھر اس کو آخرت میں بالکل بھی نہ دیں گے بلکہ جہنم اس کے لیے واجب کریں گے جو بدحال اور ہر ایک نیک کام کے ثواب سے محروم ہو کر داخل ہوگا یہ آیت مرثد بن ثمامہ کے بارے نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨ (مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّــلْنَا لَهٗ فِيْهَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِيْدُ )- یہاں پر ” دنیا “ کی بجائے ” عاجلہ “ کا لفظ آیا ہے۔ یہ دونوں الفاظ مؤنث ہیں۔ ” ادنیٰ “ قریب کی چیز کو کہا جاتا ہے اس کی مونث ” دنیا “ ہے جبکہ ” عاجل “ کے معنی جلدی والی چیز کے ہیں اور اس کی مؤنث ” عاجلہ “ ہے۔ یہ دنیا نقد کا سودا ہے یہاں پر راحت بھی فوراً آسودگی دیتی ہے اور اس کی تکلیف بھی فوری طور پر خود کو محسوس کراتی ہے۔ اسی لیے اسے ” عاجلہ “ کہا گیا ہے۔ عاجلہ کے مقابلے میں آیت زیر نظر میں ” آخرت “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کہ قرآن حکیم میں اکثر ” دنیا “ کے مقابلے میں بھی آتا ہے۔ دنیا یا عاجلہ کے مقابلے میں آخرت کو آخرت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثواب و عذاب بعد میں آنے والی چیز ہے۔- آیت زیر نظر میں جو اصول بیان ہوا ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص دنیا کی عیش اور دنیا کی دولت و شہرت حاصل کرنے کا خواہش مند ہو اور صرف اسی کے لیے منصوبہ بندی محنت اور دوڑ دھوپ کرے اس کی محنت اور دوڑ دھوپ کو اللہ کسی نہ کسی درجہ میں کامیاب کردیتا ہے ‘ مگر ضروری نہیں کہ جس قدر کوئی دنیا سمیٹنا چاہے اسی قدر اسے مل بھی جائے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو کوئی بھی اس “ عاجلہ “ کو پانے کی دوڑ میں شامل ہو کامیاب ٹھہرے بلکہ ہر کسی کو وہی کچھ ملے گا جو اللہ چاہے گا اور صرف اسی کو ملے گا جس کے لیے وہ چاہے گا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو حصول دنیا کے لیے ساری عمر اپنے آپ کو ہلکان کردیتے ہیں مگر دنیا پھر بھی ہاتھ نہیں آتی۔ چناچہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ جس کو وہ چاہتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے دنیا میں اس کی محنت کا صلہ دے دیتا ہے۔- (ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ ۚ يَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا)- اس شخص کی خواہش اور محنت سب دنیا کے لیے کی تھی چناچہ دنیا کسی نہ کسی قدر اسے دے دی گئی۔ آخرت کے لیے اس نے خواہش کی تھی اور نہ محنت لہٰذا آخرت میں سوائے جہنم کے اس کے لیے اور کچھ نہیں ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :19 عاجلہ کےلغوی معنی ہیں جلدی ملنے والی چیز ۔ اور اصطلاحا قرآن مجید اس لفظ کو دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے جس کے فائدے اور نتائج اسی زندگی میں حاصل ہو جاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے کی اصطلاح ” آخرت “ ہے جس کے فوائد اور نتائج کو موت کے بعد دوسری زندگی تک مؤخر کر دیا گیا ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :20 مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو نہیں مانتا ، یا آخرت تک صبر کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی کوششوں کا مقصود صرف دنیا اور اس کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو بناتا ہے ، اسے جو کچھ بھی ملے گا بس دنیا میں مل جائے گا ۔ آخرت میں وہ کچھ نہیں پا سکتا ۔ اور بات صرف یہیں تک نہ رہے گی کہ اسے کوئی خوشحالی آخرت میں نصیب نہ ہوگی ، بلکہ مزید برآں دنیا پرستی ، اور آخرت کی جوابدہی و ذمہ داری سے بے پرواہی اس کے طرز عمل کو بنیادی طور پر ایسا غلط کر کے رکھ دے گی کہ آخرت میں وہ الٹا جہنم کا مستحق ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: یہ اس شخص کا ذکر ہے جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دنیا کی بہتری کو بنارکھا ہے اور آخرت پر یا تو ایمان نہیں، یا اس کی کوئی فکر نہیں، نیز اس قسم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو کوئی نیکی کا کام دنیا کی دولت یا شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دنیا کے یہ فوائد ملنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، نہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ جتنے فائدے وہ چاہ رہے ہیں وہ سب مل جائیں، البتہ ان میں سے جن کو ہم مناسب سمجھتے ہیں دنیا میں دے دیتے ہیں، مگر آخرت میں ان کا انجام جہنم ہے۔