Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر دانی کے لئے تین چیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں، 1۔ ارادہ آخرت، یعنی اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی 2۔ ایسی کوشش جو اس کے لائق ہو، یعنی سنت کے مطابق، 3۔ ایمان کیونکہ اس کے بغیر تو کوئی عمل بھی قابل توجہ نہیں۔ یعنی قبولیت عمل کے لئے ایمان کے ساتھ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩ ١] اس کے مقابلہ میں جو شخص اخروی اجر اور نجات کو ملحوظ رکھ کر اپنی زندگی بسر کرے اور اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان بھی رکھتا ہو۔ اسے یقیناً آخرت میں اس کے نیک اعمال کا اجر ملے گا، دوزخ کے عذاب سے بچ جائے گا اور دنیا بھی اتنی ضرور مل جائے گی جتنی اس کے مقدر میں ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ ۔۔ : اس آیت میں عمل کی قبولیت کی تین شرطیں بیان ہوئی ہیں، جن میں بنیادی شرط ” وَهُوَ مُؤْمِنٌ“ یعنی ایمان ہے، یہ بات بہت سی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٢٤) ، نحل (٩٧) اور مومن (٤٠) وغیرہ۔ کافر کے نیک اعمال قیامت کے دن بےکار ہوں گے۔ دیکھیے سورة ابراہیم (١٨) ، فرقان (٢٣) اور نور (٣٩) وغیرہ۔ کیونکہ کافر کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں اسے دے دیا جاتا ہے۔ دیکھیے ہود (١٥، ١٦) ، شوریٰ (٢٠) احقاف (٢٠) وغیرہ۔ کافر کی نیکیوں کی مثال صدقہ، صلہ رحمی، مہمان نوازی اور مظلوموں کی مدد وغیرہ ہے۔ - دوسری شرط اخلاص ہے، جو ” اَرَادَ الْاٰخِرَةَ “ سے ظاہر ہے اور تیسری شرط آخرت کے لائق عمل صالح ہے، جو ” وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا “ سے ظاہر ہو رہی ہے اور یہ وہ عمل ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہو، ایسے عمل کا بدلہ ضرور ملے گا اور کئی گنا یا بےحساب ملے گا، جیسا کہ کئی آیات میں مذکور ہے : (اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) [ الزمر : ١٠ ] ” صرف کامل صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر کسی شمار کے بغیر دیا جائے گا۔ “ تو جس سعی کو اللہ تعالیٰ مشکور قرار دے وہ ایسی ہی ہوتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

بدعت اور خود رائی کا عمل کتنا ہی اچھا نظر آئے مقبول نہیں :- اس آیت میں سعی وعمل کے ساتھ لفظ سَعْيَهَا بڑھا کر یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ہر عمل اور ہر کوشش نہ مفید ہوتی ہے نہ عند اللہ مقبول بلکہ عمل وسعی وہی معتبر ہے جو مقصد (آخرت) کے مناسب ہو اور مناسب ہونا یا نہ ہونا یہ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان سے ہی معلوم ہوسکتا ہے اس لئے جو نیک اعمال خود رائی اور من گھڑت طریقوں سے کئے جاتے ہیں جنمیں بدعات کی عام رسوم شامل ہیں وہ دیکھنے میں کتنے ہی بھلے اور مفید نظر آئیں مگر آخرت کے لئے سعی مناسب نہیں اس لئے نہ وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہیں اور نہ آخرت میں کار آمد۔- اور تفسیر روح المعانی نے سَعْيَهَا کی تشریح میں سعی کے مطابق سنت ہونے کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اس عمل میں استقامت بھی ہو یعنی عمل مفید مطابق سنت بھی ہو اور اس پر استقامت اور مداومت بھی ہو بد نظمی کے ساتھ کبھی کرلیا کبھی نہ کیا اس سے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا 19؀- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - سعی - السَّعْيُ : المشي السّريع، وهو دون العدو، ويستعمل للجدّ في الأمر، خيرا کان أو شرّا، قال تعالی: وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] ، وقال : نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8] ، وقال : وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] ، وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] ، وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] ، إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] ، وقال تعالی: وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] ، كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وقال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] .- وأكثر ما يستعمل السَّعْيُ في الأفعال المحمودة، قال الشاعر :- 234-- إن أجز علقمة بن سعد سعيه ... لا أجزه ببلاء يوم واحد - «3» وقال تعالی: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] ، أي : أدرک ما سعی في طلبه، وخصّ المشي فيما بين الصّفا والمروة بالسعي، وخصّت السّعاية بالنمیمة، وبأخذ الصّدقة، وبکسب المکاتب لعتق رقبته، والمساعاة بالفجور، والمسعاة بطلب المکرمة، قال تعالی: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] ، أي : اجتهدوا في أن يظهروا لنا عجزا فيما أنزلناه من الآیات .- ( س ع ی ) السعی - تیز چلنے کو کہتے ہیں اور یہ عدو ( سرپٹ دوڑ ) سے کم درجہ ( کی رفتار ) ہے ( مجازا ) کسی اچھے یا برے کام کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَعى فِي خَرابِها[ البقرة 114] اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو ۔ نُورُهُمْ يَسْعى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ [ التحریم 8]( بلکہ ) ان کا نور ( ایمان ) ان کے آگے ۔۔۔۔۔۔ چل رہا ہوگا ۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً [ المائدة 64] اور ملک میں فساد کرنے کو ڈوڑتے بھریں ۔ وَإِذا تَوَلَّى سَعى فِي الْأَرْضِ [ البقرة 205] اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں ( فتنہ انگریزی کرنے کے لئے ) دوڑتا پھرتا ہے ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى [ النجم 39- 40] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور یہ کہ اس کی کوشش دیکھی جائے گی ۔ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى [ اللیل 4] تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے ۔ وَسَعى لَها سَعْيَها [ الإسراء 19] اور اس میں اتنی کوشش کرے جتنی اسے لائق ہے اور وہ مومن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] تو اس کی کوشش رائگاں نی جائے گی لیکن اکثر طور پر سعی کا لفظ افعال محمود میں استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) 228 ) ان جز علقمہ بن سیف سعیہ لا اجزہ ببلاء یوم واحد اگر میں علقمہ بن سیف کو اس کی مساعی کا بدلہ دوں تو ایک دن کے حسن کردار کا بدلہ نہیں دے سکتا اور قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ [ الصافات 102] جب ان کے ساتھ دوڑ نے کی عمر کو پہنچا ۔ یعنی اس عمر کو پہنچ گیا کہ کام کاج میں باپ کا ہاتھ بٹا سکے اور مناسب حج میں سعی کا لفظ صفا اور مردہ کے درمیان چلنے کے لئے مخصوص ہوچکا ہے اور سعاد یۃ کے معنی خاص کر چغلی کھانے اور صد قہ وصول کرنے کے آتے ہیں اور مکاتب غلام کے اپنے آپ کو آزاد کردانے کے لئے مال کمائے پر بھی سعایۃ کا لفظ بولا جاتا ہے مسا عا ۃ کا لفظ فسق و محور اور مسعادۃ کا لفظ اچھے کاموں کے لئے کوشش کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ سبأ 5] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں اپنے زعم باطل میں ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی میں سعی کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہماری نازل کر آیات میں ہمارے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے پوری طاقت صرف کر دالی ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) اور جو شخص اپنے ان مفروضہ اعمال صالحہ میں جنت کی نیت رکھے گا اور جنت کے لیے جیسے اعمال کرنے چاہیں ویسے ہی عمل کرے گا بشرطیکہ وہ مومن مخلص بھی ہو تو اس کا یہ عمل اللہ کے نزدیک مقبول ہوگا یہ آیت حضرت بلال (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَسَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ)- یعنی اس کی یہ طلب صرف زبانی دعویٰ تک محدود نہ ہو بلکہ حصول آخرت کے لیے وہ ٹھوس اور حقیقی کوشش بھی کرے جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔ اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اہل ایمان میں سے ہو کیونکہ ایمان کے بغیر اللہ کے ہاں بڑی سے بڑی نیکی بھی قابل قبول نہیں ہے۔- (فَاُولٰۗىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا)- اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ یہ آیت ہم میں سے ہر ایک کے لیے لٹمس ٹیسٹ ہے۔ اس ٹیسٹ کی مدد سے ہر شخص ٹھیک سے معلوم کرسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے کس موڑ پر کس حیثیت سے کھڑ ا ہے ؟ چناچہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی منصوبہ بندیوں اور شبانہ روز بھاگ دوڑ کی ترجیحات کا تجزیہ کر کے اپنا احتساب کرے کہ وہ کس قدر دنیا کا طالب ہے اور کس حد تک فلاح آخرت کو پانے کا خواہش مند ؟ بہر حال دنیا پر آخرت کو ترجیح دینا اور پھر اپنے قول و فعل سے اپنی ترجیحات کو ثابت کرنا ایک کٹھن اور دشوار کام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو اس کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :21 یعنی اس کے کام کی قدر کی جائے گی اور جتنی اور جیسی کوشش بھی اس نے آخرت کی کامیابی کے لیے کی ہوگی اس کا پھل وہ ضرور پائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani