Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حق دار کو حق دیا جاتا ہے یعنی ان دونوں قسم کے لوگوں کو ایک وہ جن کا مطلب صرف دنیا ہے دوسرے وہ جو طالب آخرت ہیں دونوں قسم کے لوگوں کو ہم بڑھاتے رہتے ہیں جس میں بھی وہ ہیں ، یہ تیرے رب کی عطا ہے ، وہ ایسا متصرف اور حاکم ہے جو کبھی ظلم نہیں کرتا ۔ مستحق سعادت کو سعادت اور مستحق شقاوت کو شقاوت دے دیتا ہے ۔ اس کے احکام کوئی رد نہیں کر سکتا ، اس کے روکے ہوئے کو کوئی دے نہیں سکتا اس کے ارادوں کو کوئی ڈال نہیں سکتا ۔ تیرے رب کی نعمتیں عام ہیں ، نہ کسی کے روکے رکیں ، نہ کسی کے ہٹائے ہیٹیں وہ نہ کم ہوتی ہیں نہ گھٹتی ہیں ۔ دیکھ لو کہ دنیا میں ہم نے انسانوں کے کیسے مختلف درجے رکھے ہیں ان میں امیر بھی ہیں ، فقیر بھی ہیں درمیانہ حالت میں بھی ہیں ، اچھے بھی ہیں ، برے بھی ہیں اور درمیانہ درجے کے بھی ۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے ، کوئی بوڑھا بڑا ہو کر ، کوئی اس کے درمیان ۔ آخرت درجوں کے اعتبار سے دنیا سے بھی بڑھی ہوئی ہے کچھ تو طوق و زنجیر پہنے ہوئے جہنم کے گڑھوں میں ہوں گے ، کچھ جنت کے درجوں میں ہوں گے ، بلند و بالا بالا خانوں میں نعمت و راحت سرور و خوشی میں ، پھر خود جنتیوں میں بھی درجوں کا تفاوت ہو گا ایک ایک درجے میں زمین و آسمان کا سا تفاوت ہو گا ۔ جنت میں ایسے ایک سو درجے ہیں ۔ بلند درجوں والے اہل علین کو اس طرح دیکھیں گے جیسے تم کسی چمکتے ستارے کو آسمان کی اونچائی پر دیکھتے ہو ۔ پس آخرت درجوں اور فضیلتوں کے اعتبار سے بہت بڑی ہے ، طبرانی میں ہے جو بندہ دنیا میں جو درجہ چڑھنا چاہے گا اور اپنی خواہش میں کامیاب ہو جائے گا درجہ گھٹا دے گا جو اس سے بہت بڑا ہے پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

20۔ 1 یعنی دنیا کا رزق اور اس کی آسائشیں ہم بلا تفریق مومن اور کافر، طالب دنیا اور طالب آخرت سب کو دیتے ہیں۔ اللہ کی نعمتیں کسی سے بھی روکی نہیں جاتیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] کوئی دوسرے کا رزق روک نہیں سکتا :۔ کیونکہ دنیوی مال و دولت اللہ کی بخشش ہے۔ جو اس دنیادار کو بھی ملتی ہے جو صرف اسی کے لیے کوشاں رہتا ہے اور آخرت کے طلبگار کو بھی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہوتی ہے۔ دنیا کے طلبگار کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ آخرت کے طلبگار کی روزی بند کردے اور نہ ہی آخرت کے طلبگار کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیا کے طلب گار کی روزی بند کردے۔ یہ زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار تو اللہ نے پہلے سے ہی پیدا کردیئے ہیں جن سے ہر شخص خواہ وہ دنیا کا طلبگار ہو یا آخرت کا اپنے ارادہ اور اپنی بساط کے مطابق یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اس کے مقدر میں ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ ۔۔ : ” مَحْظُوْرًا “ ” حَظَرَ یَحْظُرُ “ (ن) سے اسم مفعول ہے، بمعنی روکنا، یعنی ہم مومن و کافر، نیک و بد ہر ایک کو رزق اور دنیا کی نعمتوں سے نوازتے ہیں، ایسا نہیں کہ گناہ یا کفر کی وجہ سے اس کا رزق بند کردیں، کیونکہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، نیکی یا بدی کی وجہ سے رزق بند کرنے سے یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ ہاں اللہ کی تقدیر کے مطابق مومن کا رزق کم یا زیادہ ہوسکتا ہے اور کافر کا بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا 20؀- مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ - عطا - العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء :- الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص 39]- ( ع ط و ) العطوا - ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔- حظر - الحَظْرُ : جمع الشیء في حَظِيرَة، والمَحْظُور : الممنوع، والمُحْتَظِرُ : الذي يعمل الحظیرة . قال تعالی: فَكانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ [ القمر 31] ، وقد جاء فلان بالحظِرِ الرّطب، أي : الکذب المستبشع «1» .- ( ح ظ ر ) الحظر - ( ن ) کے معنی کسی چیز کو حظٰیرہ یعنی احاطہ میں جمع کرنے کے ہیں اور ممنوع کو محظور کہا جاتا ہے ۔ المحتظر باڑہ بنانے والا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَكانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ [ القمر 31] تو وہ ایسے ہوگئے جیسے باڑو والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔ جاء فلان بالحظرالرطب ( مثل ) یعنی اس نے بہت قبیح جھوٹ بولا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دنیا میں سامان زیست مومن و کافر سب کو نصیب ہے - قول باری ہے (کلا نمد ھولآء وھو لاء من عطاء ربک ان کو بھی اور انکو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں) سامان زیست دیئے جا رہے ہیں یہ تیرے رب کا عطیہ ہے) دنیا کے خواہشمند اور آخرت کے طلبگار کا ذکر پہلے گزر چکا اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے ارادہ اور قصد کے نتیجے میں جو کچھ ملنے والا ہے اس کا حکم بھی بیان ہوگیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتایا کہ دنیا میں اس کی نعمتیں نیکو کار اور بدکار دونوں تک پھیلی ہوئی ہیں البتہ آخرت میں یہ نعمتیں صرف نیکو کاروں کے لئے مخصوص ہوں گی ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شمس و قمر ، ارض و سماء اور ان کے فوائد، آب و ہوا ، نباتات و حیوانات، غذائیں و دوائیں، جسمانی صحت و دعا فیت غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں کا دائرہ نیکو کاروں اور بدکاروں سب تک وسیع ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٠) آپ کے رب کی عطا میں تم ہم اہل اطاعت کی بھی امداد کرتے ہیں اور اہل معصیت کو بھی مال و دولت دیتے ہیں اور آپ کے رب کی یہ عطا نیک وبد سے بند نہیں ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ )- یہ دنیا چونکہ دار الامتحان ہے اس لیے جب تک انسان یہاں موجود ہیں ان میں سے کوئی مجرم ہو یا اطاعت گزار ہر ایک کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نوازش ہے جس میں سے وہ اپنے نافرمانوں اور دشمنوں کو بھی نواز رہا ہے۔- (وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا)- دنیا میں اللہ تعالیٰ کی یہ عطا اور بخشش عام ہے۔ اس میں دوست اور دشمن کے امتیاز کی بنیاد پر کوئی قدغن یا روک ٹوک نہیں ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :22 یعنی دنیا میں رزق اور سامان زندگی دنیا پرستوں کو بھی مل رہا ہے اور آخرت کے طلبگاروں کو بھی عطیہ اللہ ہی کا ہے ، کسی اور کا نہیں ہے ۔ نہ دنیا پرستوں میں یہ طاقت ہے کہ آخرت کے طلبگاروں کو رزق سے محروم کر دیں ، اور نہ آخرت کے طلب گار ہی یہ قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا پرستوں تک اللہ کی نعمت نہ پہنچنے دیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: یہاں عطا سے مراد دنیا کا رزق ہے یعنی مومن و کافر اور متقی اور فاسق ہر شخص کو دنیا میں اللہ تعالیٰ رزق عطا فرماتے ہیں، یہ رزق کسی پر بند نہیں۔