Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ذلیل کی عادتیں یہ احکام ہم نے دئیے ہیں ۔ سب بہترین اوصاف ہیں اور جن باتوں سے ہم نے روکا ہے وہ بڑی ذلیل خصلتیں ہیں ہم یہ سب باتیں تیری طرف بذریعہ وحی کے نازل فرما رہے ہیں کہ تو لوگوں کو حکم دے اور منع کرے ۔ دیکھ میرے ساتھ کسی کو معبود نہ ٹھیرانا ورنہ وہ وقت آئے گا کہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگے گا اور اللہ کی طرف سے بھی ملامت ہو گی بلکہ تمام اور مخلوق کی طرف سے بھی ۔ اور تو ہر بھلائی سے دور کر دیا جائے گا ۔ اس آیت میں بواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی امت سے خطاب ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو معصوم ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٩] یہ سب باتیں بیش بہا نصیحتیں اور حکمت کے موتی ہیں۔ جن پر تمہارے تہذیب و تمدن اور عقائد و اخلاق کی عمارت استوار ہوگی۔ ان تمام باتوں میں سے پہلی بات توحید سے متعلق تھی اسی پر ان نصائح کا اختتام ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان سب کا اصل الاصول توحید ہی ہے لہذا آخر میں اس کی پھر تاکید کی گئی۔ کیونکہ توحید کے بغیر تو کوئی نیکی بھی کام نہ آسکے گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ ۔۔ : نصیحت کی ابتدا ” لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ “ سے ہوئی تھی اور اسی کے ساتھ بات ختم فرمائی۔ اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٢٢) کی تفسیر۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ باتیں (یعنی احکام مذکورہ) اس حکمت میں کی ہیں جو خدا تعالیٰ نے آپ پر وحی کے ذریعہ بھیجی ہیں (اور اے مخاطب) اللہ برحق کے ساتھ کوئی اور معبود تجویز نہ کرنا ورنہ تو الزام خوردہ اور راندہ ہو کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا (احکام مذکورہ کو شروع بھی توحید کے مضمون سے کیا گیا تھا ختم بھی اسی پر کیا گیا اور آگے بھی اسی مضمون توحید کا بیان ہے کہ جب اوپر شرک کا قبیح اور باطل ہونا سن لیا) تو کیا (پھر بھی ایسی باتوں کے قائل ہوتے ہو جو توحید کے خلاف ہیں مثلا یہ کہ) تمہارے رب نے تم کو تو بیٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے اور خود فرشتوں کو (اپنی) بیٹیاں بنائی ہیں (جیسا کہ عرب کے جاہل فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے جو دو وجہ سے باطل ہے اول تو اللہ کے لئے اولاد قرار دینا پھر اولاد بھی لڑکیاں جن کو لوگ اپنے لئے پسند نہیں کرتے ناکارہ سمجھتے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ کی طرف ایک اور نقص کی نسبت ہوتی ہے) بیشک تم بڑی بات کہتے ہو اور (افسوس تو یہ ہے کہ اس مضمون توحید اور شرک کے ابطال کو) ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان کردیا ہے تاکہ اچھی طرح سمجھ لیں اور مختلف طریقوں سے بار بار توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال کے وجود توحید سے) ان کو نفرت ہی جاتی ہے آپ (ابطال شرک کے لئے ان سے) فرمائیے کہ اگر اس (معبود برحق) کے ساتھ اور معبود بھی (شریک) ہوتے جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو اس حالت میں عرش والے (حقیقی خدا) تک انہوں نے (یعنی دوسرے معبودوں نے کبھی کا) راستہ ڈھونڈ لیا ہوتا) (یعنی جن کو تم اللہ کے ساتھ خدائی کا شریک قرار دیتے ہو اگر وہ واقعی شریک ہوتے تو عرش والے خدا پر چڑھائی کردیتے اور راستہ ڈھونڈ لیتے اور جب خداؤوں میں جنگ ہوجاتی تو دنیا کا نظام کس طرح چلتا جس کا ایک خاص نظام محکم کے ساتھ چلنا ہر شخص مشاہدہ کر رہا ہے اس لئے نظام عالم کا صحیح طور پر چلتے رہنا خود اس کی دلیل ہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہے اس سے ثابت ہوا کہ) یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور اس سے بہت زیادہ بالا و برتر ہے (وہ ایسا پاک ہے کہ) تمام ساتوں آسمان اور زمین اور جتنے (فرشتے آدمی اور جن) ان میں (موجود) ہیں (سب کے سب قالا یا حالا) اس کی پاکی بیان کر رہے ہیں اور (یہ تسبیح صرف عقل والے انسان اور جن کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ زمین و آسمان کی) کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی تسبیح (پاکی بیان کرنے کو) سمجھتے نہیں ہو بیشک وہ بڑا حلیم بڑا غفور ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۭ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا 39؀- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - لوم - اللَّوْمُ : عذل الإنسان بنسبته إلى ما فيه لوم . يقال : لُمْتُهُ فهو مَلُومٌ. قال تعالی: فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] ، فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32]- ( ل و م ) لمتہ - ( ن ) لوما کے معنی کسی کو برے فعل کے ارتکاب پر برا بھلا کہنے اور ملامت کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ [إبراهيم 22] تو آج مجھے ملامت نہ کرو ا پنے آپ ہی کو ملامت کرو ۔ فَذلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ [يوسف 32] یہ وہی ہے جس گے بارے میں تم ۔ مجھے طعنے دیتی تھیں - دحر - الدَّحْر : الطّرد والإبعاد، يقال : دَحَرَهُ دُحُوراً ، قال تعالی: اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً- [ الأعراف 18] ، وقال : فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ، وقال : وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] .- ( د ح ر ) - الدحر والداحور ۔ ( ن) کے معنی دھتکار دینے اور دور کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ اخْرُجْ مِنْها مَذْؤُماً مَدْحُوراً [ الأعراف 18] نکل جا یہاں سے ذلیل دھتکارا ہوا ۔ فَتُلْقى فِي جَهَنَّمَ مَلُوماً مَدْحُوراً [ الإسراء 39] ملامت زدہ اور درگاہ خدا سے راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے ۔ وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جانِبٍ دُحُوراً [ الصافات 8- 9] اور ہر طرف سے ( ان پر انگارے ) پھینےّ جاتے ہیں ۔ ( یعنی وہاں سے ) نکال دینے کو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٩) جن باتوں کا آپ کے ذریعے سے حکم دیا گیا ہے یہ اس حکمت میں کی ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آپ پر وحی کے ذریعے بھیجی ہیں اور اے مخاطب اللہ برحق کے ساتھ اور کوئی معبود مت تجویز کرنا ورنہ تو خود اپنے نفس کو ملامت کرنے والا اور ہر ایک بھلائی سے دور ہر کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (ذٰلِكَ مِمَّآ اَوْحٰٓى اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ )- یہ احکام نوع انسانی کے لیے خزینہ حکمت ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن ثقافت اور اجتماعیت کے ان اصولوں پر کاربند ہو کر انسان اسی دنیا میں اپنی اجتماعی زندگی کو جنت بنا سکتا ہے۔- (وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا)- یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان احکام میں اول و آخر توحید کا حکم دیا گیا ہے۔ آغاز میں (وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا الآَّ اِیَّاہُ ) کے الفاظ آئے تھے ‘ جبکہ آخر میں اسی مضمون کو ( وَلاَ تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ) کے الفاظ میں پھر دہرایا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :45 بظاہر تو خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر ایسے مواقع پر اللہ تعالی اپنے نبی کو خطاب کر کے جو بات فرمایا کرتا ہے اس کا اصل مخاطب ہر انسان ہوا کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani