Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

لوگو عقل کے ناخن لو جو مشرک اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں اور انہیں شریک الہٰی مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہی کی وجہ سے ہم قرب الہٰی حاصل کر سکتے ہیں ان سے کہو کہ اگر تمہارا یہ گمان فاسد کچھ بھی جان رکھتا ہوتا اور اللہ کے ساتھ واقعی کوئی ایسے معبود ہوتے کہ وہ جسے چاہیں قرب الہٰی دلوا دیں اور جس کی جو چاہیں سفارش کر دیں تو خود وہ معبود ہی اس کی عبادت کرتے اس کا قرب ڈھونڈتے پس تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے ، نہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت ، نہ دوسرے معبود کی کوئی ضرورت کہ اللہ میں اور تم میں وہ واسطہ بنے ۔ اللہ کو یہ واسطے سخت نا پسند اور مکروہ معلوم ہوتے ہیں اور ان سے وہ انکار کرتا ہے اپنے تمام نبیوں رسولوں کی زبان سے اس سے منع فرماتا ہے ۔ اس کی ذات ظالموں کے بیان کردہ اس وصف سے بالکل پاک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ان آلودگیوں سے ہمارا مولا پاک ہے ، وہ احمد اور صمد ہے ، وہ ماں باپ اور اولاد سے پاک ہے ، اس کی جنس کا کوئی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر لشکر کشی کر کے غلبہ و قوت حاصل کرلیتا ہے، اسی طرح دوسرے معبود بھی اللہ پر غلبے کی کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے۔ اور اب تک ایسا نہیں ہوا، جب کہ ان معبودوں کو پوجتے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہی نہیں، کوئی با اختیار ہی نہیں، دوسرے معنی ہیں کہ وہ اب تک اللہ کا قرب حاصل کرچکے ہوتے اور یہ مشرکین جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں، انھیں بھی وہ اللہ کے قریب کرچکے ہوتے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] زیادہ خداؤں کا لازمی نتیجہ :۔ اس آیت میں خطاب ان خاص قسم کے مشرکوں سے ہے جنہوں نے بیشمار دیوتا اور دیویاں تجویز کر رکھی ہیں اور انھیں کسی نہ کسی چیز کا مختار تسلیم کیا جاتا ہے مثلاً فلاں بارش کا دیوتا ہے، فلاں پھلوں کا دیوتا ہے۔ فلاں مال و دولت کی دیوی ہے اور فلاں محبت کی، فلاں موت کا دیوتا ہے اور فلاں زندگی کا۔ اس عقیدہ کی تردید کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اگر یہ دیوتا اپنے اپنے اختیارات استعمال کریں تو کائنات کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے مثلاً قحط کا دیوتا بارش روکنا چاہے اور بارش کا برسانا چاہے تو ان کی ضد بازی سے کائنات کا نظام اور اس میں ہم آہنگی برقرار ہی نہیں رہ سکتی۔ لیکن یہاں جس پہلو کو اجاگر کیا جارہا ہے وہ دوسرا پہلو ہے جو یہ ہے کہ ہر صاحب اختیار کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ اس کے اختیارات میں مزید وسعت پیدا ہوجائے بلکہ ہر صاحب اختیار کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ پورا اختیار و اقتدار کسی طرح اسے ہی حاصل ہوجائے۔ اب ایسے چھوٹے صاحب اختیار بڑے اختیار والے کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیتے ہیں تاکہ اسے اقتدار سے محروم کردیں۔ جیسا کہ آج کل کے جمہوری نظام میں یہ تماشا سرسری نگاہوں سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ جو سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے۔ حزب اختلاف کی سب پارٹیاں مل کر صاحب اقتدار پارٹی کی ٹانگ کھینچنا اور اسے اقتدار سے محروم کرنا چاہتی ہیں اور بسا اوقات وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں یہی مثال اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی ہے کہ اگر فی الواقع اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی دیوتا یا دیویاں با اختیار موجود ہوتے تو وہ یقیناً بڑے اختیار والے اللہ یا مہادیو کو اقتدار و اختیار سے محروم کرنے کی ضرور کوشش کرتے اور چونکہ فی الواقع ایسا کبھی نہیں ہوا تو اس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن معبودوں کو تم نے صاحب اختیار سمجھ رکھا ہے وہ صاحب اختیار نہیں ہیں۔ اور ان کا وجود اس کائنات میں ہونا ناممکن ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗٓ اٰلِـهَةٌ ۔۔ : یعنی اس سے لڑنے اور اس کا تخت الٹ دینے کے لیے جاتے، کیونکہ وہ بھی اپنے کو معبود سمجھتے ہوتے اور جب ایسا نہیں ہوا اور تم دیکھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کا نظام خالص اپنی مرضی سے چلا رہا ہے اور یہ نظام اپنی پوری ہم آہنگی اور تناسب سے چل رہا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے مقابلے میں تم نے جتنی زندہ یا مردہ ہستیوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، وہ سب باطل و بےحقیقت چیزیں ہیں۔ اس آیت کی مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة مومنون (٩١، ٩٢) اور انبیاء (٢٢) ۔- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ عرش پر ہونا صرف رب تعالیٰ کی صفت ہے، کوئی بھی مخلوق عرش پر نہیں جاسکتی، جو لوگ بیان کرتے ہیں کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرش پر گئے ان کی بات درست نہیں، کیونکہ یہ آیت اس کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی شخصیت کے عرش پر جانے کی کوئی دلیل ثابت نہیں۔ رہی یہ بات کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے یا نہیں ؟ اس کی بحث سورة نجم کے شروع میں آئے گی۔ (ان شاء اللہ)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- توحید کی جو دلیل آیت اِذًا لَّابْتَغَوْا میں بیان فرمائی ہے کہ اگر تمام کائنات عالم کا خالق مالک اور متصرف صرف ایک ذات اللہ کی نہ ہو بلکہ اس خدائی میں اور بھی شریک ہوں تو ضرور ہے کہ ان میں کبھی اختلاف بھی ہوگا اور اختلاف کی صورت میں سارا نظام عالم برباد ہوجائے گا کیونکہ ان سب میں دائمی صلح ہونا اور ہمیشہ باقی رہنا عادۃ ممتنع ہے یہ دلیل یہاں اگرچہ امتناعی انداز میں بیان کی گئی ہے مگر علم کلام کی کتابوں میں اس دلیل کا برہانی اور منطقی ہونا بھی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗٓ اٰلِـهَةٌ كَمَا يَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًا 42؀- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- ابتغاء - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے - پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢۔ ٤٣) اور اگر اس معبود برحق کے ساتھ مقابل ان لوگوں کے اور بھی معبود ہوتے تو انہوں نے ابھی تک عرش والے تک اپنی قدرومنزلت کو یا یہ کہ راستہ کو تلاش کرلیا ہوتا، اللہ تعالیٰ شانہ کی ذات بابرکت اولاد اور شریک سے پاک اور ان کی شرکیہ باتوں سے بہت زیادہ برتر اور ہر ایک چیز سے بلند ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (قُلْ لَّوْ كَانَ مَعَهٗٓ اٰلِـهَةٌ كَمَا يَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّابْتَغَوْا اِلٰى ذِي الْعَرْشِ سَبِيْلًا )- اگر واقعی اللہ کے ساتھ ساتھ دوسرے معبودوں کا بھی کوئی وجود ہوتا تو وہ ضرور سرکشی اور بغاوت کرتے ہوئے اس کے مقابلے میں آنے کی کوشش کرتے۔ جس طرح چھوٹے چھوٹے راجوں کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح کوشش کر کے مہاراجہ کی کرسی تک پہنچ جائیں اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ بغاوت تک کا خطرہ مول لے لیتے ہیں اسی طرح اگر اللہ کے بھی شریک ہوتے تو وہ بھی اللہ کے مقابلے میں ضرور مہم جوئی کرتے اور اگر ایسا ہوتا تو اس کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :47 یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے ۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں ۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو ، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدائی اختیارات دے رکھے ہوں ۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ ، ہر معاملے میں ، ایک دوسرے کے ارادے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی ، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے ۔ ناگزیر تھا کہ ان کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے ۔ رہی دوسری صورت ، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا ۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدائی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا ، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا ، اور فورا ہی خداوند عالم بن جانے کی فکر شروع کر دیتا ۔ جس کائنات میں گیہوں کا ایک دانہ اور گھاس کا ایک تنکا بھی اس وقت تک پیدا نہ ہوتا ہو جب تک کہ زمین و آسمان کی ساری قوتیں مل کر اس کے لیے کام نہ کریں ، اس کے متعلق صرف ایک انتہاء درجے کا جاہل اور کند ذہن آدمی ہی یہ قصور کر سکتا ہے کہ اس کی فرمانروائی ایک سے زیادہ خود مختار یا نیم مختار خدا کر رہے ہونگے ۔ ورنہ جس نے کچھ بھی اس نظام کے مزاج اور طبیعت کو سمجھنے کی کوشش کی ہو وہ تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہاں خدائی بالکل ایک ہی کی ہے اور اس کے ساتھ کسی درجے میں بھی کسی اور کے شریک ہونے کا قطعی امکان نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: یہ توحید کے حق میں اور شرک کے خلاف ایک عام فہم دلیل ہے اور وہ یہ کہ خدا ایسی ذات ہی کو کہا جاسکتا ہے جو ہر کام پر قدرت رکھتی ہو، اور کسی کے حکم کے تابع نہ ہو۔ اب اگر اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آزاد ہوتا، اور سب کی قدرت کامل ہوتی۔ چنانچہ یہ دوسرے خدا مل کر عرش والے خدا پر چڑھائی بھی کرسکتے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کو خدا پر چڑھائی کرنے کی قدرت نہیں ہے، اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے محکوم ہیں تو پھر وہ خدا ہی کیا ہوئے؟ ثابت ہوگیا کہ کائنات میں حقیقی خدا تو ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔