Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سبحان العلی الاعلی ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت ، تسبیح ، تنزیہ ، تعظیم ، جلالت ، بزرگی ، بڑائی ، پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے اور مشرکین جو نکمے اور باطل اوصاف ذات حق کے لئے مانتے ہیں ، ان سے یہ تمام مخلوق برات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی الوہیت اور ربوبیت میں اسے واحد اور لا شریک مانتی ہے ۔ ہر ہستی اللہ کی توحید کی زندہ شہادت ہے ۔ ان نالائق لوگوں کے اقوال سے مخلوق تکلیف میں ہے ۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے ، زمین دھنس جائے ، پہاڑ ٹوٹ جائیں ۔ طبرانی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے جبرائیل و میکائیل مسجد اقصی تک شب معراج میں لے گئے ، جبرائیل آب کے دائیں تھے اور میکائیل بائیں ۔ آپ کو ساتوں آسمان تک اڑا لے گئے وہاں سے آپ لوٹے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحات کے ساتھ یہ تسبیح سنی کہ سبحت السموات العلی من ذی المہابۃ مشفقات الذوی العلو بما علا سبحان العلی سبحانہ وتعالی مخلوق میں سے ہر ایک چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کر رتی ہے ۔ لیکن اے لوگو تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ تماری زبان میں نہیں ۔ حیوانات ، نباتات ، جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے ۔ ابو ذر والی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں ، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح باری کر رہی تھیں ۔ اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں بھی ۔ یہ حدیث صحیح میں اور مسندوں میں مشہور ہے ۔ کچھ لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیوں اور جانوروں پر سوار کھڑے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ سواری سلامتی کے ساتھ لو اور پھر اچھائی سے چھوڑ دیا کرو راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو لوگوں سے باتیں کرنے کی کرسیاں اپنی سواریوں کو نہ بنا لیا کرو ۔ سنو بہت سے سواریاں اپنے سواروں سے بھی زیادہ ذکر اللہ کرنے والی اور ان سے بھی بہتر افضل ہوتی ہیں ۔ ( مسند احمد ) سنن نسائی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مار ڈالنے کو منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح الہٰی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کا کلمہ اخلاص کہنے کے بعد ہی کسی کی نیکی قابل قبول ہوتی ہے ۔ الحمد للہ کلمہ شکر ہے اس کا نہ کہنے والا اللہ کا ناشکرا ہے ۔ اللہ اکبر زمین و آسمان کی فضا بھر دیتا ہے ، سبحان اللہ کا کلمہ مخلوق کی تسبیح ہے ۔ اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا ۔ جب کوئی لا حول والا قوۃ الا باللہ پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرا بندہ مطیع ہوا اور مجھے سونپا ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی طیالسی جبہ پہنے ہوئے جس میں ریشمی کف اور ریشمی گھنڈیاں تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس شخص کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ چرواہوں کے لڑکوں کو اونچا کرے اور سرداروں کے لڑکوں کو ذلیل کرے ۔ آپ کو غصہ آ گیا اور اس کا دامن گھسیٹتے ہوئے فرمایا کہ تجھے میں جانورں کا لباس پہنے ہوئے تو نہیں دیکھتا ؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے ديئے اور بیٹھ کر فرمانے لگے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو بلا کر فرمایا کہ میں تمہیں بطور وصیت کے دو حکم دیتا ہوں اور دو ممانعت ایک تو میں تمہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں دوسرے تکبر سے روکتا ہوں اور پہلے حکم تو تمہیں یہ کرتا ہوں کہ لا الہ الا اللہ کہتے رہو اس لئے کہ اگر آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزیں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے میں صرف یہی کلمہ ہو تو بھی یہی کلمہ وزنی رہے گا سو اگر تمام آسمان و زمین ایک حلقہ بنا دئے جائیں اور ان پر اس کو رکھ دیا جائے تو وہ انہیں پاش پاش کر دے ، دوسرا حکم میرا سبحان اللہ و بحمدہ پڑھنے کا ہے کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ آپ نے فرمایا آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے لڑکے کو کیا حکم دیا فرمایا کہ پیارے بچے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سبحان اللہ کہا کرو ، یہ کل مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی سے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر چیز اس کی تسبیح و حمد بیان کرتی ہے اس کی اسناد بوجہ اودی راوی کے ضعیف ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ستون ، درخت ، دروازوں کی چولیں ، ان کی کھلنے اور بند ہونے کی آواز ، پانی کی کھڑ کھڑاہٹ یہ سب تسبیح الہٰی ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہر چیز حمد و ثنا کے بیان میں مشغول ہے ۔ ابراہیم کہتے ہیں طعام بھی تسبیح خوانی کرتا ہے سورہ حج کی آیت بھی اس کی شہادت دیتی ہے ۔ اور مفسرین کہتے ہیں کہ ہر ذی روح چیز تسبیح خواں ہے ۔ ، جیسے حیوانات اور نباتات ۔ ایک مرتبہ حضرت حسن رحمۃ اللہ کے پاس خوان آیا تو ابو یزید قاشی نے کہا کہ اے ابو سعید کیا یہ خوان بھی تسبیح گو ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تر لکڑی کی صورت میں تھا تسبیح گو تھا جب کٹ کر سوکھ گیا تسبیح جاتی رہی ۔ اس قول کی تائید میں اس حدیث سے بھی مدد لی جا سکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہیں فرماتے ہیں انہیں عذاب کیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں نہیں ایک تو پیشاب کے وقت پردے کا خیال نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا ، پھر آپ نے ایک تر ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دئے اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ، ان کے عذاب میں تخفیف رہے ( بخاری ومسلم ) اس سے بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تسبیح پڑھتی رہیں گی جب خشک ہو جائیں گی تسبیح بند ہو جائے گی واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے اپنے گنہگاروں کو سزا کرنے میں جلدی نہیں کرتا ، تاخیر کرتا ہے ، ڈھیل دیتا ہے ، پھر بھی اگر کفر و فسق پر اڑا رہے تو اچانک عذاب مسلط کر دیتا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ کو مہلت دیتا ہے ، پھر جب مواخذہ کرتا ہے تو نہیں چھوڑتا ۔ دیکھو قرآن میں ہے کہ جب تیرا رب کسی بستی کے لوگوں کو ان کے مظالم پر پکڑتا ہے تو پھر ایسی ہی پکڑ ہوتی ہے الخ اور آیت میں ہے کہ بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر آخرش پکڑ لیا ۔ اور آیت میں ہے آیت ( فَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا وَهِىَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِهَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَّقَصْرٍ مَّشِيْدٍ 45؀ ) 22- الحج:45 ) ہاں جو گناہوں سے رک جائے ، ان سے ہٹ جائے ، توبہ کرے تو اللہ بھی اس پر رحم اور مہربانی کرتا ہے ۔ جیسے آیت قرآن میں ہے جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے ؟ پھر استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا ۔ سورہ فاطر کے آخر کی آیتوں میں یہی بیان ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 یعنی سب اسی کے مطیع اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہیں۔ گو ہم ان کی تسبیح وتحمید کو نہ سمجھ سکیں۔ اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے مثلًا حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے (اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ ) 38 ۔ ص :18) ہم نے پہاڑوں کو داؤد (علیہ السلام) کے تابع کردیا بس وہ شام کو اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں۔ بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ ) 2 ۔ البقرۃ :74) اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں، ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، اسی طرح جس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب لکڑی کا منبر بن گیا اور اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھوڑ دیا تو بچے کی طرح اس سے رونے کی آواز آتی تھی (بخاری نمبر 3583) مکہ میں ایک پتھر تھا جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا کرتا تھا (صحیح مسلم۔ 1782) ان آیات و صحیح حدیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جسے گو ہم نہ سمجھ سکیں، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تسبیح دلالت ہے یعنی یہ چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام کائنات کا خالق اور ہر چیز پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وفی کل شیء لہ آیۃ۔ تدل علی انہ واحد۔ ہر چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے کہ تسبیح اپنے حقیقی معنی میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٤] سَبَحَ کا لغوی مفہوم :۔ سَبَحَکے لغوی معنی کسی چیز کا ہوا یا پانی میں تیرنا اور تیزی سے گزر جانا ہے (مفردات القرآن) پھر اس لفظ کا استعمال کسی کام کو سرعت کے ساتھ انجام دینے پر بھی ہونے لگا جیسے ارشاد باری ہے (اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا ۝ۭ ) 73 ۔ المزمل :7) (دن کے وقت تو آپ کو اور بہت سے شغل ہوتے ہیں) اور سبحان کا لفظ سبح کا مصدر ہے جیسے غفر سے غفران ہے اور اس میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اس کائنات میں لاکھوں اور کروڑوں سیارے فضا میں نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لغزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ ہی تصادم یا ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر، تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بےتدبیری اور عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہوسکتی ہے اور کائنات کی جملہ اشیاء کا یہ عمل جس کے تحت وہ مدبر ہستی کے مجوزہ قوانین کے تحت سرگرم عمل ہیں، ان کی تسبیح، فرمانبرداری یا عبادت کہلاتا ہے گویا کائنات کی جملہ اشیاء زبان حال یا اپنے عمل سے اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ ان کا انتظام کرنے والی ہستی ہر طرح کے عیوب اور نقائص سے پاک ہے۔ اور وہ صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے۔ یہ تو ہے ہر چیز کی عملی تسبیح۔- کائنات کی ہر چیز کی تسبیح کا مفہوم :۔ اور قولی یا زبانی تسبیح کی صورت یہ ہے کہ انسانوں، جنوں یا فرشتوں کی تسبیح زندگی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے بالا و برتر، موثر اور قابل فہم ہوتی ہے۔ حیوانات کی اس سے کم اور جمادات کی اس سے کم، جن و انس کی تسبیح کی صورت چونکہ اختیاری ہے لہذا گاہے گاہے ہوتی ہے جبکہ باقی تمام اشیاء ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتی ہیں اور جب کوئی چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تو اس پر اللہ کی رحمت کا نزول بھی ہوتا ہے۔ جس مخلوق کی تسبیح جتنی واضح ہوگی، اتنا ہی زیادہ رحمت کا نزول ہوگا اور اس توجیہہ کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ آپ نے ایک دفعہ ایک قبر پر ایک ٹہنی کی دوشاخیں بنا کر انھیں قبر میں گاڑ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہ ہوجائیں امید ہے کہ ان پر عذاب کم رہے (بخاری، کتاب الوضوئ، باب من الکبائر، ان لایستتر من بولہ) یعنی ہری ٹہنی کی تسبیح سوکھی ٹہنی سے زیادہ موثر اور قابل فہم ہوتی ہے اسی لحاظ سے اس پر رحمت کا نزول سوکھی ٹہنی سے زیادہ ہوگا اور اس رحمت کے نزول کا مردہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ عذاب قبر میں تخفیف ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۔۔ : زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہے۔ ” سَبَحَ یَسْبَحُ “ (ف) کا معنی پانی یا ہوا میں تیزی سے چلنا ہے۔ ” سَبَحَ سَبْحًا وَسِبَاحَۃً “ ستاروں کا افلاک میں تیز چلنا، جیسا کہ فرمایا : (وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ ) [ یٰسٓ : ٤٠ ] ” اور سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔ “ گھوڑے کا تیز چلنا، فرمایا : (ۙوَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا) [ النازعات : ٣ ] البتہ باب تفعیل ” اَلتَّسْبِیْحُ “ کا معنی اللہ تعالیٰ کی تنزیہ، یعنی اسے ہر عیب اور کمی سے پاک قرار دینا ہے۔ اصل اس کا بھی اطاعت، عبادت اور پاکیزگی بیان کرنے میں مستعدی و تیزی دکھانا ہے۔ (ملخص از راغب) بعض مفسرین نے کہا، مراد یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں زبان حال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کر رہی ہیں، یعنی ان کی حالت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انھیں بنانے والا ہر قسم کے عیب سے یا عاجز ہونے سے پاک ہے۔ مگر اس تاویل کی ضرورت تب ہے کہ یہ تمام چیزیں اپنی زبان سے تسبیح نہ کرسکتی ہوں، حالانکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ہر چیز میں ادراک اور سمجھ موجود ہے اور اسے اپنی عبادت اور تسبیح کا طریقہ بھی معلوم ہے، لیکن ان کی اپنی زبان ہے جسے ہم نہیں سمجھتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں موجود ہر شخص اور پر پھیلاتے ہوئے پرندوں کے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں اور اس کے بعد فرمایا : (كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ) [ النور : ٤١ ] ” ہر ایک نے یقیناً اپنی نماز اور اپنی تسبیح جان لی ہے۔ “ اور فرمایا : (اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ 18؀ۙوَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ) [ ص : ١٨، ١٩] ” بیشک ہم نے پہاڑوں کو اس کے ہمراہ مسخر کردیا، وہ دن کے پچھلے پہر اور سورج چڑھنے کے وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندوں کو بھی، جب کہ وہ اکٹھے کیے ہوتے، سب اس کے لیے رجوع کرنے والے تھے۔ “ داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی بھی سکھا دی تھی۔ (دیکھیے نمل : ١٦) بلکہ چیونٹیوں اور پرندوں کے ساتھ ان کی گفتگو بھی سورة نمل (١٧ تا ٢٨) میں ذکر فرمائی۔ اس مقام پر بھی فرمایا : ” اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ “ معلوم ہوا کہ مراد زبان حال سے تسبیح نہیں، کیونکہ یہ زبان تو ہر شخص سمجھتا ہے اور فی الواقع کائنات کے ہر ذرے کی حالت اپنے پیدا کرنے والے کی لا محدود قدرت کی اور اس کے ہر کمزوری اور ہر عیب سے پاک ہونے کی شہادت دے رہی ہے۔ اس لیے یہاں ہر چیز کا صرف اپنی زبان حال ہی سے نہیں بلکہ اپنی زبان قال سے بھی تسبیح کرنا مراد ہے اور یہ کچھ بعید نہیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں : ( وَلَقَدْ کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِیْحَ الطَّعَامِ وَھُوَ یُؤْکَلُ ) [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ٣٥٧٩ ] ” ہم ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں) کھانے کی تسبیح سنتے تھے، جب کہ وہ کھایا جا رہا ہوتا تھا۔ “ جمادات و نباتات کے سمجھ رکھنے، محبت اور بغض رکھنے اور تسبیح کے مزید واقعات کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٧٤) ۔- اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا : اسی لیے وہ تمہاری سب گستاخیاں اور نافرمانیاں دیکھتا ہے، مگر قدرت رکھنے کے باوجود تم سے درگزر فرماتا ہے اور تم پر کوئی عذاب نہیں بھیجتا، بلکہ نہ تمہارا رزق بند کرتا ہے اور نہ تمہیں اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے، اگر اس کا حد سے بڑھا ہوا یہ حلم اور پردہ پوشی نہ ہوتی تو تمہارا کام کب کا تمام ہوچکا ہوتا۔ دیکھیے سورة نحل (٦١) اور سورة فاطر (٤٥) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

زمین و آسمان اور ان میں موجود تمام چیزوں کے تسبیح کرنے کا مطلب :- ان چیزوں میں فرشتے سب کے سب اور انسان وجن جو مومن ہیں ان کا اللہ کی تسبیح کرنا تو بدیہی ہے سبھی جانتے ہیں کافر انسان اور جن جو بظاہر تسبیح نہیں کرتے اسی طرح عالم کی دوسری چیزیں جن کو کہا جاتا ہے کہ ان میں عقل و شعور نہیں ہے ان کے تسبیح پڑھنے کا مطلب کیا ہے بعض علماء نے فرمایا کہ ان کی تسبیح سے مراد تسبیح حال یعنی ان کے حالات کی شہادت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کا مجموعی حال بتلا رہا ہے یہی شہادت حال اس کی تسبیح ہے۔- مگر دوسرے اہل تحقیق کا قول یہ ہے کہ تسبیح اختیاری تو صرف فرشتے اور مومن جن و انس کے لئے مخصوص ہے مگر تکوینی طور پر اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ذرہ ذرہ کو اپنا تسبیح خواں بنا رکھا ہے کافر بھی اول تو عموما خدا تعالیٰ کو مانتے اور اس کی عظمت کے قائل ہیں اور جو مادہ پرست دھریے یا آج کل کے کمیونسٹ خدا کے وجود کے بظاہر قائل نہیں مگر ان کے وجود کا ہر جز جبری طور پر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے جیسے درخت اور پتھر مٹی وغیرہ سب چیزیں تسبیح حق میں مشغول ہیں مگر ان کی یہ تسبیح جو جبری اور تکوینی ہے یہ عام لوگ سنتے نہیں قرآن کریم کا ارشاد (آیت) وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ہر ذرہ ذرہ کی تسبیح تکوینی کوئی ایسی چیز ہے جس کو عام انسان سمجھ نہیں سکتے تسبیح حالی کو تو اہل عقل وفہم جان سکتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہ تسبیح صرف حالی نہیں حقیقی ہے مگر ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے (ذکرہ القرطبی)- حدیث میں جو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معجزہ مذکور ہے کہ آپ کی مٹھی میں کنکروں کا تسبیح کرنا صحابہ کرام (رض) اجمعین نے کانوں سے سنا اس کا معجزہ ہونا تو ظاہر ہے مگر خصائص کبری میں شیخ جلال الدین سیوطی نے فرمایا کہ کنکروں کا تسبیح پڑھنا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ نہیں وہ تو جہاں کہیں بھی ہیں تسبیح پڑھتی ہیں بلکہ معجزہ آپ کا یہ ہے کہ آپ کے دست مبارک میں آنے کے بعد ان کی وہ تسبیح کانوں سے سنی جانے لگی۔- امام قرطبی نے اسی تحقیق کو راجح قرار دیا ہے اور اس پر قرآن وسنت کے بہت دلائل پیش کئے ہیں مثلا سورة ص میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد ہے (آیت) اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ (یعنی ہم نے پہاڑوں کو مسخر کردیا کہ وہ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ صبح و شام تسبیح کرتے ہیں اور سورة بقرہ میں پہاڑوں کے پتھروں کے متعلق ارشاد ہے (آیت) اِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ (یعنی پہاڑ کے بعض پتھر اللہ کے خوف سے نیچے گر جاتے ہیں) جس سے پتھروں میں شعور میں و ادراک اور خدا کا خوف ہونا ثابت ہوا اور سورة مریم میں نصاری کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہنے کی تردید میں فرمایا (آیت) وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا یعنی یہ لوگ اللہ کے لئے بیٹا تجویز کرتے ہیں ان کے اس کلمہ کفر سے پہاڑوں پر خوف طاری ہوجاتا ہے اور وہ گرنے لگتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ خوف ان کے شعور و ادراک کا پتہ دیتا ہے اور شعور و ادراک کے بعد تسبیح کرنا کوئی امر مستبعد نہیں رہتا۔- اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے کہتا ہے کہ اے فلاں کیا تیرے اوپر کوئی ایسا آدمی گذرا ہے جو اللہ کو یاد کرنے والا ہو اگر وہ کہتا ہے کہ ہاں تو یہ پہاڑ اس سے خوش ہوتا ہے اس پر استدلال کے لئے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے یہ آیت پڑھی قالوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا اور پھر فرمایا کہ جب اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ پہاڑ کلمات کفر سننے سے متاثر ہوتے ہیں ان پر خوف طاری ہوجاتا ہے تو کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ باطل کلمات کو سنتے ہیں حق بات اور ذکر اللہ نہیں سنتے اور اس سے متاثر نہیں ہوتے (قرطبی بحوالہ دقائق ابن مبارک) اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی جن اور انسان اور درخت اور پتھر اور ڈھیلا ایسا نہیں جو موذن کی آواز سنتا ہے اور قیامت کے روز اس کے ایمان اور نیک ہونے کی شہادت نہ دے (مؤ طا امام مالک و سنن ابن ماجہ بروایت ابی سعید خدری (رض) - امام بخاری نے روایت حضرت حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نقل کیا ہے کہ ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے جبکہ وہ کھایا جا رہا ہو اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہم رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھاتے تو کھانے کی تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت جابر بن سمرہ (رض) مذکور ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں مکہ مکرمہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت ونبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا اور میں اب بھی اس کو پہچانتا ہوں بعض حضرات نے کہا کہ اس سے مراد حجر اسود ہے واللہ اعلم۔- امام قرطبی نے فرمایا کہ روایات حدیث اس طرح کے معاملات میں بہت ہیں اور اسطوانہ حنانہ کی حکایت تو عام مسلمانوں کی زبان زد ہے جس کے رونے کی آواز صحابہ کرام (رض) اجمعین نے سنی جبکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ کے وقت اس کو چھوڑ کر منبر پر خطبہ دینا شروع کیا۔- ان روایات کے بعد اس میں کیا بعد رہ جاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز میں شعور و ادراک ہے اور ہر چیز حقیقی طور پر اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور ابراہیم نے فرمایا کہ یہ تسبیح عام ہے ذی روح چیزوں میں بھی اور غیر ذی روح چیزوں میں بھی یہاں تک کہ دروازے کے کو اڑوں کی آواز میں بھی تسبیح ہے امام قرطبی نے فرمایا کہ اگر تسبیح سے مراد تسبیح حالی ہوتی تو مذکورہ آیت میں حضرت داؤد کی کیا تخصیص رہتی تسبیح حالی تو ہر انسان ذی شعور ہر چیز سے معلوم کرسکتا ہے اس لئے ظاہر یہی ہے کی یہ تسبیح قولی تھی انتہی (اور جیسا کہ بحوالہ خصائص کبری اوپر نقل کیا ہے کہ کنکروں کا تسبیح پڑھنا معجزہ نہیں وہ ہر جگہ ہر حال اور ہر وقت میں عام ہے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ یہ تھا کہ آپ کے دست مبارک میں آنے کے بعد ان کی تسبیح اس طرح ہوگئی کہ عام لوگوں نے کانوں سے سنا اسی طرح پہاڑوں کی تسبیح بھی حضرت داؤد (علیہ السلام) کا معجزہ اسی حیثیت سے ہے کہ ان کے معجزہ سے وہ تسبیح کانوں سے سننے کے قابل ہوگئی (واللہ اعلم)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا 44؀- سبح - السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] ، ولجري الفرس نحو :- وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ- [ الصافات 143] ،- ( س ب ح ) السبح - اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر - ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔- حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم - ( ح ل م ) الحلم - کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم - کیا عقلیں ان کو سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقلیں مراد ہیں۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٤) اور وہ ایسا پاک ہے کہ تمام مخلوقات اس کی پاکی بیان کررہی ہیں اور کوئی چیز بھی ایسی نہیں، خواہ نباتات میں ہو جو کہ اس کے حکم سے اس کی پاکی (حالا یا قالا) نہ بیان کرتی ہو لیکن تم ان کی پاکی کو نہیں سمجھتے کہ کون سی زبان میں وہ پاکی بیان کر رہے ہیں۔- بیشک وہ اپنے بندوں پر بڑا حلیم ہے کہ فورا ان کی گرفت نہیں کرتا اور بڑا غفور بھی ہے کہ تو بہ کرنے والے کی مغفرت فرماتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ )- اس کائنات کی ایک ایک چیز چاہے جاندار ہو یا بظاہر بےجان وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ تسبیح کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کائنات کی ہرچیز اپنے وجود سے گویا اپنے خالق کی خلاقی اور اپنے صانع کی صناعی کا اعلان کر رہی ہے۔ جیسے ایک تصویر اپنے مصور کے معیارِ فن کا اظہار کرتی ہے لیکن تمام مخلوقات کا ایک طرز تسبیح قولی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو زبان عطا کر رکھی ہے اور وہ اپنی زبان خاص سے اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے۔ - (اِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا)- ہر چیز کا یہی انداز تسبیح ہے جس کا ادراک انسان نہیں کرسکتے۔ سورة حٰم السجدہ کی آیت ٢١ میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا ذکر ہے کہ اس نے ہرچیز کو قوت ناطقہ عطا کی ہے۔ روز محشر جب انسانوں کے اپنے اعضاء ان کے خلاف شہادت دیں گے تو وہ حیران ہو کر اپنی کھالوں سے پوچھیں گے کہ یہ سب کیا ہے ؟ (قَالُوْٓا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْٓ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ ) ” ان کے چمڑے جواب میں کہیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا کی ہے جس نے ہرچیز کو بولنا سکھایا ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :48 یعنی ساری کائنات اور اس کی ہر شئ اپنے پورے وجود سے اس حقیقت پر گواہی دے رہی ہے کہ جس نے اس کو پیدا کیا ہے اور جو اس کی پروردگاری و نگہبانی کر رہا ہے اس کی ذات ہر عیب اور نقص اور کمزوری سے منزہ ہے ، اور وہ اس سے بالکل پاک ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک و سہیم ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :49 حمد کے ساتھ تسبیح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شئ نہ صرف یہ کہ اپنے خالق اور رب کے عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہونا ظاہر کر رہی ہے ، بلکہ اس کے ساتھ وہ اس کے تمام کمالات سے متصف اور تمام تعریفوں کا مستحق ہونا بھی بیان کرتی ہے ۔ ایک ایک چیز اپنے پورے وجود سے یہ بتا رہی ہے کہ اس کا صانع اور منتظم وہ ہے جس پر سارے کمالات ختم ہوگئے ہیں اور حمد اگر ہے تو بس اسی کے لیے ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :50 یعنی اس کا علم اور اس کی شان غفاری ہے کہ تم اس کی جناب میں گستاخیوں پر گستاخیاں کیے جاتے ہو ، اور اس پر طرح طرح کے بہتان تراشتے ہو اور پھر بھی وہ درگزر کیے چلا جاتا ہے ۔ نہ رزق بند کرتا ہے ، نہ اپنی نعمتوں سے محروم کرتا ہے ، اور نہ ہر گستاخ پر فورا بجلی گرا دیتا ہے ۔ پھر یہ بھی اس کی برد باری اور اس کے درگزر ہی کا ایک کرشمہ ہے کہ وہ افراد کو بھی اور قوموں کو بھی سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دیتا ہے ، انبیاء علیہم السلام اور مصلحین اور مبلغین کو ان کی فہمائش اور رہنمائی کے لیے بار بار اٹھاتا رہتا ہے ، اور جو بھی اپنی غلطی کو محسوس کر کے سیدھا راستہ اختیار کر لے اس کی پچھلی غلطیوں کو معاف کر دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ساری چیزیں زبان حال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر چیز ایسی ہے کہ اگر اس کی تخلیق پر غور کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے، نیز ہر چیز اسی کے تابع فرمان ہے اور یہ مطلب بھی کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ ساری چیزیں حقیقی معنی میں تسبیح کرتی ہوں، اور ہم اسے نہ سمجھتے ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز یہاں تک کہ پتھروں میں بھی ایک طرح کی حس پیدا فرمائی ہے۔ اور یہ بات قرآن کریم کی کئی آیتوں کی روشنی میں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اور آج کی سائنس نے بھی یہ تسلیم کرلیا ہے کہ پتھروں میں بھی ایک طرح کی حس پائی جاتی ہے۔