کفار کا ایک نفسیاتی تجزیہ فرماتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت ان کے دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں ، کوئی اثر ان کے دلوں تک نہیں پہنچتا ۔ وہ حجاب انہیں چھپا لیتا ہے ۔ یہاں مستور ساتر کے معنی میں ہے جیسے میمون اور مشئوم معنی میں یا من اور شائم کے ہیں ۔ وہ پردے گو بظاہر نظر نہ آئیں لیکن ہدایت میں اور ان میں وہ حد فاصل ہو جاتے ہیں ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ سورہ تبت یدا کے اترنے پر عورت ام جمیل شور مچاتی دھاری دار پتھر ہاتھ میں لئے یہ کہتی ہوئی آئی کہ اس مذمم کو ہم ماننے والے نہیں ہمیں اس کا دین ناپسند ہے ، ہم اس کے فرمان کے مخالف ہیں ۔ اس وقت رسول الکریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے پاس تھے ، کہنے لگے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے اور آپ کو دیکھ لے گی ۔ آپ نے فرمایا بےفکر رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی اور آپ نے اس سے بچنے کے لئے تلاوت قرآن شروع کر دی ۔ یہی آیت تلاوت فرمائی وہ آئی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھنے لگی کہ میں نے سنا ہے ۔ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ہجو کی ہے ، آپ نے فرمایا ، نہیں ، رب کعبہ کی قسم تیری ہجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کی ، وہ یہ کہتی ہوئی لوٹی کہ تمام قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی لڑکی ہوں ۔ اکنہ کنان کی جمع ہے اس پردے نے ان کے دلوں کو ڈھک رکھا ہے جس سے یہ قرآن سمجھ نہیں سکتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے ، جس سے وہ قرآن اس طرح سن نہیں سکتے کہ انہیں فائدہ پہنچے اور جب تو قرآن میں اللہ کی وحدانیت کا ذکر پڑھتا ہے تو یہ بےطرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ نفور جمع ہے نافر کی جیسے قاعد کی جمع عقود آتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مصدر بغیر فعل ہو واللہ اعلم ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ اللہ واحد کے ذکر سے بے ایمانوں کے دل اچاٹ ہو جاتے ہیں ۔ مسلمانوں کا لا الہ الا اللہ کا مشرکوں پر بہت گراں گزرتا تھا ابلیس اور اس کا لشکر اس سے بہت چڑتا تھا ۔ اس کے دبانے کی پوری کوشش کرتا تھا لیکن اللہ کا ارادہ ان کے برخلاف اسے بلند کرنے اور عزت دینے اور پھیلانے کا تھا ۔ یہی وہ کلمہ ہے کہ اس کا قائل فلاح پاتا ہے اس کا عامل مدد دیا جاتا ہے دیکھ لو اس جزیرے کے حالات تمہارے سامنے ہیں کہ یہاں سے وہاں تک یہ پاک کلمہ پھیل گیا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد شیطانوں کا بھاگنا ہے گو بات یہ ٹھیک ہے ۔ اللہ کے ذکر سے ، اذان سے ، تلاوت قرآن سے ، شیطان بھاگتا ہے لیکن اس آیت کی تفسیر کرنا غرابت سے خالی نہیں ۔
45۔ 1 مَسْتُور بمعنی ساترٍ (مانع اور حائل) ہے مستور عن الابصار (آنکھوں سے اوجھل) پس وہ اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے اور ہدایت کے درمیان حجاب ہے۔
وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا ۔۔ : ” اَكِنَّةً “ ” کِنَانٌ“ کی جمع ہے، چھپانے والی چیز، پردہ۔” وَقْرًا “ بوجھ، مراد بہرا پن ہے۔ ” نُفُوْرًا “ ” نَافِرٌ“ کی جمع ہے، بدکتے ہوئے۔ مصدر بھی ہوسکتا ہے، نفرت کی وجہ سے، یعنی جب انھوں نے آخرت سے انکار کیا اور پھر ضد اور ہٹ دھرمی میں اس قدر بڑھ گئے کہ ہزار سمجھانے کے باوجود انکار کرتے ہی چلے گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک گہرا پردہ حائل ہوگیا، ان کے دلوں پر غلاف چڑھ گئے، مگر ایسے جو کسی کو نظر نہیں آتے، نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور ان کے کان ہر نصیحت کرنے والے کی بات سننے سے بہرے ہوگئے، مگر وہ بدبخت ان پردوں کے حائل ہونے اور قرآن کی تاثیر سے محروم ہونے پر فکر کے بجائے فخر ہی کرتے رہے اور مذاق اڑاتے رہے۔ یہود کا بھی یہی حال تھا۔ دیکھیے سورة بقرہ (٨٨) مشرکین کا حال اللہ تعالیٰ نے سورة حم السجدہ (٥) میں بیان فرمایا ہے۔ اگرچہ اس پردے کا باعث ان کی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی تھی مگر چونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے فرمایا کہ آپ کے قرآن پڑھتے وقت ہم یہ پردہ بنا دیتے ہیں۔ - ایک معنی اس آیت کا یہ بھی ہے کہ آپ جب قرآن پڑھتے ہیں اور بعض کفار آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے آتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان کے درمیان ایک ایسا پردہ حائل کردیتے ہیں جو نظر نہیں آتا، اس پردے کی وجہ سے وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے اور نہ آپ کو کوئی نقصان یا تکلیف ہی پہنچا سکتے ہیں۔ اسماء بنت ابی بکر (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب سورة لہب اتری تو عوراء ام جمیل (ابولہب کی بیوی) بڑے جوش سے ہاتھ میں پتھر پکڑے ہوئے آئی اور وہ یہ کہہ رہی تھی : ” مُذَمَّمًا أَبَیْنَا، وَأَمْرَہُ عَصَیْنَا وَ دِیْنَہُ قَلَیْنَا “ ( ہم مذمم کو نہیں مانتے اور اس کے حکم کی اطاعت نہیں کرتے اور اس کے دین سے دشمنی رکھتے ہیں) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے، ابوبکر (رض) بھی آپ کے ساتھ تھے، ابوبکر (رض) نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ یہ عورت آرہی ہے، مجھے خوف ہے کہ یہ آپ کو دیکھ لے گی۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ مجھے ہرگز نہیں دیکھے گی “ اور آپ نے اس سے بچنے کے لیے قرآن کی چند آیات پڑھیں، ان میں سے ایک آیت یہ بھی تھی : (وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا ) غرض وہ آئی اور ابوبکر (رض) کے پاس کھڑی ہوگئی، مگر اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھا۔ مختصر یہ کہ ابوبکر (رض) سے چند باتوں کے بعد وہ چلی گئی۔ [ مسند أبی یعلٰی : ٢٥۔ مستدرک حاکم : ٢؍٣٦١، ح : ٣٣٧٦ ] حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی، اس کے کئی شواہد ہیں، ارنؤوط کی ابن حبان (٦٥١) پر تعلیق ملاحظہ فرمائیں۔ - بہرحال پہلا معنی اور دوسرا دونوں درست ہیں کہ آپ کے قرآن پڑھتے وقت اگر وہ پاس ہوتے ہیں تو قرآن سننے کے باوجود اس پردے کی وجہ سے جس طرح قرآن سننے کا حق ہے نہ اسے سن سکتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں اور نہ اثر قبول کرتے ہیں اور اگر وہ ایذا رسانی کی نیت سے آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس پردے کے ذریعے سے ان کی نگاہوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ - وَاِذَا ذَكَرْتَ ۔۔ : اس آیت کی بہترین تفسیر سورة زمر کی آیت (٤٥) ہے، اس کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔
خلاصہ تفسیر :- سابقہ آیات میں یہ ذکر تھا کہ توحید کا مضمون قرآن مجید میں مختلف عنوانات اور مختلف دلائل کے ساتھ بار بار ذکر ہونے کے باوجود یہ بدنصیب مشرکین اس کو نہیں مانتے ان آیات میں ان کے نہ ماننے کی وجہ بتلائی گئی ہے کہ یہ ان آیات میں غور و فکر ہی نہیں کرتے بلکہ ان سے نفرت اور تمسخر کرتے ہیں اس لئے ان کو علم حقیقت سے اندھا کردیا گیا ہے خلاصہ تفسیر یہ ہے۔- اور جب آپ (تبلیغ کے لئے) قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ان لوگوں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (اور وہ پردہ یہ ہے کہ) ہم ان کے دلوں پر حجاب ڈال دیتے ہیں اس سے کہ وہ اس (قرآن کے مقصود) کو سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ ڈال دیتے ہیں (اس سے کہ وہ ان کو ہدایت حاصل کرنے کے لئے سنیں مطلب یہ ہے کہ وہ پردہ ان کی نافہمی کا اور اس کا ہے کہ وہ سمجھنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے جس سے وہ آپ کی شان نبوت کو پہچان سکیں) اور جب آپ قرآن میں صرف اپنے رب (کے اوصاف و کمالات) کا ذکر کرتے ہیں (اور یہ لوگ جن معبودوں کی عبادت کرتے ہیں ان میں وہ اوصاف میں نہیں) تو وہ لوگ (اپنی نافہمی بلکہ کج فہمی کے سبب اس سے) نفرت کرتے ہوئے پشت پھیر کر چل دیتے ہیں (آگے ان کے اس عمل باطل پر وعید ہے کہ) جس وقت یہ لوگ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں تو ہم خوب جانتے ہیں جس غرض سے یہ (قرآن کو) سنتے ہیں (کہ وہ غرض محض اعتراض اور طعن ونکتہ چینی کی ہے) اور جس وقت یہ لوگ (قرآن سننے کے بعد) آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں (ہم اس کو بھی خوب جانتے ہیں) جبکہ یہ ظالم یوں کہتے ہیں کہ تم لوگ (یعنی ان کی برادری میں سے جو لوگ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لگ گئے ہیں) محض ایسے شخص کا ساتھ دے رہے ہو جس پر جادو کا (خاص اثر (یعنی جنوں کا) ہوگیا ہے (یعنی یہ جو عجیب عبیب باتیں کرتے ہیں یہ سب مالیخولیا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا) آپ دیکھئے تو یہ لوگ آپ کے لئے کیسے کیسے القاب تجویز کرتے ہیں سو یہ لوگ (بالکل ہی) گمراہ ہوگئے تو (اب حق کا) راستہ نہیں پاسکتے (کیونکہ ایسی ہٹ دھرمی اور ضد اور پھر اللہ کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایسا معاملہ اس سے انسان کی استعداد فہم و ہدایت سلب ہوجاتی ہے)
وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا 45ۙ- قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - حجب - الحَجْب والحِجَاب : المنع من الوصول، يقال : حَجَبَه حَجْباً وحِجَاباً ، وحِجَاب الجوف :- ما يحجب عن الفؤاد، وقوله تعالی: وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] ، ليس يعني به ما يحجب البصر، وإنما يعني ما يمنع من وصول لذّة أهل الجنّة إلى أهل النّار، وأذيّة أهل النّار إلى أهل الجنّة، کقوله عزّ وجل : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] ، وقال عزّ وجل : وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، أي : من حيث ما لا يراه مكلّمه ومبلّغه، وقوله تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] ، يعني الشّمس إذا استترت بالمغیب . والحَاجِبُ : المانع عن السلطان، والحاجبان في الرأس لکونهما کالحاجبین للعین في الذّب عنهما . وحاجب الشمس سمّي لتقدّمه عليها تقدّم الحاجب للسلطان، وقوله عزّ وجلّ : كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] ، إشارة إلى منع النور عنهم المشار إليه بقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] .- ( ح ج ب ) الحجب - والحجاب ( ن ) کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہوجانا اور وہ پر وہ جو دل اور پیٹ کے درمیان حائل ہے اسے حجاب الجوف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف 46] اور ان دونوں ( بہشت اور دوزخ ) کے درمیان پر وہ حائل ہوگا ۔ میں حجاب سے وہ پر دہ مراد نہیں ہے جو ظاہری نظر کو روک لیتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتوں کو اہل دوزخ تک پہنچنے سے مانع ہوگی اسی طرح اہل جہنم کی اذیت کو اہل جنت تک پہنچنے سے روک دے گی ۔ جیسے فرمایا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار گھڑی کردی جائے گی اس کے باطن میں رحمت ہوگی اور بظاہر اس طرف عذاب ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری 51] ، اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بات کرے مگر الہام ( کے زریعے ) سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ میں پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں وہ ذات الہی کو دیکھ نہیں سکتا اور آیت کریمہ ؛ ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] کے معنی ہیں حتی ٰ کہ سورج غروب ہوگیا ۔ الحاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روک دیتا ہے ۔ اور حاجبان ( تنبہ ) بھویں کو کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں کے لئے بمنزلہ سلطانی دربان کے ہوتی ہیں ۔ حاجب الشمس سورج کا کنارہ اسلئے کہ وہ بھی بادشاہ کے دربان کی طرح پہلے پہل نمودار ہوتا ہے اور آیت کریمۃ ؛۔ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین 15] کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے رو ز تجلٰ الہی کو ان سے روک لیا جائیگا ( اس طرح وہ دیدار الہی سے محروم رہیں گے ) جس کے متعلق آیت کریمۃ ؛۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] میں اشارہ کیا گیا ہے ۔- ستر - السَّتْرُ : تغطية الشّيء، والسِّتْرُ والسُّتْرَةُ : ما يستتر به، قال : لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِها سِتْراً [ الكهف 90] ، حِجاباً مَسْتُوراً [ الإسراء 45] ، والِاسْتِتَارُ : الاختفاء، قال :- وَما كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ [ فصلت 22] .- ( س ت ر ) استر - ( مصدر ن ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو چھپا دینے کے ہیں اور ستر وستر ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیز چھپائی جائے قرآن میں ہے : ۔ لَمْ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِها سِتْراً [ الكهف 90] جن کے لئے ہم نے اس ( سورج ) سے بچنے کیلئے کوئی اوٹ نہیں بنائی ۔ حِجاباً مَسْتُوراً [ الإسراء 45] ایک گاڑھا پڑدہ ( حائل کردیتے ہیں ) الاستبار اس کے معنی چھپا جانے کے ہیں قرآن میں ہے وما كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ [ فصلت 22] اور اس لئے نہ چھپتے تھے ۔
قول باری ہے (واذ قرأت القرآن جعلنا بینک وبین الذین لایومنون بالاخرۃ حجابا مستوراً اور جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں) ایک قول کے مطابق آیت کو تشبیہ کے معنوں پر محمول کیا جائے گا ۔ ان لوگوں کے ایسے شخص کے ساتھ مشابہت جس کے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرآن سے بیان کردہ حکمت کی باتوں کے درمیا نپردہ حائل ہے۔ اس طرح آپ کے اور منکرین آخرت کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس کی بنا پر وہ حکمت کی ان باتوں کا ادراک نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ قتادہ سے یہی تفسیر مروی ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ آیت ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت تنگ کرتے تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے دوران قرآن کی تلاوت فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ار ان بدبختوں کے درمیان حائل ہوجاتا اور اس طرح ان کے لئے آپ کو تنگ کرنا ممکن نہ رہتا ۔ حسن کا قول ہے کہ ان کافروں کے اعراض کی بنا پر ان کی حیثیت اس شخص جیسی ہے جس کے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک پردہ حائل ہو۔
(٤٥) اور جب آپ مکہ مکرمہ میں قرآن کریم پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور ابوجہل کے درمیان جو کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ایک پردہ حائل کردیتے ہیں اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ وہ حق بات کو نہ سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ دے دیتے ہیں۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ واذا قرأت القران جعلنا بینک “۔ (الخ)- ابن منذر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن شہاب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مشرکین قریش کے سامنے قرآن کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کرتے اور ان کو کتاب اللہ کی طرف بلاتے تو وہ کہتے کہ یہ ہمیں مائل کرنا چاہتے ہیں جس کی طرف یہ ہمیں بلا رہے ہیں اس سے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں ان ہی کے اقوال روایت کردیے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت ) ” واذا قرأت القران جعلنا بینک “۔ (الخ) یعنی جب آپ قرآن کریم پڑھتے ہیں تو ہم آپ کے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتے ہیں۔
آیت ٤٥ (وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا)- اس آیت میں ایک دفعہ پھر قرآن کا ذکر آیا ہے۔ یہاں ایک غیر مرئی پردے کا ذکر ہے جو منکرین آخرت اور ہدایت کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ ایسے لوگوں کے ہر عمل کا معیار و مقصود صرف اور صرف دنیا کی زندگی ہے۔ وہ نہ تو آخرت کی زندگی کے قائل ہیں اور نہ ہی وہاں کے اجر وثواب کے بارے میں سنجیدہ۔ دنیا میں وہ ” بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست “ کے نظریے پر زندگی بسر کر رہے ہیں اور قرآن کو یا ہدایت کی کسی بھی بات کو توجہ سے نہیں سنتے۔ ایسے لوگوں کو ان کے اسی رویے کی بنا پر ہدایت سے مستقلاً محروم کردیا جاتا ہے۔ اور چونکہ یہ اللہ کا قانون ہے اس لیے آیت زیر نظر میں اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب کیا ہے کہ جب آپ انہیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو ان کے غیر سنجیدہ رویے ّ کی بنا پر ہم آپ کے اور ان کے درمیان ایک غیر مرئی پردہ حائل کردیتے ہیں۔
26: جو لوگ اپنی اصلاح اور آخرت کی فکر سے غافل ہو کر بس دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، اور حق کی کوئی طلب ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتی، بلکہ وہ حق کے مقابلے میں ضد اور عناد کی روش اختیار کرلیتے ہیں، وہ حق کو سوچنے سمجھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ ان دیکھا پردہ ہے جو ان کے اور پیغمبر کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اور یہی وہ غفلت کا غلاف ہے جو ان کے دلوں پر مسلط ہوجاتا ہے، اور ان کے کانوں میں وہ گرانی پیدا کردیتا ہے جس کی بنا پر وہ حق بات سننے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔