46۔ 1 اکنۃ، کنان کی جمع ہے ایسا پردہ جو دلوں پر پڑجائے وقر کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے انھیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر تو بھاگ ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان افعال کی نسبت اللہ کی طرف، بہ اعتبار خلق کے ہے۔ ورنہ ہدایت سے محرومی ان کے جمود وعناد ہی کا نتیجہ تھا۔
[٥٥] یہ چھپا ہوا پردہ اور دلوں پر پڑا ہوا پردہ ہونا یا ان کا ایسا محفوظ ہونا کہ کوئی بیرونی چیز ان پراثر نہ کرسکے اور کانوں کی ثقل سماعت ہونا۔ یہ سب باتیں قریش مکہ نے خود ہی بڑے فخر سے اپنے متعلق کہی تھیں۔ جیسا کہ یہی باتیں سورة حم السجدہ کی پانچویں آیت میں مذکور ہیں۔ چونکہ وہ خود بھی یہی کچھ چاہتے تھے لہذا اللہ نے انھیں ویسا ہی بنادیا۔ قریشی سرداروں نے مسلمانوں کے علاوہ اپنے آپ پر بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو اسے کوئی بھی نہ سنے لیکن وہ خود بھی اپنی اس عائد کردہ پابندی کو نبھا نہ سکے۔ تاہم مخالفت میں پہلے سے بھی بڑھتے گئے۔- [٥٦] مشرکوں کی توحید سے نفرت کی ایک نشانی :۔ کیونکہ اکیلے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے ان کے معبودوں کی از خود نفی ہوجاتی تھی جسے وہ صرف اپنے معبودوں کی ہی توہین نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی بھی توہین سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے معبودوں کی نفی کرنے یا انھیں بالکل بےاختیار کہنے کا صاف مطلب یہ نکلتا تھا کہ یہ سرداران قریش اور ان کے آباء و اجداد سب کے سب بیوقوف ہی تھے جو ان کو بااختیار سمجھ کر ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے۔ لہذا اکیلے اللہ کا ذکر سنتے تو غصہ اور نفرت کی بنا پر وہاں سے بھاگ اٹھتے۔ اور یہ بات کچھ دور نبوی کے مکہ سے مخصوص نہیں۔ آج کل کے مشرکوں کا بھی یہی حال ہے۔ آپ ان حضرات کے خطبات جمعہ اور تقریریں وغیرہ سنیں تو ان کا اکثر حصہ ان کے اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی کرامات اور تصرفات کا ذکر آئے گا۔ ابتدا میں رسمی طور پر تبرکا " کوئی آیت ضرور پڑھ لی جاتی ہے۔ لیکن بعد کی تقریر بس ان بزرگوں کی مدح وثناء اور کرامات وغیرہ بیان کی جاتی ہیں اور ان کے پیرو کار پسند بھی ایسی ہی تقریر کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں اور درمیان میں اللہ کا ذکر آجائے تو اسے بھی گوارا ہونے کی حد تک برداشت کرلیتے ہیں لیکن اگر صرف توحید باری تعالیٰ کا بیان ہو تو اس بیکیف اور کئی بار سنی ہوئی تقریر سے ان کی طبیعت بور ہوجاتی ہے۔ اور خطبہ جمعہ کے علاوہ کسی جلسہ وغیرہ میں تقریر ہو رہی ہو تو اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ۭ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا 46- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - كن - الْكِنُّ : ما يحفظ فيه الشیء . يقال : كَنَنْتُ الشیء كَنّاً : جعلته في كِنٍّ «1» ، وخُصَّ كَنَنْتُ بما يستر ببیت أو ثوب، وغیر ذلک من الأجسام، قال تعالی: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ- [ الصافات 49] ، كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] .- وأَكْنَنْتُ : بما يُستَر في النّفس . قال تعالی: أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] وجمع الکنّ أَكْنَانٌ. قال تعالی: وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] . والکِنَانُ :- الغطاء الذي يكنّ فيه الشیء، والجمع أَكِنَّةٌ.- نحو : غطاء وأغطية، قال : وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] ، وقوله تعالی: وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] . قيل : معناه في غطاء عن تفهّم ما تورده علینا، كما قالوا : يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] ، وقوله : إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ- [ الواقعة 77- 78] قيل : عنی بالکتاب الْمَكْنُونِ اللّوح المحفوظ، وقیل : هو قلوب المؤمنین، وقیل : ذلك إشارة إلى كونه محفوظا عند اللہ تعالی، كما قال : وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] وسمّيت المرأة المتزوجة كِنَّةً لکونها في كنّ من حفظ زوجها، كما سمّيت محصنة لکونها في حصن من حفظ زوجها، والْكِنَانَةُ : جُعْبة غير مشقوقة .- ( ک ن ن ) الکن - ۔ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کو محفوظ رکھا جائے ۔ کننت الشئ کنا ۔ کسی کو کن میں محفوظ کردیا ۔ اور کننت ( ثلاثی مجرد ) خصوصیت کے ساتھ کسی مادی شی کو گھر یا کپڑے وغیرہ میں چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ [ الصافات 49] گویا وہ محفوظ انڈے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور اکننت ( باب افعال سے ) دل میں کسی بات کو چھپانے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ [ البقرة 235] یا ( نکاح کی خواہش کو ) اپنے دلوں میں مخفی رکھو ۔ اور کن کی جمع اکنان آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبالِ أَكْناناً [ النحل 81] اور پہاڑوں میں تمہارے لئے غاریں بنائیں ۔ - الکنان ۔- پردہ غلاف وغیرہ جس میں کوئی چیز چھپائی جائے اس کی جمع اکنتہ آتی ہے ۔ جیسے غطاء کی جمع غطبتہ ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَجَعَلْنا عَلى قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ [ الأنعام 25] اور ہم نے انکے دلوں پر تو پردے ڈال رکھے ہیں کہ اس کو کچھ نہ سکیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقالُوا قُلُوبُنا فِي أَكِنَّةٍ [ فصلت 5] اور کہنے لگے ہمارے دل پردوں میں ہیں ۔ کے بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہم تمہاری باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جیسا کہ ودسری جگہ فرمایا : ۔ يا شُعَيْبُ ما نَفْقَهُ الآية [هود 91] انہوں نے کہا اے شیعب تمہاری بہت سے باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتابٍ مَكْنُونٍ [ الواقعة 77- 78] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے جو کتاب محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ کتا ب مکنون سے لوح محفوظ مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ قرآن میں کے عنداللہ محفوظ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [ الحجر 9] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ اور شادی شدہ عورت پر بھی کنتہ کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے خاوند کی حفاظت میں رہتی ہے اس بنا پر شادی شدہ عورت کو محصنتہ بھی کہتے ہیں ۔ گویا دو اپنے خاوند کی حفاظت کے قلعے میں محفوظ ہے ۔ الکنانتہ ۔ ترکش جو کہیں سے پھٹا ہوا نہ ہو ۔- فقه - الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] - ( ف ق ہ ) الفقہ - کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔- وقر - الوَقْرُ : الثِّقلُ في الأُذُن . يقال : وَقَرَتْ أُذُنُهُ تَقِرُ وتَوْقَرُ. قال أبو زيد : وَقِرَتْ تَوْقَرُ فهي مَوْقُورَةٌ. قال تعالی: وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] ، وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] والوَقْرُ :- الحِمْل للحمار وللبغل کالوسق للبعیر، وقد أَوْقَرْتُهُ ، ونخلةٌ مُوقِرَةٌ ومُوقَرَةٌ ، والوَقارُ : السّكونُ والحلمُ. يقال : هو وَقُورٌ ، ووَقَارٌ ومُتَوَقِّرٌ. قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً- [ نوح 13] وفلان ذو وَقْرَةٍ ، وقوله : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] قيل : هو من الوَقَارِ.- وقال بعضهم : هو من قولهم : وَقَرْتُ أَقِرُ وَقْراً. أي : جلست، والوَقِيرُ : القطیعُ العظیمُ من الضأن، كأنّ فيها وَقَاراً لکثرتها وبطء سيرها .- ( و ق ر ) الوقر - ۔ کان میں بھاری پن ۔ وقرت اذنہ تقر وتو قر کان میں ثقل ہونا یعنی باب ضرب وفتح سے آتا ہے ۔ لیکن ابوزید نے اسے سمع سے مانا ہے اور اس سے موقورۃ صفت مفعولی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَفِي آذانِنا وَقْرٌ [ فصلت 5] اور ہمارے کانوں میں بوجھ یعنی بہرہ پن ہے ۔ وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام 25] اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا ۔ نیز وقر کا لفظ گدھے یا خچر کے ایک بوجھ پر بھی بولا جاتا جیسا کہ وسق کا لفظ اونٹ کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے اور او قرتہ کے معنی بوجھ لادنے کے ہیں ۔ نخلۃ مر قرۃ ومو قرۃ پھل سے لدی ہوئی کھجور ۔ الوقار کے معنی سنجدگی اور حلم کے ہیں باوقار اور حلیم آدمی کو دقور وقار اور متوقر کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تم کو کیا ہوا کہ تم خدا کی عظمت کا اعتماد نہیں رکھتے فلان ذو و قرۃ فلاں بر د بار ہے ۔ اور آیت : ۔ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَ [ الأحزاب 33] اور اپنے گھروں میں بڑی رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قرن وقار بمعنی سکون سے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ وقرت اقر وقر ا سے ہے جس کے معنی بیٹھ رہنا کے ہیں ۔ الوقیر ۔ بھیڑ بکری کا بہت بڑا ریوڑ ۔ یہ بھی وقار سے ہے گویا کثرت رفتاری کی وقار سکون پایا جاتا ہے ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ - نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے
قول باری ہے (وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رتا کے ایک خاص حصے میں اس بات سے روک دیا تھا تاکہ ان کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا رسانی ممکن نہ رہے۔ ایک قول کے مطابق ہم نے ان پر یہ حکم لگا کر کہ وہ گمراہی کے اسی مقام پر رہیں گے ان کے دلوں کو قرآن فہمی کے لئے ناکارہ بنادیا تھا۔ اس میں ان کی ایک طرح مذمت تھی جس کی بنیاد یہ تھی کہ وہ نہ صرف حق کو سمجھنے اور اس کی طرف کان دھرنے سے پہلے بچاتے ہیں بلکہ اس سے منہ پھیر لیتے اور بدکتے بھی ہیں۔
(٤٦) اور جب آپ کلمہ لاالہ الا اللہ “۔ کا ذکر کرتے ہیں تو یہ لوگ اپنے بتوں کی طرف لوٹ جاتے اور ان کی عبادت کی طرف جھک جاتے اور آپ کے فرمان سے دور بھاگ جاتے ہیں۔
(وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا)- یہ لوگ اپنے تعصب کی وجہ سے اکیلے اللہ کا ذکر بطور معبود برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ ساتھ ان کے معبودوں کا بھی کبھی کبھار ذکر ہوا کرے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں وہ اکیلے اللہ کا ذکر سننے کو تیار نہیں ہیں۔ چناچہ وہ بدک کر نفرت کے ساتھ پیٹھ موڑ کر چلے جاتے ہیں۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :51 یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کے دل پر کفل چڑھ جائیں اور اس کے کان اس دعوت کے لیے بند ہو جائیں جو قرآن پیش کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تو دعوت ہی اس بنیاد پر ہے کہ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ نہ کھاؤ ۔ یہاں اگر کوئی حساب لینے والا جواب طلب کرنے والا نظر نہیں آتا تو یہ نہ سمجھو کہ تم کسی کے سامنے ذمہ وار و جواب دہ ہو ہی نہیں ۔ یہاں اگر شرک ، دہریت ، کفر ، توحید ، سب ہی نظریے آزادی سے اختیار کیے جاسکتے ہیں ، اور دنیوی لحاظ سے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا ، تو نہ سمجھو کہ ان کے کوئی الگ الگ مستقل نتائج ہیں ہی نہیں ۔ یہاں اگر فسق و فجور اور اطاعت وتقوی ، ہر قسم کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور عملا ان میں سے کسی رویے کا کوئی ایک لازمی نتیجہ رونما نہیں ہوتا تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی اٹل اخلاقی قانون سرے سے ہے ہی نہیں ۔ دراصل حساب طلبی و جواب دہی سب کچھ ہے ، مگر وہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہوگی ۔ توحید کا نظریہ برحق اور باقی سب نظریات باطل ہیں ، مگر ان کے اصلی اور قطعی نتائج حیات بعد الموت میں ظاہر ہوں گے اور وہیں وہ حقیقت بے نقاب ہوگی جو اس پر وہ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے ۔ ایک اٹل اخلاقی قانون ضرور ہے جس کے لحاظ سے فسق و نقصان رساں اور طاعت فائدہ بخش ہے ، مگر اس قانون کے مطابق آخری اور قطعی فیصلے بھی بعد کی زندگی ہی میں ہوں گے ۔ لہٰذا تم دنیا کی اس عارضی زندگی پر فریفتہ نہ ہو اور اس کے مشکوک نتائج پر اعتماد نہ کرو ، بلکہ اس جواب دہی پر نگاہ رکھو جو تمہیں آخرکار اپنے خدا کے سامنے کرنی ہوگی ، اور وہ صحیح اعتقادی اور اخلاقی رویہ اختیار کرو جو تمہیں آخرت کے امتحان میں کامیاب کرے ۔ یہ ہے قرآن کی دعوت ۔ اب یہ بالکل ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو شخص سرے سے آخرت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کا سارا اعتماد اسی دنیا کے مظاہر اور محسوسات و تجربات پر ہے ، وہ کبھی قرآن کی اس دعوت کو ناقابل التفات نہیں سمجھ سکتا ۔ اس کے پردہ گوش سے تو یہ آواز ٹکرا ٹکرا کر ہمیشہ اچٹتی ہی رہے گی ، کبھی دل تک پہنچنے کی راہ نہ پائے گی ۔ اسی نفسیاتی حقیقت کو اللہ تعالی ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو آخرت کو نہیں مانتا ، ہم اس کے دل اور اس کے کان قرآن کی دعوت کے لیے بند کر دیتے ہیں ۔ یعنی یہ ہمارا قانون فطرت ہے جو اس پر یوں نافذ ہوتا ہے ۔ یہ بھی خیال رہے کہ کفار مکہ کا اپنا قول تھا جسے اللہ تعالی نے ان پر الٹ دیا ہے ۔ سورہ حم سجدہ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَا اِلَیْہِ وَفِی ْاٰذَانِنَا وَقْرٌوَّ مِنْۢ بَینِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ( آیت ۵ ) یعنی وہ کہتے ہیں کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تو جس چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہو گیا ہے ۔ پس تو اپنا کام کر ، ہم اپنا کام کیے جا رہے ہیں“ ۔ یہاں ان کے اس قول کو دہرا کر اللہ تعالی یہ بتا رہا ہے کہ یہ کیفییت جسے تم اپنی خوبی سمجھ کر بیان کر رہے ہو ، تو دراصل ایک پھٹکار ہے جو تمہارے انکار آخرت کی بدولت ٹھیک قانون فطرت کے مطابق تم پر پڑی ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :52 یعنی انہیں یہ بات سخت ناگوار ہوتی ہے کہ تم بس اللہ ہی کو رب قرار دیتے ہو ، ان کے بنائے ہوئے دوسرے ارباب کا کوئی ذکر نہیں کرتے ۔ ان کو یہ وہابیت ایک آن پسند نہیں آتی کہ آدمی بس اللہ ہی اللہ کی رٹ لگائے چلا جائے ۔ نہ بزرگوں کے تصرفات کا کوئی ذکر ۔ نہ آستانوں کی فیض رسانی کا کوئی اعتراف ۔ نہ ان شخصیتوں کی خدمت میں کوئی خراج تحسین جن پر ، ان کے خیال میں ، اللہ نے اپنی خدائی کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ عجیب شخص ہے جس کے نزدیک علم غیب ہے تو اللہ کو ، قدرت ہے تو اللہ کی ، تصرفات و اختیارات ہیں تو بس ایک اللہ ہی کے ۔ آخر یہ ہمارے آستانوں والے بھی کوئی چیز ہیں یا نہیں جن کے ہاں سے ہمیں اولاد ملتی ہے ، بیماریوں کو شفا نصیب ہوتی ہے ، کاروبار چمکتے ہیں ، اور منہ مانگی مرادیں بر آتی ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الزمر ، آیت ٤۵ ، حاشیہ ٤٦ )