سرداران کفر کا المیہ سراداران کفر جو آپس میں باتیں بناتے تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی جا رہی ہیں کہ آپ تو تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں یہ چپکے چپکے کہا کرتے ہیں کہ اس پر کسی نے جادو کر دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ یہ تو ایک انسان ہے جو کھانے پینے کا محتاج ہے ۔ گو یہ لفظ اسی معنی میں شعر میں بھی ہے اور امام ابن جریر نے اسی کو ٹھیک بھی بتلایا ہے لیکن یہ غور طلب ہے ۔ ان کا ارادہ اس موقع پر اس کہنے سے یہ تھا کہ خود یہ جادو میں مبتلا ہے کوئی ہے جو اسے اس موقع پر کچھ پڑھا جاتا ۔ کافر لوگ طرح طرح کے وہم آپ کی نسبت ظاہر کرتے تھے کوئی کہتا آپ شاعر ہیں ، کوئی کہتا کاہن ہیں ، کوئی مجنوں بتلاتا ، کوئی جادوگر وغیرہ ۔ اس لئے فرماتا ہے کہ دیکھو یہ کیسے بہک رہے ہیں کہ حق کی جانب آ ہی نہیں سکتے ۔ سیرۃ محمد بن اسحاق میں ہے کہ ابو سفیان بن حرب ، ابو جہل بن ہشام ، اخنس بن شریق رات کے وقت اپنے اپنے گھروں سے کلام اللہ شریف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سننے کے لئے نکلے آپ اپنے گھر میں رات کو نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ لوگ آ کر چپ چاپ چھپ کر ادھر ادھر بیٹھ گئے ایک کو دوسرے کی خبر نہ تھی ، رات کو سنتے رہے فجر ہوتے وقت یہاں سے چلے ، اتفاقا راستے میں سب کی آپس میں ملاقات ہو گئی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور کہنے لگے اب سے یہ حرکت نہ کرنا ورنہ اور لوگ تو بالکل اسی کے ہو جائیں گے ۔ لیکن رات کو پھر یہ تینوں آ گئے اور اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر قرآن سننے میں رات گزرای ۔ صبح واپس چلے راستے میں مل گئے ، پھر سے کل کی باتیں دہرائیں اور آج پختہ ارادہ کیا کہ اب سے ایسا کام ہرگز کوئی نہ کرے گا ۔ تیسری رات پھر یہی ہوا اب کے انہوں نے کہا آؤ عہد کرلیں کہ اب نہیں آئیں گے چنانچہ قول قرار کر کے جدا ہوئے صبح کو اخنس اپنی لاٹھی سنبھالے ابو سفیان کے گھر پہچا اور کہنے لگا ابو حنظلہ مجھے بتاؤ تمہاری اپنی رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کیا ہے ؟ اس نے کہا ابو ثعلبہ جو آیتیں قرآن کی میں نے سنی ہیں ، ان میں سے بہت سی آیتوں کا تو مطلب میں جان گیا ، لیکن بہت سی آتیوں کی مراد مجھے معلوم نہیں ہوئی ۔ اخنس نے کہا واللہ میرا بھی یہی حال ہے ۔ یہاں سے ہو کر اخنس ابو جہل کے پاس پہنچا ۔ اس سے بھی یہی سوال کیا اس نے کہا سنئے ۔ شرافت و سرداری کے بارے میں ہمارا بنو عبد مناف سے مدت کا جھگڑا چلا آتا ہے انہوں نے کھلایا تو ہم نے بھی کھلانا شروع کر دیا ، انہوں نے سواریاں دیں تو ہم نے بھی انہیں سواریوں کے جانور دئے ۔ انہوں نے لوگوں کے ساتھ سلوک کئے اور ان انعامات میں ہم نے بھی ان سے پیچھے رہنا پسند نہ کیا ۔ اب جب کہ تمام باتوں میں وہ اور ہم برابر رہے اس دوڑ میں جب وہ بازی لے جا نہ سکے تو جھٹ سے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم میں نبوت ہے ، ہم میں ایک شخص ہے ، جس کے پاس آسمانی وحی آتی ہے ، اب بتاؤ اس کو ہم کیسے مان لیں ؟ واللہ نہ اس پر ہم ایمان لائیں گے نہ کبھی اسے سچا کہیں گے اسی وقت اخنس اسے چھوڑ کر چل دیا ۔
47۔ 1 یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سحر زدہ سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے قرآن سنتے اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، اس لئے ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں۔
[٥٧] کافروں کے قرآن کو غور سے سننے کی وجہ :۔ یعنی اگر وہ آپ کی باتیں غور سے سنتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ انھیں ہدایت نصیب ہو بلکہ اس لیے سنتے ہیں کہ کوئی ایسا نکتہ یا پوائنٹ ہاتھ آجائے جس کی بنا پر یا تو اس نبی کی تکذیب کرسکیں یا اس کا مضحکہ اڑا سکیں۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی باتوں کی تلاش ہو تو غور سے سننا ہی پڑتا ہے۔- [٥٨] قریش مکہ نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ ان کا کوئی شخص قرآن نہیں سنے گا لیکن اس کلام میں کچھ حلاوت اور دل نشینی اس قسم کی تھی کہ وہ اپنی عائد کردہ پابندی خود بھی نبھا نہ سکتے تھے اور چوری چھپے رات کے اندھیروں میں قرآن سن لیا کرتے پھر جب کسی ایک کو دوسرے پر یہ شک پڑجاتا ہے کہ اس نے قرآن سنا ہے۔ تو وہ آپس میں یہ کہتے تھے کہ کس شخص کی بات کرتے ہو جو خود سحر زدہ ہے اور عجیب طرح کی باتیں کرتا ہے۔
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُوْنَ بِهٖٓ ۔۔ : اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم کا ذکر فرما رہے ہیں کہ ہمیں خوب علم ہے جس نیت سے یہ اکیلے اکیلے کان لگا کر آپ کی باتیں سنتے ہیں کہ آپ پر اعتراض کریں یا مذاق اڑائیں، پھر جب وہ آپس کی مجلس میں ان پر تبصرے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے آپ کو جادو زدہ قرار دیتے ہیں۔ اپنے علم کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے کیا ہے کہ ہم ان کی حرکتوں سے بیخبر نہیں کہ یہ ہماری گرفت سے بچ جائیں گے۔
معارف و مسائل :- پیغمبر پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے :- کسی نبی اور پیغمبر پر جادو کا اثر ہوجانا ایسا ہی ممکن ہے جیسا بیماری کا اثر ہوجانا اس لئے کہ انبیاء (علیہم السلام) بشری خواص سے الگ نہیں ہوتے جیسے ان کو زخم لگ سکتا ہے بخار اور درد ہوسکتا ہے ایسے ہی جادو کا اثر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی خاص اسباب طبیعہ جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے اور حدیث میں ثابت بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سحر کا اثر ہوگیا تھا آخری آیت میں جو کفار نے آپ کو مسحور کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی اس کا حاصل وہ ہے جس کی طرف خلاصہ تفسیر میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ ان کی مراد درحقیقت مسحور کہنے سے مجنون کہنا تھا اسی کی تردید قرآن نے فرمائی ہے اس لئے حدیث سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں۔- آیات مذکورہ میں سے پہلی ودوسری آیت میں جو مضمون آیا ہے اس کا ایک خاص شان نزول ہے جو قرطبی نے سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ جب قرآن میں سورة تبت یدا ابی لہب نازل ہوئی جس میں ابولہب کی بیوی کی بھی مذمت مذکور ہے تو اس کی بیوی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں گئی اس وقت صدیق اکبر مجلس میں موجود تھے اس کو دور سے دیکھ کر آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آپ یہاں سے ہٹ جائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ عورت بڑی بدزبان ہے یہ ایسی باتیں کہے گی جس سے آپ کو تکلیف پہنچنے گی آپ نے فرمایا نہیں اس کے اور میرے درمیان اللہ تعالیٰ پردہ حائل کردیں گے چناچہ وہ مجلس میں پہنچی مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہ دیکھ سکی تو صدیق اکبر سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ آپ کے ساتھی نے ہماری ہجو کی ہے صدیق اکبر نے فرمایا کہ واللہ وہ تو کوئی شعر ہی نہیں کہتے جس میں عادۃ ہجو کی جاتی ہے تو وہ یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ تم بھی ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو اس کے چلے جانے کے بعد صدیق اکبر نے عرض کیا کہ کیا اس نے آپ کو نہیں دیکھا آپ نے فرمایا کہ جب تک وہ یہاں رہی ایک فرشتہ میرے اور اس کے درمیان پردہ کرتا رہا۔- دشمنوں کی نظر سے مستور رہنے کا ایک عمل :- حضرت کعب فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مشرکین کی آنکھوں سے مستور ہونا چاہتے تو قرآن کی تین آیتیں پڑھ لیتے تھے اس کے اثر سے کفار آپ کو نہ دیکھ سکتے تھے وہ تین آیتیں یہ ہیں ایک آیت سورة کہف میں یعنی اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا (٥٧) دوسری آیت سورة نحل میں ہے اولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ (١٠٨) اور تسیری آیت سورة جاثیہ میں ہے اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً (٢٣) - حضرت کعب فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معاملہ میں نے ملک شام کے ایک شخص سے بیان کیا اس کو کسی ضرورت سے رومیوں کے ملک میں جانا تھا وہاں گیا اور ایک زمانہ تک مقیم رہا پھر رومی کفار نے اس کو ستایا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلا ان لوگوں نے اس کا تعاقب کیا اس شخص کو وہ روایت یاد آگئی اور مذکورہ تین آیتیں پڑھیں قدرت نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا کہ جس راستہ پر یہ چل رہے تھے اسی راستہ پر دشمن گذر رہے تھے مگر وہ ان کو نہ دیکھ سکتے تھے۔- امام ثعلبی کہتے ہیں کہ حضرت کعب سے جو روایت نقل کی گئی ہے میں رئے کے رہنے والے ایک شخص کو بتلائی اتفاق سے ویلم کے کفار نے اس کو گفتار کرلیا کچھ عرصہ ان کی قید میں رہا پھر ایک روز موقع پا کر بھاگ کھڑا ہوا یہ لوگ اس کے تعاقب میں نکلے مگر اس شخص نے بھی یہ تین آیتیں پڑھ لیں اس کا یہ اثر ہوا کہ اللہ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ وہ اس کو نہ دیکھ سکے حالانکہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ان کے کپڑے ان کے کپڑوں سے چھو جاتے تھے۔- امام قرطبی کہتے ہیں کہ ان تینوں کے ساتھ وہ آیات سورة یسین کی بھی ملالی جائیں جن کو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کے وقت پڑھا تھا جبکہ مشرکین مکہ نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا آپ نے یہ آیات پڑھیں اور ان کے درمیان سے نکلتے ہوئے چلے گئے بلکہ ان کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے گئے ان میں سے کیسی کو خبر نہیں ہوئی وہ آیات سورة یسین کی یہ ہیں يٰسۗ وَالْقُرْاٰنِ الْحَكِيْمِ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤ ُ هُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلٰٓي اَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ وَجَعَلْنَا مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ سَدًّا وَّمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَاَغْشَيْنٰهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ - امام قرطبی فرماتے ہیں کہ مجھے خود اپنے ملک اندلس میں قرطبہ کے قریب قلعہ منثور میں یہ واقعہ پیش آیا کہ میں دشمن کے سامنے بھاگا اور ایک گوشہ میں بیٹھ گیا دشمن نے دو گھوڑے سوار میرے تعاقب میں بھیجے اور میں بالکل کھلے میدان میں تھا کوئی چیز پردہ کرنے والی نہ تھی مگر میں سورة یسین کی یہ آیتیں پڑھ رہا تھا یہ دونوں سوار میری برابر سے گذرے پھر جہاں سے آئے تھے یہ کہتے ہوئے لوٹ گئے کہ یہ شخص کوئی شیطان ہے کیونکہ وہ مجھے دیکھ نہ سکے اللہ تعالیٰ نے ان کو مجھ سے اندھا کردیا تھا (قرطبی)
نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُوْنَ بِهٖٓ اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ وَاِذْ هُمْ نَجْوٰٓى اِذْ يَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا 47- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - الِاسْتِمَاعُ :- الِاسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] ، - ( س م ع ) الِاسْتِمَاعُ :- اسماسع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء 47] یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔- نجو) سرگوشي)- والنَّجِيُّ : المُنَاجِي، ويقال للواحد والجمع . قال تعالی: وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا - [ مریم 52] ، وقال : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80]- ( ن ج و )- النجی کے معنی سر گوشی کرنے والے کے ہیں یہ بھی واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کیلئے نزدیک بلایا ۔ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا [يوسف 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - تبع - يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك - قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] ، - ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ - کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے - رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔
(٤٧) اور جس وقت ابوجہل وغیرہ آپ کے قرآن کریم پڑھنے کی طرف کان لگاتے ہیں تو ہم خوب جانتے ہیں کہ جس غرض سے یہ قرأت کو سنتے ہیں اور نیز جس وقت یہ لوگ آپ کے بارے میں سرگوشیاں کرتے ہیں کہ بعض ان میں سے آپ کو ساحر اور بعض شاعر اور بعض کاہن اور بعض دیوانہ کہتے ہیں اور بعض دوسروں سے کہتے ہیں کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دے رہے ہو جو کہ مغلوب العقل ہیں۔
آیت ٤٧ (نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُوْنَ بِهٖٓ اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ )- قریش مکہ کی اس چال کا ذکر پہلے بھی ہوچکا ہے۔ ان کے بعض بڑے سردار اپنے عوام کو دھوکا دینے کے لیے رسول اللہ کی مجلس میں آتے اور بظاہر بڑے انہماک سے سب کچھ سنتے۔ پھر واپس جا کر کہتے کہ لو جی ہم تو بڑے خلوص اور اشتیاق کے ساتھ گئے تھے محمد کی محفل میں کہ وہ جو کلام پیش کرتے ہیں اس کو سنیں اور سمجھیں مگر افسوس کہ ہمیں تو وہاں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس طرح وہ کوشش کرتے کہ ان کے عوام بھی ان کے ہم نوا بن جائیں اور ان میں بھی یہ سوچ عام ہوجائے کہ یہ بڑے بڑے سردار آخر سمجھدار ہیں بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں محمد کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے مخلص بھی ہیں اور اسی اخلاص میں وہ خصوصی طور پر آپ کی مجلس میں بھی جاتے ہیں۔ اگر اس نئے کلام میں کوئی خاص بات ہوتی تو وہ ضرور ان کی سمجھ میں آجاتی۔ اب جب یہ لوگ وہاں جا کر اور اس کلام کو سن کر کہہ رہے ہیں کہ اس میں کچھ بھی خاص بات نہیں ہے تو یقیناً یہ لوگ سچ ہی کہہ رہے ہیں۔- (وَاِذْ هُمْ نَجْوٰٓى اِذْ يَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا)- ان میں سے کسی کے دل پر جب قرآن کی کوئی آیت اثر کرتی ہے اور وہ اس کا اظہار اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرتا ہے کہ ہاں بھئی محمد نے آج جو فلاں بات کی ہے اس میں بہت وزن ہے اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تو ایسی صورت میں وہ فوراً اس کا توڑ کرنے کے لیے اپنے اس ساتھی کو سمجھانا شروع کردیتے ہیں کہ جی چھوڑو تم کہاں ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چل پڑے۔ ان کی باتوں پر کوئی سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :53 یہ اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو کفار مکہ کے سردار آپس میں کیا کرتے تھے ۔ ان کا حال یہ تھا کہ چھپ چھپ کر قرآن سنتے اور پھر آپس میں مشورے کرتے تھے کہ اس کا توڑ کیا ہونا چاہییے ۔ بسا اوقات انہیں اپنے ہی آدمیوں میں سے کسی پر یہ شبہہ بھی ہو جاتا تھا کہ شاید یہ شخص قرآن سن کر کچھ متاثر ہو گیا ہے ۔ اس لیے وہ سب مل کر اس کو سمجھاتے تھے کہ اجی ، یہ کس کے پھیر میں آ رہے ہو ، یہ شخص تو سحرزدہ ہے ، یعنی کسی دشمن نے اس پر جادو کر دیا ہے اس لیے بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے ۔