Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سب دوبارہ پیدا ہوں گے کافر جو قیامت کے قائل نہ تھے اور مرنے کے بعد کے جینے کو محال جانتے تھے وہ بطور انکار پوچھا کرتے تھے کہ کیا ہم جب ہڈی اور مٹی ہو جائیں گے ، غبار بن جائیں گے ، کچھ نہ رہیں گے بالکل مٹ جائیں گے ۔ پھر بھی نئی پیدائش سے پیدا ہوں گے ؟ سورہ نازعات میں ان منکروں کا قول بیان ہوا ہے کہ کیا ہم مرنے کے بعد الٹے پاؤں زندگی میں لوٹائے جائیں گے ؟ اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں؟ بھئی یہ تو بڑے ہی خسارے کی بات ہے ۔ سورہ یاسین میں ہے کہ یہ ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے بیٹھ گیا اور اپنی پیدائش کو فراموش کر گیا ۔ الخ پس انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ہڈیاں تو کیا تم خواہ پتھر بن جاؤ خواہ لوہا بن جاؤ ۔ خواہ اس سے بھی زیادہ سخت چیز بن جاؤ مثلا پہاڑ یا زمین یا آیمان بلکہ تم خود موت ہی کیوں نہ بن جاؤ اللہ پر تمہارا جلانا مشکل نہیں جو چاہو ہو جاؤ دوبارہ اٹھو گے ضرور ۔ حدیث میں ہے کہ بھیڑ یے کی صورت میں موت کو قیامت کے دن جنت دوزخ کے درمیان لایا جاتا ہے اور دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے پہچانتے ہو ؟ سب کہیں گے ہاں پھر اسے وہیں ذبح کر دیا جائے گا اور منادی ہو جائے گی کہ اے جنتیو اب دوام ہے موت نہیں اور اے جہنمیو اب ہمیشہ قیام ہے موت نہیں ۔ یہاں فرمان ہے کہ یہ پوچھتے ہیں کہ اچھا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہو جائیں یا پتھر اور لوہا ہو جائیں گے یا جو ہم چاہیں اور جو بڑی سے بڑی سخت چیز ہو وہ ہم ہو جائیں تو یہ تو بتلاؤ کہ کس کے اختیار میں ہے کہ اب ہمیں پھر سے اس زندگی کی طرف لوٹا دے ؟ ان کے اس سوال اور بےجا اعتراض کے جواب میں تو انہیں سمجھا کہ تمہیں لوٹانے والا تمہارا سچا خالق اللہ تعالیٰ ہے ۔ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے جب کہ تم کچھ نہ تھے ۔ پھر اس پر دوسری بار کی پیدائش کیا گراں ہے ؟ بلکہ بہت آسان ہے تم خواہ کچھ بھی بن جاؤ ۔ یہ جواب چونکہ لا جواب ہے حیران تو ہو جائیں گے لیکن پھر بھی اپنی شرارت سے باز نہ آئیں گے ، ، بد عقیدگی نہ چھوڑیں گے اور بطور مذاق سر ہلاتے ہوئے کہیں گے کہ اچھایہ ہوگا کب ؟ سچے ہو تو وقت کا تعین کر دو ۔ بے ایمانوں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ جلدی مچاتے رہتے ہیں ۔ ہاں ہے تو وہ وقت قریب ہی ، تم اس کے لئے انتظار کر لو ، غلفت نہ برتو ۔ اس کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔ آنے والی چیز کو آئی ہوئی سمجھا کرو ۔ اللہ کی ایک آواز کے ساتھ ہی تم زمین سے نکل کھڑے ہوؤ گے ایک آنکھ جھپکانے کی جیر بھی تو نہ لگے گی ۔ اللہ کے فرمان کے ساتھ ہی تم سے میدان محشر پر ہو جائے گا ۔ قبروں سے اٹھ کر اللہ کی تعریفیں کرتے ہوئے اس کے احکام کی بجا آوری میں کھڑے ہو جاؤ گے ۔ حمد کے لائق وہی ہے تم اس کے حکم سے اور ارادے سے باہر نہیں ہو ۔ حدیث میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر ان کی والوں پر ان کی قبر میں کوئی وحشت نہیں ہو گی ۔ گویا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ قبروں سے اٹھ رہے ہیں اپنے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے لا الہ الا للہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ کہیں گے کہ اللہ کی حمد ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ سورہ فاطر کی تفسیر میں یہ بیان آ رہا ہے ان شاء اللہ ۔ اس وقت تمہارا یقین ہو گا کہ تم بہت ہی کم مدت دنیا میں رہے گویا صبح یا شام کوئی کہے گا دس دن کوئی کہے گا ایک دن کوئی سمجھے گا ایک ساعت ہی ۔ سوال پر یہی کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی ۔ اور اس پر قسمیں کھائیں گے ۔ اسی طرح دنیا میں بھی اپنے جھوٹ پر قسمیں کھاتے رہے تھے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٠] یعنی آپ کے مسحور ہونے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جو شخص یہ کہتا ہو کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے، ہماری ہڈیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ تب بھی ہمیں زندہ کرکے از سر نو اٹھایا جائے گا بھلا اس کے سحر زدہ ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے۔ ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ۔۔ : ” وَّرُفَاتًا “ ” رَفَتَ یَرْفُتُ “ (ن، ض) سے ” فُتَاتًا “ کی طرح ہے، وہ چیز جو ریزہ ریزہ کرکے مٹی کی طرح کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بعد قیامت پر کفار کے اعتراض کا ذکر کرکے اس کا جواب دیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم (مر کر) ہڈیاں اور (ہڈیوں کا بھی) چورا (یعنی ریزہ ریزہ) ہوجاویں گے تو کیا (اس کے بعد قیامت میں) ہم از سر نو پیدا اور زندہ کئے جاویں گے (یعنی اول تو مر کر زندہ ہونا ہی مشکل ہے کہ جسم میں زندگی کی صلاحیت نہیں رہی پھر جبکہ وہ جسم بھی ریزہ ریزہ ہو کر اس کے اجزاء منتشر ہوجاویں تو اس کے زندہ ہونے کو کون مان سکتا ہے) آپ (ان کے جواب میں) فرما دیجئے کہ (تم تو ہڈیوں ہی کی حیات کو بعید سمجھتے ہو اور ہم کہتے ہیں کہ) تم پتھر یا لوہا یا اور کوئی ایسی مخلوق ہو کر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں (زندگی کی صلاحیت سے) بہت ہی بعید ہو (پھر دیکھو کہ زندہ کئے جاؤ گے یا نہیں اور پتھر اور لوہے کو بعید از حیات قرار دینا اس لئے ظاہر ہے کہ ان میں کسی وقت بھی حیات حیوانی نہیں آتی بخلاف ہڈیوں کے کہ ان میں پہلے اس وقت تک حیات رہ چکی ہے تو جب پتھر لوہے کا زندہ کرنا اللہ کے لئے مشکل نہیں تو اعضائے انسانی کو دوبارہ زندگی بخش دینا کیا مشکل ہوگا اور آیت میں لفظ کونوا جو صیغہ امر ہے اس سے مراد یہاں امر نہیں بلکہ ایک تعلیق اور شرط ہے کہ اگر تم بالفرض پتھر اور لوہا بھی ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ پھر بھی تمہیں دوبارہ زندہ کردینے پر قادر ہے) اس پر وہ پوچھیں گے کہ وہ کون ہے جو دوبارہ ہم کو زندہ کرے گا آپ فرما دیجئے کہ وہ وہ ہے جس نے تم کو اول بار میں پیدا کیا تھا (اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے وجود میں آنے کے لئے دو چیزیں درکار ہیں ایک مادہ اور محل میں وجود کی قابلیت دوسرے اس کو وجود میں لانے کے لئے قوت فاعلہ پہلا سوال محل کی قابلیت کے متعلق تھا کہ وہ مرنے کے بعد زندگی کے قابل نہیں رہا اس کا جواب دے کر محل کی قابلیت ثابت کردی گئی تو یہ دوسرا سوال فاعلیت کے متعلق کیا گیا کہ ایسا کون سا قوت وقدرت والا ہے جو اپنی قوت فاعلیت سے یہ عجیب کام کرسکے اس کے جواب میں فرما دیا گیا کہ جس نے پہلے تمہیں ایسے مادے سے پیدا کیا تھا جس میں قابلیت حیات کا کسی کو گمان بھی نہ تھا تو اس کو دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے اور جب قابل و فاعل دونوں کا سوال حل ہوگیا تو اب یہ لوگ زمانہ وقوع کی تحقیق کے لئے) آپ کے آگے سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ (اچھا یہ بتلائیے کہ) یہ (زندہ ہونا) کب ہوگا آپ فرما دیجئے کہ عجب نہیں کہ یہ قریب ہی آ پہونچا ہو (آگے ان حالات کا بیان ہے جو اس نئی زندگی کے وقت پیش آویں گے) یہ اس روز ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم کو (زندہ کرنے اور میدان حشر میں جمع کرنے کے لئے فرشتہ کے ذریعہ) پکارے گا اور تم (باضطرار) اس کی حمد کرتے ہوئے حکم کی تعمیل کرو گے (یعنی زندہ بھی ہوجاؤ گے اور میدان حشر میں جمع بھی ہوجاؤ گے) اور (اس روز کی ہول اور ہیبت دیکھ کر تمہارا یہ حال ہوجاوے گا کہ دنیا کی ساری عمر اور قبر میں رہنے کی ساری مدت کی نسبت) تم یہ خیال کرو گے کہ تم بہت ہی کم (مدت دنیا میں) رہے تھے (کیونکہ دنیا میں اور قبر میں آج کی ہولناکی کے مقابلہ میں پھر کچھ نہ کچھ راحت تھی اور راحت کا زمانہ انسان کو مصیبت پڑنے کے وقت بہت مختصر معلوم ہوا کرتا ہے)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا 49؀- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- رفت - رَفَتُّ الشیء أَرْفُتُهُ رَفْتاً : فَتَّتُّهُ ، والرُّفَاتُ والْفُتَاتُ : ما تكسّر وتفرّق من التّبن ونحوه، قال تعالی: وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء 49] ، واستعیر الرُّفَاتُ للحبل المنقطع قطعة قطعة .- ( ر ف ت ) الرفت - یہ بات نصر کا مصدر ہے اور رفت الشئی کے معنی کسی چیز کو چورا چورا کردینے کے ہیں اور جو بھوسہ وغیرہ ریزہ ریزہ ہو کر بھکرجائے اسے رفات کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَقالُوا أَإِذا كُنَّا عِظاماً وَرُفاتاً [ الإسراء 49] اور کہا کرتے کہ جب ہم گل سٹر کر ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اور استعارہ کے طور پر ( رفات اس رسی کو بھی کہتے ہیں ۔ جو پوسیدہ ہوکر ٹکڑے ہوگئ ہو ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال :- بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - ( ب ع ث ) البعث ( ف )- اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - جد - الجَدُّ : قطع الأرض المستوية، ومنه : جَدَّ في سيره يَجِدُّ جَدّاً ، وکذلک جَدَّ في أمره وأَجَدَّ : صار ذا جِدٍّ ، وتصور من : جَدَدْتُ الأرض : القطع المجرد، فقیل : جددت الثوب إذا قطعته علی وجه الإصلاح، وثوب جدید : أصله المقطوع، ثم جعل لکل ما أحدث إنشاؤه، قال تعالی: بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق 15] ، إشارة إلى النشأة الثانية، وذلک قولهم :- أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق 3] ، وقوبل الجدید بالخلق لما کان المقصود بالجدید القریب العهد بالقطع من الثوب، ومنه قيل للیل والنهار : الجَدِيدَان والأَجَدَّان «1» ، قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر 27] ، جمع جُدَّة، أي : طریقة ظاهرة، من قولهم : طریق مَجْدُود، أي : مسلوک مقطوع ومنه : جَادَّة الطریق، والجَدُود والجِدَّاء من الضأن : التي انقطع لبنها . وجُدَّ ثدي أمه علی طریق الشتم وسمي الفیض الإلهي جَدّاً ، قال تعالی: وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن 3] ، أي : فيضه، وقیل : عظمته، وهو يرجع إلى الأوّل، وإضافته إليه علی سبیل اختصاصه بملکه، وسمي ما جعل اللہ للإنسان من الحظوظ الدنیوية جَدّاً ، وهو البخت، فقیل : جُدِدْتُ وحُظِظْتُ وقوله عليه السلام : «لا ينفع ذا الجَدِّ منک الجَدُّ» أي : لا يتوصل إلى ثواب اللہ تعالیٰ في الآخرة بالجدّ ، وإنّما ذلک بالجدّ في الطاعة، وهذا هو الذي أنبأ عنه قوله تعالی: مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء 18] ، وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] ، وإلى ذلك أشار بقوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] .- والجَدُّ : أبو الأب وأبو الأم . وقیل : معنی «لا ينفع ذا الجدّ» : لا ينفع أحدا نسبه وأبوّته، فکما نفی نفع البنین في قوله : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] ، کذلک نفی نفع الأبوّة في هذا الحدیث .- ( ج د د ) الجد - ( مصدر رض ) کے اصل معنی ہمورار زمین پر چلنے کے ہیں ۔ اسی سے جد فی سیرہ ہے جس کے معنی تیز ردی کے ہیں اور جب کوئی شخص اپنے معاملات میں محنت اور جا نفشاتی سے کام کرے تو کہا جاتا ہے جد فی امرہ اور اجد ( افعال ) کے معنی صاحب جد ہونے کے ہیں اور جددت الارض سے کسی چیز کو کا ٹتے کا معنی لیا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے جددتۃ ( میں نے درست کرنے کے لئے اسے کا تا ) اور ثواب جدید کے اصل؛ معنی قطع کئے ہوئے کپڑا کے ہیں اور چونکہ جس کپڑے کو کاٹا جاتا ہے وہ عموما نیا ہوتا ہے اس لئے ہر نئی چیز کو جدید جہا جانے لگا ہے اس بنا پر ایت : ۔ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ [ ق 15] میں خلق جدید سے نشاۃ ثانیہ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا مراد ہے کیونکہ کفار اس کا انکار کرتے ہوئے کہتے تھے ۔ أَإِذا مِتْنا وَكُنَّا تُراباً ذلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ [ ق 3] بھلا جب ہم مرگئے اور متی ہوگئے تو پھر زندہ ہوں گے ؟ یہ زندہ ہونا عقلیہ ہے ) بعید ہی اور جدید دنیا ) خلق یعنی پرانا کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اس اعتبار سے رات دن کو عبدید ان اور اجدان کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ [ فاطر 27] اور پہاڑوں میں سفید رنگ کے قطعات ہیں میں جدد کا واھد جدۃ ہے کس کے معنی کھلے راستہ کے ہیں اور یہ طریق مجژود کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ راستہ جس پر چلا جائے اسی سے جا دۃ الطریق ہے جس کے معنی شاہراہ یا ہموار اور راستہ کے درمیانی حصہ کے ہیں جس پر عام طور پر آمد ورفت ہوتی رہتی ہے ) الجدود والجداء خشک تھنوں والی بھیڑ بکری اور سب وشتم کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ جد ثدی امہ اس کی ماں کے پستان خشک ہوجائیں اور جد کا لفظ فیظ الہی پر معنی بولا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَأَنَّهُ تَعالی جَدُّ رَبِّنا [ الجن 3] اور یہ کہ ہماری پروردگار کا فیضان بہت بڑا ہے ۔ میں جد بمعنی فیض الہی ہی کے ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی عظمت کے ہیں لیکن اس کا مرجع بھی معنی والی کی طرف ہی ہے اور اللہ تعالے کی طرف اس کی اضافت اختصاص ملک کے طریق سے ہے اور حظوظ دینوی جو اللہ تعالے انسان کو بخشتا ہے پر بھی جد کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے معنی بخت ونصیب کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے جددت وحظظت خوش قسمت اور صاحب نصیب ہوگیا اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ دنیاوی مال وجاہ سے آخرت میں ثواب حاصل نہیں ہوسکے گا بلکہ آخروی ثواب کے حصول کا ذریعہ صرف طاعت الہی ہے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْعاجِلَةَ عَجَّلْنا لَهُ فِيها ما نشاء لِمَنْ نُرِيدُ [ الإسراء 18] کے بعد فرمایا : ۔ وَمَنْ أَرادَ الْآخِرَةَ وَسَعى لَها سَعْيَها وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولئِكَ كانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُوراً [ الإسراء 19] اور جو شخص آخرت کا خواستکا ر ہو اور اور اس میں اتنی کوشش کرے ۔ جتنی اسے لائق ہے اور وہ مؤمن بھی ہو تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش ٹھکانے لگتی ہے ۔ نیز اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] . جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے گا اور نہ بیٹے ۔ الجد ( ایضا ) دادا ۔ نانا ۔ بعض نے کہا ہے کہ لا ینفع ذالجد کے معنی یہ ہی کے اسے آبائی نسب فائدہ نہیں دے گا اور جس طرح کہ آیت : يَوْمَ لا يَنْفَعُ مالٌ وَلا بَنُونَ [ الشعراء 88] ہیں اولاد کے فائدہ بخش ہونے کی نفی کی ہے اسی طرح حدیث میں اباؤ اجداد کے نفع بخش ہونے کی نفی کی گئی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٩) اور نضر اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر پرانی ہڈیاں اور ان کا بھی چورا ہوجائیں گے تو ہم پھر زندہ ہوں گے اور مرنے کے بعد پھر از ہمارے اندر روح پھونکی جائے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (وَقَالُوْٓا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِيْدًا)- یہ لوگ آپ سے بڑی حیرت سے سوال کرتے ہیں کہ آپ جو انسانوں کی دوبارہ زندگی کی بات کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے ؟ جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی اور گوشت گل سڑ جائے گا تو اس کے بعد ہمیں پھر سے نئی زندگی کیسے مل سکتی ہے ؟ گویا ان کی سوچ کے مطابق ایسا ہونا بالکل محال اور ناممکن ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani