5۔ 1 یہ اشارہ ہے اس ذلت اور تباہی کی طرف جو بابل کے فرمان روا بخت نصر کے ہاتھوں، حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریبًا چھ سو سال قبل، یہودیوں پر یروشلم میں نازل ہوئی۔ اس نے بےدریغ یہودیوں کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا اور یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اللہ کے نبی حضرت شعیب (علیہ السلام) کو قتل کیا یا حضرت ارمیا (علیہ السلام) کو قید کیا اور تورات کے احکام کی خلاف ورزی اور معصیات کا ارتکاب کر کے فساد فی الارض کے مجرم بنے۔ بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر کے بجائے جالوت کو اللہ تعالیٰ نے بطور سزا ان پر مسلط کیا، جس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ حتیٰ کہ طالوت کی قیادت میں حضرت داوٗد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کیا۔
[٦] یہود کی پہلی بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ سیدنا موسیٰ کے ساتھ مصر سے آنے والے بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوگئے تو انھیں حکم یہ تھا کہ فلسطین کا سارا علاقہ فتح کریں اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کی اخلاقی اور اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے اجتناب کریں۔ مگر ایک تو انہوں نے سارے علاقہ کو فتح نہ کیا اور جو کرچکے تھے اس پر ہی قناعت کرلی۔ دوسرے وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا ہوگئے اور مفتوحہ علاقہ کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ہر قبیلہ نے الگ الگ حکومت قائم کرلی۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی حکومت کو کبھی استحکام نصیب نہ ہوسکا۔ نیز سابقہ اقوام کی اخلاقی اور اعتقادی بیماریاں یعنی شرک، بےحیائی اور بدکاری وغیرہ ان میں بھی پھیلنے لگیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو یکسر بھول گئے۔ سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان نے بہت حد تک اصلاح احوال کی اور ایک دفعہ پھر سے حکومت بنی اسرائیل کو مستحکم بنادیا۔ مگر جلد ہی بنی اسرائیل پھر سے انھیں بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا ہوگئے۔ بت پرستی اور بےحیائی عام ہوگئی اور حکومت بھی متزلزل ہوگئی۔ یہ صورت حال دیکھ کر بابل کے بادشاہ بخت نصر نے دولت یہودیہ کو مسخر کیا اور بادشاہ کو قید کرلیا۔ اس دوران سیدنا یرمیاہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ ان کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف سازش اور بغاوت کرکے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر ٥٨٧ ق م میں بخت نصر نے ایک زور دار حملہ کرکے سلطنت یہودیہ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کشت و خون کا بازار گرم کیا۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کردیا۔ بہت سے قیدیوں کو اپنے ساتھ لے گیا اور جو لوگ بچ رہے وہ ہمسایہ قوموں کے ہاتھ بری طرح ذلیل ہو کر رہے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا۔ جو قیدی وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا انھیں میں سے ایک عزیر (علیہ السلام) بھی تھے۔ ان قیدیوں کو سات سال بعد بخت نصر نے چھوڑ دیا۔ آپ جب واپس اپنے وطن آرہے تھے تو ایک اجڑی ہوئی اور برباد شدہ بستی دیکھی تو کہنے لگے پروردگار تو اس بستی کو کیسے دوبارہ زندہ یا آباد کرے گا ؟ یہ بستی بھی دراصل بخت نصر کے حملے میں ہی تباہ ہوئی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسی مقام پر سیدنا عزیر (علیہ السلام) کو موت دے دی۔ اور یہ واقعہ سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٩ کے تحت پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے۔- رہی یہ بات کہ وہ کون سی کتاب تھی جس میں بنی اسرائیل کے دو بار سرکشی کرنے اور سزا پانے کی انھیں اطلاع دی گئی تھی۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد تورات ہی لی ہے مگر اس وقت تورات کے نام سے جو کتاب اہل کتاب کے پاس ہے اور جسے وہ عہد نامہ عتیق کہتے ہیں۔ ایسی صراحت کے ساتھ یہ مضمون مذکور نہیں جیسی صراحت سے قرآن میں مذکور ہے البتہ اس کے بعض فقروں سے ایسے اشارے ضرور مل جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی تورات میں یہ مضمون ضرور موجود ہوگا اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جو جملہ کائنات کی قضا و قدر کی کتاب ہے اور یہ دونوں توجیہات ہی قرین قیاس ہیں۔
فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا ۔۔ : اس دو مرتبہ کے فساد اور اس کی سزا کی تعیین کا کوئی مضبوط اور قابل اعتماد ذریعہ ہمارے پاس قرآن و سنت کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ تاریخ خصوصاً قبل مسیح کی تاریخ کی نہ کوئی سند ہے نہ اس کے ثبوت کی کوئی اور پختہ دلیل، رہا ان کا فساد تو اس کا شمار ہی نہیں۔ قرآن مجید میں ان کے مذکور فسادات ہی دیکھ لیں، سمندر سے پار ہوتے ہی معبود بنانے کا مطالبہ، پھر سامری کا بچھڑا بنانا اور اس کی عبادت، پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے مسلسل مختلف تقاضے، حتیٰ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھنے کو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کی شرط قرار دے دیا۔ پھر جہاد کے لیے نکلنے کی دعوت پر (فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰهُنَا قٰعِدُوْنَ ) [ المائدۃ : ٢٤ ] کہنا، پھر ان کا سود کھانا، رشوت لینا، سبت (ہفتے کے دن) کی تعظیم کے بجائے حیلے کے ساتھ اس میں شکار کرنا۔ ہمسایہ قوموں کے اثر سے بت پرستی اور زنا کا عام ہونا، کتاب اللہ میں تحریف کرنا، لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانا، اپنے بزرگوں اور نبیوں کو خدا کا درجہ دینا، احبارو رہبان کی تقلید کرنا، احبارو رہبان کا لوگوں کے اموال باطل طریقے سے کھانا اور صحیح دین سے لوگوں کو ہٹانا، اللہ کے نبیوں کو اور نیکی کا حکم دینے والے صالحین کو قتل کرنا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود ان پر ایمان نہ لانا، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے در پے ہونا۔ غرض ان کے فسادات کا کوئی شمار ہی نہیں، اسی طرح ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا مسلسل برستے رہنا بھی صرف دو دفعہ تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک بار بار بدترین عذابوں کا نشانہ بننا قرآن مجید میں مذکور ہے، فرمایا : (وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ يَّسُوْمُهُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ) [ الأعراف : ١٦٧ ] ” اور جب تیرے رب نے صاف اعلان کردیا کہ وہ قیامت کے دن تک ان پر ایسا آدمی ضرور بھیجتا رہے گا جو انھیں برا عذاب دے۔ “ اس لیے ان دو مرتبہ کی تعیین ایک مشکل کام ہے۔ مفسرین کا اس تعیین میں اختلاف بھی اس کی دلیل ہے۔ کوئی بابل کے بادشاہ سن حاریب اور اس کے جنگجو ساتھیوں کو اس کا مصداق قرار دیتا ہے، کوئی عمالقہ کو، کوئی بخت نصر کو، بعض جدید مفسرین نے یہاں بائبل سے لمبی چوڑی عبارتیں نقل کیں اور ان میں مذکور بعض واقعات اور شخصیتوں کو اس کا مصداق قرار دیا، حالانکہ بائبل کی کسی بات پر یقین جائز نہیں، سوائے ان باتوں کے جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف الفاظ میں فرمایا : ( لاَ تُصَدِّقُوْا أَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُمْ وَ قُوْلُوْا : (اٰمَنَّا باللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ ) [ البقرۃ : ١٣٦ ] ) [ بخاري، الشہادات، باب لا یسأل أہل الشرک۔۔ ، قبل ح : ٢٦٨٥، تعلیقاً عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اہل کتاب کو نہ سچا کہو اور نہ انھیں جھوٹا کہو، بلکہ یہ کہہ لیا کرو کہ ہم اللہ پر اور جو کچھ اس نے نازل کیا سب پر ایمان لائے۔ “ اسی باب میں امام بخاری (رض) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا : ( یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِیْنَ کَیْفَ تَسْأَلُوْنَ أَھْلَ الْکِتَابِ ؟ وَکِتَابُکُمُ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلٰی نَبِیِّہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُ الْأَخْبَار باللّٰہِ تَقْرَؤُنَہُ لَمْ یُشَبْ وَقَدْ حَدَّثَکُمُ اللّٰہُ أَنَّ أَھْلَ الْکِتَابِ بَدَّلُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ وَغَیَّرُوْا بِأَیْدِیْھِمُ الْکِتَابَ فَقَالُوْا : (ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا ) [ البقرۃ : ٧٩] أَفَلاَ یَنْھَاکُمْ مَا جَاءَکُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مُسَاءَلَتِھِمْ ؟ وَلَا وَاللّٰہِ مَا رَأَیْنَا مِنْھُمْ رَجُلاً قَطُّ یَسْأَلُکُمْ عَنِ الَّذِيْ أُنْزِلَ عَلَیْکُمْ ) [ بخاری، الشھادات، باب لا یسأل أھل الشرک عن الشھادۃ وغیرھا : ٢٦٨٥ ] ” اے مسلمانو کی جماعت تم اہل کتاب سے کس طرح سوال کرتے ہو، حالانکہ تمہاری کتاب جو اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نازل کی گئی وہ تمام خبروں میں سے اللہ کی طرف سے نئی ہے۔ تم اسے ایسی حالت میں پڑھتے ہو کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں کی گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بتادیا ہے کہ اللہ نے جو کچھ لکھا تھا اہل کتاب نے اسے بدل دیا اور اپنے ہاتھوں سے کتاب کو تبدیل کردیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت خریدیں۔ کیا وہ علم جو تمہارے پاس آیا ہے تمہیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا ؟ اور نہیں، قسم ہے اللہ کی ہم نے ان میں سے کسی آدمی کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ تم سے اس کے متعلق سوال کرتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہے۔ “ اب ایسی بات جسے سچا کہا ہی نہیں جاسکتا اس پر یقین کیسے ہوسکتا ہے۔ اگرچہ یہ تعیین نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ قرآن مجید محض تاریخ کی کتاب نہیں، نہ ہر جگہ اس میں واقعات پوری ترتیب اور تفصیل کے ساتھ مذکور ہوتے ہیں بلکہ اس میں واقعات کا صرف وہی حصہ بیان ہوتا ہے جو نصیحت و عبرت سے تعلق رکھتا ہے، تاہم اگر کسی معتبر ذریعے سے اس کی تفصیل معلوم ہوجائے تو نصیحت و عبرت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ - 3 قرآن مجید کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخلے کے لیے جہاد کا حکم دیا اور بتایا کہ اس سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت بنانا طے فرما دیا ہے، مگر غلامی کی خوگر اس نسل نے نہایت گستاخانہ الفاظ میں جہاد کے لیے نکلنے سے انکار کردیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٢٠ تا ٢٦) اس کے نتیجے میں وہ چالیس سال وہیں صحرا میں سرگرداں رہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس دوران وفات پا گئے، اللہ کے اس جلیل القدر پیغمبر کو ارض مقدس میں جانے کی اس قدر حسرت تھی کہ انھوں نے وفات کے وقت دعا کی کہ یا اللہ مجھے ارض مقدس سے اتنا قریب کر دے کہ پتھر پھینکنے سے اس زمین میں پہنچ جائے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر راستے کی ایک جانب سرخ ٹیلے کے نیچے دکھاتا۔ “ [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب وفاۃ موسیٰ و ذکرہ بعد : ٣٤٠٧ ] جب وہ نسل جو ان ہوئی جو آزادی کے دور میں پیدا ہوئی تھی تو انھوں نے ارض شام اور بیت المقدس کو فتح کیا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں آزادی کے ساتھ حکومت کی نعمت بھی عطا فرمائی۔ یہ دور کتنے عرصے پر محیط تھا، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین سے دوری اور دنیا کی محبت کی بنا پر وہ آپس میں لڑنے لگے، اللہ تعالیٰ کے احکام کو پس پشت پھینک دیا اور اس قدر فساد فی الارض کے مرتکب ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے وہ سخت جنگ والے بندے بھیجے جن کا یہاں اس آیت میں ذکر ہے۔ وہ ان کے گھروں کے اندر گھس گئے اور ان کے گھروں، زمینوں، عورتوں اور بچوں پر قابض ہوگئے اور انھیں بیت المقدس اور ارض شام سے نکال باہر کیا، بیت المقدس میں داخل ہو کر اس کی جتنی بےحرمتی کرسکتے تھے انھوں نے کی۔ یہ پہلے فساد کی سزا تھی۔ اس وقت ان حملہ آوروں کا بادشاہ کون تھا، اللہ تعالیٰ نے واضح نہیں فرمایا۔ اس کے ایک عرصہ بعد بنی اسرائیل کے کچھ سرداروں نے ارض مقدس اور اپنے اسیروں کی واپسی کے لیے وقت کے نبی سے کوئی بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی، جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طالوت مقرر کیے گئے۔ یہ مفصل واقعہ سورة بقرہ (٢٤٦ تا ٢٥١) اور اس کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ اس وقت کفار کا بادشاہ جالوت تھا، ممکن ہے بنی اسرائیل پر عذاب کا کوڑا بھی اسی کے ہاتھوں برسا ہو۔ بہرحال کفار کو شکست ہوئی اور داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کردیا۔ ارض مقدس پر پھر بنی اسرائیل قابض ہوگئے اور اللہ کا دین پھر غالب ہوگیا۔ طالوت کے بعد داؤد (علیہ السلام) نے جہاد کے ذریعے سے اس سلطنت کو مزید وسیع کیا، ان کے بعد سلیمان (علیہ السلام) کو ایسی حکومت عطا ہوئی جو ان کی دعا کے مطابق ان کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں۔ اس کی تفصیل سورة نمل (١٥ تا ٤٤) ، سورة ص (١٧ تا ٤٠) ، سورة انبیاء (٧٧ تا ٨٢ ) اور سورة سبا (١٠ تا ١٤) میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ سب آیات زیر تفسیر آیت : (ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا) کی تفسیر ہیں۔ ان کی وفات کے بعد پھر اخلاقی زوال اور دنیا پرستی کا دور شروع ہوا، حتیٰ کہ کئی انبیاء وصلحاء، جو گناہ سے منع کرتے تھے، شہید کردیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل ختم ہوگیا، مشرک قوموں کی ہمسائیگی اور دوستی کے نتیجے میں شرک، جادو، قتل ناحق، زنا، ڈاکے وغیرہ پھیل گئے اور اللہ کی حدود معطل ہوگئیں، حتیٰ کہ مسیح (علیہ السلام) کو بھی انھوں نے اپنے خیال میں سولی پر چڑھا دیا۔ اس سے پچھلے حاشیے میں بھی کئی خرابیاں ذکر ہوئی ہیں۔ وہ آپس میں لڑ کر کئی فرقوں اور کئی سلطنتوں میں بٹ گئے۔ انبیاء کو قتل کرنے اور مسیح (علیہ السلام) کو اپنے خیال میں سولی دینے کے بعد پھر ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سخت ترین کوڑا برسا۔ یہ دوسرا موقع تھا کہ ان پر اللہ کے سخت لڑاکا لوگ حملہ آور ہوئے اور ان سے وہ سلوک کیا جو اس سے اگلی آیت ” فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ “ میں مذکور ہے۔
فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰم و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال :- بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - ( ب ع ث ) البعث ( ف )- اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ - بؤس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن،- ( ب ء س) البؤس والباس - البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ بِعَذَابٍ بَئِيسٍ ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ فَلَا تَبْتَئِسْ ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ - جاس - قال تعالی: فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] ، أي : توسّطوها وتردّدوا بينها، ويقارب ذلک جازوا وداسوا، وقیل : الجَوْس : طلب ذلک الشیء باستقصاء، والمجوس معروف .- ( ج وس )- آیت کریمہ : ۔ فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] میں جاسوا کے معنی ہیں کہ وہ تمہارے دیار کے اندر گھس گئے اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور قتل سے کنایہ ہے ) اور و اس کے معنی بھی اسی ( جاسوا ) کے قریب قریب ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ الجوس کے مینن کسی چیز کو استقصار کے ساتھ طلب کرنا کے ہوتے ہیں ۔ المجوس ۔ ایک معروف فرقے کا نام ہے ۔ - خل - الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] ، قال الشاعر :- 143-- أرى خلل الرّماد ومیض جمر - وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد .- خِلَال - : لما تخلّل به الأسنان وغیرها، يقال : خَلَّ سِنَّهُ ، وخلّ ثوبه بالخلال يَخُلُّهُ ، ولسان الفصیل بالخلال ليمنعه من الرضاع، والرّميّة بالسّهم، وفي الحدیث . «خَلِّلُوا أصابعکم» والخَلَل في الأمر کالوهن فيه، تشبيها بالفرجة الواقعة بين الشّيئين، وخَلَّ لحمه يَخِلُّ خَلًّا وخِلَالًا»- : صار فيه خلل، وذلک بالهزال، قال :- 144-- إنّ جسمي بعد خالي لخلّ- والخَلّ «5» : الطّريق في الرّمل، لتخلّل الوعورة، أي : الصعوبة إيّاه، أو لکون الطّريق متخلّلا وسطه، والخَلَّة : أيضا الخمر الحامضة، لتخلّل الحموضة إيّاها . والخِلَّة : ما يغطّى به جفن السّيف لکونه في خلالها، والخَلَّة :- الاختلال العارض للنّفس، إمّا لشهوتها لشیء، أو لحاجتها إليه، ولهذا فسّر الخلّة بالحاجة- والخصلة، - خُلَّةُ- : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) وقیل : بل من الخلّة، واستعمالها فيه کاستعمال المحبّة فيه، قال أبو القاسم البلخيّ : هو من الخلّة لا من الخلّة، قال : ومن قاسه بالحبیب فقد أخطأ، لأنّ اللہ يجوز أن يحبّ عبده، فإنّ المحبّة منه الثناء ولا يجوز أن يخالّه، وهذا منه اشتباه، فإنّ الخلّة من تخلّل الودّ نفسه ومخالطته، کقوله :- قد تخلّلت مسلک الرّوح منّي ... وبه سمّي الخلیل خلیلا - ولهذا يقال : تمازج روحانا . والمحبّة : البلوغ بالودّ إلى حبّة القلب، من قولهم : حببته : إذا أصبت حبّة قلبه، لکن إذا استعملت المحبّة في اللہ فالمراد بها مجرّد الإحسان، وکذا الخلّة، فإن جاز في أحد اللّفظین جاز في الآخر، فأمّا أن يراد بالحبّ حبّة القلب، والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، وذلک إشارة إلى قوله سبحانه : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ، وقوله : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ- [إبراهيم 31] ، فقد قيل : هو مصدر من خاللت، وقیل : هو جمع، يقال : خلیل وأَخِلَّة وخِلَال والمعنی كالأوّل .- ( خ ل ل ) الخلل - ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔- الخلال - ۔ دانت وغیرہ کرنیکا تنکا کہا جاتا ہے ۔ کل سنتہ اس نے اپنے دانت صاف کیا خل ثوبتہ ( کپڑے میں سوراخ کرنا ۔ خل ( ن ) لسان الفصیل اونٹ کے بچے کی زبان کو چھید کر تھوتھنی ڈالنا تاکہ اونٹنی کا دودھ نہ پی سکے ۔ خل الرمیتہ بالسھم ( نشانہ پر تیر مار کر سوراخ کردیا ) ( وضوس میں انگلیوں کا خلال کیا ز کرو ۔ الخلل فی الامر کسی کام میں خرابی کا پیدا ہوجاتا ۔ جیسا کہ دو چیزوں کے درمیان رخنہ پڑجاتا ہے ۔ کل ( ض ) خلا وخلالا ۔ لحمیہ گوشت کا وبلا اور کم ہوجانا ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( مدید ) ان جسمی بعد خالی کخل کہ ماموں کے مرنے کے بعد میرا جسم گھل گیا ہے ۔ الخلتہ ۔ ییگ زار کے اندر راستہ کو کہتے ہیں اور اسے خلتہ یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ دشوار گزار ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ راستہ ریگ زار کے اندر سے گزرتا ہے ۔ نیز ترش سر کہ کو بھی خلتہ کہتے ہیں ۔ کیونکہ ترشی اسی میں سرایت کئے ہوتی ہے ۔ الخلتہ تلوار کی نیام کا چمڑا جو اس کے اوپر منڈھا ہوا ہوتا ہے ۔ نیام چونکہ اس کے اندر رہتی ہے اس لئے اس چمڑے کو خلتہ کہا جاتا ہے ۔ الخلتہ ( ایضا) طبیعت کی خرابی یا عارضہ جو کسی چیز کی خواہش یا سخت احتیاج کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے اس لئے خلتہ کے معنی حاجت اور خصلت بیان کئے جاتے ہیں - الخلتہ - دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا مین داخل ہے ۔ لیکن خلتہ کے معنی دوستی کے دل میں سرایت کر جانے کے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہوا ( اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے اسی بنا پر مشہور محاورہ ہے ۔ تمازج روح ۔ ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں ۔ اور محبت کے معنی ھبہ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں یہ حبیبتہ سے مشتق ہے جس کے معنی حبہ پر مارنے کے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد اھسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنی خلتہ سے مراد ہوں گے ۔ کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کاز معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔- دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
(٥) پھر جب ان دو مرتبہ میں سے پہلی بار کی شرارت پر عذاب کا وقت آئیگا یا یہ کہ ان میں سے پہلی شرارت کا وقت آئے گا تو ہم تم لوگوں پر بابل کا بادشاہ اور اس کے فوجیوں کو مسلط کردیں گے جو بڑے جنگجو ہوں گے اور پھر وہ تمہارے گھروں میں گھس پڑیں گے اور تمہیں قتل کر ڈالیں گے اور یہ ایک وعدہ ہے جو ضرور پورا ہو کر رہے گا یعنی اگر تم نافرمانیاں کرو گے تو تمہارے ساتھ یہی برتاؤ کیا جائے گا، چناچہ بنی اسرائیل نوے سال تک سخت تکالیف کے اندر بخت نصر بادشاہ کی قید میں رہے۔
آیت ٥ (فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا)- یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تم پر واضح کیا گیا تھا کہ جب تم لوگ دین سے برگشتہ ہوجاؤ گے ‘ جب تم اللہ کی کتاب اور اس کے احکام کو ہنسی مذاق بنا لو گے تو تم ضرور اللہ کے عذاب کا نشانہ بنو گے۔ چناچہ ان کے دین سے برگشتہ ہوجانے کے بعد آشوریوں اور عراق کے بادشاہ بخت نصر کے ہاتھوں ان پر عذاب کا کوڑا برسا جس کے نتیجے میں دونوں اسرائیلی سلطنتیں ختم ہوگئیں یروشلم مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہیکل سلیمانی مسمار کردیا گیا ‘ چھ لاکھ یہودی قتل ہوگئے جبکہ چھ لاکھ کو غلام بنا لیا گیا۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :7 اس سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی ۔ اس کا تاریخی پس منظر سمجنے کے لیے صرف وہ اقتباسات کافی نہیں ہیں جو اوپر ہم صُحف انبیاء سے نقل کر چکے ہیں ، بلکہ ایک مختصر تاریخی بیان بھی ضروری ہے تا کہ ایک طالب علم کے سامنے وہ تمام اسباب آجائیں جن کی وجہ سے اللہ تعالی نے ایک حامل کتاب قوم کو امامت اقوام کے منصب سے گر اکر ایک شکست خوردہ ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا ۔ حضرت موسی کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوٹے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں ۔ حتِّی اَمَّوری کنعانی ، فِرِزِّی ، حَوِی ، یبوسی ، فِلستی وغیرہ سان قوموں میں بد تیرن قسم کا شرک پایا جاتا تھا ۔ ان کے سب سے بڑے معبود کا نام ایل تھا جسے یہ دیوتاؤں کا باپ کہتے تھے اور اسے عموما سانڈے سے تشبیہ دی جاتی تھی ۔ اس کی بیوی کا نام عشیرہ تھا اور اس سے خداؤں اور خدانیوں کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد۷۰ تک پہنچتی تھی ۔ اس کی اولاد میں سب سے زیادہ زبردست بعل تھا جس کو بارش اور روئیدگی کا خدا اور زمین و آسمان کا مالک سمجھا جاتا تھا ۔ شمالی علاقوں میں اس کی بیوی اناث کہلاتی تھی اور فلسطین میں عستارات ۔ یہ دونوں خواتین عشق اور افزائش نسل کی دیویاں تھیں ۔ ان کے علاوہ کوئی دیوتا موت کا مالک تھا ، کسی دیوی کے قبضے میں صحت تھی ۔ کسی دیوتا کو وبا اور قحط لانے کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے ، اور یوں ساری خدائی بہت سے معبودوں میں بٹ گئی تھی ۔ ان دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف ایسے ایسے ذلیل اوصاف و اعمال منسوب تھے کہ اخلاقی حیثیت سے انتہائی بد کردار انسان بھی ان کے ساتھ مشتہر ہونا پسند نہ کریں ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو لوگ ایسی کمینہ ہستیوں کو خدا بنائیں اور ان کی پرستش کریں وہ اخلاق کی ذلیل ترین پستیوں میں گرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جو حالات آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں وہ شدید اخلاقی گراوٹ کی شہادت بہم پہنچاتے ہیں ۔ ان کے ہاں بچوں کی قربانی کا عام رواج تھا ۔ ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے ۔ عورتوں کو دیوداسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بدکاریاں کرنا عبادت کے اجزاء میں داخل تھا ۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی بد اخلاقیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں ۔ توراة میں حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سر زمین چھین لینا اور ان کے ساتھ رہنے بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پر ہیز کرنا ۔ لیکن بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے ۔ انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی ۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے ۔ ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوح علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہوجائے ۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ ہو سکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کر دیتا ۔ آخرکار انہیں یہ گوارا کرنا پڑا کہ مشرکین ان کے ساتھ رہیں بسیں ۔ نہ صرف یہ ، بلکہ ان کے مفتوح علاقوں میں جگہ جگہ ان مشرک قوموں کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی موجود رہیں جن کو بنی اسرائیل مسخر نہ کر سکے ۔ اسی بات کی شکایت زبور کی اس عبارت میں کی گئی ہے جسے ہم نے حاشیہ نمبر ٦ کےآغاز میں نقل کیا ہے ۔ اس کا پہلا خمیازہ تو بنی اسرائیل کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان قوموں کےذریعے سے ان کے اندر شرک گھس آیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں بھی راہ پانے لگیں ۔ چنانچہ اس کی شکایت بائیبل کی کتاب قُضاة میں یوں کی گئی ہے: ”اور بنی اسرائیل نےخداوند کے آگے بدی کی تعلیم کی پرستش کرنے لگے ۔ اور انہوں نے خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کو جا کر انہیں ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا اور دوسرے معبودوں کی جو ان کے گردا گرد کی قوموں کے دیوتاؤں میں سے تھے پیروی کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا ۔ وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے اور خدا وند کا قہر اسرائیل پر بھڑکا ۔ ( باب۲ ۔ آیت١١ ۔ ١۳ ) اس کے بعد دوسرا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انہوں نے چھوڑ دی تھیں انہوں نے اور فلستینوں نے ، جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا ، بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور پے در پے حملے کر کے فلستین کے بڑے حصے سے ان کو بے دخل کر دیا ، حتٰی کہ ان سے خدا وند کے عہد کا صندوق ( تابوت سکینہ ) تک چھین لیا ۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ، اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے سن١۰۲۰ قبل مسیح میں طالوت کا ان کا بادشاہ بنایا ۔ ( اس کی تفصیل سورہ بقرہ رکوع ۳۲ میں گزر چکی ہے ) ۔ اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے ۔ طالوت ( سن ١۰۲۰ تا١۰۰٤ ق م ) ، حضرت داؤد علیہ السلام ( سن١۰۰٤ تا ۹٦۵ ق م ) اور حضرت سلیمان علیہ السلام ( سب ۹٦۵ تا ۹۲٦ ق م ) ۔ ان فرمانرواؤں نے اس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا ۔ صرف شمالی ساحل پر فنیقیوں کی اور جنوبی ساحل پر فلستیوں کی ریاستیں باقی رہ گئیں جنہیں مسخر نہ کیا جاسکا اور محض باج گزار بنانے پر اکتفا کیا گیا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کرلیں ۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنت اسرائیل ، جس کا پایہ تخت آخرکار سامریہ قرار پایا ۔ اور جنوبی فلسطین اور ادوم کے علاقے میں سلطنت یہود یہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا ۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اور روز سے شروع ہو گئی اور آخر تک رہی ۔ ان میں اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب اس ریاست کے فرمانروا اخی اب نے صیدا کی مشرک شہزادی ایزیبل سے شادی کر لی ۔ اس وقت حکومت کی طاقت اور ذرائع سےشرک اور بد اخلاقیاں سیلاب کی طرح اسرائیلیوں میں پھیلنی شروع ہوئیں ۔ حضرت الیاس اور حضرت الیَسع علیہما السلام نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی ۔ مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی ۔ آخرکار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہو گئے ۔ اس دور میں عاموس نبی ( سن۷۸۷ تا ۷٤۷ قبل مسیح ) اور پھر ہوسیع نبی ( سن۷٤۷ تا۷۳۵ قبل مسیح ) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے در پے تنبیہات کیں ، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سر شار تھے وہ تنبیہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہو گیا ۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور دولت سامریہ کے حدود میں اپنی نبوت کر دیا ، ہزار ہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گیے ، ۲۷ ہزار سے زیادہ با ا ثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتر بتر کر دیا گیا ، اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسا یا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا ۔ بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہود یہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی ، وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بہت جلدی شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی ، مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولت اسرائیل کی بہ نسبت سست رفتار تھا ، اس لیے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی ۔ اگر چہ دولتِ اسرائیل کی طرح اس پر بھی اشوریوں نے پے در پے حملے کیے ، اس کے شہروں کو تباہ کیا ، اس کے پایہ تخت کا محاصرہ کیا ، لیکن یہ ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم نہ ہو سکی بلکہ صرف باج گزار بن کر رہ گئی ۔ پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہود یہ کہ لوگ بُت پرستی اور بد اخلاقیوں سے باز نہ آئے تو سن ۵۹۸ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کر لیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا ۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور حضرت یرمیاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے ۔ آخر سن ۵۸۷ قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی ، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے ۔ یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا ، اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کو دی گئی ۔
3: جب بنو اسرائیل کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئی تھیں توبابل کے بادشاہ بخت نصر نے ان پر حملہ کرکے ان کا قتل عام کیا تھا اور جو زندہ رہ گئے تھے، انہیں گرفتار کرکے فلسطین سے بابل لے گیا تھا جہاں مدت دراز تک وہ اس کی غلامی میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے رہے، اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔