Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی بخت نصر یا جالوت کے قتل کے بعد ہم نے تمہیں پھر مال اور دولت، بیٹوں اور جاہ حشمت سے نوازا، جب کہ یہ ساری چیزیں تم سے چھن چکی تھیں۔ اور تمہیں پھر زیادہ جتھے والا اور طاقتور بنادیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی جب تم نے اچھے کام کیے تھے تو ہم نے تمہیں غلبہ بھی دیا اور مال و اولاد میں بھی برکت عطا کی اور تم بگڑے اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو ہم نے تمہیں اس کی سزا دے دی اور یہی ہمارا دستور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا ۝- رد - الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] - ( رد د ) الرد ( ن )- اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔- وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - نفر - النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا - [ التوبة 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ- [ التوبة 122] . - والاسْتِنْفَارُ :- حَثُّ القومِ علی النَّفْرِ إلى الحربِ ، والاسْتِنْفَارُ :- حَمْلُ القومِ علی أن يَنْفِرُوا . أي : من الحربِ ، والاسْتِنْفَارُ أيضا : طَلَبُ النِّفَارِ ، وقوله تعالی:- كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] قُرِئَ : بفَتْحِ الفاء وکسرِها «3» ، فإذا كُسِرَ الفاءُ فمعناه :- نَافِرَةٌ ، وإذا فُتِحَ فمعناه : مُنَفَّرَةٌ.- والنَّفَرُ والنَّفِيرُ والنَّفَرَةُ- : عِدَّةُ رجالٍ يُمْكِنُهُم النَّفْرُ. والمُنَافَرَةُ :- المُحَاكَمَةُ في المُفَاخَرَةِ ، وقد أُنْفِرَ فلانٌ: إذا فُضِّلَ في المُنافرةِ ، وتقول العَرَبُ : نُفِّرَ فلانٌ إذا سُمِّيَ باسمٍ يَزْعُمُون أنّ الشّيطانَ يَنْفِرُ عنه، قال أعرابيٌّ: قيل لأبي لَمَّا وُلِدْتُ : نَفِّرْ عنه، فسَمَّانِي قُنْفُذاً وكَنَّانِي أبا العَدَّاء . ونَفَرَ الجِلْدُ : وَرِمَ. قال أبو عبیدة : هو من نِفَارِ الشیءِ عن الشیء . أي : تَبَاعُدِهِ عنه وتَجَافِيهِ - ( ن ف ر ) النفر - ( عن کے معیو کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے - الا ستنفار - جنگ کے لئے نکلنے کی ترغیب دینا ( 2 ) لوگوں کو لڑائی سے بھاگ جانے پر اکسانا ( 3 ) ڈر بھاگ جانا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر 50] گویا گدھی ہیں کہ بدک جاتے ہیں ۔ میں مستنفرۃ اگر کسرہ فاء کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی نافرۃ یعنی ڈر کر بھاگنے والا کے ہوں گے اور فتح فاء کے ساتھ ہو تو منفرۃ مکہ کے ہم معنی ہوگا یعنی بھگا یا ہوا ۔ - النفر والنفرۃ - بھاگنے والے آدمیوں کا گروہ ۔ المنا فرۃ مفا خترہ میں محاکمہ کرنا اسی سے انفر فلان ہے جس کے معنی مفاخرۃ میں غالب ہونے کا فیصلہ دیئے گئے کے ہیں مشہور مقولہ ہے ۔ نفر فلان ( بزعم اہل جاہلیت ) شیطان کو بھگانے کے لئے بچے کا کوئی نام رکھنا چناچہ ایک اعرابی کا بیان ہے کہ میری پیدائش پر کسی نے میرے والد سے کہا نفر عنہ کہ اس سے شیطان کو بھگاؤ ۔ تو والد نے میرا نام قنفذ اور کنیت ابوا لعدا ر کھ دی ۔ نفر الجلد جلد میں دوم ہوجانا ۔ ابو عبید کا قول ہے کہ یہ نفار الشئی عن الشئی سے ہے جس کے معنی ایک چیز کے دوسری سے دور اور الگ ہونے کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦) پھر اللہ تعالیٰ نے کو رش ہمدانی بادشاہ کے ذریعے ان کی مدد فرمائی اور بخت نصر پر کو رش ہمدانی کو غلبہ دیا یعنی پھر ہم تمہیں دولت دے کر تم پر مہربانی فرمائیں گے اور مال اور بیٹوں سے تمہاری امداد فرمائی گے اور تمہاری جماعت اور تعداد کو بڑھا دیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ )- یعنی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر تمہیں سہارا دیا اور ان پر غلبے کا موقع عطا کردیا۔ اس سہارے کا باعث ایرانی بادشاہ کیخورس ( ) یا ذوالقرنین بنا۔ اس نے عراق (بابل) پر تسلط حاصل کرلینے کے بعد تمہیں آزاد کر کے واپس یروشلم جانے اور اس شہر کو ایک دفعہ پھر سے آباد کرنے کی اجازت دے دی۔ پھر جب تم نے واپس آکر یروشلم کو آباد کیا تو ہم نے ایک دفعہ پھر تمہاری مدد کی :- (وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا)- ہم نے تمہیں مال و اولاد میں برکت دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔ تم لوگ خوب پھلے پھولے اور جلد ہی ایک مضبوط قوم بن کر ابھرے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :8 یہ اشارہ ہے اس مہلت کی طرف جو یہودیوں ( یعنی اہل یہودیہ ) کو بابل کی اسیری سے رہائی کے بعد عطا کی گئی ۔ جہاں تک سامریہ اور اسرئیل کے لوگوں کا تعلق ہے ، وہ تو اخلاقی و اعتقادی زوال کی پستیوں میں گرنے کے بعد پھر نہ اٹھے ، مگر یہودیہ کے باشندوں میں ایک ایسا موجود تھا جو خیر پر قائم اور خیر کی دعوت دینے والا تھا ۔ اس نے ان لوگوں میں بھی اصلاح کا کام جاری رکھا جو یہودیہ میں بچے کھچے رہ گئے تھے ، اور ان لوگوں کو بھی توبہ و انابت کی ترغیب دی جو بابل اور دوسرے علاقوں میں جلا وطن کر دیے گئے تھے ۔ آخرکار رحمت الہی ان کی مدد گار ہوئی ۔ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا ۔ سن ۵۳۹ قبل مسیح میں ایرانی فاتح سائرس ( خورس یا خسرو ) نے بابل کو فتح کیا اور اس کے دوسرے ہی سال اس نے فرمان جاری کر دیا کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی عام اجازت ہے ۔ چنانچہ اس کے بعد یہودیوں کے قافلے پر قافلے یہودیہ کی طرف جانے شروع ہو گئے جن کا سلسلہ مدتوں جاری رہا ۔ سائرس نے یہودیوں کی ہیکل سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی اجازت بھی دی ، مگر ایک عرصے تک ہمسایہ قومیں جو اس علاقے میں آباد ہو گئی تھیں ، مزاحمت کرتی رہیں ۔ آخر داریوس ( وارا ) اول نے سن ۵۲۲ ق م یہودیہ کے آخری بادشاہ کے پوتے زرو بابل کو یہودیہ کا گورنر مقرر کیا اور اس نے حِجِّی نبی ، زکریا نبی اور سردار کاہن یشوع کی نگرانی میں ہیکل مقدس نئے سرے سے تعمیر کیا ۔ پھر سن٤۵۷ ق م میں ایک جلاوطن گروہ کے ساتھ حضرت عزیر ( عزرا ) یہودیہ پہنچے اور شاہ ایران ارتخششتا ( ارٹا کسر سزیا اردشیر ) نے ایک فرمان کی رو سے ان کو مجاز کیا کہ: ” تو اپنے خدا کی اس دانش کے مطابق جو تجھ کو عنایت ہوئی ، حاکموں اور قاضیوں کو مقرر کرا تاکہ دریا پار کے سب لوگوں کا جو تیرے خدا کی شریعت کو جانتے ہیں انصاف کریں ، اور تم اس کو جو نہ جانتا ہو سکھاؤ ، اور جو کوئی تیرے خدا کی شریعت پر اور بادشاہ کے فرمان پر عمل نہ کرے اس کو بلا توقف قانونی سزا دی جائے ، خواہ موت ہو ، یا جلاوطنی ، یا مال کی ضبطی ، یا قید“ ۔ ( عزرا ۔ باب۸ ۔ آیت۲۵ ۔ ۲٦ ) اس فرمان سے فائدہ اٹھا کر حضرت عزیر نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام انجام دیا ۔ انہوں نے یہودی قوم کے تمام اہل خیر و صلاح کو ہر طرف سے جمع کر کے ایک مضبوط نظام قائم کیا ۔ بائیبل کی کتب خمسہ کو ، جن میں توراة تھی ، مرتب کر کے شائع کیا ، یہودیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا ، قوانین شریعت کو نافذ کر کے ان اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں ، ان تمام مشرک عورتوں کو طلاق دلوائی جن سے یہودیوں نے بیاہ کر رکھے تھے ، اور بنی اسرائیل سے از سرِ نو خدا کی بندگی اور اس کے آئین کی پیروی کا میثاق لیا ۔ سن ٤٤۵ ق م میں نحمیاہ کے زیر قیادت ایک اور جلا وطن گروہ یہودیہ واپس آیا اور شاہ ایران نے تحمیاہ کو یروشلم کا حاکم مقرر کر کے اس امر کی اجازت دی کہ وہ اس کی شہر پناہ تعمیر کرے ۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیت المقدس پھر سے آباد ہوا اور یہودی مذہب و تہذیب کا مرکز بن گیا ۔ مگر شمالی فلسطین اور سامریہ کے اسرائیلیوں نے حضرت عزیر کی اصلاح و تجدید سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا ، بلکہ بیت المقدس کے مقابلہ میں اپنا ایک مذہبی مرکز کوہ جرزیم پر تعمیر کر کے اس کو قبلہ اہل کتاب بنانے کی کوشش کی ۔ اس طرح یہودیوں اور سامریوں کے درمیان بُعد اور زیادہ بڑھ گیا ۔ ایرانی سلطنت کے زوال اور سکندر اعظم کی فتوحات اور پھر یونانیوں کے عروج سے یہودیوں کو کچھ مدت کے لیے ایک سخت دھکا لگا ۔ سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت جن تین سلطنتوں میں تقسیم ہوئی تھی ، ان میں سے شام کا علاقہ اس سلوقی سلطنت کے حصے میں آیا جس کا پایہ تخت انطاکیہ تھا اور اس کے فرمانروا انٹیوکس ثالث نے سن ١۹۸ ق م میں فلسطین پر قبضہ کر لیا ۔ یہ یونانی فاتح ، جو مذہبا مشرک ، اور اخلاقا اباحیت پسند تھے ، یہودی مذہب و تہذیب کو سخت ناگوار محسوس کرتے تھے ۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں سیاسی اور معاشی دباؤ سے یونانی تہذیب کو فروغ دینا شروع کیا اور خود یہودیوں میں سے ایک اچھا خاصا عنصر ان کا آلہ کار بن گیا ۔ اس خارجی مداخلت نے یہودی قوم میں تفرقہ ڈال دیا ۔ ایک گروہ نے یونانی لباس ، یونانی زبان ، یونانی طرزِ معاشرت اور یونانی کھیلوں کو اپنا لیا اور دوسرا گروہ اپنی تہذیب پر سختی کے ساتھ قائم رہا ۔ سن ١۵۷ ق م میں انٹیوکس چہارم ( جس کا اپنی فائنیس یعنی مظہر خدا ) تھا ، جب تخت نشین ہوا تو اس نے پوری جابرانہ طاقت سے کام لے کر یہودی مذہب و تہذیب کی بیخ کنی کرنی چاہی ۔ اس نے بیت المقدس کے ہیکل میں زبر دستی بت رکھوائے اور یہودیوں کو مجبور کیا کہ ان کو سجدہ کریں ۔ اس نے قربان گاہ پر قربانی بند کرائی ۔ اس نے یہودیوں کو مشرکانہ قربان گاہوں پر قربانیاں کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے ان سب لوگوں کے لیے سزائے موت تجویز کی جو اپنے گھروں میں توراة کا نسخہ رکھیں ، یا سَبت کے احکام پر عمل کریں ، یا اپنے بچوں کے ختنے کرائیں ۔ لیکن یہودی اس جبر سے مغلوب نہ ہوئے اور ان کے اندر ایک زبردست تحریک اٹھی جو تاریخ میں مُکّابی بغاوت کے نام سے مشہور ہے ۔ اگرچہ اس کشمکش میں یو نانیت زدہ یہودیوں کی ساری ہمدردیاں یونانیوں کے ساتھ تھیں ، اور انہوں نے عملا مُکّابی بغاوت کو کچلنے میں انطاکیہ کے ظالموں کا پورا ساتھ دیا ، لیکن عام یہودیوں میں حضرت عزیر کی پھونکی ہوئی روح دینداری کا اتنا زبردست اثر تھا کہ وہ سب مکابیوں کے ساتھ ہو گئے اور آخرکار انہوں نے یونانیوں کو نکال کر اپنی ایک آزاد دینی ریاست قائم کر لی جو سن ٦۷ ق م تک قائم رہی ۔ اس ریاست کے حدود پھیل کر رفتہ رفتہ اس پورے رقبے پر حاوی ہو گئے جو کبھی یہودیہ اور اسرائیل کی ریاستوں کے زیر نگین تھے ، بلکہ فِلسِتیہ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کے قبضے میں آگیا جو حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کے زمانے میں بھی مسخر نہ ہوا تھا ۔ انہی واقعات کی طرف قرآن مجید کی زیر تفسیر آیت اشارہ کرتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

4: تقریباً ستر سال تک بخت نصر کی غلامی میں رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اس طرح رحم فرمایا کہ ایران کے بادشاہ اخسویرس نے بابل پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا، اس موقع پر اسے ان یہودیوں کی حالت زار پر رحم آیا اور اس نے ان کو آزاد کرکے دوبارہ فلسطین میں بسادیا، اس طرح ان کو دوبارہ خوشحالی ملی، اور ایک مدت تک وہ بڑی تعداد میں وہاں آباد رہے، مگر جب خوشحالی ملنے پرانہوں نے دوبارہ بد اعمالیوں پر کمر باندھی تو وہ دوسرا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر اگلی آیت میں آرہا ہے۔